کائنات کی یہ خوبصورتی ہے کہ خالق نے اصول با الضد کے ساتھ ہر چیز کو متضاد عنصر کے ساتھ جوڑ کرکائنات کی رونقوں اور رنگینیوں کو چار چاند لگائے۔ دن کو رات، صبح کو شام، دھوپ کو چھاؤں، گرمی کو سردی، غم کو خوشی،درد کو درماں صحت کو بیماری،مرض کو دوا،جوانی کو بوڑھاپے کامیابی کو ناکامی ،دکھ کو سکھ، تکلیف کو راحت ،محبت کو نفرت، قرب کو دوری، دوستی کو دشمنی الغرض ایک بہت ہی شاندار گلدستہ مزین کیا ہے اور اس کی خوبصورتی میں مزید اضافہ یوں کیا کہ ہر کسی قسم کی حالت،کیفیت اور احساس کو تبدیلی سے مرصع فرمادیا۔
کائنات کی کم وبیش 18000 مخلوقات میں سے انسانی وجود کی تخلیق بدرجہ احسن تقویم پر کی گئی اور بدن انسانی کا وجود چار عناصر آگ،مٹی،ہوا اور پانی کے مرکب سے تشکیل دیا گیا ہے۔ یہی عناصر مزید چار اخلاط صفراء،سودا،بلغم اور خون کی افزائش کرتے ہوئے انسانی مزج گرم،خشک، تر اور سرد کی تعمیر کا باعث بنتے ہیں۔جسد انسانی بدن اور روح کا مرکب ہے ،بدن گوشت پوست، عضلات، اعصاب، ہڈیوں، وریدوں شریانوں، اعضاء اور خون کی آمیزش سے تیارشدہ کائنات کا سب سے حسین شاہکار ہے جبکہ روح کی غیر مرئی طاقت اس کی صلاحیتوں،خوبیوں، خامیوں، افعال و اعمال اور کردار کا رخ متعین کرتی ہے۔
طب قدیم کے ماہرین کے مطابق انسانی صحت کا دارو مدار اخلاط کے توازن اور مزاج کی عمدگی پر ہوتا ہے۔جونہی کوئی خلط افراط وتفریط کا شکار ہوتا ہے تو فوری بدن انسانی کا مزاج بگڑ کر مرض کا اظہار کرنے لگتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ طب قدیم کی معالجین مرض کی ظاہری علامات کے ساتھ ساتھ مریض کے مزاج کے مطابق دوا اور غذا تجویز کرتے ہیں۔ایک ماہر طبیب بیماری کی تشخیص کرتے ہوئے اس کے بنیادی اسباب ختم کرنے کے لیے دوا اورغذا تجویز کرتا ہے،یوں مرض کا خاتمہ ہوکر مریض کو مکمل صحت یابی میسر آتی ہے۔ مزاج کے بگاڑ کی صورت میں گرمی،سردی، تری اور خشکی کے توازن میں کمی یا زیادتی واقع ہوجانے سے مختلف امراض رونما ہو کر ایک صحت مند انسان کو پریشان کرنے لگتے ہیں۔
موجودہ دور کے خطرناک امراض کولیسٹرول صفراء ،ذیابیطس بلغم ،یورک ایسیڈ اور کینسر وغیرہ خون کی ہیت،کیفیت اور حالت میں تبدیلی پیدا ہونے سے سامنے آتے ہیں۔مزاج میں جس قدر بگاڑ بڑھتا جاتا ہے امراض کی نوعیت اور شدت میں اضافہ ہوتا چلاجاتا ہے۔ مثلا ََکولیسٹرول کی زیادتی سے بلڈ پریشر،امراض قلب ،برین ہیمریج اور اعصابی بیماریاں مسلط ہوکر انسانی زندگی کا خاتمہ کردیتی ہیں۔ اسی طرح بلغم کی زیادتی سے ذیابیطس، فالج،لقوہ اور عضلاتی امراض حملہ آور ہوکر انسانی وجود کو مفلوج کر چھوڑتے ہیں۔یورک ایسڈ کی بڑھی ہوئی مقدار جوڑوں کے درد، امراض گردہ اوراعصابی دردوں کا سبب بن کر زندگی کی حرکات وسکنات میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔
جدید میڈیکل سائنس مبینہ طور پر ان امراض کا علاج نہیں کرتی بلکہ ان کے اثرات کو وقتی طور پر ختم کرتے ہوئے اعضاء کے افعال و اعمال کو ریگولیٹ کرنے میں معاونت کرتی ہے۔ جس کی مثال کولیسٹرول، یورک ایسڈ اور ذیابیطس جیسے موذی امراض میں خون کی گردش اور روانی کو متوازن رکھنے کے لیے بلڈ وارمر (Blood wormer) اور خون پتلا کرنے و الی ادویات تواتر سے استعمال کروائی جاتی ہیں۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ جدید میڈیکل سائنس کے زیر علاج کوئی مریض بھی مستعمل ادویات چھوڑ کر اپنی صحت مندی کے آثار قائم نہیں رکھ سکتا۔اس کے بر عکس طب قدیم کے فلسفہ کے تحت دوا اور غذا استعمال کرنے والے مریض مرض کی علامات کے ختم ہوتے ہی دوائیں چھوڑ کر بھی صحت مند زندگی سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں اور آج بھی ہزاروں مریض ادویات چھوڑ کر صحت مند زندگی سے حظ اٹھاتے دیکھے جا سکتے ہیں۔
اس قدر طویل تمہید باندھنے کا مقصد دنیا بھر کی تمام تر سائنسی ارتقائی منازل کے حصول کے باوجود ’’کورونا وائرس‘‘ کے آگے جدید میڈیکل سائنس کی بے بسی اور لاچاری کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میںنیچرو پیتھی( طب قدیم )کی ایک روشن مثال پیش کرنا ہے۔برصغیر پاک وہند کی تاریخ میں مسیح الملک کے لقب سے معروف زندہ جاوید شخصیت حکیم محمد اجمل خان ایک ایسے طبیب گزرے ہیں جنہوں 1918 ء میں وبائی انفلوئنزا کو فطری طرز علاج اور قدرتی ادویات سے مات دی تھی۔
حکیم اجمل خان مرحوم نے انفلوئنزا کے علاج سے جڑے اپنے طبی تجربات کو اپنی معروف اور مستند طبی تصنیف ’’حاذق‘‘میں وبائی نزلہ وزکام یا انفلوئنزا کے عنوان سے ایک پورا مضمون باندھا ہے،اس میں موجودہ مہلک مرض ’’کورونا وائرس‘‘کے علاج کے تناظر میںحرف بہ حرف اس سے خاطر خواہ مدد لی جا سکتی ہے۔کورونا وائرس چونکہ انسانی زندگیوں کو اجاڑ رہا ہے، ایسی صورتحال میں کسی قسم کے تعصب اور خبط عظمت سے صرف نظر کرتے ہوئے حکومت پاکستان اور محکمہ صحت کے ذمہ داران و طبی ماہرین کو فطری طرز علاج اور قدرتی ادویات سے استفادہ کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ذیل میں ہم مسیح المک حکیم محمد اجمل خان دہلوی کا انفلوئنزا پر مضمون من وعن نقل کر رہے ہیں تاکہ ہمارے نفس مضمون کو سمجھنے میں آسانی رہے:
’’عیاذ باللہ (اللہ کی پناہ)جس طرح کہ طاعون،ہیضہ اور دیگر وبائی امراض بعض ایام میں وبا کے طور پر ظاہر ہو کر دفعتاً صد ہا(ہزاروں) جانوں کو لقمہ اجل بنا دیتے ہیں،تحقیق جدید سے یہ بات ثابت ہے کہ نزلہ اور زکام کا حملہ بھی بعض دفعہ وبائی طور پر ہوتا ہے ۔
