سارے رنگ - KHB Point

کے-ایچ-بی پوائنٹ (ملکی و غیر ملکی تمام خبریں فراہم کرنے والاایک مکمل نیوزپلیٹ فام نیٹ ورک)

تازہ ترین

سارے رنگ

’آن لائن‘ امتحانات کا مرحلہ۔۔۔ کتنا مشکل کتنا آسان؟

خانہ پری
ر۔ ط۔ م

پچھلے برس جب ’کورونا‘ کی پہلی لہر تھم جانے کے بعد معمول کے مطابق امتحانات لینے کا اعلان ہوا تو طالب علم سراپا احتجاج ہوگئے اور انھوں نے پرزور انداز میں امتحانات کی منسوخی کا مطالبہ کیا۔۔۔ اور ’کیمبرج سسٹم‘ کے بچوں کے ان مظاہروں میں ملک کی مختلف جامعات کے طلبہ بھی شامل ہوگئے۔۔۔ اور انھوں نے دو ٹوک انداز میں یہ اعلان کیا کہ جب ’پڑھائی آن لائن ہوئی ہے، تو امتحان بھی آن لائن ہی لیجیے۔۔۔!‘

اس کے بعد گذشتہ دنوں ایک بار پھر ’کیمبرج سسٹم‘ کے طلبہ اسی معاملے پر احتجاج کرنے ’کراچی پریس کلب‘ کے باہر پہنچے۔۔۔ جس میں یہی مطالبہ دہرایا گیا۔۔۔ اگرچہ اس کے ساتھ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کا نصاب ہی پورا نہیں ہوا اور ایسے میں اگر امتحانات لیے گئے، تو ان کے نمبر کم ہونے کا خدشہ ہے، جو اعلیٰ تعلیمی مدارج کے لیے نقصان دہ ثابت ہوں گے۔۔۔ طالب علم حلقوں کی جانب سے متواتر یہ اعتراض کیا جاتا رہا ہے کہ ’’جب کلاسیں گھر پر، تو امتحان یونیورسٹی میں کیوں۔۔۔؟‘‘

’آن لائن‘ امتحانات کے ایسے ہی مطالبوں پر ہمارے ثمر بھائی کہتے ہیں کہ یہ استدلال ان کی سمجھ میں نہیں آرہا، سوائے اس کے کہ طلبہ کو امتحانی پرچا ’پُر‘ کرنے میں جو ’’سہولت‘‘ گھر میں حاصل ہو سکتی ہے، اس کا امکان یونیورسٹی میں نہیں۔ ثمر بھائی اِن دنوں ایک نجی جامعہ میں تدریس کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں، انھوں نے ہمیں بتایا کہ وہ بھی گذشتہ دنوں ’آن لائن‘ امتحان کے ایک تجربے سے گزر چکے ہیں۔۔۔ اس لیے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بالکل ناممکن سا امر ہے کہ آپ انھیں نقل یا دیگر مواد دیکھنے سے روک سکیں۔۔۔ اگرچہ گھر کے اندر ’امتحان گاہ‘ کی سخت ہدایات میں یہ امر شامل تھا کہ ان پر کیمرے کا ’چوکھٹا‘ ہمہ وقت اس صورت میں برقرار ہو کہ صرف ان کا چہرہ ہی نہیں، بلکہ وہ مکمل طور پر لکھتے ہوئے دکھائی دیں۔۔۔ اب چوں کہ امتحانی پرچا موبائل پر بھیجا گیا تھا، تو سوالات دیکھنے کے لیے موبائل کے استعمال سے تو نہیں روکا جا سکتا تھا، ایسے میں یہ خدشہ بھی تھا کہ طالب علم امتحانی پرچا دیکھنے کے بہ جائے ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہوں۔۔۔! اور یہ سب بھی اس صورت میں تھا کہ جب طالب علم اور آپ کا انٹرنیٹ اور کیمرا درست طریقے سے کام کر رہا ہو، بے شمار حقیقی اور کبھی مبینہ طور پر بناوٹی جواز بنا کر کئی بار کیمرا بند ہونا اور اس میں تعطل آنا بھی معمول رہا، کیوں کہ اس کے لیے ’گوگل کلاس روم‘ یا ’زوم‘ کی مدد لی جا رہی تھی۔۔۔

