لاہور: پنجاب کے ’’سائیں‘‘ وزیر اعلی سردار عثمان بزدار کو اپوزیشن کی جارحانہ یلغار کا سامنا ہے اور اس مرتبہ عدم اعتماد کا ہتھیار استعمال کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔
عثمان بزدار کو تبدیل کرنے کی باتیں ان کے وزیر اعلی بنتے ہی شروع ہو گئی تھیں اور ہر دو یا تین ماہ بعد میڈیا میں چند روز تک تبصرے اور خبریں شائع اور نشر ہوتی تھیں کہ عثمان بزدار کو تبدیل کیا جارہا ہے لیکن جیسے ہی وزیر اعظم دورہ لاہور پر آتے، وہ عثمان بزدار کی بھرپور حمایت کا بیان دے کر سب کچھ اچھا کر دیتے تھے۔ گزشتہ ڈھائی برس کے حالات کی بنیاد پر بادی النظر میں یہی لگتا ہے کہ اس مرتبہ بھی چند روز پنجاب میں ہلچل دکھائی دے گی۔
میڈیا میں وزارت اعلی کی تبدیلی بارے امکانات اور افواہیں زوروں پر رہیں گی لیکن پھر اچانک سب کچھ نارمل ہو جائے گا اور سردار عثمان بزدار اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے لیکن تصویر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران ہونے والی سیاسی پیش رفت کے تناظر میں جائزہ لیں تو لگتا ہے کہ اس مرتبہ ’’تبدیلی‘‘ کی باتیں ماضی کے برعکس اس لئے زیادہ توجہ طلب اور اہم ہیں کہ پہلے تحریک انصاف کے اندر سے عثمان بزدار کو تبدیل کرنے کی بات ہوتی تھی لیکن اس مرتبہ سینیٹ الیکشن میں حفیظ شیخ کو شکست دینے والی متحدہ اپوزیشن نے پنجاب میں تبدیلی کا عندیہ دیا ہے اور سردار عثمان بزدار سے ناراض اراکین پنجاب اسمبلی کے رابطے اپوزیشن سے ہو چکے ہیں جبکہ چوہدری برادران مزید اہمیت اختیار کر گئے ہیں ۔
سردار عثمان بزدار کا وزارت اعلی کیلئے انتخاب کس کے کہنے پر ہوا اور شدید ترین سیاسی و انتظامی نقصان سہنے کے باوجود عمران خان کی اندھی حمایت آج تک برقرار کیوں ہے یہ سب سوالات آج بھی جواب طلب ہیں، گو کہ اس حوالے سے کئی اندازے لگائے جاتے ہیں لیکن حقیقت کیا ہے یہ بدستور ایسا راز ہے جو مستقبل میں ضرور کھلے گا ۔ تحریک انصاف، وفاقی وزراء ، اراکین اسمبلی، میڈیا، عوام، اپوزیشن سبھی اس بات پر متفق ہیں کہ سردار عثمان بزدار ڈھائی برس میں وہ کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے ہیں جس کی امید ملک کے سب سے بڑے صوبے کے کامیاب وزیر اعلی سے کی جاتی ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ عمران خان کو پنجاب میں ایک کمزور اور CONTROLLABLE وزیر اعلی چاہیے تھا جو عمران خان کی منشا کے مطابق کام کرے اور خودمختاری کا خواہشمند نہ ہو اور اس کا سیاسی قد کاٹھ اور تنظیمی حیثیت ایسی نہ ہو کہ وہ وزیر اعلی بن کر مزید طاقتور بن جائے ۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے وزیر اعظم پر یہ دباو موجود ہے کہ پنجاب کی وزارت اعلی تبدیل کی جائے لیکن ابھی تک تو عمران خان بہت مضبوطی کے ساتھ اس دباو کو برداشت کرتے چلے آئے ہیں ۔
اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے کہ عثمان بزدار کی وجہ سے پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت عوام کو مطمئن نہیں کر پا رہی اور یہ تمام بدنامی وفاقی حکومت کے کھاتے میں جا رہی ہے ۔ سردار عثمان بزدار کو تحریک انصاف نے آج تک ’’OWN ‘‘ نہیں کیا ہے ، صوبائی وزراء ہوں، اراکین اسمبلی ہوں یا تنظیمی عہدیدار اور کارکن سبھی سردار عثمان بزدارکو ’’نظریاتی انصافین‘‘ نہیں سمجھتے لیکن یہ لوگ عمران خان اور سردار صاحب کے سامنے خوشامد بھری تعریف ضرور کرتے ہیں تا کہ ان کے کام بھی ہوتے رہیں اور ان کا نام ’’اینٹی بزدار گروپ‘‘ میں بھی شامل نہ ہو۔
اگر یہ فرض کیا جائے کہ عمران خان اگر کسی مرحلے پر خود یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ پنجاب میں نیا وزیرا علی لایا جائے تو ا ن کے پاس کیا آپشنز ہیں ۔ سب سے پہلے عبدالعلیم خان کا نام ذہن میں آتا ہے جو اس وقت وزیر اعظم کے نہایت قریب ہیں اور ان کا زیادہ تر وقت اسلام آباد میں ایوان وزیر اعظم یا بنی گالہ میں اپنے کپتان کے ساتھ گزرتا ہے اور الیکشن جیتنے کے بعد عمران خان نے علیم خان کو ہی وزیر اعلی بنانے کا ارادہ کیا تھا جو تین روز بعد تبدیل کر لیا تھا ۔دوسری آپشن وزیر قانون راجہ بشارت ہیں جو اس وقت عمران خان کی گڈ بکس میں شامل ہیں ۔
تیسری آپشن وزیر خزانہ ہاشم جواں بخت ہیں جنہیں ’’وزیر اعلی سٹف‘‘ کہا جاتا ہے ، زلفی بخاری کے کزن صوبائی وزیر یاور بخاری بھی ماضی میں امیدوار قرار دیئے جاتے رہے ہیں لیکن عمران خان شاید ان میں سے کسی کو بھی منتخب نہیں کریں گے اور عثمان بزدار کی طرح کا کوئی ’’سرپرائز‘‘ سامنے آجائے گا جبکہ مسلم لیگ(ق) بھی یہ چاہتی ہے کہ اگر بزدار کو تبدیل کرنا ہے تو چوہدری پرویز الہی کو وزیر اعلی بنایا جائے ورنہ بزدار کو مت ہٹایا جائے ۔
چوہدری پرویز الہی کو وزیر اعلی بنانے پر عمران خان کبھی رضامند نہیں ہوں گے اور شاید تحریک انصاف بطور جماعت بھی اس کی حامی نہ ہو لیکن چوہدری برادران نرمی دکھائیں تو شاید اپوزیشن انہیں ووٹ دینے پر متفق ہو جائے لیکن حمزہ شہباز ماضی میں جس شدت کے ساتھ چوہدری پرویز الہی کی مخالفت کرتے رہے ہیں اس تناظر میں ن لیگ کا ووٹ بنک تقسیم ہو سکتا ہے۔ چوہدری برادران کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے خصوصی تعلقات ہیں اس لئے جب تک اسٹیبلشمنٹ نہیں چاہے گی مسلم لیگ(ق) پنجاب میں تبدیلی کی حمایت نہیں کرے گی ۔
