دنیا کی تاریخ تحریری طور پر حروف تہجی کے ایجاد ہو نے کے بعد تقریباً ساڑھے تین ہزار سال پہلے لکھی جانے لگی اور یوں ہماری تاریخ ساڑھے تین ہزار سال ہی تسلیم کی جاتی مگر جہاں تک انسانی تہذیب وتمدن کا تعلق ہے تو اِس کے لیے پہلے قدیم مذاہب اور ادیان کی جانب دیکھا جاتا ہے کیونکہ یہ اُس وقت بھی وجود رکھتے تھے جب بظاہر حروف تہجی وجود میں نہیں آئے تھے یا ایجاد نہیں ہوئے تھے۔
اِس اعتبار سے یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ یا تو یہ مذہبی کتابیں تحریری شکل میں موجود تھیں یا اگر اُس وقت حروف تہجی ایجا د نہیں ہو ئے تھے تو لوگ ان مذہبی احکامات کو یاد کر لیا کرتے تھے اور یہ یاد داشتیں نسل در نسل، پشت در پشت، سینہ بہ سینہ چلتی تھیں کیونکہ جہاں تک زبانوں کا تعلق ہے تو ہمارے پاکستان میں بولی جانے والی بلوچی ، پنجابی ، پشتو ، سندھی ، زبانیں بھی پانچ ہزار سال سے زیادہ قدیم ہیں۔ عربی ، سنسکرت اور عبرانی زبانوں کو زیادہ قدیم اور بہت سی زبانوں کی ماں تسلیم کیا جاتا ہے، یوں نسلوں قوموں کی زبانوں ان کی تہذیب وتمدن اور ثقافت کی بنیادوں پر ہی ان کے ملکوں کا تعین ہوتا رہا، اسی اعتبار سے دنیا میں ہزاروں برسوں سے ملکوں اور ان کے رقبے کے لحاظ سے سرحدوں کا سراغ ملتا ہے۔
انسانی تہذیب وتمدن کی قدامت کے ثبوت ہمیں آثار قدیمہ سے بھی ملتے ہیں جن پر انسان نے بہت تحقیق کی ہے اور یہ تحقیقا ت ابھی جاری ہیں۔ انسان کب اور کیسے نسلوں میں اور پھر قوموں میں تقسیم ہوا اس اعتبار سے بہت سے مفروضے اور کہیں کہیں نظریات بھی مل جاتے ہیں مگر یہ ابھی تک تحقیق کی بنیاد پر تسلیم شدہ نہیں ہیں۔ یہاں تک تو تسلیم کیا جاتا ہے کہ اس دنیا میں بہت سی انسانی نسلیں ایسے فنا ہو گئیں کہ اب اُن کا نام و نشان بھی نہیں ملتا، البتہ اِس وقت دنیا میںتین نسلیں ساڑھے سات ارب انسانی آبادی پر مشتمل ہیں اور ہر نسل کی آبادی ایک ارب سے کچھ زیادہ ہے۔
ان تین نسلوں میں سامی ،آریا اور منگول شامل ہیں۔ البتہ بیشتر ماہرین ایک قدیم نسل دراوڑ کو بھی مانتے ہیں جو مجموعی طور پر بکھری ہوئی اور شائد پوری دنیا میں دو ڈھائی کروڑ ہو اور ان میں سے بھی بیشتر کا ملاپ آریا ، منگول اور سامی نسلوں سے ہو چکا ہے ، یوں وہ دنیا جو 1492 میںکولمبس کی جانب سے امریکہ کے دریافت ہونے سے قبل کی تھی اس میں قبل از تاریخ بھی ممالک مو جود تھے اور ان کی قومیں اپنے تمدن، تہذیبوں ، اور ثقافتوں کے ساتھ موجود تھیں، ان ملکوں کے رقبے اپنی سرحدوں کی بنیادوں پر تسلیم کئے جاتے تھے، مگر یہ سرحدیں قوموں کی اجتماعی بنیاد وں پر تھیں انفرادی بنیادوں پر نہیں تھیں یعنی اکثر یت ایک قوم کی ہوتی تھی۔ ہاں یہ ضر ور تھا کہ اگر کوئی فاتح کسی ملک پر قبضہ کر لیتا تو یہ غیرفطری طور پر اس کا ملک کہلاتا تھا، البتہ کسی فرد کو کسی دوسرے ملک جانے کے لیے کسی ویزے یا پاسپورٹ کی ضرورت نہیں ہو تی تھی۔
