zeeshan.baig@express.com.pk
گزشتہ دنوں سپاہی مقبول حسین اللہ کو پیارے ہو گئے۔ چالیس برس تک دشمن کی قید میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانے والے اس مرد مجاہد کی مادر وطن کے لئے دی گئی لازوال قربانی نے تمام اہل وطن کے سر فخر سے بلند کر دیے اور دلوں میں یہ ولولہ تازہ کر دیا کہ جب کبھی بھی وطن عزیز کو ہماری ضرورت پڑی، ہم اپنی جان اس پر نچھاور کرنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔ یوں تو افواج پاکستان کے جیالے فرزندوں کے کارہائے نمایاں سب پے عیاں ہیں، پر بہت سے صف شکن ایسے بھی ہیں جن کے معرکوں کے بارے میں کم لوگ ہی جانتے ہیں۔ سو، آج آپ کو کچھ ایسے ہی تاریخ ساز کرداروں کے متعلق بتاتے ہیں جن کی جوانمردی کا اعتراف خود دشمن نے کیا۔
1965ء کی پاک بھارت جنگ دونوں ملکوں کے درمیان باقاعدہ پہلی مکمل لڑائی تھی۔ بھارتی منصوبہ ساز چھ ستمبر کی رات پاکستان پر حملہ کا منصوبہ طے کرچکے تھے۔ اسی دوران بھارتی فوج کے پیش بند جاسوس شالامار باغ تک گھوم کر واپس جارہے تھے اور واپس جاکر انہوں نے اپنے کمانڈروں کو صورتحال سے آگاہ کیا جو کافی خوشگوار تھی۔
پاکستانی فوج بیرکوں میں موجود تھی اور چھ ستمبر کی علی الصبح کیا جانے والا حملہ یقینی طور پر کامیابی کی طرف گامزن تھا۔ ایسے میں جمخانہ میں جشن فتح اور لاہور کا سویلین ایڈمنیسٹریٹر مقرر کرنا دیوانے کی بڑ نہیں بلکہ ایک ایسا خواب تھا جس کی تعبیر میں صرف رات کے چند گھنٹے حائل تھے۔ چھ اور سات ستمبر بھارتیوں نے پْرزور کوشش کی بی آر بی عبور کرنے کی لیکن پاکستانی فوج اور فضائیہ کی مشترکہ کاوشوں نے انہیں ناکام بنا دیا۔ اس وقت جب پاکستانی فوج کی توجہ لاہور کے دفاع کی جانب مرکوز تھی، پہلا بھارتی بکتر بند ڈویڑن سیالکوٹ کے شمال مشرق میں چھاروا کے قریب مورچہ زن تھا۔
ان کا منصوبہ تھا کہ آٹھ ستمبر کو ایک بھرپور حملہ کرتے ہوئے وہ مرالہ لنک کینال پر قبضہ کرلیں گے اور پھر وہاں سے آگے کا راستہ بالکل آسان اور کسی بھی پاکستانی مزاحمت سے پاک تھا۔ اس منصوبہ کی کامیابی سے بھارتی فوج نہ صرف پاکستانی فوج کے عقب میں پہنچ جاتی بلکہ وہ اس کے بعد لاہور یا اسلام آباد کسی بھی طرف پیش قدمی کرسکتی تھی۔ مگر افواج پاکستان کے بہادر سپوتوں نے دشمن کا منصوبہ ناکام بناتے ہوئے، اس کے دانت ایسے کھٹے کیے کہ اسے چھٹی کا دودھ یاد آ گیا۔
کرنل نثار احمد خان
24 بریگیڈ کے کمانڈر، بریگیڈئیر عبدالعلی ملک نے اپنی واحد ٹینک رجمنٹ 25 کیویلری کو7 ستمبر کی رات دو بجے پسرور پہنچنے کا حکم دیا اور آٹھ ستمبر کی صبح پانچ بجے تک 25 کیویلری کے تین میں سے دو سکواڈرن پسرور پہنچ چکے تھے۔
چھ بجے اطلاع ملی کہ دشمن نے تین ایف ایف، جسے چھاروا اور اس کے اردگرد کے علاقے کے دفاع کے لئے پھیلا کر تعینات کیا گیا تھا، کے علاقے پر قبضہ کرلیا ہے۔ اس حملہ میں دشمن کے دو بریگیڈ حصہ لے رہے تھے اور تین ایف ایف کا ان کی اجتماعی قوت کے ساتھ کوئی جوڑ نہ تھا۔اس غیر متوقع اطلاع کے ملنے پر 24 بریگیڈ کے کمانڈر بریگیڈئیر عبدالعلی ملک نے 25 کیویلری کے کمانڈر، کرنل نثاراحمد خان کو حکم دیا کہ وہ “کچھ کریں”۔ پاکستان کی خوش قسمتی کہ 25 کیویلری ایک نئی لیکن بہت اچھی ٹینک رجمنٹ تھی اور اس کے افسر اپنے کام کے ماہر تھے۔