رہی بات زبانی امتحان کی تو صرف ایک کیمرے سے ہم یہ کیسے یقینی بنا سکتے ہیں کہ اپنے کمپیوٹر کے سامنے بیٹھا ہوا طالب علم اسکرین کی سمت دیکھتے ہوئے نقل نہیں کر رہا۔۔۔؟ اور اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اس کی کمپیوٹر اسکرین پر نقل کا مواد نہیں یا اس کی اسکرین کے عقب سے اسے کوئی اور فرد مدد فراہم نہیں کر رہا۔۔۔؟ اس کے تدارک کے لیے باقاعدہ کوئی ایسا کیمرا ہو جو امتحانی امیدوار کے عقب میں اس طرح نصب ہو کہ جس میں امیدوار کے سامنے کا منظر، موبائل کی اسکرین اور امتحانی کاپی بالکل واضح طور پر دکھائی دیتی رہے۔۔۔ تب شاید امتحانی عمل میں کچھ شفافیت آسکے!

جس طرح ’آن لائن‘ تدریس ہماری ’فیزیکل کلاس‘ کا متبادل نہیں، ایسے شاید ’آن لائن‘ امتحان لینا تقریباً ناممکنات میں سے ہے، الّا یہ کہ آپ ہر طالب علم کو الگ الگ کوئی گنجلک سا اسائمنٹ کرنے کو دیں، جس کی انٹرنیٹ کے ذریعے بھی مدد ممکن نہ ہو، لیکن اس میں بھی اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وہ کام طالب علم نے خود کر کے دیا ہے۔۔۔؟

ثمر بھائی کہتے ہیں کہ ’بہ حالت مجبوری ’آن لائن‘ کلاسوں میں آپ بہ ذریعہ آواز یا ویڈیو کلاس کو دیکھ پاتے ہیں، ’بورڈ‘ کے بہ جائے اسکرین پر لکھ لیتے ہیں، یا لکھوا لیتے ہیں، لیکن اگر کوئی سوال پوچھا جائے، تو انٹرنیٹ یا کتاب کی مدد لینے سے روکنا ایک مشکل امر ہوتا ہے، یہاں بھی وہی رکاوٹیں اور مسائل سامنے آئیں گے، جو کہ امتحانی عمل کے دوران سامنے آئے۔۔۔‘

حالیہ دنوں کے اِس اہم مسئلے پر ثمر بھائی کی یہ باتیں ہمارے دل کو لگیں، سو ہم نے ’خانہ پُری‘ کے ذریعے اپنے قارئین اور صاحبانِ فکر تک پہنچا دی ہیں۔۔۔

کوّے بھی آپ سے نالاں ہیں۔۔۔!
شفیق الرحمن
کوّے سے ہم کئی سبق سیکھ سکتے ہیں۔ کوّا بڑی سنجیدگی سے اُڑتا ہے ، بالکل چونچ کی سیدھ میں۔ کوّے اڑ رہے ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ شرط لگاکر اڑ رہے ہیں۔ کوّے فکر معاش میں دور دور نکل جاتے ہیں لیکن کھوئے نہیں جاتے۔ شام کے وقت کوئی دس ہزار کوّا کہیں سے واپس آجاتا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ غلط کوّے ہوں۔

کوّا اتنا غیررومانی نہیں جتنا میں اور آپ سمجھتے ہیں۔ شاعروں نے اکثر کوّے کو مخاطب کیا ہے۔ ’’کاکا لے جا ہمارو سندیس‘‘،’’کاگا رہے جارے جارے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ہمیشہ کوّے کو کہیں دور جانے کے لیے کہا گیا ہے۔ کسی نے بھول کر بھی خوش آمدید نہیں کہا۔ بلکہ ایک شاعر نے تو یہاں تک کہہ گیا کہ ’’کاگا سب تن کھائیو چن چن کھائیو ماس‘‘ یہاں میں کچھ نہیں کہوں گا۔ آپ جانیں اور آپ کاگا۔ اگر آپ کوئوں سے نالاں ہیں تو مت بھولیے کہ کوّے بھی آپ سے نالاں ہیں۔۔۔!
کوّے بھی آپ سے نالاں ہیں۔۔۔!