دنیا میں سب سے پہلے باقاعدہ اور پیمائش کی بنیادوں پر کسی ملک کی سرحد کے تعین کا ثبوت دیوارِ چین کے طور پر ملتا ہے ، اس وقت اس کی لمبائی 21196 کلو میٹر بتائی جاتی ہے، یہ چین کی شمالی سرحد پر ہے، اِس کی اوسطا بلندی 6 سے 7 میٹر ہے اور بلند ترین مقامات پر یہ دیوار14 میٹر تک بلند ہو جاتی ہے۔ یہ دیوار بادشاہ کین شی ہونگ’’ Qin Shi Huang ‘‘ کے زمانے220 تا 207 قبل مسیح تعمیر ہونا شروع ہوئی اور منگ سلطنت 1368 ء تا 1644 تک مکمل ہوئی۔
روایت یہ ہے کہ دیوار مکمل ہونے پر تیس ہزار میل لمبی تھی، یہ دیوار شمال سے تاتاریوں اور منگولوں کے حملوں کے دفاع کے لیے بنوائی گئی تھی لیکن ایک وجہ بھی تھی کہ چین نے ریشم دریافت کیا تھا اور پھر یہاں نہایت خوبصورت ریشمی کپڑے تیار کئے جاتے تھے پوری دنیا کے بادشاہ اور رئیس ریشمی کپڑا پہننا اپنی شان سمجھتے تھے اور چین نے یہ دیوار اس لیے بھی تعمیر کی تھی کی وہ ریشم کے راز کو چین سے باہر نہیں جانے دینا چاہتے تھے ۔ چینیوں نے اس دیوار پر چوکیاں بھی قائم کی تھیں اور یہاں چین سے باہر جانے والے ہر شخص کی تلاشی لی جاتی تھی، لیکن آخر کار یورپ کے دو پادری اپنے عصا کو اندر سے کھوکھلا کر کے اس میں ریشم کے کیڑے بھر کر لے گئے ۔
یورپ میں ملکوں کی سرحدوں کا تعین رومیوں کے دور حکومت 309 ء سے 337ء کے درمیان ہوا، اوردنیا میں پہلی مرتبہ پاسپورٹ کا اجرا ہو، اتحریک احیائے علوم “Renaissance Period” کے دور میں یورپی ملکوں میں نئی حکومتوں کے قیام سے فرقہ وارانہ اور قومی تعصبا ت اور ان میں ثقافتی شناخت کے مسائل بھی ابھر ے نیدر لینڈ اور اسپین وغیرہ سے پونے دو لاکھ کے قریب پروٹسٹنٹ عیسائیوں کو نکال دیا گیا اسی طرح یہودیوں کا انخلا بھی ہوا۔ 17ویں صدی عیسوی میں یورپ میں صنعتی ترقی کی وجہ سے تبدیلیاں رونما ہوئیں۔
جان لاک جیسے مفکر ین اور پھر آدم سمتھ جیسے ماہرین معاشیات نے آزادانہ تجارت اور انفرادی قوت کے نظریات کو متعا رف کروایا، اس طرح ملکوں کی سرحدیں لیبر یعنی افرادی قوت کے لیے کھول دی گئیں اور مغربی ممالک میں تارکین وطن کی آمد ورفت روک ٹوک سے آزاد ہو گئی۔ 1815 ء میں نیپولین کی جنگوں کی وجہ سے بیروز گاری بڑھ گئی تو برطانیہ نے تارکین وطن کی مدد کی مگر 19 ویں صدی میں صورتحال یورپ میں آبادیوں کے اعتبار سے مختلف ہو نے لگی۔ 1847 میں ہنگری اور جرمن ریاستوں سے مہاجرین کی بڑی تعداد نے دیگر یورپی ممالک کو اپنی سرحدیں بند کرنے پر مجبور کردیا۔ پھرجنگِ عظیم اول کے فوراً بعد 1920 میں بھی لاکھوں مہاجرین پر پابندی عائد کردی گئی۔ اس کے بعد جنگ عظیم دوئم تک پوری دنیا میں نوآبادیاتی نظام رائج رہا اور جب جنگ عظیم دوئم ختم ہوئی اور1945 میں اقوام متحدہ کا ادارہ تشکیل پایا تو ایک جانب یورپ میں بھی ملکوں کی سرحدوں کاتعین ہونے لگا۔
