اس شہرخموشاں میں سوتا ہے کون کون - KHB Point

کے-ایچ-بی پوائنٹ (ملکی و غیر ملکی تمام خبریں فراہم کرنے والاایک مکمل نیوزپلیٹ فام نیٹ ورک)

تازہ ترین

اس شہرخموشاں میں سوتا ہے کون کون

لاہور شہر کے وسط میں ایک وسیع و عریض ”خاموش سلطنت” واقع ہے جس کا ولی وارث صرف خدا ہے۔

بات ہو رہی ہے پاکستان بلکہ اس خطے کے سب سے بڑے قبرستان ”میانی صاحب” کی جو لاہور کے علاقے مزنگ میں واقع ہے۔ روزانہ بہت سے لوگ اور سواریاں اس کے اطراف سے گزرتی ہیں لیکن بہت کم لوگ اس کی تاریخی حیثیت سے واقف ہیں۔

پاکستان کے شہر لاہور کے سب سے وسیع قبرستان کو اگر قبروں کا سب سے بڑا “عجائب گھر” کہیں تو غلط نہ ہو گا کہ اس کی ہر ایک قبر اور اس کا کتبہ ایک نئی کہانی سناتے ہیں۔ اس کی ابتدا مغل عہد سے ہوئی جب لاہور 12 دروازوں کے ساتھ بڑی فصیل یا چار دیواری تک محیط تھا اور موضع مزنگ اس کے مضافاتی دیہات میں سے ایک چھوٹا سا گاؤں تھا، جس کے ایک سرے پر میانے یعنی مولوی حضرات رہتے تھے۔

پنجاب کے دیہات میں اب بھی مولوی حضرات کو ’’میانے‘‘ کہا جاتا ہے، اسی نسبت سے اس جگہ کا نام میانی صاحب پڑا۔میانی صاحب قبرستان تقریباً 1،206 کنال (60 ہیکٹر، 149 ایکڑ) پر محیط ہے اور ایک اندازے کے مطابق اس میں تقریباً چار لاکھ قبریں موجود ہیں۔ یہ میانی صاحب قبرستان کمیٹی کے زیرانتظام ہے۔

قبرستان کے بیچ میں سے گزرنے والی چھوٹی بڑی سڑکیں اسے مختلف حصوں میں تقسیم کرتی ہیں۔ اس زمین میں بڑے بڑے صوفیاء، شاعر، افسانہ نگار، قومی ہیرو، صحافی، فوجی اور آرٹسٹ مدفون ہیں جن میں سے چیدہ چیدہ کا یہاں ذکر کرنا چاہوں گا۔

حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ؛

آپ مئی 1887 میں گکھڑ منڈی ضلع گوجرانوالہ کے نزدیک ایک قصبے جلال پور میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم اپنی والدہ محترمہ سے حاصل کی پھر ”مدرسہ دارالارشاد” میں 6 سال تک علوم دینیہ کی تکمیل کی اور1907ء میں فارح التحصیل ہوئے۔ اس کے بعد مدرسہ دارالارشاد میں ہی مدرس مقرر ہوئے اور پھر نواب شاہ کے ایک مدرسے میں آ گئے۔ آپ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بھی تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔

آپ نے قرآن پاک کا ترجمہ کرنے کے علاوہ 34 چھوٹے چھوٹے رسالے تالیف کیے جن میں رسوم الاسلامیہ، اصلی حنفیت، رسول اللہ ﷺ کے وظائف، میراث میں شریعت، اسلام میں نکاح بیوگان، ضرورۃ القرآن، توحید مقبول، فوٹو کا شرعی فیصلہ اور فلسفہ روزہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

آپ فرماتے تھے کہ میں اسٹیشن پہنچوں اور گاڑی چلنے کے لیے تیار کھڑی ہو، میرا ایک قدم پائے دان اور دوسرا پلیٹ فارم پر ہو، گارڈ سیٹی بجا چکا ہو اور گاڑی چلنے لگے۔ ایک آدمی دوڑتا ہوا آئے اور کہے کہ احمد علی، اللہ کا قرآن سمجھا کر جا تو میرا دوسرا قدم پائے دان پر بعد میں پہنچے گا لیکن میں آنے والے کو پورا قرآن سمجھا کر جاؤں گا۔ کسی نے پوچھا کہ قرآن کے تیس پارے پائے دان پہ کیسے سمجھائیں گے؟ فرمایا ؛ قرآن کا خلاصہ تین چیزیں ہیں، رب کو راضی کرو عبادت کے ساتھ، شاہ عربؐ کو راضی کرو اطاعت کے ساتھ اور مخلوقِ خدا کو راضی کرو خدمت کے ساتھ۔۔ یہ پورے قرآن کا خلاصہ ہے۔

(بحوالہ حضرت لاہورؒ کے حیرت انگیز واقعات)

آپ تحریک آزادی ہند کے امین تھے، ہر مصیبت میں آپ نے قوم کا ساتھ دیا اور قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ تحریک ختم نبوت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

1931ء میں میکلیگن انجینئرنگ کالج لاہور کے انگریز پرنسپل نے پیغمبر اسلامؐ کے خلاف نازیبا کلمات استعمال کیے تو آپ نے اس کے خلاف آواز اٹھائی۔ اس سلسلے میں آپ کو گرفتاربھی کیا گیا۔آپ کی خدمات کی ایک لمبی فہرست ہے جن میں اسلام کی ترقی کے لیے انجمن خدام الدین کا قیام ، نظام المعارف القرنیہ کے نام پر علما کرام اور جدید تعلیم یافتہ حضرات کی ایک مخلوط جماعت کی تیاری، بے شمار رسالوں میں شریعت کے مسائل کا حل بیان کرنا اور ختم نبوت کا دفاع شامل ہے۔

