سارے رنگ - KHB Point

کے-ایچ-بی پوائنٹ (ملکی و غیر ملکی تمام خبریں فراہم کرنے والاایک مکمل نیوزپلیٹ فام نیٹ ورک)

تازہ ترین

سارے رنگ

نام میں تو بہت کچھ رکھا ہے۔۔۔!
خانہ پُری
ر۔ ط۔ م

لوگ کہتے ہیں کہ نام میں کیا رکھا ہے۔۔۔ جب کہ ہمارا خیال ہے کہ نام میں تو بہت کچھ رکھا ہے۔۔۔ واقعہ یہ ہے کہ گذشتہ دنوں ہمیں ایک تقریب میں جانا تھا۔۔۔ ہم نے ایک ’رکشے‘ کو اپنی سواری کیا۔۔۔ اور رکشے والے کو اپنے تئیں ’بہادرآباد‘ چورنگی اور ’عالم گیر روڈ کا پتا سمجھا دیا۔۔۔ اور منزلِ مقصود پر پہنچ کر اُسے روشناس بھی کرایا کہ دراصل یہ کہلاتا ہے ’عالم گیر روڈ‘ اور اس کے ساتھ یہ مشہور ’عالم گیر مسجد‘ بھی واقع ہے اور یہ اتفاق ہے کہ یہاں معروف فلاحی تنظیم ’عالم گیر ویلفیئر ٹرسٹ‘ کا دفتر بھی قائم ہے۔۔۔

سڑک کے کنارے ’عالم گیر ویلفیئر ٹرسٹ‘ کی دسیوں گاڑیاں بھی کھڑی ہوئی تھیں، اسے حیرت سے دیکھتے ہوئے رکشے والے نے پوچھا کہ ’یہ سب اسی ’عالم گیر‘ کی ہیں۔۔۔ جو اسمبلی والا ہے۔۔۔؟‘ یعنی ان کی مراد ’فکس اِٹ‘ کی سرگرمیوں سے شہرت پانے والے آج کے تحریک انصاف کے کراچی سے رکن قومی اسمبلی عالم گیر محسود تھے!

ہمارے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ ’عالم گیر روڈ‘ یا اس ٹرسٹ وغیرہ کے لیے کبھی اس طرح کے التباس کا امکان بھی موجود ہے، جو سادہ لوح رکشے والے کو ہوا تھا۔۔۔ اس کی بات اپنے طور پر بالکل ٹھیک تھی، ہم نے جلدی سے اپنی بوکھلاہٹ پر قابو پایا اور اُسے بتایا کہ ’نہیں، نہیں اس تنظیم اور سڑک سے لے کر اس مسجد تک کسی بھی نام کا عالم گیر محسود سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے، یہ دراصل مغل بادشاہ اورنگ زیب عالم گیر کے نام پر ہے۔۔۔!‘ پتا نہیں وہ ہماری بات ٹھیک طور پر سمجھ پایا یا نہیں، لیکن اس کے جانے کے بعد ہم دیر تک اس کے بے ساختہ سوال کے حوالے سے سوچتے رہے۔

اتفاق سے تقریب میں ہماری ملاقات ’عالم گیر ویلفیئر ٹرسٹ‘ کے ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن ریحان یٰسین سے ہوگئی، ہم نے انھیں کچھ دیر پہلے پیش آنے والا یہ دل چسپ واقعہ سنایا، تو انھوں نے بھی ’عالم گیر‘ کے نام سے جڑے ہوئے اپنے ایک تجربے سے آگاہ فرمایا۔ ہوا یوں کہ کئی برس قبل ’عالم گیر ویلفیئر ٹرسٹ‘ نے جب اسلام آباد میں اپنا کام شروع کیا، تو بہت دنوں تک وہاں لوگوں کی جانب سے بالکل بھی پذیرائی نہ ملی۔۔۔ انھیں اچنبھا ہوا کہ اُس شہر کے لوگوں کی ایسی بے رخی اور اجنبیت کیوں ہے۔۔۔ بعد میں پتا چلا کہ وہاں اس نام کا کوئی بدمعاش ہوا کرتا تھا۔۔۔ اب جب انھوں نے وہاں کام شروع کیا۔

