اسلام آباد: حکومت نے قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کو بیرون ملک جانے سے روک کر ملک کے سیاسی منظر نامے میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔
فریقین عدالتوں سے رجوع کر چکے ہیں۔ میاں شہباز شریف نے عدالتی فیصلہ کے باوجود حکومت کی جانب سے بیرون ملک جانے کی اجازت نہ دینے پر توہین عدالت کی درخواست دائر کردی ہے جس میں ڈی جی ایف آئی اے، سیکرٹری داخلہ اور وفاقی حکومت کو فریق بنایا گیا ہے تودوسری طرف وفاقی حکومت نے شہباز شریف کا نام بلیک لسٹ سے نکالنے کا لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔
اب اس معاملے میں عدالت ہی فیصلہ کرے گی مگر ن لیگ کی رہنما مریم اورنگزیب نے اپنے ٹوئٹ میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے اکتوبر 2020 میں نیب کی اپنی دائر کردہ اپیل پر دئے جانے والے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں کہہ چکی ہے کہ میاں شہبازشریف کا نام ای سی ایل پر نہیں ڈالا جا سکتا ہے۔
ادھر نیب کی طرف سے کیپٹن صفدر کے جاری کردہ وارنٹ کو پشاور ہائیکورٹ نے اڑا کر رکھ دیا ہے اور پشاور ہائیکورٹ نے نیب کے جاری کردہ وارنٹ کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا ہے، لگ رہا ہے کھیل دلچسپ مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور اعصاب کی جنگ عروج پر ہے لیکن کپتان اور کپتان کی ٹیم کی توپوں کا رخ شریف خاندان کی طرف ہے ۔
کپتان کے کھلاڑیوں کے درمیان بھی مقابلہ سخت ہے ہر کھلاڑی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتا۔ کچھ ایسا ہی شہباز شریف کا نام ای سی ایل پر ڈالنے کے حکومتی اعلان کے موقع پر دیکھنے میں آیا جب وزیرداخلہ شیخ رشید نے پریس کانفرنس کا انتظام کیا اور پیر کو گیارہ بجے پریس کانفرنس میں وزیرداخلہ نے میلہ لگانا تھا مگر وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اس سے پہلے میاں شہباز شریف کا نام ای سی ایل پر ڈالنے کے حکومتی فیصلے کا اعلان کر کے مزہ کرکرا کردیا۔
جس کا اظہار پریس کانفرنس میں شیخ رشید کی باڈی لینگوئج سے سب کے سامنے تھا۔ تحریک انصاف جب سے اقتدار میں آئی ہے ن لیگ کی قیادت اور ان کی سیاست ختم کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے مگر ن لیگ کی قیادت کا بیانیہ اتنا ہی مضبوط ہوتا جا رہا ہے جو اس بات کا عکاس ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی پوری ٹیم گذشتہ اڑھائی پونے تین سال سے میاں نوازشریف اور ان کی جماعت کی سیاست ختم ہونے کے دعوے ریت کی دیوار ثابت ہوئے ہیں۔ حالات بتا رہے ہیں کہ آج بھی پاکستان مسلم لیگ (ن) پوری طرح کپتان اور اسکی جماعت کے اعصاب پر سوار ہے اور آج بھی ملکی سیاست کا محور پاکستان لیگ(ن) اور نوازشریف ہے۔
اگرچہ کچھ حلقے ن لیگ کی مقتدفر قوتوں کے ساتھ ڈیل طے پانے کی باتیں کر رہے ہیں مگر ملکی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے ایک حلقے کا خیال ہے کہ اگر کوئی ڈیل ہو رہی ہے تو اس کی کامیابی کا انحصار نوازشریف کی رضامندی پر ہے اور بڑے بھائی کو پیکج ڈیل پر منانے کیلئے ہی میاں شہباز شریف لندن یاترا کیلئے روانہ ہونے جا رہے تھے لیکن مریم نواز نے شیخوپورہ میں ن لیگ کے اسیر رہنما جاوید لطیف کی رہائش گاہ کے باہر خطاب میں جس لب و لہجے میں للکار ا ہے مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کا کہنا ہے کہ غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنے والی فیکٹری جب ہارنے لگتی ہے تو دوسرے کو غدار بنا دیتی ہے۔
غداری کے فتوے بانٹنے والوں پر کوئی یقین کرنے کو تیار نہیں ہے سب سے پہلے غداری کا لقب محترمہ فاطمہ جناح کو ملا، نوازشریف اور مریم نواز بھی غدار کہلائے، جس نے حق کی بات کہ وہ غدارکہلایا تو پورا پاکستان غدار ہے۔
مریم نواز کے اس سخت گیر موقف سے تو یو ں لگ رہا ہے کہ میاں نوازشریف ابھی بھی اپنے بیانئے پر دٹ کر کھڑا ہے اور کہا جارہا ہے کہ اگلے چند روز میں مریم نواز اور انکے ہم خیالوں کے بیانئے اور سرگرمیوں میں بھی تیزی آئے گی جس سے ڈیل کے تاثر کی قلعی کھل جائے گی اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ میڈیا میں آکر ن لیگ کی راولپنڈی کے ساتھ صلح ہونے کا بیان دینے پر میاں نواز شریف کی جانب سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ترجمان محمد زبیر سے بھی خفاء ہیں اور ان سے وضاحت طلب کی گئی ہے۔
