زباں فہمی نمبر 92
وباء نے جہاں دیگر شعبہ ہائے زندگی کا ستیاناس کیا، وہیں زبان بھی اس سے محفوظ نہ رہ سکی۔ ایسا نہیں کہ زبان کمزور ہے یا اس میں مقابلے کی سکت نہیں، بلکہ معاملہ وہی ہے کہ ہمارے عوام النّاس کی طرح بعض علمائے کرام بھی مختلف مواقع پر کہنے کے عادی رہے ہیں، ’’اسلام خطرے میں ہے‘‘….اس ہیچ مدآں نے ہمیشہ یہی سمجھا اور کہا کہ اسلام نہیں، امت مسلمہ یا مسلمان خطرے میں ہیں۔
اسلام تو ہمارے رب کا پسندیدہ دین ہے، اُسے کیا خطرہ لاحق ہوتا۔ اب آپ کہیں گے کہ صاحب! یہ زبان کی بات میں دین مذہب کی مثال کہاں سے آگئی، تو عرض یہ ہے کہ جس طرح ہمارا دین مستحکم ہے، بعینہ ہماری زبان بھی بہت مستحکم ہے اور ہمارے لیے ایمان کے بعد، حُبّ ِ وطن کی طرح حُبّ اردو بھی اہم ہے۔
اس بات کا اعادہ ضروری ہے کہ ہماری پہچان اسلام، اردو اور پاکستان سے ہے۔ جس طرح ہم مسلمان، خصوصاً اس خطے کے مسلمان اپنی دینی تعلیمات کی عملی تشریح یا توجیہ اپنے حساب سے کرتے ہوئے بقول علامہ اقبالؔ، خود بدلتے نہیں، قُرآں کو بدلنے کی سعیٔ نامشکور کرتے ہیں، اسی طرح جہاں ارد و کا کوئی لفظ معلوم نہ ہو یا مغرب زدگان کو خوش کرنا ہے (کیونکہ اہلِ مغرب کو اتنی فرصت نہیں کہ آپ کو لہجہ بگاڑکر انگریزی بولتے ہوئے دیکھیں یا غلط سلط اردو سُنیں) تو صحیح غلط کی بحث سے قطعِ نظر، فوراً ہی کوئی لفظ، ترکیب، فقرہ، جملہ یا اصطلاح بزبان فرنگی استعمال کرلیتے ہیں۔
پہلے تو کورونا/کرونا سے متعلق مشہور ترین اصطلاح SOPsکا غلط استعمال اس کالم میں کئی بار مذکور ہوچکا، پھر یہ ذکر بھی ہوا کہ ہمارے ایک بزرگ معاصر نے یہ سوال اٹھایا کہ Hand sanitizer۔یا۔مختصراً Sanitizerکو اُردو میں کیا کہا جائے تو خاکسار نے قومی انگریزی اردو لغت کی مدد سے اِسے ’جراثیم رُبا‘ کا نام دیا۔ اب یہ مت کہیے گا کہ یہ تو اور بھی مشکل ہے۔
فرنگی زبان کے اکثر الفاظ وتراکیب، اس سے کہیں زیادہ دقیق ہیں (یہ رُبا بھی بہت مشہور ہے جیسے دل رُبا یعنی دل لے جانے والا، محبوب۔ فارسی میں رُباییدن کا مطلب ہے اغوا۔ ہم لوگ ربائیدن لکھتے آئے ہیں، مگر اَب جدید ایرانی فارسی میں رُباییدن ہی ہے)، پھر بحث چھِڑی اور کئی بار متعدد مقامات پر یہ بات ہوئی کہ Social distancingکا اُردو مترادف کیا ہوگا۔ سیدھا سا جواب ہے کہ یہ ’لوگوں سے دوری‘ یا لوگوں سے فاصلہ ہے (قربت کی ضد فاصلہ، قریب /نزدیک کی ضد دُور)۔ Quarantine تو پہلے ہی سے قرنطینہ ہوچکا ہے۔ ویسے تنہائی یا تخلیہ بھی استعمال ہوسکتا ہے، مگر کیا کریں ’فادری‘ زبان کا نشہ بہت بُرا ہے۔ آگے بڑھیں۔