آپ کا ارشاد ہے کہ ”مرزائیوں کی طرف داری کرنا اور ختم نبوت کے کام سے روکنا اپنی قبر کو جہنم کا گڑھا بنانا ہے۔”

مولانا احمد علی لاہوریؒ نے 74 سال 9 ماہ کی عمر میں بروز جمعہ 2 رمضان 1381ھ/ 23 فروری 1962ء کو لاہور میں وفات پائی۔ آپ کی تدفین ہفتہ 24 فروری 1962ء کو میانی صاحب قبرستان، لاہور میں کی گئی۔

غازی علم دین شہیدؒ؛

غازی علم الدین شہیدؒ 3 دسمبر 1908ء کو لاہور کے علاقے ”کوچہ چابک سواراں”(جو اب محلہ سرفروشاں کہلاتا ہے) میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام طالع مند تھا جو لکڑی کے کاری گر تھے۔ علم الدین کے آباء و اجداد سکھ مت کے پیروکار تھے، لیکن وقت کے اولیاء اللہ کی صحبت میں رہ کر علم الدین کے ایک جد امجد بابا لہنا سنگھ نے اسلام قبول کیا، جس پر انھیں سخت تکالیف کا سامنا کرنا پڑا، بعد میں عبادت و ریاضت میں لگے رہے اور عوام میں ان کو بھی ولی کا مقام ملا۔

غازی علم دین نے ابتدائی تعلیم اپنے محلے کی مسجد اور اندرون اکبری دروازہ بابا کالو کے مدرسے میں حاصل کی۔ تعلیم سے فراغت کے بعد آپ نے اپنا آبائی پیشہ اختیار کیا اور1928 میں آپ کوہاٹ منتقل ہوگئے۔انہی دنوں لاہور کے ایک ہندو ناشر راج پال نے نبی اکرمؐ کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے ایک بے ہودہ و بدنام زمانہ کتاب شائع کی، جس پر مسلمانوں میں سخت بے چینی پیدا ہو گئی اور مسلمان راہ نماؤں نے انگریز حکومت سے اس دل آزار کتاب کو ضبط کرانے اور ناشر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ مجسٹریٹ نے ناشر کو صرف چھے ماہ قید کی سزا سنائی، جس کے خلاف مجرم نے ہائی کورٹ میں اپیل کی جہاں جسٹس دلیپ سنگھ مسیح نے اس کو رہا کر دیا۔ اس پر مایوس ہوکر مسلمانوں نے متعدد جلسے جلوس منعقد کیے، مگر انگریز حکومت نے ایک نہ سنی۔

غازی خدا بخش اور غازی عبدالعزیز نامی دو مسلمانوں نے بھی اس کو واصلِ جہنم کرنے کی کوشش کی لیکن کام یاب نہ ہو سکے۔ ان حملوں سے بچنے کے بعد راج پال کچھ عرصے کے لیے لاہور چھوڑ کر کاشی اور ہردوار چلا گیا، مگر چند ماہ بعد ہی واپس آگیا اور دوبارہ اپنا کاروبار شروع کر دیا۔

غازی علم دین کی غیرت ایمانی نے یہ گوارا نا کیا کہ یہ ملعون اتنی آسانی سے بچ نکلے آپ نے اس کا قصہ پاک کرنے کا سوچا اور29 اپریل 1929ء کو راج پال کی دکان کا رخ کیا۔ اس وقت وہ ملعون انارکلی میں موجود اپنی دکان پربیٹھا تھا۔ علم دین نے اسے للکارا اور ایک ہی بھرپور وار میں اس بدبخت کا کام تمام کردیا۔ اس کی دکان کے ایک ملازم نے قریبی تھانے انارکلی کو خبرکر دی۔ پولیس نے انہیں گرفتار کرلیا اور ان پر قتل کا مقدمہ درج کرکے کیس چلایا گیا۔ علامہ اقبال کی درخواست پر قائداعظم محمد علی جناح نے علم دین کا مقدمہ لڑا۔

قائداعظم نے ایک موقع پر علم دین سے کہا کہ وہ جرم کا اقرار نہ کرے۔ غازی علم دین نے کہا کہ میں یہ کیسے کہہ دوں کہ میں نے یہ قتل نہیں کیا، مجھے اس قتل پر ندامت نہیں بلکہ فخر ہے۔

کورٹ نے علم دین کو سزائے موت سنا دی۔ قائداعظم محمد علی جناح لبرل تصور کیے جاتے تھے اور اس وقت ہندو مسلم اتحاد کے بہت بڑے حامی تھے، ہندو اخبارات نے ان پر کڑی تنقید کی لیکن قائداعظم نے اس تنقید کو رد کرتے ہوئے کہا

”مسلمانوں کے لیے حضور اکرم (ص) کی ذات مبارکہ ہر چیز سے بڑھ کر ہے۔”
نیپ نامی انگریز جج نے آپ کو مورخہ 22 مئی 1929ء کو سزائے موت کا حکم سنایا۔

