کراچی: طبی ماہرین کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے حوالے سے جن خدشات کا اظہار کر رہے تھے وہ اب حقیقت بن کر سامنے آرہے ہیں ۔
عوام نے حکومت کی جانب سے جاری کردہ ایس او پیز کی جس طرح دھجیاں اڑائیں اس کا خمیازیہ ایک مرتبہ پھر بھگتنا پڑ رہا ہے اور ملک بھر کی طرح صوبہ سندھ میں بھی اب کورونا وائرس کے مریضوں میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت سندھ نے کراچی سمیت صوبہ بھر میں کورونا کیسز تیزی سے بڑھنے کی شرح کو روکنے کے لیے سخت فیصلے کیے ہیں ۔ محکمہ داخلہ کے نوٹیفیکشن کے مطابق تمام سرکاری یا نجی دفاتر اور عوامی مقامات پر ماسک پہننے پر سختی سے عمل کروایا جائے گا، ماسک نہ پہننے کی صورت میں جرمانہ کیا جائے گا۔
شادی کی اِن ڈور تقریبات پر پابندی ہوگی، شادی کی آوٹ ڈور تقریب میں زیادہ سے زیادہ 200 افراد کو شرکت کرنے کی اجات ہوگی جو رات 9 بجے تک جاری رہ سکتی ہے جبکہ تقریب کے دوران بوفے سروس کی اجازت نہیں ہوگی اور کھانا ڈبوں میں دینا ہوگا ۔ تمام سرکاری و نجی دفاتر میں نصف عملے کے گھروں سے کام کرنے کی پالیسی پر عمل کیا جائے ۔
وائرس کے ہاٹ اسپاٹ علاقوں میں نسبتاً وسیع اسمارٹ لاک ڈاؤن لگائے جائیں گے جس کے لیے متعلقہ ڈپٹی کمشنرز احکامات دیں گے ۔ تمام اجتماعات کے انِ ڈور مقامات، کاروباری مراکز میں انِڈور جمز، کھیلوں کی اِنڈور سہولیات، سینما اور تھیٹر کے علاوہ مزارات بھی بند کردیے گئے ہیں ۔
ضروری خدمات کے علاوہ تمام کاروباری مراکز جمعہ اور اتوار کو بند رکھے جائیں ۔کاروبار/مارکیٹوں کے اوقات کار صبح 6 بجے سے شام 6 بجے ہوں گے جبکہ ویک اینڈز پر بند رہیں گے۔ ریسٹورنٹس کو رات 10 بجے تک صرف آؤٹ ڈور بٹھا کر کھلانے، کھانا خرید کر لے جانے یا گھروں پر منگوانے کی اجازت ہوگی۔ مذکورہ احکامات 23 نومبر کو جاری کیے گئے جو فوری طور پر نافذ العمل ہوں گے اور ان کا نفاذ 31 جنوری 2021 تک جاری رہے گا جن پر عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں قانونی کارروائی کی جائے گی۔
صوبائی دارالحکومت کراچی اس وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہے، جس کو مدنظر رکھتے ہوئے شہر کے مختلف اضلاع میں اسمارٹ اور مائیکرو اسمارٹ لاک ڈان نافذ کردیا گیا۔ متاثرہ علاقوں میں 3 سے زیادہ افراد کا ساتھ گھومنا منع ہوگا جبکہ گھروں میں تقریبات پر پابندی ہوگی، حکومت سندھ کی ہدایت پر ڈپٹی کمشنرز نے کراچی کے اضلاع وسطی، شرقی، جنوبی ، غربی، کورنگی اور ملیر میں اسمارٹ لاک ڈان نافذ کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیے ہیں ۔
صوبے میں صورت حال اس طرح ہے کہ اب یومیہ بنیادوں پر مثبت کیسز کی تعداد ایک مرتبہ ایک ہزار سے تجاوز کرگئی اور اسپتالوں پر مریضوں کے دباؤ میں اضافہ ہوگیا ہے جبکہ دوسری جانب عوام کی غیر سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ اسمارٹ لاک ڈائون بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ شہریوں کی بڑی تعداد بھی ایس او پیز کی دھجیاں اڑانے میں مصروف ہے، شہریوں کی اکثریت ماسک پہننے کیلیے تیار نہیں ہے جبکہ اچانک سانس کی بیماری میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد میں بھی کئی فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ گزشتہ چند روز میں وینٹی لیٹرز پر موجود افراد کی تعداد بھی دوگنی ہوگئی ہے۔