کرنل نثار کو دشمن کی طاقت اور ارادوں کے متعلق کچھ علم نہ تھا۔ اس نازک وقت میں کرنل نثار نے ایک غیر متوقع قدم اٹھایا۔ بجائے اپنے ٹینکوں کو اکٹھا کرکے استعمال کرنے کے، انہوں نے اپنے تینوں سکواڈرن تھارووا سے چوبارہ تک ایک سیدھی لکیر میں پھیلا دئیے گویا ٹینکوں کی ایک دیوار ترتیب دے دی۔
ان کے مقابل بھارت کا پہلا آرمرڈ بریگیڈ تھا جس کے ہراول دستہ کے طور پر تین ٹینک رجمنٹیں اور ان کے ساتھ مدد کے لئے کم از کم ایک انفنٹری رجمنٹ حملہ آور تھیں۔ دن دس بجے 25 کیویلری کا ان رجمنٹوں سے سامنا ہوا اور پھر ایک بھارتی مؤرخ کے الفاظ میں “ہم نے لڑائی میں اس سے زیادہ ٹینک کھو دئیے جتنی 25 کیویلری کے ٹینکوں کی کل تعداد تھی۔” کرنل نثار کی اپنے سکواڈرن پھیلا کر استعمال کرنے کی چال اگرچہ انتہائی خطرناک تھی کہ اگر کوئی بھی سکواڈرن مکمل تباہ ہوجاتا تو دشمن کو روکنا ناممکن تھا لیکن اس سے فائدہ یہ ہوا کہ اس روز دشمن نے جس جگہ سے بھی آگے بڑھنے کی کوشش کی 25 کیویلری کے ٹینکوں کو اپنے مقابل موجود پایا۔
اس بات سے دشمن نے نتیجہ اخذ کیا کہ پاکستانی ٹینکوں کی ایک کثیر تعداد اس جگہ کے دفاع کیلئے مقرر ہے اور اس روز شام تک بھارتیوں نے اپنا حملہ روک دیا۔ آنے والے دنوں میں خونریز لڑائیاں ہوئیں لیکن بھارتی آگے نہیں بڑھ سکے۔ ’بی بی سی‘ کے مطابق اس سب کچھ کا سہرا 25 کیویلری بالخصوص اس کے کمانڈر کرنل نثار احمد خان کو جاتا ہے جنہوں نے، جب پاکستان کی قسمت ایک باریک دھاگے سے بندھی ہوا میں معلق تھی، ایک غیر متوقع چال چل کر دشمن کی قوت فیصلہ کو جامد کردیا۔
ان کا یہ جرات مندانہ قدم پاکستان کو بچا گیا وگرنہ اگر اس روز دشمن کو آگے بڑھنے کا راستہ مل جاتا تو پاکستان کا نقشہ مختلف ہوتا کہ بہرحال دشمن کے قریباً تین سو کے قریب ٹینکوں کے مقابلہ میں ان کی ٹینکوں کی تعداد صرف پچاس تھی اور پسرور سے آگے میدان صاف تھا۔اس تناظر میں جنگی مؤرخین کا یہ کہنا غلط نہیں کہ پاکستانی فوج نے جو کچھ ستمبر 1965ء میں کردکھایا، جنگوں کی تاریخ میں اس کا اعادہ بہت مشکل ہوگا۔
ونگ کمانڈر میرون لیزلی مڈلکوٹ
یہ جولائی 1940ء میں لدھیانہ کے ایک مسیحی گھرانے میں پیدا ہوئے. ان کے والد کا نام ’پرسی مڈلکوٹ‘ اور والدہ کا نام ’ڈیزی مڈلکوٹ‘ تھا. جب پاکستان بنا تو انکا گھرانہ بھی ہجرت کر کے لاہور میں بس گیا. انہوں نے ابتدائی تعلیم سینٹ اینتھونی ہائی سکول سے حاصل کی اور بعدازاں لارنس کالج گھوڑا گلی مری سے استفادہ کیا۔ انہوں نے 1954ء میں پاکستان ایئر فورس جوائن کی۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں یہ کراچی کے PAF بیس مسرور میں F86 جہازوں کا ایک سکواڈرن کمانڈ کر رہے تھے.