پھانسی کے بعد برطانوی حکومت نے ان کی میت بغیر نمازجنازہ جیل کے قبرستان میں دفنادی جس پر مسلمانوں نے شدید احتجاج کیا اور علامہ اقبال نے ایک مہم چلائی اور آخر کار انگریزوں کو یہ یقین دہانی کرانے کے بعد کہ ’’لاہور میں تدفین کے موقع پر ہنگامہ آرائی نہیں ہوگی‘‘ اس کی اجازت دے دی گئی۔ 15 دن بعد جب غازی علم دین شہید کی میت کو قبر سے نکالا گیا تو ان کا جسد خاکی پہلے دن کی طرح تروتازہ تھا۔ علم دین شہید کے والد نے علامہ اقبال سے علم دین کی نماز جنازہ پڑھانے کی درخواست کی جس پر علامہ اقبال نے ان سے کہا کہ وہ بہت گناہ گار انسان ہیں، اس لیے اتنے بڑے شہید کی نماز جنازہ وہ نہیں پڑھاسکتے۔غازی علم دین شہید کا جنازہ لاہور کی تاریخ کا سب سے بڑا نماز جنازہ مانا جاتا ہے جس میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی۔ جنازے کا جلوس ساڑھے پانچ میل لمبا تھا۔ نماز جنازہ یونیورسٹی گراؤنڈ میں ادا کی گئی جس میں کم و بیش چھے لاکھ عشاق رسول نے شرکت کی ہندوستان میں مقیم جید علما کرام و مشائخ عظام بھی کونے کونے سے رسول پاک کے سچے عاشق کے آخری دیدار کے لیے لاہور تشریف لائے۔ تدفین کے انتظامات مولانا ظفر علی خان، علامہ محمد اقبال اور سید دیدار علی شاہ کے ذمے تھے۔

علامہ اقبال نے غازی علم دین شہید کی میت کو کندھا دیا اور اپنے ہاتھوں سے انہیں قبر میں اتارا۔ اس موقع پر علامہ اقبال نے نم آنکھوں کے ساتھ کہا۔

’’ترکھان کا بیٹا آج ہم پڑھے لکھوں پر بازی لے گیا اور ہم دیکھتے ہی رہ گئے۔‘‘

علم دین شہید کی پھانسی کے بعد ایسے حالات پیدا ہوئے جس کے بعد انگریزوں کو قوانین میں تبدیلی کرنا پڑی اور کسی بھی مذہب کی توہین کو جرم قرار دیا گیا اور اس طرح ایک نوجوان کی قربانی قانون میں تبدیلی کا پیش خیمہ بنی۔

آزادی پاکستان کے بعد توہین رسالت کے قانون کو ’’پاکستان پینل کوڈ‘‘ کا حصہ بنایا گیا اور 1982ء میں اس وقت کے صدر جنرل ضیاء الحق نے اس قانون میں ترمیم کرتے ہوئے قرآن کریم کی توہین کی سزا عمرقید جب کہ حضور اکرم (ص) کی توہین کی کم از کم سزا موت رکھی۔لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں ایک نمایاں مقام پر آپ کی آخری آرام گاہ موجود ہے۔ مزار کے چہار اطراف برآمدہ ہے، مزار بغیر چھت کے ہے، قبر کے اطراف غازی کے والد محترم، والدہ محترمہ اور دیگر رشتے داروں کی بھی آخری آرام گاہیں موجود ہیں۔ لوح مزار پر پنجابی اور اردو کے کئی اشعار کندہ ہیں۔

حضرت واصف علی واصفؒ؛
”جھوٹا آدمی کلام الہی بھی بیان کرے تو اثر نہ ہوگا۔ صداقت بیان کرنے کے لیے صادق کی زبان چاہیے۔” یہ خوب صورت بات کہنے والے واصف علی واصف (15 جنوری 1929ء تا 18 جنوری 1993ء) بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، کالم نگار اور مسلم صوفی تھے جن کا تعلق پنجاب کے ضلع خوشاب سے تھا۔

ابتدائی تعلیم خوشاب میں حاصل کرنے کے بعد اپنے نانا کے پاس جھنگ چلے گئے جو جوانی میں قائدِاعظم کی زیرِنگرانی امرتسر میں مسلم لیگ کے لیے کام کر چکے تھے۔ میٹرک گورنمنٹ ہائی اسکول جھنگ سے فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ ایف اے کے امتحان میں بھی پنجاب یونیورسٹی سے فرسٹ ڈویژن حاصل کی (ان دنوں یہ امتحان بورڈ کی بجائے پنجاب یونیورسٹی لیا کرتی تھی)۔ گورنمنٹ کالج جھنگ سے بی-اے کرنے کے بعد ایم-اے انگریزی ادب میں داخلہ لے لیا۔ان دنوں آپ گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھتے تھے اور ہاسٹل میں رہا کرتے تھے۔ یہاں آپ نے کھیل میں بھی دل چسپی دکھائی اور ہاکی میں حسنِ کارکردگی پر ’’کالج کلر‘‘ وصول کیا۔ اس کے علاوہ کالج کی مختلف سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ اسی کالج میں اپنی بھرپور سرگرمیوں کی وجہ سے 1949ء میں آپ کو ’’ایوارڈ آف آنر‘‘ دیا گیا۔ جون 1954ء میں آپ نے سول سروس کا امتحان پاس کیا مگر درویشی کی طرف رحجان ہونے کی وجہ سے سرکاری نوکری نہ کی اور پرانی انار کلی کے پاس نابھہ روڈ پر ’’لاہور انگلش کالج‘‘ کے نام سے اپنا تدریسی ادارہ قائم کیا۔

