چیئرمین سینٹ کس کا ہوگا؟ حکومت اور اپوزیشن میں ٹھن گئی - KHB Point

کے-ایچ-بی پوائنٹ (ملکی و غیر ملکی تمام خبریں فراہم کرنے والاایک مکمل نیوزپلیٹ فام نیٹ ورک)

تازہ ترین

چیئرمین سینٹ کس کا ہوگا؟ حکومت اور اپوزیشن میں ٹھن گئی

 اسلام آباد: سینٹ الیکشن کے بعد حکومت اور اپوزیشن میں سیاسی جنگ زور پکڑ گئی ہے۔

اپوزیشن نے ایک معرکہ سر کر لیا ہے اور اب چییرمین و ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے عہدوں کے ساتھ ساتھ پنجاب میں بھی مورچہ زن ہے اور عجیب اتفاق ہے کہ یوسف رضا گیلانی کو اپنے ہی سابقہ ٹیم ممبران سے مقابلے کا سامنا ہے، سینٹ کی رکنیت بھی یوسف رضا گیلانی نے اپنی کابینہ میں وزیر خزانہ رہنے والے حفیظ شیخ سے مقابلہ کرکے حاصل کی ہے اور چیئرمین شپ کیلئے بھی انہیں صادق سنجرانی کا سامنا ہے جو یوسف رضا گیلانی کے دور میں چییرمین وزیراعظم شکایت سیل رہ چکے ہیں۔

ان کے بارے میں سیاسی حلقوں میں یہ مضبوط و متفق رائے پائی جاتی ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے منظور نظر ہیں اورابھی بھی انہی کے حمایت یافتہ ہیں مگر اس وقت ملک میں پیدا ہونیوالی دلچسپ صورتحال نے پھر سے اپوزیشن اور مقتدر قوتوں کو آمنے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔

حکومت اور اپوزیشن اپنے اپنے اہداف حاصل کرنے کیلئے مقتدر قوتوں کو محور بنائے ہوئے ہیں، اپوزیشن یہ بیانیہ بیچ رہی ہے کہ حکومت اکثریت کھو چکی ہے اور اب مقتدر قوتوں کے زریعئے اقتدار کو طول دینے کی کوشش میں ہے تو دوسری جانب حکومت اکثریت کا منجن بیچ رہی ہے اور مقتدر قوتوں کے ساتھ ابھی بھی ایک صفحے پر ہونے کا تاثر دے رہی ہے۔

الغرض یہ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی اپنے سیاسی مقاصد و اہداف کیلئے اداروں کو سیاست میں گھسیٹ رہے ہیں اور جب سے پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں نے مل کر سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو سینٹ کا ممبر بنایا ہے جس سے حکومت آگ بگولا ہو گئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان یوسف رضا گیلانی کو سینیٹر تسلم کرنے کو تیار ہی نہیں، انھوں نے الیکشن کمیشن کو تنقید کا نشانہ بنایا ۔

عمران خان نے اپنا آئینی حق استعمال کرتے ہوئے اپنی لرزتی حکومت کو استحکام دینے کے لیے اعتماد کا ووٹ تو حاصل کیا ہے مگر اب ان کو ہر دریا عبور کرنے کے بعد نئے دریا کا سامنا ہو گا۔بعض سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کپتان لاکھ جتن کر لیں بات نئے انتخابات پہ ہی رکے گی۔ ادھر اپوزیشن نے وزیراعظم کے ایوان سے اعتماد کے ووٹ کو بھی متنازعہ بنا دیا ہے۔

اپوزیشن کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کو اعتماد کے جتنے ووٹ ملے ایوان میں اس دن اتنے اراکین ہی موجود نہیں تھے اور ڈاکٹر عشرت حسین، بلال اکبر سمیت وزیر اعطم کے دوسرے مشیروں کی اس دن ایوان میں موجودگی پر بھی کئی سوالات اٹھائے گئے ہیں جس کی باقاعدہ تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل کی گئی ہیں اور سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ مشیروں نے بھی وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ دیا ہے۔