تو لوگ یہی سمجھے کہ یہ بھی اس شخص کی ہی کوئی تنظیم ہے۔۔۔ اس لیے وہ اس سے بہت کِھچے کِھچے رہے۔۔۔۔ تو گویا یہ بات پھر ثابت ہوئی، نام میں واقعی بہت کچھ رکھا ہے۔۔۔ ناموں کے نہ صرف صوتی اثرات ہوتے ہیں، بلکہ ہر نام کا ہی ہمارے ذہن میں کوئی تصور کوئی خاکہ اور عکس بن ہی جاتا ہے۔۔۔ جس پر ہم شاید غور بھی نہیں کرتے، لیکن نام کی کوئی نہ کوئی تصویر ہمارے دماغ میں محفوظ ہو جاتی ہے۔ زندگی کے بہت سے تجربات کے بعد کچھ ناموں کی شبیہہ خراب تو کچھ کی بہت دل نشیں ہوتی ہے۔۔۔

جیسے ہی کوئی نام سنا یا پڑھا جاتا ہے، تو گویا اس کے پیچھے بہت سارے واقعات، کیفیات اور جذبات کا احاطہ کیا ہوا ایک اِبلاغ ہوتا ہے، جو کہیں نہ کہیں ہمارے مزاج، ہماری طبعیت اور ہمارے رکھ رکھائو میں شامل یا اثر انداز بھی ہوتا ہے۔۔۔ اس لیے ہم تو اب یہ بات مان لیے ہیں کہ نام میں بھی واقعی بہت کچھ رکھا ہے۔۔۔!

۔۔۔

نشاط یاسمین خان
اندازہ تو ہوگیا ہوگا کہ عبدالقدوس کھانے پینے کے کس قدر شوقین ہیں، مگر دوسروں کا مال۔۔۔ کیوں کہ ان کا مال کھانے والے ان کے گھر میں کافی موجود ہیں۔ عبدالقدوس نے اپنے بچوں کی تربیت کچھ اس انداز سے کی ہے کہ محلے کے معاملات سے وہ بے خبر رہ ہی نہیں سکتے۔ کچھ محلے کے گھر اس انداز سے بنے ہوئے ہیں کہ اپنے گھر میں کروٹ لو تو پڑوسی کو خبر ہو جاتی ہے۔

رات کو گرمی بہت تھی، میاں صاحب کبھی کمرے میں جاتے، کبھی صحن میں ٹہلنے لگتے۔

عبدالقدوس کے جاسوس نے خبر کر دی کہ ’’چچا نے رات ٹہل کر گزاری ہے۔‘‘

صبح سویرے میاں صاحب کے دفتر جانے سے پہلے آ دھمکے۔
’’لخت جگر نے بتایا ہے کہ چچا کی طبیعت ناساز ہے، رات ٹہل ٹہل کر گزار دی؟‘‘
صاحب کہنے لگے: ’’نہیں یار، طبیعت تو بالکل ٹھیک ہے، مگر رات کو گرمی بہت تھی، اس لیے نیند نہیں آرہی تھی۔‘‘

عبدالقدوس ناراض ہوتے ہوئے بولے ’’میاں بے پروائی اچھی نہیں ہے، یہ علامات تو کسی اور طرف اشارہ کر رہی ہیں۔ تم دماغی کام بھی تو بہت کرتے ہو۔ سارا سارا دن دفتر میں سر کھپاتے ہو، علاج کروائو، نیند کی کمی تو ابتدائی علامات ہیں، بعد میں نسیان کا مرض لاحق ہو جاتا ہے۔‘‘

’’لیکن ہم ڈاکٹروں کے سخت خلاف ہیں، ڈاکٹر ٹیسٹوں کے بہانے ہزاروں روپے اینٹھ لیتے ہیں، پھر کڑوی کڑوی دوائیں کھلا کر ادھ موا کر ڈالتے ہیں۔‘‘
’’ہم تو علاج بالغذا کے قائل ہیں۔ بھابی سے کہہ کر باداموں کا حلوہ بنوالو، یہ دماغ کے لیے بہت مفید ہوتا ہے اور ناغہ مت کرنا، تم بھلکڑ بھی بہت ہو اور بھابھی کو کاموں سے فرصت کہاں ملتی ہے، ہم آجایا کریں گے صبح شام یاد دلانے۔‘‘