دوسری جانب پوری دنیا سے مرحلہ وار نوآبادیاتی نظام کا خاتمہ شروع ہوا تو پہلی دہائی میں پاکستان، بھارت ، اسرائیل، انڈونیشیا، ملائیشیا جیسے ملکوں کی سرحدوں کا تعین کرکے اقوام متحدہ کے تحت بھی ان کو تسلیم کیا گیا، پاکستان 14 اگست 1947 کو وجود میں آیا یہ ملک 3 جون 1947 کے اعلان اور 18 جولائی 1947کے قانون آزادیِ ہند اور برِصغیر کی تقسیم کے بعد وجود میں آیا تھا اور پنجاب اور بنگال کی تقسیم ریڈکلف ایورڈ کے نتیجے میں عمل میں آئی جس میں مسلم اکثریت کی مشرقی پنجاب کی تحصیلی ںگورداسپور، فیروزپور، زیرہ پر ناانصافی کی گئی اور یہ بھارت کو دے دی گئیں۔
اس کے بعد پاکستان کی سرحدیں تشکیل پائیں اورکشمیر کا مسئلہ بھی ابھرا تو مہاراجہ ہری سنگھ کو نہرو نے دباؤ میں لاکر کشمیر کا الحاق بھارت سے کروا یا اور ریڈکلف ایوارڈ کے تحت مشرقی پنجاب میں جو مسلم اکثریت کے علاقے بھارت کو دئیے گئے تھے وہاں سے پٹھان کوٹ سے ایک راستہ کشمیر کے لیے دے دیا گیا اور اس کے بعد کشمیر پر1947-48 میں بھار ت اور پاکستان کے درمیان جنگ ہو ئی اور جو حصہ پاکستان نے حاصل کیا وہ آزاد کشمیر کہلاتا ہے اور جو بھارت کے پاس رہا وہ مقبوضہ کشمیر ہے اس جنگ پر بھارتی وزیر اعظم خود اقوام متحد ہ کی سکیو رٹی کونسل میں گئے اور کشمیر میں حقِ خود اختیاری کی بنیاد پر کشمیریوں کو کشمیر پاکستان یا بھارت میں شامل کرنے کے فیصلے پر اتفاق کرنے پرجنگ بندی لائن قائم کردی گئی اور یہی لائن 1965 کی جنگ کے بعد رہی اور معاہدہ تاشقند کے بعد دونوں ملکوں کی فوجیں 1965 کی جنگ سے پہلے والی پوزیشن پر واپس آگئیں پھر جب 1971 کی جنگ کے بعد شملہ معاہد ہوا تو یہی سیز فائر لائن ’’جنگ بندی لائن ‘‘ لائن آف کنٹرول ہو گئی۔
اس وقت بھارت کے ساتھ انٹرنیشنل بارڈر سندھ اور پنجاب پر 2100 کلو میٹر ہے اور ساتھ ہی سیالکورٹ اور بھارتی مقبوضہ کشمیر پر سرحد ورکنگ باؤنڈری202 کلو میٹر ہے اور مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے درمیان کنٹرول لائن کی لمبائی 861.560 کلو میٹر ہے۔ پاکستان اور بھارت کی سرحد مشرق میں واقع ہے جب کہ ورکنگ باونڈری اور لائن آف کنٹرول قدرے شمال میں ہے۔ شمال ہی میں کشمیر اور ہمارے گلگت کے ساتھ پاکستان کی سرحد چین سے ملتی ہے اس سرحد کی لمبائی تقریباً 600 کلو میٹر ہے۔ یہ سطح سمندر سے پاکستان کی بلند ترین سرحد ہے، یہاں لداخ اورکشمیر سے ملحقہ ایک علاقے پر چین نے 1959 کے نقشے میں تقریباً 5000 مربع کلومیٹر چین کا علاقہ ظاہر کیا اس پر صدر ایوب خان نے لیٹر لکھا مگر اس وقت چین نے کوئی جواب نہیں دیا کیونکہ اس وقت چین اور بھارت کے تعلقات کشیدہ ہو رہے تھے اور روس چین تعلقات میں دراڑیں آرہی تھیں۔
