کراچی: کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں مہارت رکھنے والے کراچی کے نوجوان شوکت حسین اپنی تکنیکی صلاحیتیں ایکواکلچر کے فروغ کیلیے بروئے کارلارہے ہیں، شوکت حسین کا خاندان مچھلی کی تجارت سے وابستہ ہے اس لیے فطری طور پرانھوں نے مچھلیوں کی تجارت کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔
ابتدا میں انھوں نے مچھلی کی آن لائن فروخت کے لیے پورٹل تیارکیے تاہم اس دوران انھیں تھائی لینڈ سے درآمد ہونے والی مچھلیوںکی وجہ سے مسابقت میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد انھوں نے جاننا شروع کیا کہ ویتنام، تھائی لینڈ اور بھارت میں کس طرح بڑے پیمانے پر مچھلیوں کی فارمنگ کی جارہی ہے اس دوران انھیں بائیو فلاک ٹیکنالوجی کے بارے میں معلوم ہوا، بائیو فلاک ٹیکنالوجی کے ذریعے چھوٹے ٹینکوں میں مچھلیوں کی کنٹرول ایٹماسفیئر میں افزائش کی جاتی ہے مچھلیوں کوموزوں درجہ حرارت میں رکھا اور متواترآکسیجن فراہم کی جاتی ہے، وقتاً فوقتاً پانی میں کثافت اور نمکیات کی پیمائش بھی کی جاتی ہے اور اسے مناسب سطح پر رکھاجاتاہے اورکمپاؤنڈخوراک کے ساتھ عام نامیاتی خوراک بھی مہیا کی جاتی ہے۔
سندھ اور کراچی میں اتنی فش فارمنگ ہوکہ مچھلی کی درآمدبندہوجائے،شوکت حسین
کراچی اور سندھ میں بڑے پیمانے پر فش فارمنگ کا فروغ ان کا خواب ہے تاکہ پاکستان میں مچھلیوں کی درآمد کا سلسلہ ختم کیا جاسکے اور غذائی خود کفالت کی منزل کو آسان بنایا جاسکے یہ بات شوکت حسین نے گفتگو میں بتائی انھوں نے کہا کہ بائیو فلاک ٹیکنالوجی کی مدد سے فش فارمنگ کو مزید آسان بنانے کے لیے تربیت اور تکنیکی معاونت کی فراہمی کے سلسلے کو مزید بڑھانا چاہتے ہیں۔
مہارت اورتجربے سے فش فارمنگ کرنے والوں کوفائدہ پہنچارہوں،شوکت حسین
شوکت حسین نے بائیو فلاک ٹیکنالوجی میں اپنی مہارت اور تجربہ سے کراچی کے دیگر شہریوں کو بھی فائدہ پہنچانا شروع کردیا ہے وہ بائیو فلاک ٹیکنالوجی کے ذریعے فش فارمنگ میں دلچسپی رکھنے والے دیگر شہریوں کو تربیت فراہم کرتے ہیں اور ڈیڑھ سے 2 سال کے عرصے میں 200 کے قریب شہریوں کو تربیت فراہم کرچکے ہیں جن میں نوکری پیشہ نوجوانوں کے علاوہ رٹائرڈ شہری اور کاروباری افراد بھی شامل ہیں، چھوٹی اراضی کے ساتھ بڑی اراضی رکھنے والے بھی اس طریقے میں دلچسپی لے رہے ہیں، شوکت حسین بائیو فلاک ٹیکنالوجی کو عام کرنے کے لیے فش فارم بنانے والے شہریوں کو تکنیکی مدد بھی فراہم کرتے ہیں اور تیار ہونے والی پیداوار کی مارکیٹ میں اچھے داموں فروخت میں بھی مدد فراہم کرتے ہیں، شوکت حسین این ای ڈی یونیورسٹی میں چلنے والے بزنس ان کوبیٹر سے بھی وابستہ ہیں جہاں وہ بائیو فلاک ٹیکنالوجی اور فش فارمنگ کو جدید بنانے کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں۔این ای ڈی یونیورسٹی میں بھی فروری سے اب تک انٹرپرنیوررز کے لیے چار تربیتی کورسز منعقد کرواچکے ہیں۔
