ملک میں کورونا وائرس کی تیسری لہر شدت اختیار کرتی جارہی ہے، ایک دن میں مزید 149 افراد جاں بحق جب کہ چھ ہزار سے زائد مثبت کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ وفاقی وزیر اسد عمر نے بتایا ہے کہ کورونا ویکسین خریداری کے لیے 33.5 کروڑ ڈالر قرضے کے حصول کے لیے حکومت کے عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے مذاکرات جاری ہیں تاہم اس رقم سے چینی ویکسین نہیں خریدی جا سکے گی۔ وفاقی کابینہ پہلے ہی کورونا ویکسین کے حصول کے لیے 15کروڑ ڈالر کی منظوری دے چکی ہے جس میں سے 9کروڑ ڈالر اسلامی ترقیاتی بینک فراہم کریگا،حکومت 60لاکھ ویکسین کا آرڈر دے چکی ہے جو مئی تک پاکستان پہنچ جائے گی۔
درحقیقت کورونا وائرس کا پھیلاؤ انسانی صحت اور زندگی سے جڑا ایک بڑا اور تشویشناک مسئلہ ہے۔ اس وائر س سے بچاؤ کا واحد اور محفوظ راستہ لاک ڈاؤن ہے ، لیکن دوسری جانب لاک ڈاؤن معیشت کے لیے انتہائی مشکلات کا باعث بن جاتا ہے۔
پاکستان میں اکانومی پہلے ہی کھربوں روپے کے قرضوں تلے دبی ہے۔ معیشت کو درپیش چیلنجوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر لاک ڈاؤن سے گریز کیاجاتا ہے تو اس کے بعد احتیاط کے زمرے میں صرف ذمے داری کا احساس باقی ہے جو نہ صرف انتظامیہ بلکہ ہر پاکستانی کو انفرادی طورپر بھی کرنا ہے، لیکن دیکھنے میں آ رہا ہے کہ عوام کی ایک تعداد احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں کر رہی ، یہی وجہ ہے کہ صورتحال بگڑتی جا رہی ہے ، ہم خطرے کی حدود کراس کرچکے ہیں ، لیکن اس کے باوجود ایس او پیز کو پاؤں تلے روند رہے ہیں۔
ملک میں شرح اموات بڑھ رہی ہے، لہذا ہم ان سطورکے ذریعے وفاقی اور صوبائی حکومتوںسے دردمندانہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ بیماری کے پھیلاؤکے ساتھ علاج کے لیے قائم مجموعی انفراسٹرکچر کا جائزہ لیں تاکہ متاثرہ مریضوں کوبروقت طبی امداد دی جاسکے۔ علاج گاہوں میںخدمات کی فراہمی کا نظام بھی بہتر اور محفوظ بنانا ضروری ہے تاکہ نہ صرف مریضوں کو سروسز مل سکیں بلکہ طبی عملہ بھی بیماری سے محفوظ رہے جو اس وقت فرنٹ لائن پر خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ اس ضمن میں علاج گاہوں کے اندر پیشگی انتظامات ناگزیر ہیں تاکہ عین وقت پر آکسیجن بندش جیسے واقعات نہ ہوں۔
ضروری یہ بھی ہے کہ کورونا کے پھیلاؤ پر اسپتالوں میں دیگر امرض کے شکار مریضوں کو محفوظ طورپر علاج کی سہولت حاصل رہے جس کے لیے موثر منصوبہ بندی ناگزیر ہے۔ اسلام آباد کے ڈی ایچ او کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اب تک کورونا کے مشتبہ 9076 بچوں کے ٹیسٹ کیے گئے اور پیدائش سے10سال تک کے 7329بچوں میں کورونا کی تصدیق ہوچکی ہے۔
کوروناوائرس کے باعث عالمی معیشت کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے ،وہ سب کے علم میں ہے، پاکستان کی معیشت بھی گزرے برس کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی غرض سے لگائے گئے لاک ڈاؤن کے باعث بری طرح متاثر ہوئی تھی بہرحال اب یہ خبر آئی ہے کہ مارچ 2021ء میں ملکی درآمدات 3سال کی بلند ترین سطح 5.66 ارب ڈالر پر پہنچ گئی ہیں۔درآمدات میں اضافہ اس امر کا اشارہ ہے کہ کووڈ کی تیسری لہر کے دوران ملک میں اقتصادی سرگرمیاں فروغ پا رہی ہیں۔