اسی جنگ کی ایک رات بھارتی جہازوں نے کراچی پر بھرپور حملہ کیا. سکواڈرن لیڈر ’مڈلکوٹ‘ نے ایک F86 طیارے میں ٹیک آف کیا اور آناً فاناً دشمن کے دو طیارے مار گرائے. ان طیاروں کے دونوں بھارتی پائلٹ بھی مارے گئے. پوری جنگ کے دوران مڈلکوٹ نے ایسی بہادری کا مظاہرہ کیا کہ ان کے زیر کمان افسر اور جوان بھی ان کی دیکھا دیکھی شیروں کی طرح لڑے. جنگ کے اختتام پر انکی بہادری کے صلے میں انہیں ستارہ جراء ت سے نوازا گیا۔
1971ء کی پاک بھارت جنگ میں مڈلکوٹ اردن کے دورے پر تھے کہ جنگ کا باقاعدہ آغاز ہو گیا. انہوں نے حکومت سے اپنی فوراً واپسی کی درخواست کی جو مان لی گئی. انکی واپسی کے دوسرے ہی دن ان کو امرتسر ریڈار کو تباہ کرنے کا مشن دیا گیا، جس کو انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ناکارہ بنا دیا. اسی جنگ کے ایک مشن میں ونگ کمانڈر ’میرون لیزلی مڈلکوٹ‘ کو دشمن کے ایک جنوبی ہوئی اڈے پر حملہ کرنے کے لئے بھیجا گیا. انہوں نے دشمن کے کئی جہاز زمین پر ہی تباہ کر دیئے. مگر جب واپس آ رہے تھے تو دو بھارتی MIG21 طیاروں نے انکا پیچھا کیا.
ان کی اپنی گولیاں ختم ہو چکی تھیں. دشمن کے دو میزائلوں سے تو انہوں اپنا دفاع کر لیا مگر ایک تیسرے میزائل کا، جو بھارتی پائلٹ فلائٹ لیفٹننٹ بھارت بھوشن سونی نے مارا تھا، شکار ہو گئے. بھارتی پائلٹ نے انھیں بحیرہ عرب کے سمندر میں اس علاقے میں چھتری سے چھلانگ لگاتے دیکھا جو شارک مچھلیوں سے بھرا پڑا تھا. انکی لاش کبھی نہیں ملی۔ وہ اکتیس سال کی بھرپور جوانی میں ہی وطن پہ نثار ہو گئے. جنگ کے بعد ان کی اس بے مثال بہادری پر انکو ایک اور ستارہ جراء ت سے نوازا گیا۔
پاکستان میں مذہبی تعصب اتنا زیادہ تو نہیں تاہم پھر بھی کبھی کبھار کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آ ہی جاتا ہے. دونوں جنگوں کے درمیان ایک دن ان کی آٹھ سالہ بچی کو سکول کے ایک مسلمان بچے نے کچھ ایسے الفاظ کہے کہ “تم مسیحی نکل جاؤ ہمارے ملک سے”۔ بچی دل برداشتہ گھر آئی اور اپنے والدین کو ساری روداد سنائی. والدہ تو بپھر گئیں اور ملک ہی چھوڑنے کا مطالبہ کر دیا. بچی کو تو ونگ کمانڈر مڈلکوٹ نے کہا کہ ایسے لوگوں کو معاف کر دیا کرو. یہ جاہل ہوتے ہیں. اور اپنی بیوی سے یہ تاریخی الفاظ کہے:
“بیگم میری بات غور سے سنو. یہ میرا ملک ہے. میرے آبا و اجداد کی ہڈیاں دفن ہیں یہاں. میں نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ اس ملک کے دفاع میں لگا دیا ہے اور شاید ایک دن اپنی جان بھی دے دوں گا اس ملک کے لئے. آیندہ میں آپ کے منہ سے ایسے الفاظ کبھی نہ سنوں.”