واصف علی واصف صاحب یو پی کے شہر بریلی میں شاہ نیاز احمد چشتی قادریؒ کے آستانہ عالیہ سے بیعت تھے۔ آپ بریلی گئے اور وہاں خانقاہ نیازیہ کے سجادہ نشین ”محمد حسن میاں سرکارؒ” کے ہاتھ پر بیعت ہوئے۔ پھر آپ نے مختلف اخباروں اور جرائد میں لکھنا شروع کیا۔ چاہنے والوں کے اصرار پر کلام جمع کیا اور پہلی کتاب ”شب چراغ” منظرعام پر آئی۔ اس کے بعد رشد و ارشاد کا ایک دریا بہہ نکلا۔ آپ کے اتنے مرید و سامعین ہوگئے تھے کہ پہلے لکشمی چوک اور پھر قزافی اسٹیڈیم میں فزیکل ٹریننگ کے ادارے میں محفلیں جمنا شروع ہوگئیں، جہاں آپ گھنٹوں مختلف موضوعات پر بولا کرتے۔ بعد میں یہ سلسلہ آپ کی قیام گاہ فردوس کالونی گلشن راوی پر شروع ہوا۔

تاثیر کا یہ عالم تھا کہ لوگوں نے دھڑادھڑ آپ سے رابطہ کرنا شروع کر دیا اور اپنے دینی‘ دنیاوی اور روحانی مسائل کے حل کے لیے آپ کو مستجاب پایا۔

18 جنوری 1993ء بمطابق 24 رجب 1415ھ وہ دن تھا جب یہ مرد مجاہد اس دنیائے فانی سے کوچ کرگیا۔ آپ کا مزار لاہور کے میانی قبرستان میں برلبِِ سڑک واقع ہے۔ آپ کی مشہور تصانیف میں قطرہ قطرہ قلزم، حرف حرف حقیقت، دل دریا سمندر، بھرے گھڑولے، گم نام ادیب، مکالمہ دریچے اور ذکر حبیب شامل ہیں۔

میجرشبیرشریف شہید؛
میجرشیبرشریف شہید 28 اپریل 1943 کو پنجاب کے ضلع گجرات کے قصبے کنجاہ میں پیدا ہوئے۔ وطن سے محبت اور بہادری آپ کے خون میں تھی، چناںچہ سینٹ انتھونی اسکول سے او لیول کا امتحان پاس کرنے اور گورنمنٹ کالج لاہور سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد کاکول ملٹری اکیڈمی میں داخلہ لے لیا۔

میجر شبیر شریف 65 کی پاک بھارت جنگ میں بحیثیت سیکنڈ لیفٹیننٹ شریک ہوئے اور جنگ میں بہادری سے دشمن کا مقابلہ کرنے پر انہیں ستارۂ جرات سے نوازا گیا۔

آپ کا اگلا امتحان 71 کی جنگ تھی، جب آپ کو سلیمانکی سیکٹر میں فرنٹیئر رجمنٹ کی ایک کمپنی کی کمانڈ سونپی گئی اور انہیں ایک اونچے بند پر قبضہ کرنے کا ٹارگٹ ملا۔

میجر شبیرشریف کو اس پوزیشن تک پہنچنے کے لیے پہلے دشمن کی بارودی سرنگوں کے علاقے سے گزرنا اور پھر 100 فٹ چوڑی اور 18فٹ گہری ایک دفاعی نہر کو تیر کر عبور کرنا تھا۔ دشمن کے توپ خانے کی شدید گولہ باری کے باوجود میجر شبیر شریف نے یہ مشکل مرحلہ طے کیا اور دشمن پر سامنے سے ٹوٹ پڑے۔

تین دسمبر 1971ء کی شام تک دشمن کو اس کی قلعہ بندیوں سے باہر نکال دیا،6 دسمبر کی دوپہر کو دشمن کے ایک اور حملے کا بہادری سے دفاع کرتے ہوئے میجر شبیرشریف اپنے توپچی کی اینٹی ایئرکرافٹ گن سے دشمن ٹینکوں پر گولہ باری کر رہے تھے۔ اس دوران انہوں نے دشمن فوج اور ان کے ٹینکوں کو بھی زبردست نقصان پہنچایا اور 6دسمبر 1971 کو ملک اور قوم کے لیے اپنی جان قربان کردی۔وطن کے دفاع میں دلیری سے لڑنے اور پاک فوج کے لیے ان کی بے لوث خدمات کے اعتراف میں انہیں پاکستان کے اعلٰی ترین فوجی اعزاز ”نشان حیدر” سے نوازا گیا۔ اس سے پہلے آپ کے ماموں میجر راجہ عزیز بھٹی شہید بھی نشان حیدر حاصل کر چکے تھے۔ آپ کے چھوٹے بھائی جنرل راحیل شریف سربراہ پاک فوج کے آرمی چیف بھی رہ چکے ہیں۔

سعادت حسن منٹو؛
جب جب برصغیر پاک و ہند کے مشہور افسانہ نگاروں کا ذکر آئے گا، سعادت حسن منٹو کو کوئی چاہ کر بھی نہ بھول پائے گا۔ یہ وہ شخص ہے جس سے آج شاید ہر دوسرا بندہ اختلاف رکھتا ہو لیکن ان کی تحریریں معاشرے کا وہ ”گدلا آئینہ” ہیں جسے ہم چاہ کر بھی نہیں دھوسکتے۔