روزانہ ہمارے ٹی وی چینلز ایک ہی طرح کی خبریں سناتے اور دکھاتے ہیں، وہی اخبارات کی زینت بن جاتی ہیں۔ انداز کچھ اس طرح ہوتا ہے: حکومت نے (یا فُلاں فُلاں نے) کہا ہے کہ فُلاں تاریخ سے تمام کاروبار بشمول ریسٹورنٹس[Restaurants] ، مارکیٹیں[Markets]، شادی ہال، بینکوئٹ[Benquet] بند رہیں گے۔
اِن ڈور [Indoor] اور آئوٹ ڈور [Outdoor] دعوتوں/کھانے پر پابندی ہوگی۔ صرف Take away/Home delivery کی اجازت ہوگی۔ پہلی بات، کئی بار دُہرانے کے باوجود، پھر دُہرانی پڑ رہی ہے کہ فرینچ لفظ غیستوغاں ہے، انگریزی میں ریسٹوراں ہے اور اردو میں ریستوراں۔ بازار کے ہوتے ہوئے مارکیٹ پھر مارکیٹیں کہنے کی کیا ضرورت ہے؟ برطانوی اور امریکی انگریزی میں Bazaar موجود ہے، مگر یہاں بھی کچی پکی انگریزی جاننے والے پاکستانی Bazar لکھ دیتے ہیں، جب شادی ہال کہہ دیا، لکھ دیا تو Banquet halls کی کیا ضرورت ہے؟
Indoor اور Outdoor کھانے کی بجائے کہہ دیں کہ گھر/ہال کے اندر یا باہر کھانا کھانے/دعوت کرنے پر پابندی ہوگی۔Take away/Home delivery کی بجائے کہہ دیںکہ گھرلے جاکر کھانے کی /منگواکر کھانے کی اجازت ہوگی۔ ویسے بات کی بات ہے کہ جب کوئی وباء یا آفت آتی ہے تو ایک عرصے تک (ماقبل یا مابعد) اس کے متعلق قدیم وجدید اِصطلاحات، نیز الفاظ، تراکیب، فقرے، محاورے اور کہاوتیں، زباں زَدِعام رہتی ہیں۔ ایسا ہی کچھ آج سے تقریباً ڈیڑھ سو سال پہلے ہوا جب اردو کا پہلا مشہور ناول ’توبۃ النصوح‘ لکھا گیا۔ توبۃ النصوح جیسے مشہور ومقبول ناول میں اُس زمانے کی ہول ناک بیماری ہیضہ [Cholera] ’’ننانواں‘‘ (نیز نناواں) کے نام سے مذکور ہے۔ اب لگے ہاتھوں اس ناول سے ایک اقتباس پیش کرتا ہوں:
نصوح یوں بھی دل کا کچّا تھا۔ جب اُس نے، اوّل اوّل، ننانوے کی گرم بازاری سُنی تو سَرد ہوگیااور رنگت زَرد پَڑگئی۔ بہ اسبابِ ظاہری جو تدبیریں، اِنسِداد کی تھیں، سب کیں۔ مکان میں نئی قلعی پھِروادی، پاس پڑوس والوں کو صفائی کی تاکید کی، گھر کے کونوں میں لُبان (لوبان) دھونی دے دی۔ طاقوں میں کافُور رکھوادیا۔ جابجا کوئلہ رکھوادیا۔ باورچی سے کہہ دیاکہ کھانے میں نمک ذرا تیز رَہا کرے۔ پیاز اور سِرکہ دونوں وقت (یعنی دوپہر اور رات کے کھانے میں) دسترخوان پر آیا کرے۔
