کورونا سے بچاؤ اور معاشی بحالی، حکمت عملی سے کام لینے کی ضرورت - KHB Point

کے-ایچ-بی پوائنٹ (ملکی و غیر ملکی تمام خبریں فراہم کرنے والاایک مکمل نیوزپلیٹ فام نیٹ ورک)

تازہ ترین

کورونا سے بچاؤ اور معاشی بحالی، حکمت عملی سے کام لینے کی ضرورت

 اسلام آباد:  نئی امریکی قیادت کے آنے سے پہلے ہی دنیا کے حالات تیزی سے تبدیلی کی جانب بڑھنا شروع ہو گئے ہیں اور مستقبل کی عالمی چوہدراہٹ کی جنگ کیلئے صف بندی نیا رخ اختیار کرنے جا رہی ہے جس سے امریکہ کی نئی قیادت کیلئے نہ صرف داخلی سطح پر بلکہ خارجی سطح پر بھی درپیش چیلنجز بڑھ گئے ہیں۔

یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ امریکہ میں اقتدار کی منتقلی ناخوشگوار انداز میں ہونے جا رہی ہے اور ماضی کی روایات دم توڑنا شروع ہوگئی ہیں۔ سابق صدر باراک اوبامہ کی جانب سے کہا جارہا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو وائٹ ہاوس سے فوج کے ذریعے نکالنا پڑے گا۔

تاہم ابھی اچھی خبر سامنے آئی ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے کڑوا گھونٹ پیتے ہوئے بائیڈن انتظامیہ کو بالآخر اختیارات منتقلی کی منظوری دیدی ہے جس کے بعد کئی ہفتوں سے امریکی صدر کی جانب سے جاری ٹال مٹول انجام کو پہنچ گئی ہے لیکن ساتھ ہی ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح کیا ہے کہ جوبائیڈن کے خلاف قانونی جنگ جاری رہے گی جو امریکی نومنتخب صدر جوبائیڈن کیلئے واضح پیغام ہے کہ انہیں اپنے دور اقتدار میں جہاں امریکہ کی عالمی بالادستی قائم رکھنے اور اپنی کارکردگی دکھانے کیلئے عالمی سطح پر شدید چیلنجز سے نمٹنا ہوگا وہیں انہیں داخلی سطح پر اپوزیشن کی مزاحمت کا بھی سامنا کرنا ہوگا۔ یہ تو وقت بتائے گا کہ نو منتخب امریکی صدر کیا روش اپناتے ہیں۔

نئی امریکہ قیادت کے اختیارات سنبھالنے سے قبل امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو دنیا کے اہم دورے پر ہیںاس دوران انکی اہم ملاقاتوں کی خبریں بھی سامنے آرہی ہیں اور اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نتن یاہو اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی مبینہ ملاقات کی خبریں  عالمی میڈیا و پاکستانی میڈیاو سوشل میڈیا پر گرما گرم بحث کا محور بنی ہوئی ہیں۔

اس مبینہ ملاقات کے پاکستان پر ہونے والے اثرات پر پاکستان میں ٹاک شوز اور سوشل میڈیا پر پاکستانی و غیر ملکی میڈیا کی جانب سے تبصرے سامنے آ رہے ہیں اور یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا پاکستان کو اپنی اسرائیل پالیسی میں تبدیلی لانی چاہیے؟ اور بعض حلقوں کی جانب سے تو یہ تک کہا جا رہا ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے پاکستان پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے شدید دباو ہے اور اسی معاملہ پر پاکستان و سعودی عرب کے درمیان تعلقات انتہائی اہم اور خطرناک موڑ پر آگئے ہیں اور یہ بھی اطلاعات آرہی ہیں کہ کپتان عمران خان اور سعودی رہنما محمد بن سلمان کے درمیان فاصلے بہت بڑھ گئے ہیں اور اسی وجہ سے کپتان کا سعودی عرب کا دورہ شیڈول نہیں ہو پا رہا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ملک کی عسکری قیادت کی جانب سے بھی اس معاملے پر سخت پیغام دیا گیا ہے۔

سفارتی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سعودی عرب کو ایران اور ترکی کے ساتھ پاکستان کی قربت بھی برداشت نہیں ہے اور ایرانی وزیر خارجہ کے حالیہ  بیان  نے بھی پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان  رنجشوں کو بڑھوتری دینے کیلئے جلتی پر تیل کا کام دکھایا ہے۔

دنیا کی نظریں اس وقت نئی امریکی قیادت اور ان کی پالیسیوں پر ہیں ہر ملک اس وقت اپنی خارجی پالیسی پر کام کر رہا ہے اور ہمارے ہاں اپنی سیاسی لرائی ہی ختم نہیں ہو رہی اپوزیشن اور حکومت کسی ایشو پر بھی ساتھ نہیں، ہمیشہ سے یہی ہوتا رہا ہے اور اس کا نقصان بعد میں پاکستان کو ہی اٹھانا ہوتا ہے، جلسے جلوسوں کی سیاست اور آپس کی لرائی سے باہر نکل آنا ہی بہتر ہوگا۔