وزیراعظم کے اعتماد کے ووٹ پر ایوان میں 178 سے کم اراکین کی موجودگی بارے کٹا پی ٹی ایم کے رکن اسمبلی محسن داوڑ نے کھولا اور بطور چشم دید گواہ انہوں نے میڈیا پر آکر کہا کہ اعتماد کے ووٹ کے دن کی کاروائی کی تحقیقات ہونی چاہئے اور ریکارڈ کی چیکنگ ہونی چاہیے کہ کتنے اراکین موجود تھے اور کتنوں نے ووٹ دیا، اپوزیشن کے اس الزام کو اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے مسترد کردیا ہے۔ اپوزیشن کو وزیر اعظم کے اعتماد کے ووٹ پر گنتی غلط ثابت کرنے کا چیلنج دے دیا ہے، اسد قیصر نے کہا کہ اگر کوئی ریکارڈ کے ساتھ ثابت کردے کہ ارکان کی تعداد 178سے کم تھی تو وہ عہدہ چھوڑ دیں گے ۔

اعتماد کے ووٹ کے ذریعے عمران خان اس تاثر کو زائل کرنا چاہتے ہیں کہ ان کی حکومت جو اتحادیوں کی بیساکھیوں پر کھڑی ہے وہ اتنی کمزور نہیں کہ آسانی سے گر جائے۔ وہ اس بات کا اظہار بھی کرنا چاہتے ہیں کہ ایسا بھی نہیں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ ختم ہوگیا ہے کیونکہ پاکستان مسلم لیگ (ق) اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے اپنے ووٹ عمران خان کو ہی دیے ہیں اور یہ بات ظاہر ہے کہ دونوں جماعتیں کس کی حمایت سے عمران خان کے ساتھ ہیں۔ تاہم عمران خان کی حکومت ہمیشہ ایک خوف کا شکار رہے گی۔

کیونکہ مقابلے میں آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن جیسے تجربہ کار سیاستدان موجود ہیں اور وہ میدان میں واپس آگئے ہیں ۔ اسی طرح پنجاب میں اور بلوچستان میں بھی عمران خان کو خطرہ ہوگا کیونکہ عثمان بزدار ایک کمزور وزیر اعلیٰ ہیں اور دوسری جانب بلوچستان میں سردار اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) اور مولانا فضل الرحمٰن کی جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) حکومت کو دھمکاتی رہے گی ۔ میرا یہ خیال ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن تو یہ چاہتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت گر جائے لیکن آصف زرداری اور میاں نواز شریف کی حکمتِ عملی یہ ہے کہ موجودہ  حکومت، جو ایک کمزور وکٹ پر کھڑی ہے اور لڑکھڑا رہی ہے اس کو مزید پریشان کیا جائے اور اس سیاسی نظام کے اندر اس کو مزید دوڑایا جائے ۔

وہ اپنی حکمتِ عملی کے ذریعے عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی توجہ ایک جانب مرکوز کریں گے اور خود کسی دوسری جانب سے حکومت کو نشانہ بنائیں گے۔ حکومت نے 12 مارچ کو ہونے والے اس انتخاب کے لیے تین سال سے چیئرمین سینیٹ رہنے والے بلوچستان عوامی پارٹی کے صادق سنجرانی کو اپنا امیدوار نامزد کیا ہے۔ صادق سنجرانی کے خلاف بطور چیئرمین سینیٹ اپوزیشن نے عدم اعتماد کی تحریک پیش کی تھی جو ناکام رہی تھی ۔

اس وقت بھی سینیٹ میں اپوزیشن کو اکثریت حاصل تھی اور یہ بات اب تک معلوم نہیں ہو سکی کہ صادق سنجرانی اکثریت نہ رکھنے کے باوجود کن ارکان سے ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے، اس وقت سینیٹ میں اپوزیشن اتحاد کو اکثریت حاصل ہے مگر یہ انتخابات اس قدر دلچسپ ہوتے ہیں کہ یہاں اکثریت رکھنے کے باوجود شکست بھی مقدر بن جاتی ہے۔ شاید اس کی بڑی وجہ سینیٹ میں خفیہ رائے شماری کا طریقہ ہے تاہم اس وقت یوسف رضا گیلانی کو نہ صرف اپوزیشن کا مکمل اعتماد حاصل ہے بلکہ ان کی جیت پر اپوزشین کی تمام جماعتیں جشن بھی مناتی نظر آ رہی ہیں ۔