20 نومبر 1962 میں چین و بھارت میں اسی علا قے میں سرحد ی جنگ ہوئی جس میں چین کو فتح حاصل ہوئی۔ پاکستان اور چین کے درمیان لداخ اور کشمیر کے اس علاقے پر مذاکرات ہوئے اور پھر چینی وزیر خارجہ چن ای ChenYi اور پاکستانی وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے 2 مار چ 1963 میں ایک معاہدے پر دستخط کئے جس کے تحت شما لی کشمیر اور لداخ میں5180 مربع کلو میٹر کا علاقہ استائی چین پاکستان نے چین کے حوالے کردیا۔ اس کی دو اہم وجوہات تھیں ایک یہ کہ اس علاقے کو متنازعہ قرار دیا گیا تھا دوسری اہم وجہ یہ تھی کہ چین اور بھارت جو 1959 تک ایک دوسرے کے قریبی دوست تھے ایک دوسرے کے دشمن ہوگئے اور یہ اسٹرٹیجی کے لحاظ سے پاکستان کے حق میں تھا کہ یہاں اس علاقے سے چین بھارت پر کاری وار کرنے کی زیادہ بہتر پوزیشن میں آگیا، چونکہ اب چین پاکستان کے درمیان کو ئی تنازعہ نہیں رہا تھا اس لئے دونوں ملکوں کے تعلقات مضبوط اور اسٹریٹجک بنیادوں پر آگے بڑھنے لگے۔
یہی وہ دور ہے جب دونوں ملکوں کی تجارت کو فرو غ دینے کے لئے شاہراہِ قراقرم تعمیر کی گئی جو دنیا کی بلند ترین شا ہراہوں میں سے ایک اہم شاہراہ ہے۔ شمال میں افغانستان سے سرحد خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے ساتھ ملنے والی سرحد کی لمبائی 2611.560 کلومیٹر ہے اس سرحد پر کچھ پر افغانستان کے اعتراضات ہیںکہ 1893 میں برطانوی سیکرٹری ڈیورنڈ نے یہ لائن بنائی تھی جو اُسی کے نام سے منسوب ہوئی، خیبر پختونخوا پر یہ سرحد دنیا کے بلند پہاڑوں پر ہے۔ مغرب میں پاکستان کی سرحد ایران سے ملتی ہے جو 909 کلو میٹر اور بعض جگہ 959 کلومیٹر لکھی گئی ہے اِس سرحد کا تعین تاریخی اعتبار سے انگریزوں کے عہد سے شروع ہوا۔ 1871ء میں انگریز اے جی جی سر رابرٹ سنڈ ے من نے خان آف قلات کی مشاورت سے ایران سے سرحد کے تعین کی بات چیت شروع کی، بعد میں1905 میں ایران اور برطانو ی حکام نے خان آف قلات سے مشاورت کے بعد یہ سرحد طے کی اور پھر یہی سرحد پاکستان کے قیام کے بعد بھی طے پائی، البتہ ایوب خان کے آتے ہی سرحد 1958-59میں ایک مرتبہ پھر تفتان پر آگئی۔
پہلے یہ ایرانی ٹاؤن میر جاوا پر تھی اور اُس وقت میر جاوا پاکستانی علاقہ کہلاتا تھا اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ انگریزوں نے یہاں کوئٹہ، سپیذنڈ، مستونگ ،نوشکی، دالبندین، چاغی، تفتان سے ہوتے ہوئے آج کے ایرانیسرحدی علاقے میر جاوا ٹاون اور اس سے آگے ایرانی بلوچستان و سیستان کے پہلے شہر زاہدان تک ریلوے لائن بچھائی تھی اور زاہدان ریلو ے اسٹیشن تک ریلوے کا تمام عملہ 1978 تک پاکستان ریلوے کوئٹہ ڈویژن کا ہوا کرتا تھا۔ اب ریلوے پاکستان کی سرحد تفتان تک ہے اور اسی سرحد پر پاکستان کا آخری ٹاون ہے ۔ اسی طرح پاکستان کی سرحد ڈسٹرکٹ گوادر کے اعتبار سے ستمبر 1958 تک سلطنت اومان سے ملتی تھی کیوںکہ گوادر کا علاقہ سلطنتِ اومان مسقط کے پاس تھا مگر یہ ساحلی علاقہ وزیراعظم فیروز خان نون اور صدر اسکندر مرزا کے اقتدار کے آخری دنوں میں 33 ملین ڈالر کے عوض خرید کر پاکستان میں شامل کر لیا گیا ، یوں جنوب میں اب پاکستان کی سرحد خشکی سے کسی ملک سے نہیں ملتی۔