سوال معاشقہ، جواب موسم۔۔۔!
مرسلہ: سارہ یحییٰ، کراچی
ملکہ الزبتھ کی بہن مارگریٹ کے ناکام عاشق ہوائی فوج کے گروپ کیپٹن پیٹر ٹائون سینڈ کوئٹہ آ نکلے۔ وہ چلتن ہوٹل میں مقیم تھے کہ صحافیوں کو پتا چلا۔ دو صحافی 10 بجے وہاں پہنچے اور تعارفی کارڈ اندر بھجوائے۔ مگر ٹائون سینڈ نے یہ کہہ کر ملنے سے انکار کر دیا کہ وہ صحافیوں سے نہیں ملنا چاہتے۔ یہ سن کر دونوں صحافی وہیں دھرنا دیکر بیٹھ گئے، کہ حضرت لنچ کرنے باہر نکلیں گے تو اس وقت قابو آئیں گے۔ چناں چہ ایک بجے کے قریب ٹائون سینڈ باہر نکلے اور دونوں صحافی اس کے پاس پہنچے، مگر وہ صحافیوں کے ہر سوال کے جواب میں موسم کی بات کرنے لگتا۔ دھوپ بہت اچھی ہے۔ یہاں کا موسم بڑا خوش گوار ہے وغیرہ۔ باوجود کوشش کے اس نے اپنے معاشقے کے بارے میں ایک لفظ تک نہیں کہا۔ اس کے پاس سوال معاشقہ کا جواب موسم تھا۔
(صحافت وادی بولان میں از کمال الدین احمد سے ماخوذ)