اسباب:۔
اس مرض کا باعث ہوا میں ایک سمیت اور زہریلے اثر کا پیدا ہوجانا ہے جو سانس لینے کے ساتھ ہوا کے ساتھ جسم میں داخل ہوجاتا ہے۔ یہ مرض اکثر جاڑوں میں ہوتا ہے بعض مرطوب نشیبی جگہوں میں یہ مرض اکثر پیدا ہوا کرتا ہے اور ایک مقام سے پیدا ہو کر فوراََ ہی بہت سے مقامات میں پھیل جاتا ہے۔ جوان آدمی کی بہ نسبت بوڑھے اور بچے اس مرض میں زیادہ مبتلا ہوتے ہیں۔
علامات:۔
پیشانی اور کمر میں درد ہوکر دفعتاًََ (اچانک)بخار چڑھ جاتا ہے ۔بعض مریضوں کو یہ بخار لرزے(کپکپی) سے ہوتا ہے اور بعض کو بغیر لرزے کے۔آنکھوں اور تمام عضلات ِ جسم میں درد معلوم ہوتا ہے اور دوران سر (سر درد)کی شکایت ہوتی ہے۔گلا درد کرتا ہے ،آواز بیٹھ جاتی ہے ، سینہ پر بوجھ اور تناؤ معلوم ہوتا ہے ۔خشک کھانسی ہوتی ہے،سانس مشکل سے آتا ہے، مریض کی بھوک زائل ہوجاتی ،ابکائیاں آتی ہیں، کبھی قے (vomiting)اور دست (Motion) آنے لگتے ہیں۔
منہ کا ذائقہ بگڑ جاتا ہے اگر عوارضات (Symptomes) شدید ہوں تو انجام اچھا نہیں ہوتا۔بعض دفعہ ناک اور حلق کی سوزش آگے ہوا کی نالیوں تک بڑھ کر شدید کھانسی اور نمونیہ پیدا کردیتی ہے ۔اس مرض کے حملے سے مریض بہت جلد کمزور ہوجاتا ہے ۔ عام زکام کی نسبت زکام وبائی میں تکلیف اور کمزوری زیادہ ہوتی ہے اور دفعتاًََ مرض کا حملہ ہونا اور دفعتاًَ بہت سے اشخاص کا مبتلائے مرض ہوجانا اور بخار کا ہونا اس کی خاص تشخیصی علامت ہے۔ اگر عوارضات(Symptomes) شدید نہ ہوں اور اس مرض کے ساتھ کوئی دوسرا مرض شامل نہ ہو جائے تو ایک ہفتے کے اندر مریض کو آرام ہوجاتا ہے۔
علاج:۔
بطور حفظ ما تقدم اس وبا کے زمانہ میں چائے کا استعمال ضرور رکھنا چاہیے۔غذا میں احتیاط رکھنا بھوک سے کم کھانا ،قبض نہ ہونے دینا اور کھلی تازہ ہوا میں رہنا ،لباس صاف ستھرا رکھنا اس مرض کے حملے سے بچاتا ہے۔ حالت مرض میں مریض کو ایک علیحدہ کمرے میں آرام سے لٹائیں۔شروع میں معدہ و آنتوں کو صاف کرنے کے لیے رات کو قرص ملین4 عدد نیم گرم پانی کے ہمراہ مریض کو کھلائیں تاکہ دو تین دست آکر معدہ کی صفائی ہوجائے۔اس کے بعد بہدانہ 3 ماشہ،عناب5 دانہ سپستان9 دانہ پانی میں ہلکا جوش دے کر صاف کر کے شربت بنفشہ 2 تولہ ملا کر نیم گرم صبح وشام پلائیں۔
ٍبخار کے لیے خاکسی 5 ماشہ اسی نسخہ میں چھڑک کر دیں۔رفع درد سر اور جسم کے لیے پاشویہ کریں یعنی گل بنفشہ ایک تولہ۔کلیل الملک ایک تولہ،بابونہ ایک تولہ،مر زنجوش ایک تولہ،گل خطمی ایک تولہ بیری کے پتے 5 تولہ پانی 10 سیر میں جوش کر کے اسی گرم پانی میں مریض کے پاؤں پنڈلیوں تک 10 منٹ تک ڈبوئے رکھیں۔
