’عورت مارچ‘ ایک پیش رفت - KHB Point

کے-ایچ-بی پوائنٹ (ملکی و غیر ملکی تمام خبریں فراہم کرنے والاایک مکمل نیوزپلیٹ فام نیٹ ورک)

تازہ ترین

’عورت مارچ‘ ایک پیش رفت

عالمی یوم خواتین پر مختلف شہروں میں عورت مارچ پورے جوش وخروش، فلک شگاف نعروں سے پایہ تکمیل تک پہنچا۔ اسلام آباد سمیت کراچی، لاہور، کوئٹہ ، خیبر پختونخوا اور دیگر کی نمایندگی شہروں کی خواتین انجمنوں نے کی۔ خواتین کو درپیش مسائل اور مختلف سماجی، معاشی، سیاسی اور ثقافتی چیلنجز پر روشنی ڈالی، الیکٹرانک میڈیا نے خواتین کے انٹرویوز، خیالات اور تاثرات نشرکرنے کے لیے خصوصی ٹرانسمیشن کا اہتمام کیا۔

اسلام آباد میں مارچ میں مردوں نے بھی بڑی تعداد میں بھی عورت مارچ کے شرکاء کے شانہ بشانہ جلوس میں شرکت کی۔ عورتوں کے حقوق پر روشنی ڈالی، شرکا نیشنل پریس کلب کے باہر جمع ہوئے جہاں سے مارچ کرتے ہوئے ڈی چوک پہنچے جہاں عورتوں کو درپیش مسائل کے حوالے سے تھیٹر پیش کیا گیا جس میں عورتوں کے مسائل کو اجاگر کیا گیا ، جس کے بعد عورت مارچ منتشر ہوگیا، دیگر مقامات پر بھی مارچ اپنے طے شدہ شیڈول کے مطابق اختتام پذیر ہوا ۔

بلاشبہ عورت مارچ سیاسی، اقتصادی اور ثفاقتی اعتبار سے ملک بھر میں ایک صحت مند بریک تھرو ثابت ہوا، یہ بنیادی طور پر حقوق نسواں کی تحریک کے علامت کے طور پر آگے بڑھی ہے، اس کے آغاز سے پہلے مختلف سماجی اور فکری حلقوںنے تحفظات اور شکوک وخدشات کا اظہار کیا۔ مختلف الخیال گروپوں، مکاتب فکر اور خواتین کی تنظیموں نے اپنا رد عمل بھی پیش کیا اور یہ خوش آیند بات ہے کہ عورت مارچ خوش اسلوبی، انتہائی ذمے دارانہ طرز عمل ، دور اندیشی اور سیاسی وسماجی احتیاط و تدبرکے ساتھ اختتام کو پہنچا۔

نئی نسل سے جو توقعات پرانی بزرگ نسل نے وابستہ کی تھیں، اس مقصد کوصائب طریقہ سے پورا کیا گیا، مارچ سے متعلق جتنے خدشات تھے وہ مفروضوں پر قائم ہوئے اور بے بنیاد ثابت ہوئے، ایک معنی خیز فکری ہم آہنگی کا ماحول پیدا کیا گیا جو خواتین اور مردوں کی ایک ہجومی کیفیت کے باوجود  قومی روایات سے مربوط رہا، ہر مکتب فکر کو موقع ملا ،کھل کر دل کی بھڑاس نکالی، سماجی ، نفسیاتی، گھریلو صدمات اور جنسی ہراسگی سمیت حالات کار، ملازمتوں کے مواقعے ، میرٹ کی یقین دہانی، بنت حوا کی توقیر، چادر اور چاردیواری کے تقدس کو درپیش خطرات پر بحث کی جب کہ اخلاقی حدود ، نعروں کی ذومعنویت سے گریز کو بطور خاص پیش نظر رکھا گیا، شرکا نے بے حد استقامت، شائستگی ، بیداری اور آگہی کے ساتھ  ملکی مذہبی، دینی اقدار سے وابستگی اور تحفظ کا اعادہ کیا، معاشی استحکام، خواتین کی توقیر پر سیر حاصل گفتگو کی۔

ادھر لاہور، کراچی ، کوئٹہ اور پشاور میں ہونیوالے عورت مارچ میں ہزاروں خواتین نے شرکت کی۔ مارچ میں شرکت کرنے والوں میں غیرسرکاری تنظیموں سے وابستہ خواتین، سیاسی جماعتوں کے ویمن ونگز کے ارکان، انسانی حقوق کی تنظیموں کی کارکن، فنکاروں اور طالبات شامل تھیں۔ مارچ کے شرکاء نے ہاتھوں میں رنگ برنگے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر عورتوں کے حقوق کے حوالے سے ان کے مطالبات درج تھے۔