ہمارے مسیحی ہیرو ونگ کمانڈر میرون لیزلی مڈلکوٹ کو سلام ہے۔
ایٹ پاس چارلی
یہ ایک ایسے لیجنڈ پاکستانی بمبار پائلٹ کی داستان ہے جو ایک ہیرو تو بنا لیکن آج تک کوئی اس کا نام نہ جان سکا اور یہ ہیرو تاریخ میں گمنامی میں ہی دفن ہو گیا۔ پاک بھارت جنگ شروع ہوئی تو پاکستان کے بی 57 بمبار طیاروں نے رات کے اندھیرے میں بھارتی ہوائی اڈوں پر ہلہ بول دیا۔ بمبار طیارے عام طور پر بہت بھاری بھرکم ہوتے ہیں اور وہ دشمن کی توپوں اور طیاروں سے بچنے کے لیے زیادہ پھرتی نہیں دکھا پاتے اس لیے ان کے حملے رات کے اندھیرے میں ہوتے اور یہ طیارے زمین کے پاس پاس ریڈار کی نگاہ سے بچ کر اڑتے ہوئے اپنے ہدف تک پہنچتے۔
ہدف پر پہنچ کر پائلٹ یکدم طیارہ اوپر کھینچ کر ہدف پر ڈائیو کرتے اور ایک ہی حملے میں اپنے تمام بم گراتے ہوئے دشمن کے ہشیار ہونے سے پہلے اس کی توپوں کی رینج سے باہر ہو جاتے۔ پاکستانی بی 57 طیارے 500 پاؤنڈ کے آٹھ بم لے کر جاتے تھے اور اسی طریقہ کو فالو کرتے ہوئے ایک ہی حملے میں آٹھوں بم گراتے ہوئے آگے نکل جاتے تھے۔ لیکن ایسے حملے میں لازمی نہیں ہوتا تھا کہ سارے بم ہی نشانے پر گریں۔ اکثر ایسا ہوتا کہ دو بم ایک ہی ٹارگٹ پر جا گرتے۔ جس کی وجہ سے ایکوریسی کم رہتی تھی مگر یہ حملہ کرنے کا انتہائی محفوظ طریقہ تھا۔
لیکن بھارتیوں کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب جنگ کی پہلی رات آدم پور ائیر بیس پر ایک اکیلے بی 57 طیارے نے حملہ کیا۔ لیکن یہ طیارہ اور اس کے پائلٹ کوئی عام پائلٹ نہیں تھے۔ طیارہ پہلے غوطے میں آیا اور صرف ایک بم گرا کر آگے بڑھ گیا۔ بھارتیوں کا پہلا ری ایکشن یہی تھا کہ باقی بم کسی خرابی کی وجہ سے نہیں گر سکے۔ پر وہ ششدر رہ گئے جب بمبار طیارہ دوبارہ گھوم کر واپس آیا۔ اس نے پھر غوطہ لگایا اور ایک اور بم تاک کر ایک اور نشانے پر گرا کر آگے نکل گیا۔ اس دوران بھارتی طیارہ شکن توپوں نے ہوا میں گولیوں کا جال بن دیا تھا لیکن بمبار طیارے کے پائلٹ کو کوئی جلدی نہیں تھی نہ ہی اسے اپنی جان کا کوئی خوف تھا۔
وہ پھر واپس آیا ایک بم ایک اور نشانے پر انتہائی ایکوریسی سے گرایا اور آگے نکل گیا۔ یوں اس بمبار طیارے نے ہر ایک بم کو گرانے کے لیے الگ سے واپس آ کر غوطہ لگایا اور بم کو پورے غورو فکر کے ساتھ تاک کر نشانے پر پھینکا۔ اس طرح اس نے اپنی جان کو خطرے میں ضرور ڈالا تھا لیکن اس کے آٹھوں بم آٹھ انتہائی اہم ہدف تباہ کر چکے تھے یوں اس کی ایکوریسی 100 فیصد رہی تھی۔ اس حملے کے بعد بھارتیوں کی جانب سے اس بمبار پائلٹ کو ’’ایٹ پاس چارلی‘‘ ( 8 pass Charlie) کا نام دیا گیا۔ پوری جنگ کے دوران ’ایٹ پاس چارلی‘ مختلف اڈوں پر حملے کرتا رہا۔ وہ ہمیشہ اکیلا آتا تھا اور پہلے بم کے ساتھ ہی وہ بھارتیوں کو کھلا چیلنج دیتا کہ میں نے ابھی سات چکر اور لگانے ہیں تم سے جو ہوتا ہے کر کے دیکھ لو اور یہ اس پائلٹ کی مہارت کی انتہا تھی کہ کبھی کسی طیارہ شکن گن کی گولی اسے چھو بھی نہیں پائی۔