منٹو 11 مئی 1912 کو موضع سمبرالہ، ضلع لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔ دوست انہیں ٹامی کے نام سے پکارتے تھے۔ منٹو اپنے گھر میں ایک سہما ہوا بچہ تھا، جو سوتیلے بہن بھائیوں کی موجودگی اور والد کی سختی کی وجہ سے اپنا آپ ظاہر نہ کر سکتا تھا۔ ان کی والدہ ان کی طرف دار تھیں۔ وہ ابتدا ہی سے اسکول کی تعلیم کی طرف مائل نہیں تھے۔ ان کی ابتدائی تعلیم گھر میں ہوئی۔ان کا تعلیمی کیریئر حوصلہ افزا نہیں تھا۔ میٹرک کے امتحان میں تین مرتبہ فیل ہونے کے بعد انہوں نے 1931 میں یہ امتحان پاس کیا تھا، جس کے بعد انہوں نے ہندو سبھا کالج میں ایف اے میں داخلہ لیا لیکن اسے چھوڑ کر، ایم او کالج میں سال دوم میں داخلہ لے لیا اور انسانی نفسیات کو اپنا موضوع بنایا۔

پاکستان بننے کے بعد نہ چاہتے ہوئے بھی وہ یہاں منتقل ہوگئے اور یہاں ان کے قلم نے بہترین افسانے تخلیق کیے، جن میں ٹوبہ ٹیک سنگھ، کھول دو، ٹھنڈا گوشت اور دھواں جیسے مقبول افسانے شامل ہیں۔ ان کے کئی افسانوی مجموعے، خاکے اور ڈرامے شائع ہوچکے ہیں۔ کچھ افسانوں کے موضوعات اور مکالموں پر پر آپ کے خلاف عدالتی کروائی بھی ہوئی جس کا آپ نے بے جگری سے مقابلہ کیا۔کثرتِ شراب نوشی کی وجہ سے 18 جنوری 1955ء کو ان کا انتقال ہوا۔منٹو ان چند بدنصیبوں میں سے ہیں جنہیں شہرت ان کے مرنے کے بعد نصیب ہوئی۔ ان کی زندگی میں بہت سے پبلشرز نے ان کا استحصال کیا لیکن مرنے کے بعد ان کے افسانے و کتابیں دھڑا دھڑ شائع کر کے بیچی گئیں۔ ان پر پاکستان و بھارت میں فلم بھی بنائی جاچکی ہے۔

دلا بھٹی شہید؛
اصل نام رائے محمدعبداللہ خان بھٹی تھا لیکن دلا بھٹی اور پنجاب کا رابن ہڈ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ دلا بھٹی 1546 کو پنجاب کے علاقے ساندل بار (راوی و چناب کے بیچ کا علاقہ جو آپ کے دادا کے نام پر ساندل کہلایا) کے شہر پنڈی بھٹیاں میں مسلمان، راجپوت زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کا قبیلہ ایک بہادر اور جنگجو قبیلہ تھا جس کی بدولت پنجاب بیرونی لٹیروں اور ڈاکوؤں سے محفوظ تھا۔ اس لیے لوگ اس خاندان کی بہت عزت کرتے تھے۔آپ کے والد فرید بھٹی اور دادا ساندل بھٹی کی حریت پسندی سے خوف زدہ مغل بادشاہ اکبر نے انہیں سزائے موت دے دی۔ دلا بھٹی کی پیدائش اپنے والد کی وفات کے 12 دن بعد ہوئی۔

اپنے باپ کے بعد دلا بھٹی نے بھی تحریک آزادی پنجاب کو جاری رکھا اور دینِ اکبری سمیت کسانوں پر لگایا گیا لگان اور اکبر کی آمریت ماننے سے صاف انکار کر دیا۔ پنجاب میں لوگوں کو بغاوت پر اکسانے اور انہیں اکبر کے فرسودہ قوانین کے خلاف بھڑکانے کی پاداش میں آخر کار مغل بادشاہ اکبر نے دلا بھٹی کو صلح کا جھانسا دے کر دھوکے سے آگرہ بلایا اور تنگ راستے سے دربار میں بلا کر گرفتار کرلیا گیا اور مقدمہ چلا کر فوری طور پر 26 مارچ1599ء کو لاہور کے دلی دروازے کے باہر میلاد چوک(کوتوالی تھانے کے پاس) پر پھانسی دی گئی۔ پھانسی کے بعد دلا بھٹی پنجاب میں ایک حریت پسند ہیرو کے طور پر ابھرا اور امر ہوگیا۔ مادھو لال حسینؒ نے آپ کا جنازہ پڑھایا اور ان کے آخری الفاظ کو اس طرح بیان کیا؛

“پنجاب کا کوئی غیرت مند بیٹا کبھی پنجاب کی سرزمین کو فروخت نہیں کرے گا۔”

دریائے چناب اور سندھ کا علاقہ انہی کے نام پر ”دلے دی بار” کہلاتا ہے۔ ہر 13 جنوری کو ہونے والے لوہڑی کے میلے میں پتلی تماشے کے ذریعے اس واقعے کو دکھایا جاتا ہے۔ بھارتی پنجاب میں دلا بھٹی ایک ہیرو کے طور پر پوجے جاتے ہیں اور وہاں آپ پر کوئی آٹھ فلمیں اور کئی ڈرامے بھی بن چکے ہیں۔ لاہور کے علاقے گلشنِ راوی میں دلا بھٹی کے نام پر ایک چوک بھی موجود ہے۔
روز ای جمدے نیں وارث تختاں دے
ماواں جمن دلا بھٹی کدی کدی