ا بھی بھی وقت ہے کہ حکومت اور اپوزیشن مل کر خارجہ پالیسی کے معاملے پر ایک ہو جائیں  اسی میں ملک و قوم کی بھلائی ہے لیکن ایسا ہوتا ابھی دکھائی نہیں دے رہا، بلکہ گلگت بلتستان انتخابات کے بعد تو سیاست میں تشدد کا عنصر بڑھتا دکھائی دے رہا ہے اور گلگت بلتستان میں انتخابات کے متنازعہ ہونے کے بعد ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں۔

جلاو گھیراو کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے جسے روکنا ہوگا، ورنہ یہ آگے چل کر پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا کیونکہ پشاور کے پی ڈی ایم کے جسلے میں اپوزیشن کی تمام قیادت اپنے تیور دکھا چکی ہے اور اس جلسے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو بھی میاں نوازشریف کے بیانئے پر عمل پیرا دکھائی دیئے۔ اسی طرح محمود خان اچکزئی اور  سردار اختر مینگل کے لب و لہجے کی تلخی بھی بہت بڑھ گئی ہے جبکہ مولانا فضل الرحمٰن  تو پہلے سے ہی  توپوں کا رخ  مخالفین پر کئے ہوئے ہیں۔

بلاول بھٹو جنوری میں حکومت کے جانے کی پیشنگوئی کر چکے ہیں اس کیلئے اب اپوزیشن اور حکومت کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے جو بھی ہونا ہے وہ دسمبر میں ہونا ہے۔ دسمبر بہت اہم ہے یہ ملک کے سیاسی مستقبل کے رخ کا تعین کرے گا اور مارچ میں سینٹ کے انتخابات ہونے جا رہے ہیں اس سے پہلے اپوزیشن کی پوری کوشش ہوگی کہ حکومت کا بوریا بستر گول کردیا جائے اور اگر ایسا نہ ہو سکا تو حکومت پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہو جائے گی۔ ابھی اپوزیشن رہنماوں کی سختیاں کم نہیں ہوئی ہیں کہ اس کے بعد یہ مزید بڑھ جائیں گی  بلکہ ابھی میاں نوازشریف کی  برطانیہ سے واپسی کے حکومتی رہنماوں کے دعوے بھی زور پکڑنا شروع ہوگئے ہیں۔

حکومتی اہم رہنما شہزاد اکبر نے اپنے حالیہ انٹرویو میں بھی کہا ہے کہ نوازشریف کو برطانیہ سے ہر حال واپس لایا جائیگا۔ دوسری جانب نواز شریف اپنے بیانیہ سے کسی طور پیچھے ہٹنے پر آمادہ دکھائی نہیں دے رہے ہیں اور اب تو مقتدرحلقوں کی جانب سے عمران خان کے حوالے سے یہ سوچ جنم لینا شروع ہوگئی ہے کہ عمران خان کے اقتدار میں ہوتے ہوئے کیسے ایک ادارے کے بارے میں نوازشریف کا بیانیہ پھل پھول رہا ہے یہ کہیں کہانی کچھ اور تو نہیں ہے۔ دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پی ڈی ایم اپنے جلسوں کے تسلسل پر اصرار کے ذریعے عوام اور معیشت کو جان بوجھ کرخطرے میں ڈال رہی ہے۔

یہ لاکھوں جلسے کر لیں لیکن انہیں کوئی این آر او نہیں ملے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں کورونا کی وباکی دوسری لہرکے اعداد و شمار تشویش نا ک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فی الوقت پوری دنیادوسری لہرکی زدمیں ہے اوربیشترممالک مکمل طور پرلاک ڈاون کر چکے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اگراسی شرح سے کیسز بڑھتے رہے تو ہم مکمل لاک ڈان کی جانب بڑھنے پر مجبور ہوں گے اورنتائج کی ذمہ دار پی ڈی ایم پر ہوگی۔

دوسری جانب سیاسی محاذ پر پی ڈی ایم کے تحت ہلچل مچی ہوئی ہے ۔ اقتصادی محاذ پر حکومت کو بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بیروزگاری جیسے گمبھیر مسائل کا سامنا ہے۔ اس تمام صورتحال میں حکومت آئی ایم ایف کے قرضہ پروگرام کی بحالی کے لیے کوشاں ہے، جبکہ اس ادارے کی جانب سے کچھ ادارہ جاتی اصلاحات کے ساتھ بجلی اور گیس کے نرخ بڑھانے کی شرط بھی دہرائی جا سکتی ہے۔ حکومت آئی ایم ایف کی کچھ شرائط کی پہلے ہی تکمیل کر چکی ہے۔کورونا کی دوسری لہر شدت پکڑ رہی ہے اور حکومت نے کاروباری اوقات میں کمی کردی ہے۔

تاہم اب حکومت کے لیے سخت پابندیوں کا نفاذ آسان نہیں رہا کیوں کہ کاروباری طبقوں نے شور مچانا شروع کردیا ہے۔ ہر روز بڑھتی ہوئی مہنگائی غریبوں کے مصائب میں تیزی سے اضافہ کر رہی ہے۔ اگر یہ صورتحال برقرار رہتی ہے تو معیشت جمود کا شکار ہو جائے گی لہٰذا کورونا کے معاملہ پر اپوزیشن اور حکومت کو سیاست کرنے کی بجائے سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور حکومت کو حکم کی بجائے حکمت عملی سے کام لینا ہوگا۔

The post کورونا سے بچاؤ اور معاشی بحالی، حکمت عملی سے کام لینے کی ضرورت appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/39bY4Q6