بعدہ‘ خشک کر کے بستر میں لپیٹ دیں۔اگر کھانسی کی شدید شکایت ہو تو بجائے شربت بنفشہ 2 تولہ کے شر بت خشخاش 2تولہ یا شربت اعجاز 2 تولہ اسی نسخہ میں ملا کر دیں یا خمیرہ خشخاش 7 ماشہ اوّل کھلا کر اوپر سے یہی نسخہ پلادیں۔ا گر درد گلو (گلے میں درد) کی شکایت ہوتو بجائے شربت بنفشہ دو تولہ کے شربت توت سیاہ دو تولہ شامل کر کے دیں ۔تقویت کے لیے خمیرہ گاؤزبان ایک تولہ ورق نقرہ ایک عدد میں لپیٹ کر یا خمیرہ گاؤزبان جواہر والا 5 ماشہ اسی نسخہ کے ہمراہ کھلادیں۔
کھانسی کے لیے دوسرے وقت یہ نسخہ دیں، لعوق سپستان ایک تولہ،لعوق معتدل ایک تولہ پانی یا عرق گاؤزبان 12 تولہ میں جوش دے کر گرم گرم پلائیں۔اور ناک اور سر کو بھپارہ (Steem) دیں۔اگر کھانسی کے ساتھ سینہ میں درد بھی ہوتو قیروطی آرد کرسنہ ایک تولہ میں زعفران ایک ماشہ ایلوا ایک ماشہ باریک پیس کر ملا کر نیم گرم ضماد(لیپ) کریں اور سینے کو روئی کے پھل سے گرم کر کے سینکیں(ٹکور کریں)تلین طبع مطلوب ہو تو شربت بنفشہ کی بجائے شربت ملین 4 تولہ پینے کے نسخہ میں دیں۔‘‘
مجربات عالی جناب مسیح الملک مرحوم 1918ء کے وبائی انفلوئنزا کے زمانہ میں علاج سے ہزار ہا مریض صحت یاب ہوئے۔حتیٰ کہ بعض ڈاکٹر صاحبان نے اپنے طریقہ علاج کو چھوڑ کر صرف یہی دوائیں امتحان کرا کر کامیابی حاصل کی۔اکثر مریض ایسے بھی دیکھنے میں آئے جومرض کے حملہ سے گزرنے کے بعد بھی کھانسی ،بخار اور کمزوری وغیرہ کی شکایت میں الجھے رہے جن میںبعض بالآخر سل(TB) میں مبتلا ہوکر راہی ملک عدم (ہلاک)ہوئے،لیکن جو لوگ کہ وقت پر حکیم صاحب قبلہ مرحوم کی خدمت میں پہنچ گئے۔
ان کے نتائج عام طور پر بہتر ہوئے۔مرض کے بعد کی کمزوری دور کرنے کے لیے خمیرہ گاؤزبان ایک تولہ ورق نقرہ ایک عدد ہمراہ گاؤزبان3 ماشہ،گک گاؤزبان3 ماشہ،عناب 5 دانہ،ابریشم مقرض 3 ماشہ نبات سفید (چینی)2 تولہ پانی میں جوش دے کر صاف کر کے صبح کو لعوق معتدل ایک تولہ لعوق سپستان ایک تولہ عرق گاؤزبان 12 تولہ میں جوش دے کر شب کو پینے کے لیے تجویز فرماتے تھے،کھانسی کو آرام ہونے کے بعد کمزوری کے لیے حب جواہر ایک عدد نیم کوفتہ کر کے خمیرہ ابریشم 5 ماشہ میں ملا کر صبح و شام کے لیے اور لعوق والا نسخہ بدستور شب کو پینے کے لیے دیا جاتا۔ان تدابیر سے سینکڑوں بندگان خدا کی جان محفوظ رہی۔
پرہیز:۔
جن چیزوں سے زکام اور نزلہ میں پرہیز کرنا واجب ہے وہی ملحوظ خاطر رکھیں۔
(دن کے وقت سونے اور پیٹ کے بل(الٹے) نیند کرنے،کھانے کے فوری بعد ہی سوجانے سے ،ترش چیزوں سے ۔دودھ، دہی،غلیظ اور ثقیل غذاؤں کے استعمال سے پرہیز کریں۔سرد پانی سے نہانے،سر کھلا رکھنے،آلو، اروی، بھنڈی ، ماش کی دال وغیرہ کھانے اور برف کا پانی پینے سے پرہیز کریں۔تیز دھوپ میں چلنے پھرنے سے بچیں۔)
غذا:۔