تاہم بڑھتی ہوئی درآمدات کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں بھی اضافہ متوقع ہے۔ اہم درآمدات میں چینی، تیل اور گیس، کھادیں، حشرات کش ادویہ، آٹوموبائل، موبائل فون اور صنعتی مشینری اور آلات شامل ہیں۔مارچ 2020ء میں درآمداتی بل کا حجم 3.30 ارب ڈالر تھا جو مارچ 2021ء میں 71 فیصد اضافے سے 5.66 ارب ڈالر کی بلند سطح پر پہنچ گیا ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھنے سے بین الاقوامی ادائیگیوں کی گنجائش محدود ہوجائے گی، جب کہ دوسری جانب پاکستان نے عالمی کیپیٹل مارکیٹ میں یورو بانڈ کے اجراء کو مکمل کرلیا ہے۔
عالمی مارکیٹ میں 5، 10اور 30 سال کے لیے یورو بانڈز جاری کیے گئے ہیں اور ان یوروبانڈز پر 6فیصد 7.375 فیصد اور 8.875 فیصد منافع دیا جائے گا،اچھی بات یہ ہے کہ مارچ میں درآمدات کے ساتھ ساتھ برآمداتی حجم بھی وسیع ہوا ہے۔پاکستان بیورو آف اسٹیٹکس کے مطابق مارچ میں برآمدات 31 فیصد اضافے سے 2.36 ارب ڈالر رہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ درآمدات کے مقابلے میں برآمدات میں اضافے کی رفتار آدھی بھی نہیں ہے۔ بیرون ملک کارکنان کی ترسیلاتِ زر جاری کھاتے کا خسارہ متوازن رکھنے میں مددگار ثابت ہوئی ہیں۔
پاکستان کی وفاقی حکومت نے موجودہ مالی سال کے لیے جی ڈی پی کا ہدف دو فیصد سے زائد رکھا ہے جو کہ گزشتہ مالی سال منفی 0.4 فیصد تک گر گیا تھا۔بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے موجودہ مالی سال میں پاکستان کا جی ڈی پی ایک فیصد تک بڑھنے کی توقع کی ہے تو دوسری جانب عالمی بینک نے ملک کے جی ڈی پی کے منفی ایک فیصد ہونے کی پیش گوئی کی ہے۔ملک میں کورونا وائرس کی وجہ سے معیشت میں پیدا ہونے والے منفی رجحانات کے بعد حکومت کی جانب سے اب دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ملکی معیشت میں بہتری کے آثار پیدا ہونا شروع ہو چکے ہیں اور معاشی بحالی کی وجہ سے جی ڈی پی میں بہتری آرہی ہے۔دوسری جانب پاکستان میں اپوزیشن کی جانب سے گزشتہ مالی سال میں جی ڈی پی کے منفی ہونے پر حکومت کو ہدف تنقید بنایا جاتا رہا ہے۔
خیبر پختونخوا میں نویں تا بارہویں جماعت تک تعلیمی اداروں کو ایس او پیز کے ساتھ کھولنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔تعلیمی اداروں سے متعلق فیصلہ اگلے روز ٹاسک فورس برائے انسداد کورونا کے اجلاس میں کیا گیا۔صوبائی وزیر تعلیم نے بتایا کہ خیبر پختونخوا میں میٹرک امتحانات 21 مئی اور انٹرامتحانات 17 جون سے ہوں گے جب کہ کورونا سے متاثرہ اضلاع میں اول تا آٹھویں جماعت تک کی کلاسز عید تک بند رہیں گی۔
