کورونا وائرس جب کسی شخص پر حملہ آور ہوتا ہے تو عام نزلہ، زکام، کھانسی اور بخار جیسی علامات سامنے آتی ہیں۔عمومی علامات کے حامل مریضوں کی شرح 80فیصد ہوتی ہے مگر بعض لوگوںمیں شدید عوارض کا سبب بنتا ہے، یہ عموماًَ20 فیصد لوگ ہوتے ہیں۔
یہ شدید عارضہ ’’ایکیوٹ ریسپائیریٹری ڈسٹریس سنڈروم‘‘ (اے۔آر۔ڈی۔ایس) ہے، کیونکہ اس کی علامات ان مریضوں سے ملتی جلتی ہیں جنھیں نمونیہ لاحق ہوتا ہے اور جن کے پھیپھڑوں میں پانی پڑجاتا ہے اس لیے تشخیص کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ ان کے درمیان جلدی تشخیص کے لیے بہتر ہے کہ ’بلڈ کلچر ٹیسٹ‘ کرایا جائے۔ چنانچہ اگر نمونیہ ہے تو بیکٹیریا دریافت ہو گا، اگر پھیپھڑے میں پانی ہے تو دل کی بیماری ہوگی اور ’تھوک کا کلچر‘ کرانے پر ’کلیبزیلا‘ پھپھوندی تھوک میںپائی جائے گی۔
ایکیوٹ ریسپائیریٹری ڈسٹریس سنڈروم (اے۔آر۔ڈی۔ایس) کیا ہے؟
یہ دراصل سانس کی شدید تنگی کا نام ہے، جس میں تیز بخار کے علاوہ جسم کے پٹھوں اور عضلات میں دُکھن، سانس کی رفتار میں تیزی جو آکسیجن کو زیادہ جذب کر نے کی کوشش ہوتی ہے، بلڈ پریشر میں کمی، خشک کھانسی، ناخنوں اور جِلد کی بے رنگینی، سر درد اور چکر بھی شامل ہیں۔
کورونا اے۔آر۔ڈی۔ایس کا باعث کیسے بنتا ہ؟
کورونا وائرس کا اصل حملہ پھیپھڑوں پر ہوتا ہے۔ جس سے پھیپھڑے کے لا تعداد خلیات کر نقصان پہنچتا ہے۔ مُردہ خلیات پھیپھڑے میں موجود بلغم کے ساتھ آمیزہ بنا کر اسے نہایت گاڑھا کر دیتے ہیں۔ لہذا چھوٹی چھوٹی ہوائی نالیوں میں اس بلغم کے پھنسنے سے سانس میں نہ صرف دشواری ہوتی ہے بلکہ یہ پھٹ بھی جاتی ہیں۔ بوڑھوں اورچھوٹے بچوں کے جسم کیونکہ نازک ہوتے ہیں اس لیے انہیں یہ وائرس جلد ہی شدید نقصانات اور تکالیف میں مبتلا کر دیتا ہے۔ رقیق سے گاڑھے مواد کی جانب سفر کرنا جسمانی رطوبات کا خاصہ ہے، اسی وجہ سے پھیپھڑے میں تکلیف دہ مواد بڑھتے رہتے ہیں جبکہ پیاس کی شدت برقرار رہتی ہے۔ اور شدید کھانسی بھی ساتھ ہی آتی رہتی ہے اور پیٹ میں درد کے باعث مریض بے چین رہتا ہے۔
جب تک اے۔آر ۔ڈی۔ایس کی نوبت نہ پہنچے، کورونا کے مبتلا مریض کے صحت مند ہونے کی امید رہتی ہے۔ اس کیفیت میں پھیپھڑے کے اندرونی جھلی میں شدید ورم ہو جاتا ہے۔یوں پھیپھڑے آکسیجن کو جذب کرتے سے قاصر ہوجاتے ہیں۔ نتیجے میں جسم نیلے رنگ کا اور خون جمنے لگتا ہے۔ نیز ایسے مریض کے ہونٹ اور رخسار نیلے پڑ جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ اے۔آر۔ڈی۔ایس کا باعث لازمی نہیںکہ صرف کورونا ہی ہو، بلکہ دل کی دواء کا زیادہ استعمال، موٹاپا اور شراب کی کثرت سے بھی یہ کیفیت لاحق ہو جاتی ہے۔ نیز کورونا کا وہ اسٹرین جو شرحِ اموات میں اضافے کا باعث ہے وہ یہی اے۔آر۔ڈی۔ایس کے ذریعے جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ گاڑھا خون دل کی چھوٹی شریانوں میں جم جاتا ہے تو دل کا دایاں حصہ فیل ہو جاتا ہے۔ اسی لئے ایسی کیفیت میں خون کے قوام کو رقیق کرنے والی ادویہ دی جاتی ہے۔ غرضیکہ اے۔آر۔ڈی۔ایس ایک ایسی کیفیت ہے کہ کورونا کا مریض اکثر دل کے فیل ہونے سے فوت ہوتے ہیں۔ یاد رہے کہ جو اسباب پھیپھڑوں کو نقصان پہنچاتے ہیں بالواسطہ وہی دل کو لاغر کرتے ہیں۔