لطیف (ہلکی)اور سریع الہضم(جلد ہضم ہونے والی) مثلا شوربہ،یخنی ،آش جو میں شربت بنفشہ ملا کر یا مونگ کی دال چپاتی کے ساتھ دیں۔پانی کی جگہ عرق مکوہ اور عرق گاؤزبان نیم گرم پلائییں۔
قارئین یہ تو تھا طبی طرز علاج جس سے ایک صدی قبل (انفلوئنزا)وبائی نزلہ زکام کو بہ آسانی اور کم خرچ میں مات دی گئی تھی۔اب آیئے کورونا 19 کی علامات کا جائزہ لیتے ہیںاور دیکھتے ہیں کہ اس میںانفلوئنزا اور کورونا میں کون کون سی علامتیں مشترک ہیں اور اسے طبی طرز علاج اور قدرتی ادویات سے کیسے ختم نہیں کیا جاسکتا۔
کورونا کی علامات:۔
کورونا ایک وائرل انفیکشن ہے اور جنوری2019 ء میں چین کے شہر وہان سے شروع ہواہے۔وائرس کے لغوی معنی زہر کے ہیں اور یہ زہر ایک سے دوسرے فرد کو متاثر کرتا ہے۔ تیز بخار،خشک کھانسی،گلے کی سوزش،سانس لینے میں تنگی،سر میں شدید درد،آنکھوں کا سرخ ہونا،نزلہ و زکام،بد ہضمی،پیٹ کی خرابی، قے، متلی اور جوڑوں و جسم میں دردیں وغیرہ کورونا میں مبتلا ہونے کا پتہ دیتی ہیں۔طبی معالجین خواہ وہ ایلو پیتھ ہو یا نیچرو پیتھ ،وید ہویا ہومیو پیتھ سبھی مندرجہ بالا علامات کا مکمل اور شافی علاج کرتے آرہے ہیں۔ رہی بات وائرل انفیکشن کی تو کسی بھی قسم کی انفیکشن کے خاتمے لیے قوت مدافعت بدن میں اضافہ کرکے اسے بخوبی قابو کیا جا سکتا ہے۔
ہماری ارباب اختیار اور محکمہ صحت سے ذمے داران سے التماس ہے کہ ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا،قیمتی انسانی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔سر زمین پاکستان میں موجود قدرتی نباتات کے وسیع خزانوں سے استفادہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے طب اور طبیب کو آن بورڈ لیا جائے۔کورونا میں مبتلا مریضوں کو قدرتی ادویات سے جلد اور بسہولت نجات میسر آسکتی ہے۔ ملک بھر میں لا تعداد علم وفن طب کے ماہرین موجود ہیں ان کے علمی و فنی تجربے سے عوام الناس کو مستفید کیا جا سکتا ہے۔
ہر سرکاری علاج کی سطح پر نیچروپیتھ (طبیب) اور ہومیو پیتھ کی تعیناتی کر کے استفادہ کیا جانا چاہیے۔علاوہ ازیں جتنا وقت میڈیا پر مبینہ طور پر عوام کو خوف زدہ کرنے پر صرف کیا جا رہا ہے اس سے نصف دورانیہ شعور صحت اجاگر کرنے کے پروگرامز تشکیل دے کر معاشرے کو صحت مند بنانے میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔میڈیا پرطبی ماہرین کے مفید اور بر محل مشورے عوام الناس تک پہنچائے جائیں تاکہ مہنگائی سے ستائے ہوئے عام لوگ کم خرچ پر بہ سہولت بیماری سے نجات حاصل کر سکیں۔
The post کیا کورونا وائرس پرانے دور کا وبائی انفلوئنزا ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو » صحت https://ift.tt/39BG927