افغانستان کا اعتراض ڈیورنڈ لائن کے لحاظ سے ہے ، پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے اعتبار سے کنٹرول لائن عالمی سطح پر جموں وکشمیر کے متنازعہ علاقے کو ظاہر کرتی ہے۔ تقسیم سے قبل کشمیر کو باہر کی دنیا سے ملانے والے چھ راستے آج کے پاکستانی علاقے ہی سے گزرتے تھے مگر اب بھارتی مقبوضہ کشمیر کو بھارت نے پٹھان کوٹ کے قریب سے راستہ فراہم کیا ہے اسی طرح کھوکھرا پار سندھ اور پنجاب امرتسر کے راستوں سے ٹرنیوں ریلو ے ٹریک اور بذریعہ سڑک آج بھی راستہ موجود ہے اور امرتسر لاہور کا یہ راستہ محدود پیمانے پر آمد ورفت کے لیے اب بھی استعما ل ہوتا ہے لیکن آزادی کے بعد سے خشکی کے لحاظ سے سب سے زیادہ آمدورفت پاکستان ایران سرحد سے رہی ہے۔
اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی تھی کہ آزادی کے بعد ایران کا پاکستان وہ ہمسایہ ملک ہے جس سے پاکستان کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ یوں ابتدا سے ان دونوں کی دوستی اور تعلقات گہرے اور مضبوط ہوئے۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد ایران اور پاکستان امریکی اتحاد کے قریب رہے اور سیٹو، سینٹو کے معاہد وں میں بھی شامل رہے۔ پاکستان، ایران، ترکی کے درمیان علاقائی ترقی برائے تعاون RCD معاہدہ ہوا اور اسی بنیاد پر پاکستان ایران اور ترکی تک جانے والی شاہراہ اب بھی آر سی ڈی شاہراہ کہلاتی ہے، اب یہ تنظیم ایکو’’اکنا مک کوآپریشن آرگنائزیشن‘‘ کہلاتی ہے اور اس میں اب دیگر علاقائی ممالک بھی شامل ہیں، پاک ایران سرحد سے ہی غیرملکیوں کی اکثریت براستہ سڑک یورپ اور مشرق وسطیٰ جاتی ہے، اسی راستے سے ایران اور ترکی سے تجارتی سامان پاکستان آتااور جاتا ہے۔
افغانستان کو پاکستان نے کراچی کی بندرگاہ سے راہداری دے رکھی ہے اور یہاں سے افغان تجارت پوری دنیا سے ہو تی ہے۔ پاکستان کی سرحدیں قیام پاکستان کے بعد اتنی حساس نہیں تھیں یہاں تک کہ آزادی کے بعد اگرچہ بھارت سے جنگ بھی ہوئی لیکن مشرقی پاکستان میں جہا ں مغربی بھارتی بنگال او ر مشرقی پاکستان یا مشرقی بنگال دونوں میں سرحدوں پر سختیاں نہیں تھیں۔ مشرقی پاکستان میں ہندو بنگالیوں کا تناسب اٹھارہ فیصد تھا اور یوں یہاں پر بھارتی اور پاکستانی علاقوں میں آنے جانے کے لیے اگرچہ پاسپورٹ کی پابندی تھی مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا تھا۔
اسی طرح مغربی پاکستان میں اگر چہ سرحدوں پر1951 کے سٹیزن ایکٹ کے نفاذ اور مہاجرین کی آمد پر پابندی کی قدرے سختی تھی لیکن اُس وقت جب بھارت میں گندم کی قلت تھی تو پاکستانی علاقوں سے گندم کی اسمگلنگ ہوتی تھی اور بھارت سے گائے اور بیل ہانک کر یہاں بھجوائے جائے جاتے تھے، افغانستان اور پاکستان کی سرحد کے دونوں اطراف میں پشتون کروڑوں کی تعداد میں آباد ہیں اور 1980 تک جب تک سابق سوویت یونین کی فوجیں افغانستان میں داخل نہیں ہوئی تھیں اُس وقت تک خانہ بدوشوں کے علاوہ عام لوگوں کی آمدورفت میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں تھی، مگر 1980 کے بعد سے رفتہ رفتہ حالات خراب ہوتے گئے اور یہ حالات نہ صرف مقامی طور پر خراب ہوئے بلکہ عالمی سطح پر بھی مسائل پیدا ہونے لگے ۔