’’گھر میں رہنا ہو تو ڈرنا ہے
لڑنا نہیں ہے۔۔۔!‘‘

سید مکرم نیاز
ہمارے حبیب لبیب مرزا کہتے ہیں کہ کم بخت وائرس نہ ہوا قربِ قیامت کے آثار پیدا ہو گئے، بھلا بتاؤ، بغیر حلیم کبھی روزے کا تصور بھی کیا تھا؟
پھر وہ دانت کچکچا کر نام بہ نام لتاڑنے لگے:
’’شاہ غوث، پستہ ہاؤس، پیراڈائز، ساروی، کیفے 555، کیفے بہار، حیدرآباد ہاؤس، تاج بنجارہ، نیاگرا، شاداب، نایاب، آداب، رومان، سہیل، باورچی، گرانڈ، کنگ خواجہ، مدینہ، ہائی لائن، محفل۔۔۔‘‘
وہ ذرا سانس لینے رکے تھے کہ ہم نے حلق میں مچلتے ہوئے اشتہا انگیز غراروں پر قابو پاکر کہا ’’بس کرو مرزا، اب روزے کی جان لوگے کیا؟
’’کیا بس کرو میاں؟ کم بختوں نے ایک نامراد فیصلہ کیا کیا، حیدرآباد کی تہذیب، رواج، روایات سب ایک جھٹکے سے بیگن میں ملا دی۔۔۔‘‘
پھر مرزا کی آواز یک بپ یک رقّت انگیز ہوگئی، جب خاتون خانہ کے حوالے سے گھر پر ہی حلیم کی تیاری کا ذکر چھیڑا۔۔۔
ایک غریب مرزا کا کیا ذکر۔ اس ناہنجار لاک ڈاؤن نے حلیم گو نہ کھلائی ہو مگر تمام شوہر حضرات کو حلیم الطبع بننے پر مجبور ضرور کر دیا ہے۔ ونیز یہ فقرہ تو ان دنوں زبان زد عام و خاص ہو گیا کہ ’’گھر میں رہنا ہو تو ڈرنا ہے، لڑنا نہیں ہے!‘‘
تجربے نے یہ تو سکھا دیا تھا کہ تقاضا کرنا ہو تو بچوں کو پٹا کر ان کی معرفت ہی کرنا چاہیے، اسی میں خود کا ذہنی سکون اور گھر کے ماحول کا اعتدال پوشیدہ ہے، مگر برا ہو مرزا کی لن ترانی کا، کچن کی طرف بڑھتی ہوئی بیگم کو اچانک روک کر مودبانہ عرض کیا ’’ہوٹلوں نے تو اس رمضان ہاتھ اٹھا دیے، تو کیا خیال ہے آج آپ کے دستِ مبارک و مہارت کی حلیم سے فیض یاب ہوا جائے؟‘‘
بیگم ٹھٹھکیں، رکیں، پلٹیں، دوپٹہ گلے سے نکال کر کمر کے گرد کسا، پھر اس لہجہ میں فرمایا، جو اب تک کی گھریلو تاریخ کے مطابق، طبل جنگ کی گھن گرج کا مترادف ہوتا رہا ہے ’’معلوم ہے کچھ گوشت کیا دام چل رہا ہے؟ ایک کلو ٹماٹر، آلو، بھنڈی، کدو، پھلیاں لا لیے، تو ختم ذمہ داری۔۔۔؟ ایک تو آپ کی ذرہ سی زیرہ برابر تنخواہ، اوپر سے سرکار کا آدھی تنخواہ کٹوتی کا نادر شاہی حکم اور نواب صاحب کے تقاضے ہیں حلیم، بریانی، خوبانی کا میٹھا، گردہ کلیجی، بھیجہ فرائی، مٹن مغلائی، چکن تندوری، چاکنہ، نہاری، الم غلم۔۔۔!‘‘
انھوں نے منمناتی آواز میں دُہائی دینا چاہی ’’دیکھو بیغم، وہ کچھ ایکسٹرا پیسے بھی تو آنے والے ہیں ناں۔۔۔‘‘
سرکاری نوکری سے ہٹ کر جو چند مقامی مسلم اداروں کے ’آن لائن‘ کام ہم انجام دیا کرتے ہیں، ان کی طرف اشارہ کرنا چاہا۔
’’کہاں کے پیسے۔۔۔؟ کتنے پیسے۔۔۔؟ اور وہ بڈھا وعدہ کرکے دیا ٹائم پر، بڑا بول رہا تھا ناں، رمضان سے پہلے دے دوں گا۔۔۔ دیا پھر؟ اور یہ چند ہزار میں ہوجاتا سب۔۔۔؟ یہ رمضان اور عید کے خرچے۔۔۔؟ اوپر سے روز روز کی نت نئی فرمائشیں آپ کے بچوں کی۔۔۔ یہ ہونا کَتے، وہ ہونا کَتے۔۔۔ گویا ان کے ابّا پیسوں کا جھاڑ اگا رکھے ہیں دالان میں۔۔۔ ہمی اِچ ہیں صبر کر لے رئیں۔۔۔‘‘
پھر بیگم کے ’’صبر کے قصے‘‘ جو شروع ہوئے، تو پرسوں ایک جگہ پڑھا ’قولِ زریں‘ بے تحاشا یاد آیا، لکھا تھا ’’بیوی صبر کرتی ہے، بے انتہا صبر کرتی ہے، مگر اپنے صبر کا بے انتہا ذکر بھی کرتی ہے۔۔۔ کہا جاتا ہے کہ بیویوں کے صبر کے حساب کتاب کے لیے ایک نئی قیامت کا اجرا کیا جائے گا۔۔۔!‘‘
بہرحال صبر کے اس روایتی پند و نصائح کا اختتام عموماً ایک ہی جملے پر ہوتا رہا ہے ’’میں پہلے ہی بولتی تھی، نکو آؤ سعودیہ سے، نکو آؤ، مگر بڑا شوق تھا، قوم کی خدمت کا وطن کی خدمت کا۔۔۔ جیب میں دھیلا نہیں اور چلے قوم کی خدمت کرنے۔۔ اور کرو خدمت۔۔۔‘‘
صاحبو! یہ چند منٹ کی داستان نہیں، زندگی بھر کا خلاصہ ہے، اوکھلی میں سر دیا ہے، تو بھگتیے، برداشت کیجیے، صبر کیجیے۔
’’کب جاتا کی یہ دلیندر۔۔۔‘‘
کوکر کی تیز سیٹی پر بیگم اپنے مہان لیکچر کا اختتامی جملہ پھینکتے ہوئے باورچی خانے کی طرف لپکیں۔
’’میں اور دلیندر۔۔۔؟‘‘ گویا برہمی کے بگولہ نے اڑان بھرنا چاہی۔
کھٹ سے جواب آیا ’’آپ کو کئی کو بولوں گی، لاک ڈاؤن کو بول ریوں۔۔۔‘‘
قصۂ مختصر یہ کہ بیوی بھی عجیب مخلوق ہوتی ہے۔ چیخے گی، چلائے گی، لڑے گی روئے گی، مگر شوہر کی فرمائشیں بھی برابر پورا کرے گی۔ تو یوں تیار ہوئی گھر میں تیارکردہ خاتونِ خانہ کی طویل محنت کا نتیجہ ’مٹن حلیم!‘

