دنیا بھر میں لوٹ مار کے واقعات اور فراڈ کی مختلف شکلیں عام ہیں۔
فرد اور گروہ کی شکل میں سادہ لوح لوگوں کو کسی اسکیم کا جھانسا دینا اور راتوں رات مال دار بنا دینے کی باتیں کر کے ان کی جمع پونجی سے محروم کر دینا کوئی نئی بات نہیں۔ ہندوستان میں بھی کئی ایسے افراد اور ان پر مشتمل گروہ مشہور ہیں جو کسی نہ کسی طرح لوگوں کو ٹھگتے رہے ہیں۔
ان کی جانب سے کچھ اس طرح مالی لالچ دیا جاتا کہ لوگوں کی آنکھوں پر پردہ ہی پڑ جاتا اور وہ اپنی رقم، زیورات اور دیگر قیمتی سامان تک ان کے حوالے کر دیتے۔ ایسے فراڈ کرنے والے گرفتار بھی ہوئے اور انہوں نے قید بھی کاٹی، مگر بعض فراڈ کرنے والے کبھی قانون کی گرفت میں نہیں آسکے۔ بعض فراڈ تو ایسے ہیں جن کا دنیا بھر میں چرچا ہوا اور لوگ حیران رہ گئے جب کہ قانون بھی ان کی گرفتاری کے حوالے سے مشکل سے دوچار ہو گیا۔
ہم یہاں چیکو سلواکیا کے ایک مشہور ٹھگ وکٹر لسٹنگ کا تذکرہ کر رہے ہیں جو 1890ء میں پیدا ہوا۔ وہ ذہین، پراعتماد اور بروقت فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ اسے کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ اسے جس فراڈ کے باعث بے پناہ شہرت ملی وہ مشہور زمانہ ایفل ٹاور کی نیلامی کا ہے۔
اس کا پہلا ’’کارنامہ‘‘ ایک نوٹ چھاپنے والی مشین تھی۔ مشین کے کامیاب تجربے نے نفع کے خواہش مندوں کو مجبور کردیا کہ وہ بھاری رقم کے عوض اسے حاصل کرلیں اس کی قیمت تیس ہزار ڈالر تک وصول کی جاتی تھی۔ اس مشین کو مخصوص طریقے کے مطابق استعمال کرنے پر سو ڈالر حاصل ہوتے تھے جب کہ چند گھنٹوں کے وقفے کے بعد یہ عمل دہرانے سے مزید دو سو ڈالر مالک کی جیب میں آجاتے۔ تاہم یہ آخری کام یابی ہوتی۔ تیس ہزار ڈالر ادا کرنے والا جب مزید رقم حاصل کرنے کے لئے مشین کو استعمال کرتا تو اسے اصل صورت حال کا ادراک ہوتا۔
جن لوگوں نے لالچ میں آکر اس ٹھگ سے یہ مشین خریدی وہ اپنی رقم کا نصف بھی حاصل نہیں کرسکے۔ تین ڈالر برآمد ہونے کے بعد استعمال کرنے پر مشین میں سے سادہ کاغذ برآمد ہونے لگتا اور متعدد بار کوششوں پر یہی نتیجہ ہاتھ آتا۔ اس طرح ان لوگوں کو معلوم ہوتا کہ وہ بے وقوف بن گئے ہیں اور کسی نے انہیں لوٹ لیا ہے لیکن مشین کے خریدار جب اس جگہ پہنچتے جہاں انہوں نے اپنے لیے یہ منافع بخش سودا طے کیا تھا تو ناکامی اور مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آتا۔ جب تک ان پر فراڈ کا انکشاف ہوتا اس وقت تک وکٹر ان کی پہنچ سے بہت دور نکل چکا ہوتا تھا۔
فرانس میں موسم بہار کی ایک صبح تھی۔ وکٹر اخبار کا مطالعہ کر رہا تھا اور اس دوران اس کی نظر ایسے مضمون پر پڑی جس میں ایفل ٹاور اور اس کے باعث شہر میں پیدا ہونے والے مسائل اور مقامی حکومت کو اس ٹاور کی دیکھ بھال کے حوالے سے درپیش مشکلات کا ذکر تھا۔ اس نے مضمون پڑھا اور جوش سے بھر گیا۔
اس کا ذہن ایک منصوبے کے تانے بانے بن چکا تھا۔ اس ٹھگ نے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک سرکاری عہدے دار کا روپ دھار لیا۔ اس نے لوہے اور دیگر دھاتوں کے چھے بڑے تاجروں کو کاروباری ڈیل کے لیے جعلی سرکاری کاغذ پر تحریر کردہ دعوت نامہ بھیجا۔ تاجروں سے ملاقات طے کی اور اس دوران انھیں بتایا کہ حکومت ایفل ٹاور کی مرمت اور اس کی تزین و آرائش کی مزید متحمل نہیں ہوسکتی وہ اسے اسکریپ کی صورت میں فروخت کرنا چاہتی ہے۔ اس کی چال کام یاب رہی۔
اس سے ملنے والے تاجروں کی تعداد چھے تھی جن میں سے ایک تاجر کے ساتھ معاملات طے پاگئے۔ پھر ہوا یہ کہ رقم سے بھرا ہوا بریف کیس لے کر وکٹر ٹرین کے ذریعے آسٹریلیا روانہ ہوگیا اور ادھر وہ سرمایہ دار اپنے لٹنے کا ماتم کرتا رہا۔ اس نے وکٹر کی تلاش کے ساتھ قانون کی مدد بھی لی لیکن اس کے پاس کوئی ثبوت اور سراغ ایسا نہ تھا جس سے وکٹر کا کھوج لگایا جاتا۔ یوں بھی وہ ملک ہی چھوڑ چکا تھا۔
1907ء میں وہ امریکا پہنچا جہاں اس نے اپنی کئی جعلی اسکیموں پر کام کیا۔ تاہم بدقسمتی اس کے آڑے آگئی۔ وہاں اسے جعل سازی کے الزام میں دھرکر جیل بھیج دیاگیا۔ قید کے دوران بیماری میں مبتلا ہوکر دو دن علیل رہنے کے بعد نو مارچ کو انتقال کرگیا۔
The post نوٹ چھاپنے کی مشین اور ایفل ٹاور appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو » بزنس https://ift.tt/2OnSKfN