جس کی وجہ سے پاکستان، افغانستان، بھارت، ایران، چین اور دیگر ممالک سرحدوں پر خاردار باڑ یا دیواریں قائم کر چکے ہیں اور جہاں نہیں ہیں وہا ں ہو رہی ہیں، یہاں اس کی ایک بڑی وجہ پوری دنیا میں لڑی جانے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے اور اس جنگ کے دوران ابہام کی صورتحال پوری دنیا کی طرح ہمارے علاقے میں بھی شدت اختیار کرگئی ہے۔ لیکن یہاں معاملات آج کے زمانے میںکلائمیٹ چینج، ماحولیا تی آلودگی، پانی کے وسائل کے حوالے سے بھی ہیں،کیونکہ باوجود دیواروں اور باڑ لگانے کے مثلًا اگر بھارت یا پاکستان اپنی 202 کلو میٹر ورکنگ باونڈری اور 2100 کلو میٹر انٹر نیشنل بارڈر پر فی کلو میٹر تین، تین ٹیوب ویل نصب کردیتا ہے یا ایسی ہی صورتحال افغان یا ایران سرحد پر ہوتی ہے تو ایسے مسئلے کو کیسے روکا جا سکتا ہے۔ فضائی آلودگی جو دنیا بھر کے بڑے صنعتی ممالک کی وجہ سے آج ایک اہم مسئلہ ہے اور پاکستان دنیا میں فضائی آلودگی سے متاثر ہونے والے پہلے ممالک میں شامل ہے اور خود یہ فضائی آلودگی پیدا کرنے والے ملکو ں کی فہرست میں کہیں پیچھے ہے۔
پاکستان فضائی آلود گی کے اعتبار سے بھارت ،ایران اور افغانستان سے بھی متاثر ہو رہا ہے اگر چہ اس کا ہمسایہ ملک چین دنیا کی ایک بڑی صنعتی قوت ہے مگر ہماری سرحد کے درمیان کوہ ہمالہ کے پہاڑی سلسلے حائل ہیں اور ان دونوں ملکوں کے درمیان پانی اور ہوا کے مستقل روٹ ، راستے یا گذرگاہیں نہیں ہیں لیکن بھارت سے نہ صرف ہمارے بڑے دریا آتے ہیں بلکہ مون سو ن کی ہوائیں بھی بارشوں کے ساتھ بھارت کے خلیج بنگال سے آتی ہیں پھر موسم سرما میں اب جو فوگ اور سموگ پنجاب اور سندھ کے لیے ایک بہت بڑا ماحولیاتی مسئلہ بن گیا ہے یہ بھی دہلی سے لے کر ہماری سرحد کے اندر تک اثر کر رہا ہے۔ بھارت، چین اور امریکہ معدنی کو ئلے سے بجلی پیدا کرنے والے دنیا کے بڑ ے ملک ہیں اور بھارت کے ہمسائے اس حوالے سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ سردیوں کے موسم میں بھارتی مشرقی پنجاب میں فصلوں کی کٹائی کے بعد بقیہ گھاس پھوس کو ہزاروں کلومیٹر رقبوں پر آگ لگا دی جاتی ہے اور اس سے لاہور سیالکوٹ سمیت ہمارے پنجاب کے کئی شہر فوگ اور سموگ میں شدت آنے کے باعث بری طرح متا ثر ہوتے ہیں۔ ایران کے دشت لوط سے اٹھنے والی مٹیالی ہواؤں سے اب گذشتہ پندرہ بیس برسوں سے پاکستانی بلوچستان اگست اور ستمبر کے مہینوں میں بہت متاثر ہو رہا ہے۔
ایرانی علاقے دشت لوط میں جولائی اگست میں درجہ حرارت 60 درجے سینٹی گریڈ تک چلا جاتا ہے اُس وقت یہاں سے زوردار بگولے اٹھتے ہیں اور یہاں دشتَ لوط کی نہایت باریک پوڈر نما مٹی فضا میں بیس سے پچیس ہزار فٹ تک بلند ہو جاتی ہے جو پھر دھیمی ہوا سے ایک دو دن کے سفر کے بعد پاکستانی علاقے میں داخل ہو جاتی ہے۔ پندہ بیس برس قبل تک یہ پاک ایران سرحد کے قریب تک ہی پھیل کر دھیمے انداز میں زمین کی طرف آتی تھی کیو نکہ یہ علاقے کم آباد یا غیر آباد ہیں اس لیے اس جانب نہ تو، توجہ ہوتی تھی اور نہ ہی اس سے کو ئی قابل ِ ذکر نقصان ہوتا تھا۔ اب یہ اکثر کوئٹہ اور سبی بلکہ جیکب آباد تک آجاتی ہے جس کی وجہ سے کوئٹہ کی فلائٹیں بھی معطل ہوجاتی ہیں۔
