انتخابی اصلاحات، سیاسی اکابرین کو اختلافات پس پشت ڈال کر متحد ہونا ہو گا - KHB Point

کے-ایچ-بی پوائنٹ (ملکی و غیر ملکی تمام خبریں فراہم کرنے والاایک مکمل نیوزپلیٹ فام نیٹ ورک)

تازہ ترین

انتخابی اصلاحات، سیاسی اکابرین کو اختلافات پس پشت ڈال کر متحد ہونا ہو گا

 اسلام آباد: سینٹ انتخابات کے بعد ملک کا سیاسی منظر نامہ بدل رہا ہے پاکستان ڈیموکریٹک الائنس میں میں شامل حزب اختلاف کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن)کا غیر فطری اتحاد اختلاف میں بدل رہا ہے دونوں جماعتوں کے رہنما وں کی جانب سے اختلافات کی صورت میں شائستگی کا مظاہرہ کرنے کے دعوے ہوا ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔

دونوں جماعتوں کے رہنما ایک دوسرے پر نام لئے بغیر تنقید کے نشتر برسا رہے ہیں اور بات نسلوں تک آن پہنچی ہے پہلے مسلم لیگ(ن)کی جانب سے نام لئے بغیر پیپلز پارٹی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور عمران خان کے متبادل تیار ہونے کے طعنے دیئے گئے تو جواب میں بلاول بھٹو زرداری نے جماعت اسلامی کے ہیڈ کوارٹر منصورہ یاترا کے بعد میڈیا گفتگو میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے نہ صرف استعفوں کو لانگ مارچ سے نتھی کرنے پر سوال اٹھا دیا بلکہ بغیر نام لیے ن لیگ کو بھی آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے خوب تنقید کی۔

بلاول بھٹو نے مریم نواز کی جانب سے سلیکیڈ ہونے کے الزام کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی ہم پر الزام عائد کرتا ہے کہ ہم سلیکٹ ہونے کے لیے تیار ہیں تو ان سے کہنا چاہتا ہوں کہ ہماری رگوں میں سلیکیڈ ہونا شامل نہیں، یہ لاہور کا خاندان ہے جو یہ کرتا رہا ہے اس کے بعد دونوں جماعتوں کے رہنماوں کے درمیان شکوہ جواب شکوہ کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو چکا ہے، دونوں ایک دوسرے کی  اندرونی باتیں قوم کے سامنے لارہے ہیں۔ بلاول بھٹو کی تنقید کے بعد مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثنا اللہ نے پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری کی پی ڈی ایم اجلاس میں گفتگو کا حوالہ دے کر تنقیدکا نشانہ بنایا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ  پی ڈی ایم کے گزشتہ سربراہی اجلاس میں آصف زرداری کی تقریر کے دوران لوگوں نے آکر بتایا کہ باہر تماشا چل رہا ہے جس کے بعد آصف زرداری نے اپنا پینترا بدلا، انکا مزید کہنا تھا کہ آصف زرداری بیان دینے لگے کہ وہ ایک کمزور آدمی ہیں اور اسٹیبلشمنٹ سے لڑ نہیں سکتے، انہوں نے کہا کہ میرا ایک ہی بیٹا اور کوئی نہیں ہے۔

لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ زرداری صاحب نے یہ باتیں کیں، اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کیونکہ ان کی آواز میں ریکارڈنگ موجود ہے جس پر پیپلزپارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے رانا ثنا اللہ کے دعوے پر ردعمل دیتے ہوئے آصف زرداری کے بیانات کی تصدیق کی ہے۔