ادھر سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی مقتدر قوتوں سے کسی خفیہ ڈیل کے مخالف ہیں ان کا کہنا ہے کہ اگر ن لیگ اپنے سے موقف سے پیچھے ہٹی تو اس سے ملک اور ن لیگ دونوں کو نقصان ہوگا اب ایسے میں ن لیگ میں مقتدر قوتوں کے ساتھ مفاہمت کا بیانیہ رکھنے والا دھڑا کس حد تک کامیاب ہو پائے گا یہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے، یہی وجہ ہے کہ اس وقت میاں شہباز شریف ملکی سیاست پر چھائے ہوئے ہیں ۔
اگرچہ میاں شہبازشریف کا نام ای سی ایل پر ڈالنے کے بعد سے پی ڈی ایم اے کے سربراہ مولا فضل الرحمن بھی چپ کا روزہ توڑ کر منظر پر آگئے ہیں اور مولانا فضل الرحمن کا میاں شہباز شریف سے ٹیلی فون پر رابطہ ہوا ہے جس میں دونوں رہنماؤں نے نہ صرف ملکی سیاسی صورت حال پر تفصیلی مشاورت کی بلکہ اسی ماہ ( مئی) کے اختتام پر پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس بلانے پر اتفاق کیا ہے ۔
البتہ مولانا فضل الرحمان جلد دیگر جماعتوں کے سربراہان سے رابطوں کے بعد پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس کی حتمی تاریخ کا اعلان کریں گے ، اب یہ تو وقت بتائے گا کہ مولانا فضل الرمن کیا پی ڈی ایم کے مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے میں کامیاب ہو پائیں گے یا نہیں ، مگر پچھلے کچھ عرصے سے ملکی سیاست میں جو ماحول پیدا ہوا ہے اس سے یوں لگ رہا ہے اب معاملہ متحدہ اپوزیشن سے نکل چکا ہے اور اب پاکستان مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف آنے سامنے آگئے ہیں۔
اب یہ مقتدر قوتوں کا مستقبل کے سیاسی اسکرپٹ کا حصہ ہے یا حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ کھیلی جانیوالی ڈیل کھیل کی کرامات ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی سمیت اپوزیشن کی دوسری جماعتوں اور پی ٹی آئی کے درمیان سرد مہری دیکھنے میں آرہی ہے لیکن پی ٹی آئی کا سارا زور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سیاست کو دیوار سے لگانے پر ہے۔
کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کو میاں شہباز شریف اور ان کے قریبی رفقاء کے مقتدر قوتوں سے رابطوں میں مفاہمت کی پینگیں ڈالنے کی مخبری ہوگئی ہے چونکہ ن لیگ اور مقتدر قوتوں کے درمیان رفاقت کے روح رواں شہباز شریف اور انکے قریبی ساتھی ہیں اور کپتان عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل کی مہارت کے حامل ہر شخص کو اپنے اقتدار کیلئے خطرہ سمجھتے ہیں شائد یہی وجہ ہے کہ کپتان نہ صرف پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما میاں شہباز بلکہ ہر اس شخص و رہنما کو جیلوں اور سیف ہاوسز میں بند دیکھنا چاہتے ہیں جو مقتدر قوتوں کا قرب حاصل کرنے میں کمال رکھتے ہوں اور اب تو پاکستان مسلم لیگ ن اور اسٹیبلشمنٹ میں مصالحت کی کوششوں میں سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار کا کردار سامنے آ گیا ہے۔ چوہدری نثار اور شہباز شریف میں رابطے جاری ہیں۔
ایک سے زائد مرتبہ دونوں کے مابین ملاقات بھی ہوئی ہے۔ چوہدری نثار شہباز شریف کے ساتھ ساتھ سعد رفیق کے ساتھ بھی مسلسل رابطے میں ہیں۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مبینہ طور پر اسٹیبلشمنٹ اور ن لیگ کے درمیان مصالحت کی کوششوں میں چوہدری نثار کا کردار شامل ہے اورڈیل کی صورت میں چوہدری نثارعلی خان اپنی پرانی پوزیشن پر ن لیگ میں واپس آجائیں گے۔
دوسری طرف فلسطین کے مسئلہ پر قومی اسمبلی اجلاس میں فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور مسجد اقصی پر اسرائیلی بربریت کیخلاف متفقہ قرار داد منظور کر لی گئی ہے۔ قومی اسمبلی اجلاس شروع ہوا تو اسپیکر اسد قیصر نے اجلاس فلسطین کے نام کرنے کا اعلان کیا۔
مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان نے معمول کا ایجنڈا معطل کرنے کی قرار داد پیش کی جس کو منظور کرلیا گیا ہے جبکہ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی احتجاج جاری ہے اور عالمی طاقتوں کی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ سلامتی کونسل کے اجلاس میں طاغوتی سامراج امریکہ نے فلسطین کا معاملہ زیر بحث ہی نہیں آنے دیا، اب آ جا کر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی رہ جاتی ہے جہاں اب یہ معاملہ لایا جائے گا ، اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیلئے امریکہ جا رہے ہیں ۔
The post اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کی افواہیں، ن لیگ تبدیلی کا محرک ہو سکتی ہیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3ymg3xo