اس وقت سب سے اہم سوال یہی ہے کہ آخر اپوزیشن کا اگلا ہدف کیا ہو سکتا ہے اور وہ حکومت کو کہاں اور کس طرح کا اپ سیٹ دینا چاہتی ہے؟ حمزہ شہباز سے ملاقات کے بعد بلاول بھٹو نے واشگاف الفاظ میں بتایا کہ وہ وسیم اکرم پلس (وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار) کو ہٹانا چاہتے ہیں۔ حمزہ شہباز نے کہا کہ اگلا ہدف صرف لانگ مارچ تک نہیں بلکہ تین سال میں جو تباہی ہوئی اسے ٹھیک کرنا ہے۔ دوسری جانب مولانا فضل الرحمان نے حکومت اور فوجی قیادت کو ایک اہم پیغام دیا ہے کہ اگرا یجنسیوں نے سینیٹ کے انتخابات میں بھی یہی رویہ رکھا تو پی ڈی ایم تمام حقائق منظر عام پر لانے پر مجبور ہو گی اور ایک بار پھر کہا ہے کہ  چیرمین اور ڈپٹی چیرمین سینیٹ کے امیدواروں کو اگر ایجنسیوں نے دھونس و دھاندلی کے ذریعے ہرانے کے کوشش کی تو پھر دھرنا راولپنڈی میں ہوگا۔

پیپلزپارٹی سینیٹ چیئرمین کے لئے یوسف رضا گیلانی کا نام پیش کرے، مسلم لیگ (ن) ساتھ دے گی۔ وزیرااطلاعات شبلی فراز نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز دونوں مل کر جمہوریت سے بہترین انتقام لے رہے ہیں ۔ اپنی ٹوئٹ میں شبلی فراز نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز دونوں مل کر جمہوریت سے بہترین انتقام لے رہے ہیں ۔ پیسے سے لوگوں کے ضمیر خریدنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر جمہوریت کے پیچھے چھپ جاتے ہیں۔

ادھر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان قانونی محاذ پر بھی جنگ زور پکڑ گئی ہے عدالتی نااہلی کے خوف سے قومی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہوکر سینٹر منتخب ہونیوالے فیصل واوڈا کی مشکلات کم ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ہیں ہیں ، پاکستان (ن) لیگ نے پی ٹی آئی رہنما فیصل واوڈا کی بطور سینیٹر کامیابی کا نوٹیفکیشن روکنے کے لیے درخواست دائر کردی ہے جس سے بچنے کیلیے ایک بار پھر فیصل واوڈا نے عدالتی حکم امتناعی کے پیچھے چھپنے کی کوشش کی ہے جو کہ ابھی تک کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ہے کیونکہ  سندھ ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کو کارروائی سے روکنے کے لیے فیصل واوڈا کی فوری حکم امتناع کی استدعا مسترد کردی ہے۔

سندھ ہائیکورٹ میں الیکشن کمیشن کی جانب سے فیصل واوڈاکے خلاف درخواست قابل سماعت قراردینے کے خلاف پی ٹی آئی رہنما کی درخواست پر سماعت ہوئی جس میں عدالت نے الیکشن کمیشن اور  وفاقی حکومت سمیت  دیگر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 16 مارچ کو تفصیلی جواب طلب کر لیا ہے جبکہ وزیراعظم کے الزامات پر  الیکشن کمیشن میں اہم اجلاس ہونے جا رہا ہے اور ان سطور کی اشاعت تک اسکہ تفصیلات بھی منظر عام پر آجائیں گی اور یہ بھی اطلاعات ہیں کہ فارن فنڈنگ کیس اور دوسرے کیسوں میں بھی تیزی آنے جا رہی ہے تو ساتھ ہی نیب بھی ایک بار پھر سے متحرک ہونے جا رہا ہے۔

The post چیئرمین سینٹ کس کا ہوگا؟ حکومت اور اپوزیشن میں ٹھن گئی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/30wpsmm