ساغر صدیقی؛
1964 میں پنجاب کے شہر انبالہ میں پیدا ہوئے۔ گھر میں ہر طرف غربت کا دور دورہ تھا۔ ایک دن انہوں نے اس ماحول سے تنگ آکر امرتسر کی راہ لی اور یہاں ہال بازار میں ایک کنگھیاں بنانے والے کے پاس ملازم ہوگئے، دن بھر کام کرتے اور رات کو اسی دکان کے کسی گوشے میں پڑے رہتے۔ لیکن شعر وہ اس 14، 15 برس کے عرصے میں ہی کہنے لگے تھے اور اپنے بے تکلف دوستوں کی محفل میں سناتے بھی تھے۔ شروع میں تخلص ناصر مجازی تھا لیکن جلد ہی اسے چھوڑ کر ”ساغر صدیقی” ہوگئے۔

ساغر کی اصل شہرت 1944ء میں ہوئی جب امرتسر میں ایک بڑے پیمانے پر مشاعرہ قرار پایا۔ اِن کے ایک جاننے والے نے منتظمین سے کہہ کر انہیں مشاعرے میں پڑھنے کا موقع دلوا دیا۔ ساغر کی آواز میں بلا کا سوز تھا اور وہ ترنم میں پڑھنے میں جواب نہیں رکھتے تھے۔ بس پھر کیا تھا، اس شب موصوف نے صحیح معنوں میں مشاعرہ لوٹ لیا۔

یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں
ان میں کچھ صاحب اسرار نظر آتے ہیں
تیری محفل کا بھرم رکھتے ہیں سو جاتے ہیں
ورنہ یہ لوگ تو بیدار نظر آتے ہیں

قدرتاً اس کے بعد امرتسر اور لاہور کے مشاعروں میں ان کی مانگ بڑھ گئی۔ مشاعروں میں شرکت کے باعث اتنی آمدنی ہوجاتی تھی کہ اپنا پیٹ پالنے کے لیے مزید تگ و دو کی ضرورت نہ رہی۔ گھر والے ناراض تھے کہ لڑکا آوارہ ہو گیا ہے اور کوئی کام نہیں کرتا۔ انہوں نے گھر آنا جانا ہی چھوڑ دیا۔ کلام پر اصلاح لینے کے لیے لطیف انور گورداسپوری مرحوم کا انتخاب کیا اور ان سے بہت فیض اٹھایا۔1947ء میں پاکستان بنا تو وہ امرتسر سے لاہور چلے آئے۔

یہاں دوستوں نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا اور آپ کا کلام مختلف پرچوں میں چھپنے لگا۔ فلم بنانے والوں نے بھی گیتوں کی فرمائش کی اور انہیں حیرت ناک کام یابی ہوئی۔ اس دور کی متعدد فلموں کے گیت ساغر کے لکھے ہوئے ہیں۔ اس زمانے میں اس کے سب سے بڑے سرپرست انور کمال پاشا تھے۔

بھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے
تم سے کہیں مِلا ہوں مجھے یاد کیجیے

1952ء کی بات ہے کہ انہیں شدید سر درد کی شکایت ہوئی تو ایک دوست نے ہم دردی میں انہیں مارفین (ایک طرح کا نشہ) کا ٹیکا لگا دیا۔ سردرد اور اضمحلال تو دور ہو گیا لیکن اس معمولی واقعے نے ان کو نشے کی لت لگا دی۔ افسوس کہ خود ان کے دوستوں میں سے بیشتر انہیں چرس کی پڑیا اور نشے کے ٹیکے کی شیشیاں دیتے اور ان سے غزلیں اور گیت لے جاتے، اپنے نام سے پڑھتے اور چھپواتے۔ ادب کی اس سے زیادہ تذلیل اور کیا ہو سکتی ہے۔اس کے بعد انہوں نے رسائل اور جرائد کے دفتر اور فلموں کے اسٹوڈیو آنا جانا چھوڑ دیا۔

ساغر کے مزاج کی تلخی نے ہر وقت بے خود رہنے کی خواہش میں اضافہ کیا اور نوبت یہاں تک آ گئی کہ آپ نشے میں مدہوش کہیں کسی سڑک کے کنارے پڑے رہتے۔ان کی ایک غزل صدرِپاکستان جنرل ایوب خان کو پسند آ گئی تو جناب نے انہیں طلب کر لیا۔ بہت ڈھونڈنے پر جب یہ ہاتھ آئے تو انہوں نے صاف منع کردیا اور زمین پر پڑی سگریٹ کی خالی ڈبیا اٹھا کر اسے کھولا، کسی سے قلم مانگا اور اس کے اندر موجود کاغذ کے ٹکڑے پر یہ شعر لکھا

جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے

جنوری1974ء میں ان پر فالج کا حملہ ہوا اور دایاں ہاتھ ہمیشہ کے لیے بے کار ہوگیا۔ پھر کچھ دن بعد منہ سے خون آنے لگا اور یہ آخر تک جاری رہا۔ ان دنوں خوراک برائے نام تھی۔ جسم سوکھ کر ہڈیوں کا ڈھانچا رہ گیا تھا۔ چناںچہ 19 جولائی 1974ء صبح کے وقت آپ کی لاش سڑک کے کنارے ملی اور دوستوں نے لے جا کر میانی صاحب کے قبرستان میں دفن کردیا۔