لاکھ میاں صاحب انہیں سمجھاتے رہے، گرمی کی وجہ سے نیند نہیں آرہی تھی مگر ان کا اصرار بڑھتا چلاگیا اور ساتھ ایسی ایسی دماغی بیماریوں کے نام لیے کہ ہمیں خود ڈر لگنے لگا کہ اگر ہم نے باداموں کا حلوہ نہیں بنایا، تو خدانخواستہ میاں صاحب ان بیماریوں میں مبتلا نہ ہو جائیں۔
عبدالقدوس صبح وشام میاں صاحب کو باداموں کا حلوہ کھانا یاد دلانے آتے رہے، مگر ساتھ ساتھ وہ یہ مقولہ بھی دہراتے رہے کہ بیمار سے زیادہ تیمار دار کا صحت مند ہونا ضروری ہے۔‘‘

۔۔۔

کیا پس منظر میں رہنے والے ذہین نہیں۔۔۔؟
حبا رحمٰن، کراچی

صدیوں سے ایک روایت چلی آ رہی ہے کہ دنیا میں دو طرح کے لوگ ہیں۔۔۔ پہلے وہ جو اچھے ہیں اور دوسرے وہ جو برے ہیں۔ اسی طرح ایک اور قسم ہے جس میں بقول لوگوں کے دو طرح کے لوگ ہی ہوتے ہیں ذہین اور کند ذہن۔۔۔ جب کہ حقیقتاً ایسا نہیں ہے اس میں ایک اور طرح کے لوگ بھی موجود ہیں، جو عقل مند تو ہوتے ہیں، مگر اپنی عقل مندی اور شعور کو دنیا کے سامنے لانے سے ہچکچاتے اور کتراتے ہیں۔ وہ ذہین تو ہوتے ہیں، مگر اپنی ذہانت کے ’جلوے‘ دکھانے سے گریز کرتے ہیں۔ اس فہرست میں ہر وہ شخص شامل ہے، جس نے کبھی اپنی صلاحیت کو دکھانے کی کوشش کی، مگر اس وقت وہ ناکام ہوگیا اور تب سے وہ اپنی صلاحیتوں کو دوسروں کے سامنے لانے سے گریز کرتا ہے۔

زیادہ تر اس چیز یا اس ڈر کا آغاز اسکول سے ہوتا ہے یا جب وہ انسان چھوٹا ہوتا ہے، تب سے اور اس ڈر کو اسی وقت ختم کر دیا جائے، تو بہتر ہوتا ہے، ورنہ جب دل میں یہ ڈر بیٹھ جاتا ہے، تو انسان اپنے لیے ہی برا کرنے لگتا ہے۔ وہ کبھی آگے نہیں بڑھ پاتا اس کے دل میں ایک خوف سا بیٹھ جاتا ہے کہ اگر میں یہ کہوں گا، تو میرا مذاق اڑے گا یا لوگوں کو برا لگے گا۔ وہ انسان پھر اپنے قدم آگے بڑھانے کے بہ جائے پیچھے کی جانب لے جاتا ہے۔ اسکول میں جس بچے کے دل میں ڈر ہوتا ہے، اس سے جو سوال اس کا استاد پوچھتا ہے، بچہ جواب معلوم ہونے کے باوجود چپ رہتا ہے۔۔۔ یہی چیز کچھ بڑے بچوں کے ساتھ کالج اور یونیورسٹی میں ہوتی ہے اور کچھ کے ساتھ جب وہ نوکری کرتے ہیں، تو وہاں پر بھی ہوتی ہے۔ اس ڈر کا شکار لوگ اپنے دکھوں کو بھی اپنے اندر ہی رکھتے ہیں اور گُھٹ گُھٹ کے زندگی گزارتے ہیں، وہ اپنی قابلیت اور مسئلوں کو کسی کے سامنے لاتے ہی نہیں۔