بکریاں،مرغیاںاورپرندے پالنے سے مچھلی کی افزاش آسان ہے
بکریوں اور مرغیوں یا پرندوں کے مقابلے میں مچھلیوں کی پرورش آسان اور کاروباری لحاظ سے فائدہ مند ہے کیونکہ 6 ماہ کے دوران ایک مچھلی کی پرورش پر 80 روپے کی لاگت آتی ہے جو نصف کلو تک اپنا وزن بڑھاچکی ہوتی ہے یہ مچھلی مارکیٹ میں باآسانی 300 روپے کلو تک فروخت ہوجاتی ہے چھوٹے سائز کی مچھلیاں ایکسپورٹ کے لیے موزوں ہیں جبکہ بڑے سائز کی مچھلیاں مقامی مارکیٹ میں ہاتھوں ہاتھ فروخت کی جاتی ہیں،4 فٹ اونچائی اور 6 سے 7 فٹ چوڑائی کے حامل ٹینک میں 1000کے لگ بھگ مچھلیاں رکھی جاسکتی ہیں تجربہ بڑھنے کی صورت میں یہ تعداد1500تک بڑھائی جاسکتی ہے۔
5 ٹینکوں میں مختلف مچھلیوں کی افزائش شروع کی
مچھلی کی فارمنگ کرنے والے نوجوان شوکت حسین کا کہنا ہے کہ کورونا کی وبا کی وجہ سے ان کا کاروبار متاثر ہورہا تھا س لیے انھوں نے آزمائشی بنیاد پر بائیو فلاک ٹیکنالوجی کے ذریعے مچھلیوں کی فارمنگ شروع کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنی محدود بچت اور والدین کی مدد سے 100گز کے رقبے پر 5 ٹینک بنائے ان ٹینکوں میں مختلف اقسام کی مچھلیوں کی افزائش کے لیے تکنیکی ضرورتوں کو پورا کیا تاہم ناتجربہ کاری کی وجہ سے بھاری نقصان اٹھانا پڑا، اس موقع پر ان کے والدین نے مدد کی اور ہمت بندھائی اس دوران شوکت حسین نے بنگلہ دیش، ویتنام تھائی لینڈ اور چین میں بائیو فلاک کمیونٹی سے رابطے استوار کیے اور ان کی تکنیکی مہارت سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے پراجیکٹ کو آگے بڑھایا۔
بائیوفلاک سے جلدگھروں میں فش فارمنگ شروع ہوجائیگی
بائیو فلاک ٹیکنالوجی کی مدد سے گھروں میں فش فارمنگ پاکستان کو معاشی طور پر مضبوط بناسکتی ہے اور مہنگائی کا شکار شہری اور بالخصوص متوسط طبقہ اس طریقے سے اپنی آمدن میں نمایاں اضافہ کرسکتا ہے،یہ بات شوکت حسین نے گفتگو میں کہی انھوں نے کہا کہ یہ ٹیکنالوجی بڑے پیمانے پر مچھلیوں کی افزائش کے لیے بھی انتہائی کارآمد ثابت ہوسکتی ہے، انھوں نے بتایا کہ کراچی کے شہری اس جانب تیزی سے راغب ہورہے ہیں کیونکہ کراچی میں عمومی طور پر گھروں میں پالتو جانور رکھنے کا رواج ہے جن میں بکریاں اور پرندے شامل ہیں اور بہت سے شہری اس سے روزگار بھی حاصل کررہے ہیں، بائیو فلاک ٹیکنالوجی پر مشتمل فارمز کراچی کے علاقوں لانڈھی ، گلشن معمار اور نارتھ کراچی میں لگ رہے ہیں۔
تالابوں میں مچھلیوں کی فارمنگ پرزیادہ لاگت آتی ہے
پنجاب اور کے پی کے میں ماہی پروری کا رجحان عام ہے تاہم سندھ میں تالابوں میں مچھلیوں کی فارمنگ کی جارہی ہے جس کے لیے زیادہ بڑی اراضی اور سرمایہ درکار ہوتا ہے، یہ بات شوکت حسین نے گفتگو کے دوران بتائی انھوں نے بتایا کہ تالابوں میں کی جانے والی فارمنگ کی لاگت زیادہ ہونے کے ساتھ اس میں خدشات بھی زیادہ ہوتے ہیں بالخصوص مچھلی کھانے والے پرندوں کے ساتھ تالاب کے پانی کو آلودگی سے بچانا اور نمکیات کو مناسب سطح پر رکھنا بھی دشوار ہوتا ہے۔