ہے دعا یاد مگر حرفِ دعا یاد نہیں
میرے نغمات کو اندازِنوا یاد نہیں
آؤ ایک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں

رستمِ زماں بوٹا پہلوان؛
فنِ پہلوانی کا ایک بڑا اور مشہور نام بوٹا پہلوان، 6 فٹ 4 انچ قد کے ساتھ اپنے وقت کا بہترین پہلوان مانا جاتا تھا۔ آپ کا پورا نام میاں محمد بوٹا تھا، 1844 میں لاہور کے ایک غریب خاندان میں آنکھ کھولی۔ بچپن میں ہی پہلوانی کا شوق چڑھ گیا اور اسی جانب راغب ہوگئے۔ اکھاڑے میں تو آجاتے لیکن صحیح خوراک نہ ملنے کے باعث جسمانی کارکردگی تسلی بخش نہ تھی۔

کہتے ہیں کہ ان دنوں مزاروں پر خالص سرسوں کے تیل سے دیے جلائے جاتے تھے۔ بوٹا پہلوان ان دیوں کا ذخیرہ شدہ تیل پی جاتا اور اپنے بدن کو توانائی فراہم کرتا۔بوٹا، مردانہ وجاہت کا ایک نمونہ تھا۔ اسے اصل شہرت امرتسر میں ہونے والے مقابلے سے ملی جس میں علیا پہلوان مدِمقابل تھا جو اس دور کا بہترین پہلوان مانا جاتا تھا۔ بوٹے نے بیس منٹ میں علیا کو چت کردیا اور پہلوانی کے فن کی سرپرستی کرنے والی ریاستوں میں اس کی دھوم مچ گئی۔

یہ وہ دور تھا جب ہندوستان میں ہر جگہ ”رمزی پہلوان” کا طوطی بولتا تھا اور وہ بڑودہ کے نواب کھانڈے راؤ کا پسندیدہ تھا۔ جب بوٹا کی شہرت بڑودہ پہنچی تو وہاں کی مہارانی ”جمنا بائی” نے اسے رمزی پہلوان کے مقابلے میں اپنے جوہر دکھانے کا موقع دیا۔ جودھپور میں میدان سجا اور برصغیر کے دو مہارتھی آمنے سامنے ہوئے۔

یہ تاریخ کا ایک بہت بڑا مقابلہ تھا جسے ”مہا دنگل” کا نام دیا گیا۔ کئی راجاؤں نے اس میں شرکت کی۔ مہا دنگل کی صدارت کے فرائض کھانڈے راؤ نے انجام دیے۔ بوٹے نے اپنے داؤ پیچ آزماتے ہوئے بھاری بھرکم رمزی پہلوان کو ڈھیر کردیا اور یہ مقابلہ جیت لیا۔ پورا اکھاڑا نعروں سے گونج اٹھا۔ کھانڈے راؤ نے بوٹے کی جیت کا اعلان کیا اور اس کو انعام و اکرام کے ساتھ تاعمر وظیفہ بھی عنایت کیا۔ جودھپور کے مہاراجا جسونت سنگھ نے بھی طلائی کڑے انعام میں دیے۔ اسی جگہ انہیں ”دیو دل” کے خطاب سے بھی نوازا گیا۔

جودھپور کے دنگل نے بوٹا پہلوان کے دن پھیر دیے۔ رمزی کے بعد کوئی بڑا پہلوان ان کے مقابلے میں نہ آیا۔ بوٹا پہلوان بڑودہ سے منسلک ہوگیا اور وہیں ملازمت اختیار کرلی۔ اس کے بعد بوٹا نے جوناگڑھ، اندور اور کولہاپور میں بھی بڑے بڑے دنگل جیتے اور جودھپور سے منسلک ہونے کے بعد لاہور آ گیا۔ یہاں اپنا اکھاڑا بنایا اور بہت سے پہلوانوں کو شاگردی میں لیا۔ آپ محمد بخش پہلوان کے بڑے بھائی، آفتابِ ہند علی پہلوان کے تایا جب کہ گامو بالی والا سیالکوٹی اور کیکر سنگھ (کیکر کے درخت کو ہاتھوں سے اکھاڑ دینے والا) کے استاد تھے۔بوٹا سنگھ نے اپریل 1904 بمطابق 30 محرم کو انتقال فرمایا۔رستم زماں کی وفات پر داغ دہلوی نے کہا تھا،’’وہ دلاور اور وہ شہزور دنیا سے گیا۔‘‘