اس کے سب سے زیادہ مضر اثرات فصلوں خصوصا پھلوں کے باغات پر مرتب ہو ئے ہیں کیو نکہ یہ باریک مٹی بہت دھمیے انداز میں تین تین چار چار دن متواتر بلندی سے نیچے گرتی ہے اور درختوں کے پتوں پر جم جاتی اس کے اثرات اس لیے بھی زیادہ مضر ہوتے جا رہے ہیں کہ بلو چستان کئی برسوں سے مسلسل شدید اور جزوی خشک سالی کا شکار ہوتا چلا آرہا ہے، ورنہ برسوں پہلے یہ معمول تھا کہ وادی کوئٹہ سمیت دیگر علاقوں میں موسم گرما میں ہفتہ یا آٹھ دس روز بعد بارش ہو جاتی تھی اس سال یعنی 2018 ء میں فروری سے اکتوبر تک بارش نہیں ہوئی ہے اور یہ پیش گوئی ہے کہ بارش دسمبر تک نہیں ہو گی، سابق صوبائی حکومت نے روسی ماہرین سے یہاں مصنوعی بارش برسانے کی تکنیک کے حصول کے لیے بھی بات چیت کی تھی کیونکہ 1997 تا 2002-03 بلوچستان تاریخ کی بدترین سات سالہ خشک سالی کا شکار رہا تھا اور اب پھر ماہر ین کہہ رہے ہیں کہ صوبہ خشک سالی کا شکار ہو رہا ہے۔
بلوچستان ملک کے کل رقبے کا تقریباً 44% ہے اور ملک کے کل ایک ہزار کلو میٹر ساحل میں سے 777 کلومیٹر ساحل بلوچستان کے پاس ہے، یہا ں پاکستان کے قدرتی ماحول اور موسموں پر اس کے اثرات بہت نمایاں ہیں یہاں دو ہوائیں بہت اہم ہیں اور یہ موسم سرما میں زیاد ہ اہم ہو جاتی ہیں، ایک ہوا ملک کے جنوب میں خلیج فارس سے چلتی ہے جو ملک کے بیشتر حصوں میں موسم سر ما کی بارشوں اور برفباری کی وجہ بنتی ہے اس کو گرد باد بھی کہتے ہیں کہا یہ جاتا ہے کہ جس طرح مون سون کی ہواؤں اور بارشوں، اور پھر اس کی وجہ سے آنے والے سیلابوں کے زمانے میں سمندر میں جہاں مون سون کی بارشوں کا پانی گر تا ہے تو وہاں سمندر سے مچھلیاں الٹے رخ دریاؤں کے پانیوں پر چڑھ کر سینکڑوں میل مختلف سمت میں سفر کرتی ہیں اور پھر موسم کے بدلنے پر ان مچھلیوں کے بچے واپس سمندروں میں آتے ہیں، اسی طرح سردیوں کے آغاز پر ہجرت کر جانے والے پرندے ہجرت کر جاتے ہیں اور موسم بہار میں واپس آتے ہیں۔
ہمارے علاقے میں یہ پرندے شمال میں افغانستان، سنٹرل ایشیا کے ممالک کے پا ر سائبیریا سے موسم سرما کے آغاز پر رخصت ہو جاتے اور معتدل اور کم سرد علاقوں سے موسمِ بہار پر اپنے بچوں کے ساتھ واپس ہو تے ہیں، یوں اسی سائبیریا سے موسم سرما میں جنوب میں بحیرہ عرب پر ہمارے ساحل تک سے بھی ایک ماحولیاتی تعلق ہے کہ جب خلیج فارس سے موسم سرما کی بارشوں کے بادل وقفے وقفے سے آتے ہیں تو ان کا مزاج مون سون کی بارشوں کے مقابلے میں بہت دھیما اور مستقل ہوتا ہے یہ بارشیں بلوچستان جیسے بارانی علاقوں گرم مقامات پر صرف بارش کی صورت ہوتی ہیں تو سرد علاقوں میں جو مقامات سطح سمندر سے ساڑھے تین ہزار فٹ سے زیادہ بلند ہیں وہاں برفباری ہو سکتی یا ہوتی ہے۔ بلو چستان میں یہ بلندی دس ہزار فٹ تک ہے اور یہاں ماضی قریب میں پانی کے ذخائر زیرِ زمین کہیں زیادہ تھے جو اب کم ہوگئے ہیں۔ بلوچستان اور ملک کے دیگر بارانی علاقوں کے علاوہ ایران افغانستان اور دیگر علاقائی ملکوں میں بھی اسی موسم سرما کے بارشوں کے نظام کے تحت بارشیں اور برفباری بھی ہوتی ہے۔
اس بارش کے قطرے باریک ہوتے ہیں اور متواتراور اکثر دو دو تین تین دن بارش اور برف باری ہوتی ہے اور پھر اس کے بعد سائبیریا سے ایک سرد ترین ہوا چلتی ہے جو وسطی ایشیا اور افغانستان میں سائبیر یا کی ہوا کہلاتی ہے یہ جب بلوچستان کے دارالحکومت کو ئٹہ آتی ہے تو قندھاری ہوا کہلاتی ہے اور کراچی سمیت دیگر علاقو ں میں کوئٹہ کی ہوا کہلاتی ہے،اس ہوا کے چلنے سے ایک تو یہ ہوتا ہے خلیج فارس سے آنے والے بادل اُڑ جاتے ہیں اور آسمان صاف ہو جاتا ہے مگر جو بارش کا پانی اور خصوصاً برف کی صورت میں ہوتا ہے زمین اور پہاڑوں پر ہوتا ہے وہ شدید سردی سے جم جاتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ نیچے زمین میں جذب ہوتا رہتا ہے۔ یوں موسمِ سرما میں بارشوں اور سائبیریا کی ہوا کا یہ سلسلہ نومبر سے مارچ تک وقفے وقفے سے جاری رہتا ہے مگر اب موسمیاتی تبدیلوں ’’کلائمیٹ چینج ‘‘ کی وجہ سے علاقے کا یہ ہزاروں برس کا قدیم نظام بری طرح متاثر ہوا ہے ایک جانب تو سرما کی بارشوں کے اعتبار سے گذشتہ چالیس سا ل کے مقابلے میں ان میں 50% کمی واقع ہوئی ہے تو ساتھ ہی سردی میں کمی اور گرمی میں اضافہ ہوا اور اب درجہ حرارت میں سالانہ اضافہ ہو رہا ہے۔
اب ان حالات کی وجہ سے گذشتہ صرف 40 برسوں میں اس نظام کے تحت جاری رہنے والے صدیوں پرانے چشمے یا تو خشک ہو گئے ہیں یا ان میں پانی کی مقدار کم ہو گئی ہے۔ بہت سی بارانی اور نیم بارانی ندیوںاور دریاؤںکی صورتحال یہی ہے بلکہ بعض دریاؤں کی صورتحال یہ ہے کہ وہ گندے پانی کے نالوں میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ سرحدوں کے حوالے سے بھی یہ مسائل اہم ہیں۔ اس وقت ایرانی اور افغا ن سرحدی علاقوں میں بہت سی بارانی ندیاں اور دریا ہیں جو ان سرحدوں کے آرپار ہوتے سرحد سے آتے اور جاتے ہیں اور اب جب کہ آبادیوں میںتیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور ساتھ پانی کے تنازعات بھی ابھر رہے ہیں اس لیے ہمیں اب اِن تمام مسائل کو مدِنظر رکھ کر بھی سرحدوں اور ان کے پار کے معاملات کے لیے منصوبہ بندی کرنی ہے، اور اس کے لیے اپنے ہمسایہ ممالک اور علاقائی تنظیموں یعنی سارک اور ایکو کے پلیٹ فارموں سے سرحد وں کے حوالے سے ان مسائل کو حل بھی کرنا ہے اور مستقل بنیادوں پر روکنا بھی ہے۔
The post پاکستان کی سرحدیں اور اِن پر جنم لیتے مسائل appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/2riLeIB