گلاب، نارجیل دریائی (دریائی ناریل)، بادیان (سونف) تمرہِندی (اِملی)، سکنجبِین (شکنجبین کہنا اور لکھنا درست نہیں) وغیرہ وغیرہ، جوجو دَوائیں یونانی طبیب (یعنی حکیم) اس مر ض میں استعمال کرتے ہیں، تھوڑی تھوڑی سب بہم پہنچالیں۔ نصوح نے یہاں تک اہتمام کیا کہ انگریزی (ایلوپیتھک) دوائیاں بھی فراہم کیں۔ کالراپِل کی گولیاں تو وہیں کوتوالی سے لے لیں۔ کالرا ٹِنکچر[Cholera tincture] ، الہ آباد میڈیکل ہال سے رُوپیہ بھیج کر منگوا رکھا۔ آگے سے ایک دوست کی معرفت کلوروڈائن[Chlorodyne] کی دوشیشیاں خریدلیں (یہاں ’’آگے سے‘‘ کا استعمال ذرا مبہم ہے ۔
غالباً مصنف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ نصوح نے اپنے گھر سے کچھ فاصلے پر واقع دکان سے یہ دوالی۔ س ا ص)۔ ایک اخبار میں لکھا دیکھا کہ بنارس میں ایک بنگالی حکیم علاج کرتا ہے اور سرکار سے جو دَس ہزار کا انعامِ موعود ہے، اُس کا دعوے دار ہوا ہے۔ چِٹھی لکھ کر اُس کی دوا بھی طلب کی۔ نصوح کو ایک وجہ تسلی یہ تھی کہ ایک طبیب ِ حاذق اُسی کے ہمسائے میں رہتا تھا۔
یہ لفظ ننانواں کیا ہے۔ اس کے لغات میں معانی ملاحظہ فرمائیے: وہ چیز جس کا نام نہ لینا چاہیے، نام نہ لینے کے قابل، مُنھ کا چھالا/زبان، تالو یا گلا وغیرہ میں نکلنے والے چھوٹے چھوٹے لال دانے جس سے تکلیف ہوتی ہے (زبان ِ دہلی)، جس کا نام لینا اچھا نہ ہو، وہ شخص جس کا نام اس کی خِسّت اور بدی کے سبب نہ لیں، وہ چیز جس کا نام لینا نحوست کی علامت سمجھا جاتا ہو، وہ چیز جس کا نام لینا بُرا خیال کریں، جس کا کوئی نام نہ ہو نیز وہ جس کا نام لینا اچھا نہ ہو، وہ جس سے نفرت کرنی چاہیے، ؎ اس ننانوے کے سدا نام سے پرہیز کرو +نوج پَلّے سے بُوا عشق کا آزار بند ہے (جان صاحبؔ)۔ وہ جس کا نام لینا برا یا بدشگونی سمجھا جاتا ہو، منحوس، قابل ِنفرت؛ (مجازاً) ہیضے کی بیماری۔ عورتوں کی مخصوص بولی میں دردِ سر، چُڑیل، بھُتنی، کنجوس اور منحوس عورت۔ ]توبۃ النصوح کے علاوہ، کتاب شاہد رعنا میں ’’انہیں دنوں میں دہلی میں ننانواں پھیلا‘‘۔
(۱۸۹۶ء)[۔ مترادفات: ہیضہ، تُخمہ، تبخالہ۔ (نوراللغات جلد دوم، فرہنگ آصفیہ جلد دوم، مہذب اللغات، نیز آن لائن لغات بشمول اردو لنِک، ریختہ ڈکشنری، اردوبان)۔ اردو لغت بورڈ کی مختصر اردو لغت میں نناواں تو شامل نہیں، البتہ ننانوِیں، مؤنث صنف دیا گیا ہے اور معانی یوں درج ہیں: (چیز) کسی کا نام لینا بُرا یا بدشگونی خیال کیا جائے;منحوس، منحوس نیز بخیل عورت، مجازاً چُڑیل، بھُتنی، پچھل پائی۔ فرہنگ آصفیہ اس کی تصدیق کرتے ہوئے مزید بیان کرتی ہے بیگماتِ قلعہ معلّیٰ کی زبان میں وقت ِنَزع پڑھی جانے والی سورہ یٰسین کے وِرد کو بھی نِنانوِیں کہتے ہیں۔ ننانوِیں بمعنی چُڑیل، بھُتنی، پچھل پائی کی جمع ہے: نِناویاں۔ {حیرت انگیز بات ہے کہ S.W.Fallon کی مشہورِزمانہ Law and Commercial Dictionary Hindustani-English(مطبوعہ ۱۸۷۹ء)، نیز راجہ راجیسور رائو اصغرؔ کی ہندی اردولغت میں ننانواں/نناواں کا ذکر نہیں۔ جامع اردو فیروزاللغات کے مرتبین نے بھی بہت اختصار سے یہ اہم لفظ بھگتادیا ہے}۔