کبھی کبھار یہ ڈر گھر سے بھی شروع ہو جاتا ہے۔۔۔ گھر کا ماحول، لڑائیاں، بے جا روک ٹوک، بھروسا نہ کرنا، اگلے کی قابلیت پر شک کرنا، بچے پر بلاوجہ کا غصہ کرنا، سب کے سامنے ڈانٹنا، مارنا یہ بھی انسان کی شخصیت کو خراب کرنے میں اور ڈر بٹھانے میں بہت بڑا اور اہم کردار ادا کرتا ہے اور کبھی کبھار تو ماں باپ کو معلوم بھی نہیں ہوتا کہ ہمارے بچے میں کیا قابلیت یا خاصیت ہے کیوں کہ اس بچے کا ڈر اس کی صلاحیتوں کو باہر لانے سے روک دیتا ہے اور جب وہ انسان یا بچہ خاموش رہنے لگتا ہے، تو اس کو یا تو ’بیک نیچر‘ کا لقب دے دیا جاتا ہے یا یہ کہہ کر دُھتکار دیا جاتا ہے کہ تم تو جاہل ہو یا تمھیں تو کچھ آتا ہی نہیں ہے۔ تم تو کوڑھ مغز ہو، تم ہر وقت پیچھے ہی کھڑے رہتے ہو۔

آگے آنے سے ڈرتے ہو۔۔۔ جب کہ وہ بے چارہ ان سب چیزوں سے بالکل الگ ہوتا ہے۔۔۔ اس کو سب پتا ہوتا ہے، مگر بس اس کے اندر کا ڈر اس کو آگے آنے سے روک دیتا ہے۔ اس کا علاج صرف ایک ہی ہے کہ اس پر بھروسا کیا جائے، اگر وہ غلط بھی کہہ رہا ہے، تو اس کا مذاق اڑانے کے بہ جائے اس کو ذرا طریقے اور سلیقے سے یہ بتایا جائے کہ تم نے یہ غلط کہا ہے اس بات کو اس طرح کہہ سکتے ہیں، یا ایسے ٹھیک کر سکتے ہیں، کیوں کہ کوئی انسان مکمل نہیں ہوتا، سبھی غلطیاں کرتے ہیں، بس ہم سب کو چاہیے کہ دوسروں کی غلطیوں پر ہنسنے کے بہ جائے ان کی تصحیح کرنے میں مدد کریں، تاکہ آپ کے رویے سے اس کی شخصیت کو کوئی گزند پہنچے اور نہ ہی اس کی عزت نفس کو نقصان پہنچے۔

۔۔۔

اوپر ’’18 +‘‘
لکھ کر کچھ بھی لکھ دیں۔۔۔؟

نازیہ عباسی، ٹھٹھہ
میں اور میری ایک دوست ’فیس بک‘ پر ایک ادبی گروپ میں شامل ہیں۔۔۔ اس میں ہر عمر کے ہزاروں کی تعداد میں لوگ موجود ہیں، وہاں ناول، افسانے اور شاعری وغیرہ سب چیزیں لگائی جاتی ہیں، جو بعد میں کتابی صورت میں بھی شایع ہوتی ہیں۔ بہت سے نئے اور پرانے لکھنے والوں کے ذریعے وہاں بہت اچھا مواد پڑھنے کو ملتا ہے۔