ادھر وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کی زیر صدارت تمام وزرائے تعلیم کے اجلاس میںکورونا وبا کے بڑھتے کیسزکے پیش نظر26 نومبرسے تمام تعلیمی ادارے بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ تعلیمی اداروں میں 26 نومبرسے 24 دسمبر تک آن لائن تعلیم کا سلسلہ جاری رہے گا۔
25 دسمبرسے 10 جنوری تک سردیوں کی چھٹیاں ہوں گی، جنوری کے پہلے ہفتے میں ریویوسیشن ہوگا جس کے بعد 11 جنوری کو تمام تعلیمی ادارے کھل جائیں گے۔ اس ضمن میں طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ عوام کو بار بار تنبیہہ کی جاتی رہی تھی کہ کورونا وائرس کا پھیلاؤ کا کم ضرور ہوا ہے لیکن اس کا خاتمہ نہیں ہوا ہے لیکن اس کو سنجیدگی کے ساتھ نہیں لیا گیا جس کے نتائج ہم آج بھگت رہے ہیں۔ ان ماہرین کے مطابق موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی وبا کے مزید تیزی کے ساتھ پھیلنے کے امکانات ہیں اور اس مرتبہ مرض کی شدت بھی زیادہ ہے۔
حکومت کی جانب سے جاری کردہ ایس او پیز عوام کے تحفظ کے لیے ہی ہیں ۔ اگر ان پر عملدرآمد نہیں کیا گیا تو معاملات سب کے ہاتھ سے نکل سکتے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ حکومت کو ایک مرتبہ پھر مکمل لاک ڈاؤن کی طرف جانا پڑے جو ملک کی معیشت کے لیے نقصان دہ امر ہوگا۔ اس لیے عوام کو چاہیے کہ وہ کورونا سے بچائو کے لیے احتیاطی تدابیر پر عمل کریں۔احتیاط علاج سے بہتر ہے۔اس طرح کورونا سے محفوظ رہ کر ہم زندگی کے ساتھ معیشت کو بھی بچا سکتے ہیں ۔
کراچی میں نالوں پر قائم تجاوزات کے خلاف بغیر کسی منصوبہ بندی کے شروع کیے جانے والے آپریشن نے اس کی کامیابی پر سوالات اٹھادیئے ہیں ۔ حکومت کی جانب سے فیصلہ کیا گیا تھا کہ نالوں پر قائم مکانات کے رہائشیوں کو متبادل جگہ فراہم کیے جانے کے بعد تجاوزات ہٹانے کا کام شروع کیا جائے گا لیکن محمود آباد کے علاقے میں متبادل فراہم کیے بغیر شروع کیے جانے والے آپریشن نے تصادم کی شکل اختیار کر لی۔ آپریشن شروع ہوتے ہی علاقہ مکین مشتعل ہو گئے اور انھوں نے سرکاری گاڑیوں اور مشینری پر پتھرائو کر دیا جس سے گاڑیوں کے شیشے ٹوٹ گئے جبکہ دو افراد زخمی ہوگئے۔
فلیٹ خالی کرانے کے لیے جانے والی پولیس پارٹی کو بھی مشتعل افراد نے یرغمال بنا لیا جس کے بعد اعلی پولیس حکام موقع پر پہنچے اور تقریبا دو گھنٹے کے طویل مذاکرات کے بعد پولیس پارٹی کو بحفاظت باہر نکالنے میں کامیاب ہوئے۔ اس ضمن میں پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفی کمال کا کہنا ہے کہ متبادل فراہم کیے بغیر شہر بھر میں تجاوزات کے خلاف آپریشن کے مناظر نا صرف حکومتی نااہلی، بے حسی کا ثبوت ہیں بلکہ انتہائی تشویشناک ہے۔ نااہل حکمران مسئلے کو ایک جگہ سے ہٹا کر پورے شہر میں پھیلا کر امن و امان کے مسائل پیدا کر رہے ہیں ۔