ایک دور تھا کہ لوگ بیماریوں خصوصاً مُہلک امراض کا نام بھی لینے سے ڈرتے اور ڈراتے تھے۔ ہیضہ عرف نِنانواں یا نناواں بھی اس میں شامل تھا۔ ایک روایت ِحدیث میں بھی یہ فرمایا گیا کہ کھانا کھاتے وقت کسی بیماری کا نام نہ لو۔ یہ گویا کسی بھی نفسیاتی اثر کے امکان کو کم کرنے کے لیے ہے۔ ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ ناصرف اس خاص وباء کے ماحول میں، بلکہ عمومی طور پر ہمارے یہاں جا بے جا انگریزی الفاظ، تراکیب، محاورات، ضرب الامثال اور فقرہ جات کا اردو میں بے دریغ استعمال یوں ہوتا ہے کہ گویا یہ بھی ہماری زبان کا حصہ ہوں۔ یہ کہنا بہت آسان اور تکنیکی لحاظ سے غلط ہے کہ اس ’لشکری‘ یا محبت سے لبریز زبان میں دنیا کی ہر زبان کا ہر لفظ، زبردستی داخل کیا جانا کوئی بُری بات نہیں۔ شعوری اور لاشعوری تداخل اور شمولیت میں بہت فرق ہے۔
ہمارے یہاں لوگ عموماً اپنی کم علمی اور لاعلمی کی خامی پر ڈھکن ڈھکنے کے لیے، انگریزی جھاڑتے ہیں، خواہ غلط ہی ہو۔ جہاں کوئی انگریزی /غیرملکی لفظ یا ترکیب، اردومیں اس حد تک جگہ بناچکا ہو کہ اس کا متبادل ہی دستیاب نہ ہو، کم مستعمل ہو۔یا۔ نامانوس ہو، وہاں تو کوئی حرج نہیں، (جیسے ٹیلی وژن، ریڈیو، وائرلیس، سینما، لائوڈاسپیکر، سوئچ، آن آف، اسکول، کالج ، یونی ورسٹی، کلاس، ٹائم ٹیبل، لیکچر، لیکچرر، پروفیسر، وائس چانسلر وغیرہ)، مگر بصورت ِدیگر، اس سے گریز لازم ہے۔ ابھی اس کالم کی تحریر کے وقت، سعودی عرب میں مقیم، معروف ہندوستانی شاعر، ادیب، ڈاکٹر افروز عالم صاحب کی فون کال آئی۔ انھوں نے اپنے بے تکلف دوستانہ، برادرانہ انداز میں کئی انکشاف کیے۔
انھوں نے بتایا کہ بمبئی کے مشرقی حصے میں بِکنے والا ’’وڑاپا‘‘، اسی شہر کے مغرب میں ’برگر‘ بن جاتا ہے، جب کوئی غریب، کسی کو انگریزی میں دعوت ِخرید دیتا ہے۔ یہ انگریزی سے مرعوبیت وہاں بھی عام ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، گزشتہ چند سالوں سے ہمیں ایک عجیب مسئلہ یہ درپیش ہے کہ کچھ لوگ عربی وفارسی کی لغات سامنے رکھ کر کچھ مروج الفاظ واصطلاحات کے متبادل اردو نام کے طور پر فیس بک، واٹس ایپ اور دیگر ذرایع سماجی ابلاغ کے توسط سے خوب خوب پھیلارہے ہیں۔ ایسی ایک نقل درنقل عام ہونے والی تحریر اور اس پر برمحل اعتراضات، ایک ویب سائٹ سے یہا ں نقل کررہا ہوں جس کا نام ہے، اردو ویب ڈاٹ آرگ:
’’کمنٹ کو اردو میں تعلیق کہتے ہیں اور پوسٹ کو منشور کہتے ہیں، پیج، صفحہ اور گروپ کو مجموعہ کہتے ہیں، انباکس کو خطوط خانہ کہتے ہیں، ٹیگ کو نتھی کہتے ہیں اور کی بورڈ کو تختہ مشق کہتے ہیں‘‘: محبوب الحق۔ ’’کمنٹ کو تبصرہ کہا جا سکتا ہے اور پوسٹ کو مراسلہ کہنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ انباکس کو پیغامات بھی کہا جا سکتا ہے، ٹیگ کو اطلاع بھی کہہ دیا جائے تو چلے گا۔
یاد رہے کہ تکنیکی لحاظ سے آپ کے پیش کردہ متبادلات زیادہ درست ہوں گے تاہم اگر الفاظ روزمرہ زبان کا بھی حصہ ہوں تو شاید اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ کچھ دنوں سے نفاذِ اردو کے حوالے سے غیرسنجیدہ مہم چل رہی ہے، اور اسی سلسلے میں اردو صفحہ نامی پیج، جو مزاح پر مبنی پوسٹس کے لیے مشہور ہے، انھوں نے یہ پوسٹ ڈیزائن کی۔
نفاذِ اردو کا اہم مشن قوم کی ”حسِ مزاح ” کی نذر ہو گیا ہے‘‘: محمد تابش صدیقی۔ ’’تعلیق و منشور وغیرہ عرب سوشل میڈیا سے ماخوذ ہیں۔ اردو میں مقبول متبادل موجود ہیں جو اَصلاً عربی وغیرہ سے ہی ماخوذو مروج ہیں تو ان تکلفات کا بوجھ کیسا۔ یاد پڑتا ہے لفظ (نقطہء)تعلیق ہم نے فزکس میں پڑھا تھا۔ (پوائنٹ آف) سسپینشن کے معنی میں‘‘:سید عاطف علی۔
خاکسارسہیل احمدصدیقی نے اپنے کالم میں ماقبل اس طرح کی کچھ اختراعات کا جواب دیا تھا، پھر میرے اپنے واٹس ایپ حلقوں میں یہ نقل کئی بار پیش ہوئی، لہٰذا اپنا جواب دُہرانا ضروری سمجھتا ہوں: معلوم نہیں کن فاضل نے یہ اصطلاحات ترجمہ کی ہیں یا وضع کی ہیں۔ خاکساراس جسارت سے اتفاق نہیں کرتا۔ تعلیق کے معنی عربی لغت میں دیکھ لیں۔کمنٹ[Comment] تو سیدھاسیدھا تبصرہ ہے یا تأثر ہے۔ پوسٹ[Post] عموماً نقل ہوتی ہے۔ کوئی کوئی طبع زاد[Original] تو فقط تحریر یا نگارش یا نقل لکھناکافی ہے۔
آن لائن گروپ کو[Online group] یا واٹس ایپ گروپ [WhatsApp group] کے لیے حلقہ یا بزم یا محفل یا انجمن کہنا درست ہے۔ ٹیگ [Tag]کرنا، نتھی کرنا کے معنوں میں غلط ہے۔ نتھی کرنا تو منسلک کرنا ہوتا ہے۔ یہ Tag کرنا درحقیقت متوجہ کرنا ہوتا ہے، اس کے علاوہ پیج [Page] کو وَرق، اِن باکس [Inbox]کو خطوط خانہ کہہ سکتے ہیں۔ ای میل کو برقی سندیسہ، خاکسار نے مدتوں پہلے قرار دیا تھا، ایک ویب سائٹ Gawab.com کی تمام اصطلاحات کی اردو میں منتقلی کے وقت;افسوس وہ ویب سائٹ انگریزی ہی میں ختم ہوچکی ہے، شاید عربی میں اب بھی باقی ہو۔ بعض لوگ SMS/Text message کو پیمچہ (پَیَم چہ) یعنی چھوٹا پیام یا پیغام کہتے ہیں، چلیں ٹھیک ہے۔