دشمن کو دھوکے میں ڈالنے کے لیے ایٹ پاس چارلی ایک انوکھا کام کیا کرتا تھا۔ اندھیری رات میں طیارہ تو دکھائی دیتا نہیں تھا تو دشمن کے توپچی طیارے کی آواز سن کر اندازہ لگاتے تھے کہ طیارہ کس جانب سے آ رہا ہے۔
ان توپچیوں کو پریشان کرنے کے لیے غوطہ لگاتے وقت ’چارلی‘ اپنے طیارے کا انجن بند کر دیتا۔ اگرچہ اس کی وجہ سے طیارے کو سنبھالنا بہت مشکل ہو جاتا لیکن بھارتی توپچیوں کو طیارے کے پتہ اس وقت چلتا جب وہ بم گرا چکا ہوتا اور اس کے بعد وہ انجن آن کر کے پلک جھپکتے میں ان کی رینج سے باہر نکل چکا ہوتا تھا۔ ایک بھارتی پائلٹ ’’پیڈی ارل‘‘ (Earl Paddy) کے ایٹ پاس چارلی کے بارے میں الفاظ یہ ہیں ’’ میں اس پاکستانی بمبار پائلٹ کے لیے انتہائی عزت کے جذبات رکھتا ہوں جسے ہماری زندگیوں کا سکون برباد کرنا انتہائی پسند تھا۔ ایٹ پاس چارلی ایک لیجنڈ تھا، لیکن اس کی یہ عادت بہت بری تھی کہ وہ چاند نکلنے کے ٹھیک 30 منٹ بعد اپنے ہدف پر پہنچ جاتا۔ عین اس وقت جب ہم اپنے پہلے جام ختم کر رہے ہوتے تھے۔ وہ ایک اونچے ترین درجے کا انتہائی پروفیشنل پائلٹ تھا۔
اپنے حملے کی سمت چھپانے کے لیے وہ غوطہ لگانے سے پہلے انجن بند کر دیتا اور جب تک توپچی فائر کھولتے وہ پھٹتے گولوں کی چھتری سے نیچے آ چکا ہوتا تھا اور بم گرانے کے بعد وہ انجن کو فل پاوور پر کر کے گولیوں کی رینج سے باہر نکل جاتا‘‘۔ لیکن اپنے دشمنوں کی جانب سے ایٹ پاس چارلی کا نام پانے والا یہ پائلٹ کبھی منظر عام پر نہیں آیا۔
البتہ چند محققین کے خیال میں یہ جانباز ’پی اے ایف‘ کی ’’دی بینڈٹس‘‘ (The Bandits)نامی سکوارڈن نمبر 7کے سکوارڈن لیڈر الطاف شیخ تھے، جبکہ دوسروں کا اندازہ ہے کہ یہ سکوارڈن لیڈر نجیب اے خان یا پھر ونگ کمانڈر علوی اور ان کے نیوی گیٹر فلائٹ لیفٹیننٹ ایم علی شاہ تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کوئی نہیں جانتا کہ یہ عظیم پائلٹ کون تھا۔ ہاں سب کو یہ ضرور یاد ہے کہ کوئی تھا جسے دشمن کا سکون برباد کرنے میں عجیب سا مزہ آتا تھا۔
صوبیدار ملک شیر باز خان