کورونا وائرس کی مدت ِ حصانت (انکیوبیشن پریڈ): عموماً اس جراثیم کی مدتِ حصانت 2 تا 14 دن بتائی گئی ہے مگر بعض علاقوں میں 27 دن بھی دیکھی گئی ہے۔ ان ایام تک مریض کو اس وائرس کی خبر نہیں ہوتی، اس کے بعد عوارض لاحق ہوتے ہیں۔ پاکستان میں عموماً پانچ دن مدتِ حصانت دیکھی گئی ہے۔
کورونا وائرس سے زیادہ تر کون لوگ متاثر ہوتے ہیں؟
کورونا سے زیادہ ترچھوٹے بچے، بوڑھے لوگ اور وہ لوگ جن کے دل اور پھیپھڑے لاغر ہوتے ہیں کیونکہ ان کی قوتِ مدافعت کمزورہوتی ہے متاثرہوتے ہیں ۔60 سال سے کم عمر والے اشخاص میں اس وائرس کے ہلکے عوارض کو برداشت کرتے کی قوت دیکھی گئی ہے۔
کورونا کی عمومی علامات
1)۔ بخار 100.4 ڈگری فارن ہائٹ۔
2)۔ خشک کھانسی۔
3)۔ سانس میں دشواری۔
4)۔ نزلہ زکام جس میں سینہ جکڑا ہوتا ہے۔
شدید علامات
1)۔ مسلسل کھانسی۔
2)۔ ہاتھ پاؤں میں دُکھن اور اینٹھن۔
3)۔ مسلسل تیز بخار۔102.6ڈگری فارن ہائٹ سے فکرمند ہوجانا چاہئیے۔
4)۔ اے۔آر۔ڈی۔ایس۔
اسباب
1)۔ پراگندہ ماحول۔
2)۔ زیادہ نزلہ و زکام رہنا۔
3)۔ کسی بیمار فرد کی چھینک یا کھانسی کا قطرہ صحت مند فرد کے آنکھ، ناک یا منہ میں جانا۔
4)۔ ایسا علاقہ جہاں گاڑیوں کا زیادہ دھواں ہے۔
5)۔ ’امیونو سپریزینٹ‘ ادویہ کا استعمال کیونکہ یہ قوتِ مدافعت کو کمزور کرتی ہیں۔
احتیاط
1)۔ ناک اور منہ پر ’این95‘ ماسک کا استعمال کریں یہ خاص ماسک ہی وائرس سے بچا سکتا ہے کیونکہ کورونا وائرس کا سائز 0.5 سے .02 مائیکرون ہوتا ہے، عام سرجیکل ماسک کا استعمال اس وائرس سے تحفظ کے لئے نا کارہ ہیں۔
2)۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق اس سیینی ٹائزر سے ہاتھ دھوئیں جس میں یہ اجزاء شامل ہوں: ایتھانول 96 فیصد، ہائیڈروجن پر آکسائیڈ 3 فیصد، گلائی سیرول 98فیصد اور ڈسٹل واٹر۔
3)۔ لیٹیکس داستانے پہنیں۔
اے ۔آر۔ڈی۔ایس کا علاج
کیونکہ یہ پھیپھڑے کا شدید ورم اس لئے اس کے علاج میں کارٹیکو اسٹیرائیڈ کے علاوہ درج ذیل ادویہ دی جاتی ہیں:
بول آور ادویہ ، مصنوعی آکسیجن دینا اور وینٹیلیٹرز کا استعمال۔ ان ادویہ کے علاوہ خاص مرض کی دواء کا بھی استعمال کرایا جاتا ہے۔ کورونا میں مبتلا مریضوں کو اکثر ’ کلورو کوئین بمعہ ایزی تھرو مائیسین‘ سے فائدہ دیکھا گیا ہے۔
The post کورونا وائرس کب خطرناک ثابت ہوتا ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو » صحت https://ift.tt/3dMUo7r