اصطلاحات سازی کا کام انگریز سرکار کے دور میں دِلّی کالج اور جامعہ عثمانیہ جیسے اداروں اور مابعد ہمارے کئی مشاہیر کے وضع کردہ کثیرذخیرۂ اصطلاحات کے مقبول ومروج نہ ہونے کی ایک وجہ اُن کا عام فہم نہ ہونا بھی ہے۔ اسی ضمن میں ایک رَوِش یہ بھی دیکھنے کو ملتی ہے کہ لوگ کسی بھی محبِ اردو کا امتحان لینے لگتے ہیں کہ اچھا ہر لفظ یا نام اردو ہی کا استعمال کرنا چاہتے ہو تو فُلاں ایجاد یا دریافت یا شئے کو اُردو میں کیا کہتے ہیں۔ یہ امتحان لینے والے جعلی ممتحن اکثر اس قابل بھی نہیں ہوتے کہ اپنے نام کی توجیہ وتفہیم کرسکیں یا بزبان فرنگی اپنا مافی الضمیر ہی اداکرسکیں۔ یہاں ایک محترم دوست جناب سلیم الحق فاروقی کی ایک تحریر بلاتبصرہ نقل کرتا ہوں:
’’ویکسین کو اردو میں کیا کہتے ہیں؟ از سلیم الحق فاروقی: ہمارا قومی مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کے علم میں جو بات نہیں ہوتی ہے اس کے لیے جستجو کرنے کی بجائے آسان راستہ یہ ڈھونڈتے ہیں کہ اس کے وجود سے ہی انکار کرڈالتے ہیں۔ مجھے اکثر ایسے لوگ ٹکرا جاتے ہیں جو میری اردو کے سلسلے میں ٹوٹی پھوٹی خدمت کی آزمائش کے لیے اس قسم کے سوالات کرکے اپنے تئیں مجھے شرمندہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مثلاً
یہ بتائیں پانی پینے والے گلاس کو اردو میں کیا کہیں گے؟ یا ریل کو اردو میں کیا کہیں گے؟ آج کل مجھے ویکسین کی اردو پوچھ کر آزمائش میں ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسے لوگوں سے میں کہتا ہوں تھوڑا تردد کرلیں کوئی مستند انگلش سے اردو ڈکشنری دیکھ لیں۔ مثلاً بابائے اردو مولوی عبد الحق یا ڈاکٹر جمیل جالبی کی لغت دیکھ لیں یقیناً اس میں آپ کی مراد بَر آئے گی۔
ڈاکٹر جمیل جالبی کی ڈکشنری میں ویکسین کا اردو متبادل ”جدرین” موجود ہے۔ اب اردو لغت میں ”جدرین” کے معنی دیکھیں وہاں ملے گا ” کسی بیماری مثلاً چیچک وغیرہ سے بچاؤ کے لیے اسی بیماری کے زہریلے مادے سے تیار کردہ خصوصی ٹیکہ” گویا کسی لفظ کو اپنانا یا نہ اپنانا، عام کرنا یا پسِ پشت ڈال دینا بالکل الگ معاملہ لیکن اردو اتنی بانجھ زبان نہیں ہے جتنا ہماری جہالت اس کو ثابت کرنے پر تلی ہوتی ہے‘‘۔ اب کیا خیال ہے؟
The post Take awayکی اُردو؟ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/2OBUy9S