میرے بچپن کے دنوں کی بات ہے کہ ایک شخص جو بظاہر کوئی صوفیانہ روپ دھارے بڑے بڑے سفید بال، لمبی سی سفید داڑھی ہاتھوں میں عصا پکڑے اور جسم پہ درویشوں کی طرح ٹاکی لگے لباس، سر پہ درویشوں کی سی ہی ٹوپی پہنے، ہماری گلی سے گزر کر بازار کی جانب جاتے تھے جیسے ہی وہ بابا جی دور سے نظر آتے تو محلے کے تمام بچے ان کی جانب دوڑ پڑتے تھے اور بچوں میں دوڑ لگ جاتی کہ بابا جی کو پہلے کون سلام کرے گا۔ بابا جی تمام بچوں کے ساتھ بہت شفقت سے پیش آتے انہیں پیار کرتے اور اپنی جیب میں ہاتھ ڈالتے کسی کو ٹافی، کسی کو بیر، کسی کو بسکٹ دیتے۔ یہ درویشانہ روپ دھارے شخصیت کوئی عام شخصیت نہیں بلکہ ہمارے بیچ موجود ہمارے ایک قومی ہیرو ہیں جن کو ہم سب نے بھلا دیا۔ یہ صوبیدار ملک شیرباز خان ہیں جو کہ ’’میرے جنڈ‘‘ کے محلہ حسین آباد کے رہائشی ہیں اور آج کل کافی بیمار ہیں۔
صوبیدار ملک شیر باز خان یکم جون 1930ء کو تحصیل جنڈ ضلع اٹک میں پیدا ہوئے۔ یہ وہ دور تھا جب تقسیم ہند نہیں ہوئی تھی اور مسلمان، ہندو، سکھ اور عیسائی سب اکٹھے رہتے تھے۔ صوبیدار صاحب نے ابتدائی تعلیم SD ہائی سکول (سناتا دھرم) ہائی سکول جنڈ میں حاصل کی ۔ جنڈ ہائی سکول نمبر1 کا پرانا نام ’سناتا دھرم ہائی سکول‘ تھا اور اس وقت یہ ہندوؤں کے ایک قبیلے سناتمی کا پرائیویٹ سکول تھا، جہاں پر علاقہ ’’نرڑہ خوشحلاگڑھ، ناکبند علاقہ جندال‘‘ دور دراز سے لوگ تعلیم کے حصول کے لئے آتے۔ ملک شیر باز صاحب کے بقول اس وقت مسلمان اتنے ثروت مند نہیں تھے جبکہ ہندو اس وقت تاجر اور مالدار لوگ تھے، اس لئے مسلمان طلبہ کے تمام تعلیمی اخراجات ہندو تاجر اٹھاتے تھے۔
اسکول میں اس وقت اردو، ہندی اور فارسی زبان میں تعلیم دی جاتی۔ ملک شیرباز صاحب کے بقول اس وقت ہمارے ہیڈ ماسٹر پنڈت امرناتھ مجھ پہ خصوصی شفقت فرماتے اور وہ میرے پسندیدہ استاد تھے۔ ملک صاحب نے 1948ء میں میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد پاکستان آرمی میں بطور کمیشنڈ آفیسر اپلائی کیا لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔ اس کے بعد آپ آرمڈکور سنٹر نوشہرہ میں ایک سپاہی کی حیثیت سے بھرتی ہوئے۔ ملک صاحب کے بقول ’’اگر میں چاہتا تو اس وقت تحصیلدار یاکسی اور عہدے پہ بھی بھرتی ہو سکتا تھا لیکن افواج پاکستان سے محبت کی وجہ سے آرمی کو ہی ترجیح دی‘‘۔ ملک صاحب نے بتایا کہ اس وقت کرنل سٹراوٹ ان کے آرمی انسٹرکٹر تھے۔ آپ ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد لاہور چلے گئے۔