جیسا کہ ہمارے علم میں ہے کہ دسمبر 2019 میں کورونا وائرس کا پہلا کیس اسلام آباد کے شہر میں سامنے آیا اور پھر آہستہ آہستہ یہ مزید پھیل گیاجس کے باعث مارچ 2020 میں مکمل لاک ڈاؤن ہوگیا اس سے نہ صرف کاروبار بلکہ ہمارا معاشی نظام، تعلیمی نظام اور دیگر نظام درہم برہم ہو گئے۔ اب اگر موجودہ حالات کی بات کی جائے تو ہم لوگ خسارے میں جا رہے ہیں۔
ہمارا تعلیمی نظام پہلے ہی تہس نہس ہوا تھا اور اب رہی سہی کسر دوبارہ پوری ہو چکی ہے۔ چند دنوں سے سننے میں آ رہا تھا کہ پاکستان میں کورونا وائرس کی شدید قسم کی لہر دوبارہ آ گئی ہے، جس کی بناء پر ہمارے حکمرانوں کو تعلیمی ادارے دوبارہ بند کرنے پڑے۔ یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ نہ جانے کیوں کورونا وائرس صرف ہمارے تعلیمی اداروں کا ہی دشمن بنا ہوا ہے ؟ جب کہ ہمارا باقی ملکی نظام جوں کا توں چل رہا ہے۔
جلسے ہو رہے ہیں، شادیاں ہو رہی ہیں،ہوٹلوں میں رش ہے،سڑکوں پر انتہا کا رش ہے، لوگ سیر سپاٹے پر جا رہے ہیں ،ادھر کورونا نہیں ہے کیا؟ پاکستان تو پہلے ہی ایک ترقی پزیر ملک تھا تعلیم پہلے ہی نہ ہونے کے برابر تھی وہی سالہاسال ایک ہی نصاب کا رٹہ لگوانا گورنمنٹ اساتذہ کی انتہا درجے کی لاپرواہی اور پھر کورونا نے آ کر سونے پہ سہاگے کا کام کر دیا ہے۔ اس سال کے آغاز سے لے کر اب تک طالب علموں کی تعلیم کا بے حد نقصان ہوا ہے۔ بچوں کو جو کچھ آتا تھا سب بھول گیا ہے۔ اب تو بچوں کا بھی دل نہیں کرتا تھا اسکول جانے کو اور اگر اب تھوڑا سسٹم ٹھیک ہونا شروع ہوا ہی تھا سلسلہ وار مراحل میں بچوں کو اسکول بلوایا جا رہا تھا کہ دوبارہ لاک ڈاؤن ہو گیا ہے۔
مطلب اس پورے سال میں ہماری تعلیم کا معیار صفر رہا۔ اب تو والدین بھی کہنا شروع ہو گئے ہیں کہ گھر رہ رہ کے بچوں کا تعلیم سے دل اٹھتا جا رہا ہے اور یونیورسٹیز کے ایسے طلباء جن کی ڈگری دو سال کی تھی وہ تین سال میں چلی گئی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ان سب میں نہ حکومت کا نقصان ہے نہ گورنمنٹ اساتذہ کا کیونکہ انھیں تو تنخواہیں ملتی ہیں اور ملتی رہیں گی فقط نقصان ہے تو طلباء کا جن کی ڈگریاں کے حصول کا عرصہ لمبا ہوتا جا رہا ہے۔ جن کا گھر رہ رہ کے تعلیم سے دل اٹھتا جا رہا ہے۔ طالب علم کو درست طریقے سے نصاب پڑھانا نئی نسل کی رہنمائی کرنا اساتذہ کا اولین فرض ہے اور طلباء پہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنے اساتذہ کی ہر ہدایات پر عمل پیرا ہوں۔
پاکستان میں کورونا وائرس کی نئی قسم اور تیسری لہر انتہائی خطرناک ہے ، ہم سے اپنے بچھڑ رہے ہیں، بستیاں ویران اور قبرستان آباد ہونے کی ریت چل پڑی ہے ، کوئی دن ایسا نہیں گزرتا ، جو اس وائرس کے نتیجے میں کسی کے انتقال کی خبرسننے کو نہ ملے ، دست بدست گزارش ہے کہ قوم اس بھیانک حقیقت کو نظرانداز نہ کرے ، خدارا احتیاط کا دامن تھام لیجیے، اپنی اور دوسروں کی زندگیوں کی حفاظت کیجیے ، احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہوکر ہی ہم اس مہلک وائرس سے نجات پاسکتے ہیں ۔
The post کورونا وائرس کی شدت، احتیاط کا دامن تھام لیجیے appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3tx4O2z