کیا آج کل دوستی کو سمجھنا مشکل ہے؟

حبا رحمٰن، کراچی

دوستی ایک بہت خوب صورت رشتہ ہے، جو اگر سچی ہو تو انسان کے ہر برے اور اچھے لمحات میں ساتھ دیتی ہے اور جب دوستی کے رشتے میں مشکلات آتی ہیں، تو اگر ایک نہیں سمجھتا تو دوسرا اس مشکل گھڑی کو سمجھتا ہے اور دوستی جیسے خوب صورت رشتے کو بچاتا ہے، لیکن آج کل اس خوب صورت رشتے کو کوئی نہیں سمجھتا، سب ایک دوسرے کو مطلبی اور خود غرض قرار دیتے ہیں۔۔۔ اگرچہ ایک طرح سے یہ ان کی غلطی بھی نہیں ہے، کیوں کہ کچھ لوگوں نے واقعی اس خوب صورت رشتے کا استعمال کرکے لوگوں سے فائدہ اٹھایا ہے، جن کو یہ لوگ دوست کہتے تھے ان سے جھوٹ بولا ان کا مذاق اڑایا، ان کے پیٹھ پیچھے ان کی برائیاں کیں۔ دوسروں کے لیے ان کے دل میں برائیاں ڈالیں، تو پھر جس کے ساتھ یہ ہوتا ہے، وہ تو بالکل ٹوٹ ہی جاتا ہے۔۔۔ پھر وہ اعتبار کرنے سے بھی کتراتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ لوگ آج کل بے لوث دوستی کو نہیں مانتے، جو کہ غلط ہے کیوں کہ آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں، جو اس رشتے کو دل سے نبھانا جانتے ہیں۔ آج کل لوگوں میں برداشت بھی کم ہے، تو اگر کسی ایک دوست سے کوئی کوتاہی ہو جائے، تو دوسرا اس کو معاف کرنے کو راضی ہی نہیں ہوتا، پھر چاہے وہ روئے دھوئے، معافی مانگے اس کو معاف ہی نہیں کرتا۔ یہ رویہ بھی غلط ہے، کیوں کہ انسان تو خطا کا پتلا ہے۔۔۔ ہاں لیکن اگر وہ بار بار ہی غلطی کرے اور وہی چیزیں دہُرائے، تو پھر ٹھیک ہے، لیکن اگر وہ زیادہ سے زیادہ دو بار غلطی اور ندامت اور پچھتاوے کا اظہار کرے تو پھر یقین کر لینا چاہیے۔۔۔ کچھ لوگ تو اس طرح بھی دوستی پر شک یا توڑنے کی بات کر دیتے ہیں کہ ان کا یا ان کی دوست کسی ایسے فرد سے بات کر رہے ہیں، جو ان کو نہیں پسند اور یہ بچکانہ حرکتیں زیادہ تر اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں دکھائی دیتی ہیں۔ دوستی صرف ایک انسان تک تو محدود نہیں ہوتی، ضروری نہیں کہ آپ کا اگر ایک دوست تو اس دوست کا کوئی اور دوست نہیں ہو سکتا۔۔۔ ایسا ناممکن ہے۔

ہاں اگر وہ آپ سے زیادہ ترجیح دوسرے دوستوں کو دے تو اس کی شکایت کی جا سکتی ہے۔۔۔ لیکن اگر وہ سب کو ایک جیسا رکھتا ہے، تو پھر آپ کو اس کے لیے مشکلات پیدا کرنے کے بہ جائے اس کا ساتھ دینا چاہیے کہ وہ سب کو ایک ساتھ لے کر چل پائے، ورنہ وہ بے چارہ اسی چکر میں غلطیاں کر بیٹھتا ہے کہ ایک دوست کو اگلا نہیں پسند اور دوسرے کو وہ پچھلا۔۔۔ پھر ایک دوسرے کی باتیں چھپانے لگتا ہے اور اس میں لڑائیاں اور اختلافات ہو جاتے ہیں اور پھر وہ دوست خود ہی کی نظروں میں برا بن جاتا ہے اور اپنے آپ کو ہی قصور وار سمجھتا ہے اور یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے کہ لوگ آج کل دوستی کرنے سے گریز کرتے ہیں۔۔۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ایک دوسرے کو دوستی میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں اور ایک دوسرے سے جھوٹ نہ بولیں اور ایک دوسرے کو ’اسپیس‘ ضرور دیں کیوں کہ ایک بار دوستی میں اعتبار آجائے تو زندگی سنور جاتی ہے ۔

The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3tcFwGH