البتہ ان کا کہنا تھا کہ آصف زرداری کی باتوں کا تناظر مختلف تھا۔ ادھر حکمران جماعت کے وفاقی وزیر فواد چودھری  کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم کا تیاپانچہ ہو چکا اور بہت جلد یہ ختم ہو جائے گی ابھی تو پیپلز پارٹی جیسی بڑی جماعت نے پی ڈی ایم کو تنہا چھوڑ دیا ہے ا ور اب اس کے بعد اس پارٹی کے روح رواں جے یو آئی ف بھی اس اتحاد کا حصہ نہیں رہے گی اور بہت جلد مولانا فضل الرحمان اس پلیٹ فارم سے علیحدگی کا اعلان کر دیں گے۔

سینٹ انتخابات کے بعد سے ایک جانب حکمران جماعت اور اپوزیشن کے درمیان لڑائی عروج پر ہے تو دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں کے درمیان رسہ کشی جاری ہے تو ساتھ ہی جامع انتخابی اصلاحات کا بیانیہ بھی زور پکڑتا جا رہا ہے اور لگ یہی رہا ہے کہ آگے چل کر تمام سیاسی پارٹیاں جامع انتخابی اصلاحات کیلئے سر جوڑیں گی۔

اگرچہ جامع انتخابی اصلاحات وقت کی ضرورت ہیں لیکن اس کیلئے تمام جماعتوں کو سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈال کر قومی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک پلیٹ فارم پر آنا ہوگا کیونکہ تمام سیاسی جماعتوں کو ملک کے انتخابی عمل پر تحفظات ہیں اور حکومت سمیت اپوزیشن کی بڑی جماعتیں اسی انتخابی عمل پر سوال اٹھاتے ہوئے اس وقت ایک  دوسرے کے خلاف الیکشن کمیشن سمیت دوسرے قانونی فورمز پر گئے ہوئے ہیں۔

یہی نہیں بلکہ وزیراعظم عمران خان پر بھی فارن فنڈنگ کیس کی تلوار مسلسل لٹک رہی ہے اور سوشل میڈیا پر یہ افواہ بھی چل رہی ہے کہ کیس ہارنے کے خوف سے پی ٹی آئی ہاتھ پاوں مار رہی ہے اور اکبر ایس بابر کو کیس سے دستبردار ہونے کیلئے بھی آمادہ کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اکبر ایس  بابر کو گورنر بنانے کی پیشکش کی گئی ہے۔ اب ان اطلاعات میں کس حد تک صداقت  ہے یہ تو آنے والا وقت بتائے گا، مگر اکبر ایس بابر اس کیس میں جس قدر آگے جا چکے ہیں اب انکے لئے بھی شائد واپسی کا راستہ نہیں ہے اس موڑ پر اگر وہ کوئی پیشکش قبول کرتے ہیں تو یہ ان کے سیاسی کیریر کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا ۔

دوسری جانب تمام جماعتیں الیکشن کمیشن سمیت تمام اداروں کی خود مختاری و آزادی کی باتیں تو کرتی ہیں لیکن عملی طور پر کوئی جماعت بھی اس  طرف آتی دکھائی نہیں دیتی ہے ابھی اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی خود مختاری سے متعلق مجوزہ قانون سازی پر کڑی تنقیق ہو رہی ہے اور مخالفین حکومت کے اس اقدام کو ملکی معیشت کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھنے کے مترداف گردانتے ہیں اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے تو متنبہ کیا ہے کہ اگر ایسی قانون سازی کی گئی تو ن لیگ اقتدار میں آکر اسے ختم کر دے گی کیونکہ یہ قانون سازی ایسٹ انڈیا کمپنی بنائے جانے کے مترداف ہے اور اس  سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان مکمل طور پر آئی ایم ایف کے کنٹرول میں چلا جائے گا جو کسی طور بھی ملکی مفاد کے حق میں نہیں ہے ، کچھ ایسی ہی صورتحال ملک کے دوسرے اداروں  کی ہے یہی وجہ ہے کہ یہ ادارے مضبوط ہونے کی بجائے کمزور سے کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔

ابھی الیکشن کمیشن آف پاکستان نے نے مسلز دکھائے تھے اور اپنی آزادی و خودمختاری کی دھاک بٹھانے کی کوشش کی ہے کہ تمام جماعتوں نے توپوں کا رخ الیکشن کمیشن کی جانب کیا ہوا ہے سینٹ انتخابات میں وفاق کی سیٹ ہارنے پر پاکستان تحریک انصاف کو تحفظات ہیں اور یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کی ویڈیو کو بنیاد پر بنا کر الیکشن کمیشن میں کیس دائر کر رکھا ہے تو ادھر پاکستان پیپلز پارٹی نے چیئرمین سینٹ کے انتخابات میں پی ڈی ایم کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کے ووٹ مسترد کئے جانے کو معاملے کو عدالت میں چیلج کر رکھا ہے اور دونوں کیس قانونی فورمز پر زیرسماعت ہیں۔

فریقین کے درمیان عدالتی جنگ کے ساتھ ساتھ سیاسی اور عوامی محاذ پر بھی لڑائی جاری ہے بعض حلقوں کا خیال ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی  پی ڈی ایم سے دوری مستقبل کی حکمت عملی کی باقاعدہ سوچی سمجھی منصوبہ بندی ہے اور سیاسی تجزیہ کار اسے ملک کے بدلتے سیاسی حالات اور آزاد جموں و کشمیر کے آگے آنے والے انتخابات سے جوڑ رہے ہیں۔ ان کا  خیال ہے کہ سینٹ میں قائد حزب اختلاف اور آزاد جموں و کشمیر کے انتخابات کے تناظر میں سیاسی جماعتوں میں نئی صف بندی کیلئے جوڑ توڑ جاری ہے اور ملک کی دونوں بڑی جماعتوں کے رہنماوں نے پنجاب میں مورچے سنبھالے ہوئے ہیں ۔

پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی جاتی عمرہ میں پاکستان مسلم لیگ(ن)کی رہنما مریم نواز اور حمزہ شہباز سے اہم ملاقات ہوئی ہے جس میں حکومت کے خلاف بھرپور مزاحمت پر اتفاق کیا گیا ہے اور پی ڈی ایم میں شامل اپوزیشن کی جماعتوں کے تعاون سے حکومت کو  ٹف ٹائم دینے پر اتفاق ہوا ہے اور یہ بھی کہ اگر پیپلز پارٹی کے بغیر بھی حکومت کے خلاف استعفوں سمیت لانگ مارچ اور احتجاج کی راہ اپنانی پڑی تو اپنائی جائے گی اور یہ کہ مریم نواز کو نیب کی جانب سے چھبیس مارچ کو طلب کئے جانے پر بھی شدید ردعمل کا اظہا کرتے ہوئے کہا گیا کہ نیب کو سیاسی انتقام کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ چھبیس مارچ کو نیب میں پیشی کے موقع پر مسلم لیگ(ن) اورجمعیت علماء اسلام بھرپور عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنے  جا رہی ہے اور ایسے میں کوئی ایڈونچر بھی ہو سکتا ہے۔

دونوں طرف سے بھرپور تیاری کی جا رہی ہے، نیب نے پولیس اور رینجرز سے مدد طلب کر لی ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ شرپسند عناصر ایسی صورتحال سے غلط فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور کوئی سانحہ ہو سکتا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ(ن)کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنی رہنما کے ساتھ یکجہتی کیلئے پرامن طور پر جائیں گے جبکہ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اپوزیشن جماعتیں  پنجاب میں حکومت کے خلاف دباو مزید بڑھائیں گے اور حکومت مخالف بیانیہ کو پروان چڑھانے کیلئے عوام کو سڑکوں پر لائیں گی اور اسکے بدلتے سیاسی حالات پر بھی یقینی اثرات مرتب ہوں گے ۔

The post انتخابی اصلاحات، سیاسی اکابرین کو اختلافات پس پشت ڈال کر متحد ہونا ہو گا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/2QAaGcL