شوکت حسین نے ان مشکلات کو بائیو فلاک ٹیکنالوجی کی مدد سے دور کرتے ہوئے کم رقبہ پر محدود سرمایہ کاری سے بھرپور منافع کمانے کا ذریعہ بنادیا، تکنیکی مہارت اور تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے پہلے سال انھیں نقصان کا سامنا کرنا پڑا تاہم اس کے بعد 2 سال سے انھیں اس فارمنگ سے کافی فائدہ ہورہا ہے ان کی تیار کردہ مچھلیوں کی زیادہ تر مقدار انڈونیشیا ایکسپورٹ بھی کی گئی اور اب وہ فارمنگ کے چوتھے رائونڈ کی تیاری کررہے ہیں۔
بائیوفلاک سے مچھلیوں کے علاوہ جھینگوں کی بھی افزائش ہوسکتی ہے
بائیو فلاک ٹیکنالوجی کی مدد سے مختلف اقسام کی میٹھے پانی کی مچھلیوں کے علاوہ جھینگوں کی بھی افزائش کی جاسکتی ہے جو مارکیٹ میں ہاتھوں ہاتھ خریدے جاتے ہیں، شوکت حسین نے گفتگو میں بتایا کہ مچھلیوں کی فارمنگ کے لیے مارچ میں نیا بیچ شروع کرنا موزوں ہے تاکہ موسم سرما میں جب مچھلی کی مانگ بڑھ جاتی ہے اچھی قیمت حاصل کی جاسکے۔
مستقبل میں مانیٹرنگ کیلیے جدید سیسنراستعمال کیے جائیںگے
کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں مہارت رکھنے والے شوکت حسین نے بتایا کہ مستقبل قریب میں پانی کی کوالٹی، مچھلیوں کی نگہداشت اور افزائش کی مانیٹرنگ اور ریکارڈ رکھنے کے لیے جدید سینسرز استعمال کرنے پر بھی غور کررہے ہیں جس سے مچھلی کی افزائش کے دوران تمام ڈیٹا سینسرز کے ذریعے کمپیوٹر اور موبائل فون پر دستیاب ہوگا اور فش فارمنگ کرنے والے تیزی سے تمام کام کرسکیں گے ۔
فش فارمنگ کے ٹینک پر 70ہزارخرچ ہوتے ہیں
فش فارمنگ کا ایک ٹینک بنانے پر سول ورک اور پلمنگ کے علاوہ 70ہزار روپے کا خرچ آتا ہے، پانی میں آکسیجن برقرار رکھنے کیلیے استعمال ہونے والے ایکوپمنٹ کو بجلی کی متواتر فراہمی کے لیے سولر سسٹم اور جنریٹر کا بیک اپ فراہم کرنا ہوتا ہے کیونکہ ایکوپمنٹ نہ چلنے کی صورت میں مچھلیاں 3 گھنٹے سے زیادہ نہیں گزارسکتیں، یہ بات شوکت حسین نے گفتگو میں بتائی انھوں نے کہا کہ مچھلیوں کی بہتر افزائش کے لیے فیڈ کے ساتھ چونا، نمک اور مولیسس بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ پانی کو آلودگی سے بچانے کے لیے روزانہ 10لیٹر پانی نچلی سطح سے نکال کر تازہ پانی شامل کیا جاتا ہے اس طرح ٹینک میں جمع ہونے والی آلودگی باہر نکل جاتی ہے انھوں نے ایکوا کلچر کے لیے چھتوں پر ٹینک بنانے کو غیرمحفوظ قرار دیا، شوکت حسین کا کہنا تھا کہ کمزور سریا استعمال کرنے کی وجہ سے چھتیں اتنا بوجھ نہیں اٹھاسکتیں اس لیے وہ کبھی یہ مشورہ نہیں دیتے۔
The post کراچی کا نوجوان مچھلی کی تجارت جدید خطو ط پر استوار کرنے لگا appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3vrOBga