گذشتہ دنوں وہاں کچھ ایسے ناول نظروں سے گزرے، جن پر ’18+‘ لکھا ہوا تھا۔ اس سے پہلے وہاں کسی بھی مواد پر ’18+‘ لکھا ہوا دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا، میری دوست کو ایسے ہی ایک ناول کا نام اچھا لگا، اس ناول کی ابتدائی قسط پر بہت زیادہ تعریفی تبصرے بھی تھے، اس نے پڑھنا شروع کیا، لیکن جب دوسری کے بعد تیسری قسط پڑھی، تو اسے ادھورا چھوڑ کر مجھے ’میسج‘ کیا کہ تم یہ ناول پڑھتی ہو؟ میں نے کہا نہیں، تو اس نے کہا، پڑھنا بھی نہیں۔ پھر جب میری اس سے تفصیلی بات ہوئی تو اس نے کہا ’’میں حیران ہوں ادب کے نام پر کیسا ’فحش‘ ناول لکھا گیا ہے۔۔۔ مطلب آپ ’اٹھارہ پلس‘ لکھ کر کچھ بھی لکھ دیں۔۔۔ اور اس پر مستزاد ایک خاتون لکھاری نے وہ ناول لکھا ہے اور انھیں ذرا بھی خیال نہیں ہوا کہ وہاں ہر عمر کے مرد و خواتین اور بچے بچیاں موجود ہیں۔۔۔ اور میں نے اس ناول پر کچھ ٹین ایج بچوں کے تبصرے بھی دیکھے۔۔۔ اب سوچیے کہ اس سے ان کے ذہنوں پر کیا اثر پڑے گا؟‘

کیا آپ لوگوں کو لگتا ہے کے ’18+‘ لکھا ہوا دیکھ کر اس سے کم عمر بچے اس کو تجسّس میں نہیں پڑیں گے کہ آخر اس میں ایسی کیا بات ہے، جو ہمیں پڑھنے سے منع کیا جا رہا ہے؟ کیا ایسا ممکن کہ ہر بچہ ایسا ہو جو ’18+‘ لکھا ہوا دیکھ کر نظرانداز کر دے؟ نہیں، ہر بچہ ایک جیسا نہیں ہوتا اور نہ آپ ’18+‘ لکھ کر ہر ذمہ داری سے آزاد ہو جاتے ہیں۔۔۔ ’’یہ تو وہی بات ہوگئی کہ آپ چھوٹے سے بچے کو سانپ کی پٹاری کے قریب بٹھا کر یہ کہہ دیجیے کہ بیٹا اس کے قریب مت جانا، یہ کاٹ لے گا اور اپنے کام میں مصروف جائیں، اب بچے نے خدانخواستہ یہ پٹاری کھول لی اور اسے سانپ نے ڈس لیا، تو کیا اس کا ذمہ دار صرف وہ بچہ ہی ہوگا، کیوں کہ آپ نے تو اسے منع کر کے اپنا ’فرض‘ نبھا دیا ۔۔۔؟‘ یقیناً نہیں۔

آپ کا لکھا ہوا یہ ’18+‘ کا ادب کسی خطرناک زہر سے کم نہیں ہے اور نہ ہی ہر بچہ اتنا سمجھ دار یا باشعور ہوتا ہے کہ جو منع کرنے پر اس کے قریب نہ جائے۔۔۔ یہ بات درست ہے کہ انٹرنیٹ کی فراوانی کے سبب بہت سا قابل اعتراض مواد پہلے ہی موجود ہے، لیکن اس کے باوجود ہمارے اس اقدام کی کوئی دلیل نہیں ملتی۔۔۔ جو چیز جہاں اور جتنی غلط ہے، اس کے حوالے سے بات کی جانی چاہیے۔۔۔
پہلے فیس بک وغیرہ پر ’’18+‘‘ بہت کم جگہوں پر لکھا ہوا ہوتا تھا، لیکن اب اس کا بے جا استعمال ہو رہا ہے، اور کچھ تو ایسا ہی ’ادب‘ لکھتے ہیں، مگر اس کے عنوان کے ساتھ ’18+‘ کی ’تختی‘ ٹانگنا بھول جاتے ہیں، یا جان بوجھ کر نہیں لگاتے، کیوں کہ ’سوشل میڈیا‘ پر لکھنے میں وہ آزاد ہیں، کوئی کچھ کہنے سننے والا جو نہیں ہے۔۔۔ ہمارے اخبارات، میگزین اور رسالوں وغیرہ میں لکھنے کی اتنی زیادہ ’’آزادی‘‘ کہاں ہے؟ لیکن یہاں تو جو دل چاہے لکھ سکتے ہیں۔۔۔ اس لیے یہاں ہمیں خود ہی زیادہ ذمہ داری نبھانے کی ضرورت ہے۔

The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3tY87zy