جن لوگوں کے گھر توڑے جا رہے ہیں وہ ہوا میں تحلیل نہیں ہو جائیں گے، وہ مریں گے نہیں بلکہ اسی شہر میں کسی اور نالے میں جا بسیں گے۔ ریاست ماں جیسی ہوتی ہے اور چھت فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ جب پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری خود ہی اعلان کر چکے تھے کہ متبادل فراہم کیے بغیر کسی کا گھر نہیں توڑا جائے گا اس کے باوجود آپریشن کا آغاز کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔
ان حلقوں کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ کچھ عناصر چاہتے ہیں کہ تجاوزات کا خاتمہ نہ کیا جائے اور اس عمل کو متنازع بنا دیا جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ماضی میں لیاری ایکسپریس وے کی تعمیر کے تجربے کو مدنظر رکھتے ہوئے نالوں پر رہائش پذیر افراد کی منتقلی کے لیے جامع پالیسی مرتب کی جائے اور اس کے بعد پر امن انداز میں آپریشن کر کے تجاوزات کا خاتمہ کیا جائے بصورت دیگر شہر میں امن و امان کی صورت حال کو سنگین خطرات لاحق ہو سکتے ہیں ۔
کراچی میں سرکلر ریلوے کو جزوی طور پر بحال کر دیا گیا، جس کے بارے میں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ محکمہ ریلویز کی جانب سے ریلوے کی مین لائن پر کئی مرتبہ شروع اور بند ہونے والی لوکل ٹرین سروس ایک بار پھر سرکلر ریلوے کا نام دے کر سپریم کورٹ کو مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ماضی میں کراچی سرکلر ریلوے کے ٹریک میں ماڈل کالونی، ملیر کینٹ، ملیر ہالٹ، ایئرپورٹ، ڈرگ کالونی، ڈپو ہل، کراچی یونیورسٹی ، اردو سائنس کالج، گیلانی اسٹیشن، لیاقت آباد، نارتھ ناظم آباد، اورنگی منگھوپیر، سائٹ ، شاہ لطیف، بلدیہ، لیاری، وزیر مینشن اور سٹی اسٹیشن شامل تھے۔ جس زمانے میں سرکلر ریلوے چلتی تھی اس وقت بھی لانڈھی سے سٹی اسٹیشن تک چلنے والی ٹرین لوکل ٹرین کہلاتی تھی ۔
ادھر سرکلر ریلوے کی بحالی کے نام پر ایک بار پھر لوکل ٹرین سروس چلانے پر شہریوں نے مایوسی کا اظہارکیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ دنیا کی بدترین پبلک ٹرانسپورٹ کا شکار کراچی کے عوام کے ساتھ بھونڈا مذاق کیا گیا ہے ۔ سرکلر ریلوے کی بحالی کے بجائے لوکل ٹرین چلانا سپریم کورٹ اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے جس کا سپریم کورٹ کو نوٹس لینا چاہیے۔
سندھ ہائی کورٹ نے کم عمر آرزو فاطمہ کیس نمٹاتے ہوئے لڑکی کو دارالامان منتقل کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ دوران سماعت آرزو نے ایک مرتبہ پھر اپنے والدین کے ساتھ جانے انکارکردیا۔ عدالت نے حکم دیا کہ محکمہ داخلہ آرزو کی کونسلنگ کا اہتمام کرے اور روزانہ محکمہ داخلہ کی جانب سے کوئی نمائندہ ایک گھنٹہ آرزو سے ملاقات کرے ۔
آرزو فاطمہ کیس کو میڈیا نے بھی نمایاں کوریج دی ہے۔ معاشرے میں اس طرح کے واقعات بہت سے لوگوں کو متاثر کرتے ہیں۔ اصل میں یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ا س طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے پہلے سے موجود قوانین پر عملدر آمد کرائے اور اس کے لیے مزید کسی قانون سازی کی ضرورت ہے تو اس پر بھی سنجیدگی کے ساتھ کام کیا جائے ۔
The post کورونا وباء کا پھیلاؤ روکنے کے لئے حکومت سندھ کے سخت فیصلے appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/2UWi5Sw