1954ء میں جب سپیشل سروسز گروپ بنا تو آپ اس میں شامل ہو گئے۔ چراٹ ٹریننگ سنٹر میں تربیت حاصل کی۔ 1962ء میں آپ نے کامرہ میں پیراشوٹ کے ذریعے جمپ لگانے کا مظاہرہ کیا۔ ملک شیر باز صاحب بتاتے ہیں کہ ’’جب 1965ء کی جنگ لگی تو ہم چراٹ میں تھے۔ ہمیں اطلاع ملی کے بھارت نے پاکستان پہ حملہ کر دیاہے۔ ہم 11 کمانڈوز تھے، جن کا گروپ بنایا گیا۔ میں اس گروپ کا سربراہ تھا۔ ہم کو 8ستمبر 1965ء کی رات انڈین پنجاب کے ضلع ہوشیار پور کے آدم پور ائیرپورٹ پہ پیراشوٹ کے ذریعے اتارا گیا اور ہم نے کمانڈو ایکشن کرتے ہوئے جلد ہی ائیرپورٹ پہ قبضہ کر لیا اور بھارتی فضائیہ کے دو جہاز ناکارہ کر دئیے۔ ہم نے بھارتی فورسز کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور جنگ ختم ہونے تک ائیربیس پہ قبضہ کئے رکھا۔ جب جنگ بندی ہوئی تو ہمیں سرنڈر کرنے کو کہا گیا اور ہم نے گرفتاریاں پیش کر دی اور بھارت کے دارالحکومت نیو دہلی میں ہمیں قید کر دیا گیا۔
بعد میں جب قیدیوں کا تبادلہ ہوا تو ہمیں اس میں رہائی ملی۔ جب ہم رہا ہو کر واپس آئے تو کوئی خاص پذیرائی تو نہیں کی گئی بس اتنا کہا گیا کہ ملک غریب ہے اور جنگ سے تباہ حال ہے۔ ہمارے پاس کچھ نہیں، بس آپ کا اس اچھے اور بہادری کے کام پہ شکریہ ادا کرتے ہیں‘‘۔ ملک شیر باز صاحب بتاتے ہیں کہ ’’جب ہم چراٹ میں تھے تو سابقہ صدر جنرل پرویز مشرف کیڈٹ کے طور پر ہمارے پاس آئے ٹریننگ کے لیے، وہ بالکل نوجوانی کی عمر میں تھے‘‘۔ ملک شیرباز بتاتے ہیں کہ ’’پرویز مشرف 2 دفعہ چراٹ کے جنگلوں میں گم ہو گئے تھے اور اس کو میں خود ڈھونڈ کر لایا اور اس کے بعد سے ان کی جنرل مشرف کے ساتھ کافی عرصے تک دوستی رہی۔ مارشل لا کے بعد جب انہوں نے اپنے وفادار دوستوں کو مشاورت کے لیے بلایا تو ان میں مجھے بھی بلایا گیا‘‘۔ ملک شیرباز صاحب 1968ء میں آرمی سے ریٹائر ہو گئے لیکن اسکے باوجود آپ نے 1971ء کی جنگ میں قصور کے محاذ پہ اپنی خدمات پیش کیں۔
ملک شیرباز کے بقول جب وہ ملازم تھے اس وقت لوگ سادہ تھے، صاف نیت اور بہادر تھے، اب ویسے لوگ نہیں رہے۔ جنرل مرزا اسلم بیگ ان کے مطابق بہت قابل آرمی آفیسر رہے۔ انھوں نے مزید بتایا کہ ’’اس وقت اور آج کی آرمی میں بہت فرق ہے۔ اس وقت وسائل کم اور لوگ مخلص تھے ‘‘۔ ملک شیر باز صاحب ریٹائرمنٹ کے بعد بھی آرمی کے مختلف شعبہ جات سے منسلک رہے اور ساری زندگی ملک و قوم کی خدمت کے لئے وقف کر دی۔ اس وقت بہت علیل ہیں اور گھر میں وقت گزارتے ہیں۔ انھیں اقبالیات سے بہت دلچسپی ہے اور انگریزی میگزین اور کتب کا مطالعہ کرتے وقت گزارنا اچھا لگتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے عظیم انسانوں سے نئی نسل کو متعارف کرایا جائے اور گورنمنٹ آف پاکستان ان کے لیے تمغہ جرأ ت کا اعلان کرے اور اس طرح کے کارناموں کو فوجی تاریخ اور نصاب کا حصہ بنایا جائے ۔
(علی شیرازی)
The post 1965ء کی جنگ کے گم نام ہیرو appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/2NKGtVf