لندن: مسلسل ہائی بلڈ پریشر کے مریض اگر بلڈ پریشر کو معمول پر لاکر 120 پر محدود رکھیں تو اس سے عمر کے ساتھ ساتھ دماغی کمزوری، یادداشت میں کمی اور الزائیمر تک لے جانے والی کیفیات کو بڑی حد تک ختم کیا جاسکتا ہے۔ سادہ الفاظ میں بلڈ پریشر کو صحت مند پیمانے تک باندھے رکھنے سے دماغی صلاحیت اور یادداشت میں کمی کا خدشہ 19 فیصد اور ڈیمنشیا کا خطرہ 15 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔
شکاگو میں الزائیمر پر سالانہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے الزائیمر ایسوسی ایشن سے وابستہ پروفیسر ہیدر سنائڈر نے کہا کہ ان کی تحقیق کے حتمی نتائج میں اگرچہ مزید کچھ برس لگ جائیں گے لیکن اب تک کے مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ بلڈ پریشر کو صحتمند سطح پر رکھنا الزائیمر اور دیگر امراض سے بچاؤ میں انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے۔
اس وقت صرف امریکہ میں ہی الزائیمر کے 50 لاکھ سے زائد مریض موجود ہیں اور ان میں سے دو لاکھ مریضوں کی عمر 65 سال سے کم ہے۔ اب تک یہ مرض لاعلاج ہے لیکن صحت مند اندازِ حیات اس کی رفتار کو کم کرسکتا ہے۔ اس ضمن میں سسٹولک بلڈ پریشر انٹروینشن ٹرائل یا اسپرنٹ نامی ایک بہت بڑا سروے کیا گیا ۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اگر بلڈ پریشر 120 یا اس سے کم ہو تو فالج، امراضِ قلب، گردے کے امراض اور دیگر بیماریوں کا خطرہ بہت حد تک کم ہوجاتا ہے۔
اسی وجہ سے اب ماہرین نے صحت مند فشارِ خون کی شرح 120 یا اس سے کم رکھی ہے ورنہ پہلے یہ 140 تک تھی۔ اس مطالعے میں بلڈ پریشر کم رکھنے اور ڈیمنشیا کے درمیان تعلق کا بھی مطالعہ کیا گیا تھا۔ اس کےلیے 9361 افراد کو بھرتی کیا گیا جن کی اوسط عمر 68 تھی۔ ان میں سے نصف کا بلڈ پریشر کسی نہ کسی طرح 120 تک محدود رکھا گیا جبکہ دیگر نصف افراد کو بلڈ پریشر کا معیاری علاج فراہم کیا گیا جسے اسٹینڈرڈ تھراپی کہا جاتا ہے۔
ان میں سے جن افراد نے اپنا بلڈ پریشر 120 یا اس سے کم رکھا گیا تھا ان میں ڈیمنشیا اور الزائیمر کا کوئی امکان سامنے نہیں آیا اور ہائی بلڈ پریشر والے افراد میں ذہنی و دماغی انحطاط کی شرح زیادہ دیکھی گئی۔ اس طرح بلڈ پریشر کو قابو میں رکھنا بہت ضروری ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بلڈ پریشر کی کمی کےلیے باقاعدہ ورزش، نمک کا کم استعمال اور سبزیوں اور پھلوں کا استعمال بہت مفید ہوتا ہے۔
The post بلڈپریشر قابو میں رکھیے اور دماغی امراض سے بچیے appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو » صحت https://ift.tt/2Allm6C