مارچ کے دوران فنکار اپنے فن کا مظاہرہ بھی کرتے رہے۔ ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے مقررین نے کہا کہ عورت مارچ کی بنیاد استحصال سے پاک ایسے معاشرے کی تشکیل ہے جس میں عورتوں کو تحفظ حاصل ہو اور انھیں روزگار، صحت اور تعلیم کی سہولتیں بغیر کسی امتیاز کے میسر ہوں۔ انھوں نے خواتین کی کم از کم تنخواہ چالیس ہزار روپے ماہانہ مقرر کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ دہاڑی دار مزدور خواتین سمیت کام کی تمام جگہوں کو انسداد ہراسگی قوانین کے ذریعے تحفظ دیا جائے۔گھریلو تشدد روکنے کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں۔

لاہور میں خواتین کی سائیکل ریس کا اہتمام بھی کیا گیا۔ سائیکل ریس ماڈل ٹاؤن سے شروع ہوکر جوہر ٹاؤن جا کر ختم ہوئی، ریس میں خواتین کے علاوہ مرد بھی شریک تھے۔ کراچی میں سی ویو پر سلمان صوفی فاؤنڈیشن کے زیراہتمام خواتین کی بائیک ریلی کا انعقاد کیا گیا جس میں ویمن آن وہیل پراجیکٹ کے تحت تربیت یافتہ خواتین سمیت مختلف علاقوں سے18 سال سے زائد عمرکی 100 سے زائد خواتین اور لڑکیوں نے میں شرکت کی۔ کراچی میں فریئر ہال پر عورت مارچ کا انعقاد ہوا جس میںخواجہ سراؤں نے بھی شرکت کی۔ راولپنڈی، پشاور، کوئٹہ، سکھر، ملتان اور دیگر شہروں میں بھی خواتین کے حقوق سے متعلق کام کرنیوالی تنظیموں نے ’’عورت مارچ‘‘ کے حوالے سے ریلیاں نکالیں۔ خواتین کے عالمی دن پر گوگل نے اپنا ڈوڈل تبدیل کر کے خواتین کو خراج تحسین پیش کیا۔

یہ حقیقت ہے کہ مارچ کی مانیٹرنگ پر مامور بعض صاحب الرائے افراد کا کہنا تھا کہ کاش سیاسی اور مذہبی جماعتیں اس مارچ کو اکھٹے لے کر چلتیں، اگر بات ماؤں ،بہنوں اور بیٹیوں کی تھی، اس ملک کی نصف آبادی اور معماران قوم کی تھی تو اس مارچ میں ایک اجتماعیت کا پہلو شامل ہوجاتا اور پاکستانی عورت مغرب کو یہ پیغام دیتی کہ ہم اکیلے نہیں، ہمیں جس بے لوث شفقت، عزت ، تحفظ، حمیت اور  جینے کا حق ملنا تھا، وہ آج ملنے کی تمنا تھی ، وہ ہمارے بزرگوں، ہماری ریاست ،حکومت اور سول سوسائٹی نے ہمیں عطاکرنے کی ضمانت دی ہے۔

بلاشبہ 8 مارچ کا دن اس اعتبار سے یادگار ہے کہ اس دن جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے 8 مارچ کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا کہ جو سیاست دان الیکشن سے پہلے اپنی بیٹی کو وراثت کا حق نہ دے اسے انتخاب لڑنے کی سرے سے اجازت نہیں ہونی چاہیے، بہر حال یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں آج بھی خواتین کو ووٹ دینے کی سیاسی آزادی حاصل نہیں، گزشتہ دو انتخابات میں فاٹا اور دیگر قبائلی حلقہ انتخابات میں خواتین اپنے ووٹ کے حق سے بالجبر محروم رکھی گئیں۔

سینیٹر صاحب خیبر پختون خوا میں خواتین کو ووٹ کی بندش سے نجات دلا نہیں سکے تو آج ان سے امید کی جانی چاہیے کہ وہ  بلوچستان اور پختونخوا میں خواتین کو اپنے آئینی ووٹ کا حق استعمال کرنے کے لیے جبر کا خاتمہ کریں۔ معروف خاتون رہنما مایا اینگلو نے کہا تھا کہ ’’جب بھی کوئی عورت اپنے حق کے اٹھ کھڑی ہوتی ہے تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ وہ ہر عورت کے لیے کھڑی ہوئی ہے۔‘‘ مگر یہ لوگو! آدھاسچ ہے، ابھی ہزاروں گھریلو ملازمائیں بنگلوں اور فلیٹوں میں کام کرتیم ہیں،ان کی تنخواہیں برائے نام ہیں ان کے بیشمار دردناک مسائل ہیں، غربت زدہ خواتین کی دستگیری ضروری ہے۔خوشحال گھرانے اپنے قریب کی ان خواتین کو بھی زندگی گزارنے کاحق دلوائیں ۔ پھرمارچ کا مقصد پورا ہوگا۔

The post ’عورت مارچ‘ ایک پیش رفت appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/2TCkxOb