مریم نواز دو روز قبل یہ موقف اختیار کر چکی ہیں کہ پنجاب میں بزدار کو ہٹا کر تحریک انصاف کا ہی وزیر اعلی لانے سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا۔ مسلم لیگ(ن)کی ذاتی خواہش تو یہ ہے کہ حمزہ شہباز کو وزیر اعلی کا امیدوار بنایا جائے لیکن موجودہ سیاسی صورتحال میں شاید ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ ’’بادشاہ گر‘‘ حلقوں کی جانب سے اس کی مخالفت کا اندیشہ موجود ہے ۔پنجاب اسمبلی میں نمبر گیم بہت دلچسپ ہے ۔تحریک انصاف کے پاس 181 اراکین ہیں اور اسے مسلم لیگ(ق) کے 10 ارکان کی حمایت حاصل ہے ،یوں حکومتی اتحاد کی تعداد 191 ہے جبکہ مسلم لیگ(ن) کے پاس 165 جبکہ پیپلز پارٹی کے 7 اراکین ہیں۔
تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ن) دونوں میں فارورڈ بلاکس موجود ہیں اور ان کی’’نمائش‘‘ گزشتہ دنوں کی جا تی رہی ہے اسٹیبلشمنٹ بھی اس وقت ’’ مارو نہیں گھسیٹو‘‘کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اس لئے وہ بھی کوئی انتہائی اقدام نہیں کرکے عمران خان کو اس حد تک ناراض نہیں کرے گی کہ کپتان اسمبلیاں توڑ ڈالے یا اپنا استعفی دینے کے بعد اسٹیبشلمنٹ کے خلاف میڈیا ٹرائل شروع کردے ۔ تمام صورتحال کا تجزیہ کرنے اور باخبر حلقوں سے حاصل معلومات کے بعد بطور صحافی میری رائے یہ ہے کہ سردار عثمان بزدار کو مستقبل قریب میں کوئی سنگین خطرہ لاحق نہیں ہے، ابھی چند روز کھینچا تانی ہو گی ، چٹ پٹی خبریں چلیں گی ، وزارت اعلی کے کچھ امیدوار لابنگ کریں گے لیکن پھر سب کچھ معمول پر آجائے گا اور عثمان بزدار وزارت اعلی کے منصب کو انجوائے کرتے رہیں گے ۔
یہ بھی یقینی ہے کہ بہت جلد پنجاب کابینہ میں غیر معمولی تبدیلیاں ہوں گی اور بڑے پیمانے پر ہوں گی ۔ علیم خان کے تعلقات عثمان بزدار سے مزید بہتر ہوں گے جبکہ چند ایک طاقتور وزیروں کی ریٹنگ منفی میں بدل جائے گی ۔ پنجاب بیوروکریسی میں تبادلوں کے حوالے سے بھی وزیر اعظم اور وزیر اعلی میں مشاورت ہو رہی ہے اور مستقبل میں پھر سے تبادلوں کا سونامی آنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کیونکہ وزیر اعظم اور وزیر اعلی یہ سمجھتے ہیں کہ بیوروکریسی انہیں مطلوبہ نتائج فراہم نہیں کر پا رہی ہے ۔
12 مارچ کو چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے الیکشن سے بھی واضح ہو جائے گا کہ حکومت اور ریاستی اداروں کے تعلقات کس سطح پر ہیں ۔ حکومت ہر صورت یوسف رضا گیلانی کو شکست دے کر صادق سنجرانی کو چیئرمین بنانا چاہتی ہے جبکہ پی ڈی ایم پراعتماد ہے کہ وہ فتح حاصل کرے گی ،اگر یوسف رضا گیلانی چیئرمین سینیٹ منتخب ہو گئے تو یقینی طور پر حکومت کو پہلے سے کہیں زیادہ زور کا جھٹکا لگے گا اور پھر 2021 ء میں مزید بڑی سیاسی تبدیلیوں کا امکان بڑھ جائے گا ۔ اس لئے پنجاب کی وزارت اعلی باقی کے ڈھائی سال کیلئے تو نہیں لیکن آئندہ چند ماہ کیلئے ’’محفوظ‘‘ قرار دی جا سکتی ہے تاہم 12 مارچ کا نتیجہ وفاقی حکومت کے مستقبل کا تعین ضرور کر دے گا ۔
The post پنجاب کی وزارت اعلیٰ میں فوری تبدیلی کا امکان نہیں ہے appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/2OaZP8m