حضرت شیخ محمد طاہر بندگیؒ؛
حضرت شیخ محمد طاہر بندگی لاہوریؒ نقشبندی سلسلے کے جلیل القدر بزرگ تھے اور مغلیہ دور کے شہرہ آفاق مبلغ اور مدرس تھے۔ آپ 1751 میں لاہور میں پیدا ہوئے اور اندرون شہر محلہ شیخ اسحاق میں رہائش اختیار کی۔ آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت لاہور میں ہوئی۔ قریبی مسجد سے کچھ عرصے میں قرآن پاک ختم کیا اور اس کے بعد مختلف علماء سے دینی علوم حاصل کیے۔ دینی علم کے حصول کے بعد آپ تلاش حق کے لیے نکلے اور ”شاہ سکندر بن شاہ کمال کتیھلی” کی خدمت میں حاضر ہو کر مرید ہوگئے۔ کچھ عرصہ ”حضرت شیخ عبدالاحد سرہندی” کی خدمت میں گزرا۔ حضرت شاہ سکندر کمال کتیھلی آپ کو طاہر بندگی کے نام سے پکارا کرتے، چناںچہ آپ اسی نام سے مشہور ہوئے۔ بعد میں آپ نے حضرت مجدد الف ثانیؒ کی مریدی اختیار کی اور ان کی راہ نمائی میں معرفت کے مدارج طے کیے۔علوم ظاہر و باطنی کی تکمیل کے بعد آپ کو حضرت امام ربانی نے لاہور کی خلافت پر فائز فرمایا، چناںچہ آپ اپنے مرشد کے ارشاد کے مطابق لاہور تشریف لے آئے۔ چند سال میں ہزاروں لوگ آپؒ کے مرید اور شاگرد ہوگئے۔

میانی صاحب میں سکونت اختیار کرنے کے بعد وہاں آپ نے ایک دینی درس گاہ قائم کی اور اس درس گاہ میں قرآن تفسیر حدیث فقہ پڑھانے کا بندوبست کیا۔ آپ درس و تدریس کا کسی سے معاوضہ نہ لیتے بلکہ آپ نے دین اسلام کی تبلیغ کی خاطر سب کچھ کیا۔ اس درس گاہ میں آپ نے ایک کتب خانہ بھی قائم کیا تھا جس میں قرآن و حدیث کی ہزارہا کتب تھیں۔ عہداسلامی کے آخر تک یہ کتب خانہ باقی رہا مگر جب لاہور میں سکھوں کی حکومت آئی تو غارت گروں نے اس مدرسہ کو لوٹا اور ہزاروں قرآن و کتابیں لوٹ کر لے گئے۔ کہتے ہیں کہ آخری عمر میں آپ نے دو شادیاں کیں۔ پہلی شادی ماہ خانم دختر مرزا احان اللہ اور دوسری شادی عصمت النساء دختر سیّد عبداللہ سے کی جن کی قبریں آپ کے مقبرہ میں گنبد کے نیچے ہیں۔ آپ کے نام ور خلفاء میں سے شیخ ابو محمد قادری نقشبندی لاہوری (میانی قبرستان) سیّد صوفی (دہلی) شیخ لکھن یا کھن مست (مزار موری دروازہ کے باہر) اور شیخ آدم نبوری (مزار مدینہ منوّرہ) مشہور ہیں۔

آپ بروز جمعرات 8محرم الحرام 1040ھ بمطابق 1630ء فوت ہوئے اور اس جگہ دفن ہوئے جہاں آپ کی درس گاہ تھی۔

آغا شورش کاشمیری؛
14 اگست 1917 کو لاہور میں پیدا ہونے والے آغا شورش کاشمیری پاکستان کے مشہور و معروف شاعر، صحافی، سیاست داں اور بلندپایہ خطیب تھے۔ آپ کا اصل نام عبد الکریم تھا، لیکن آغا شورش کاشمیری کے نام سے مشہور ہوئے۔ آغا شورش کاشمیری کی شخصیت کئی صفات کا مجموعہ تھی۔ شعر و ادب، صحافت، خطابت وسیاست ان چاروں شعبوں کے وہ شاہ سوار تھے۔ آغا شورش نے ایک متوسط گھرانے میں جنم لیا اور بہ مشکل میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔آپ کے گھر میں مولانا ظفر علی خان کا ’’زمیندار‘‘ اخبار آتا تھا جسے بغور پڑھتے اور ان دنوں مسجد شہید گنج کی تحریک بھی عروج پر تھی۔ آپ اسکول سے فارغ ہوئے تو تحریک شہید گنج کا رخ کیا اور مولانا ظفر علی خان سے قربت میسر آ گئی۔

آپ ”الفت” تخلص کرتے اور زمانے میں شورش برپا کر رکھی تھی لہٰذا حسب مزاج الفت کو شورش کا نام دے دیا گیا۔مولانا ظفر علی خان کی قربت میں رہ کر شورش کی سیاست، صحافت، خطابت اور عشق رسولؐ آغا شورش کے مزاج میں سرایت کرتے چلے گئے، اور پھر شورش کو بھی برصغیر کا منفرد خطیب مانا جانے لگے۔ سارا ہندوستان ان کے نام سے شناسا ہوا اور آغا صاحب کی ایک الگ پہچان بن گئی۔

مسلم لیگ کے عروج کے دنوں میں آغا شورش کاشمیری مجلسِ احرار کے چنیدہ راہ نماؤں میں شامل ہوچکے تھے۔ مجلس کے ایک روزنامہ آزاد کے ایڈیٹر بھی بن گئے۔ مگر قیام پاکستان کے بعد آغا شورش کاشمیری وطن عزیز کی بقا اور استحکام کے لیے آخری سانسوں تک میدان عمل میں رہے۔ حکم رانوں کی غلط پالیسیوں پر کڑی تنقید اور اپنے نقطہ نظر کو دلائل کے ساتھ پُرزور انداز میں پیش کرتے ہوئے بڑے استقلال سے کھڑے ہوجانا آغا شورش کا مزاج بن چکا تھا۔تحریک ختم نبوت آغا صاحب کی زندگی کا اثاثۂ عظیم تھا۔ وہ تب تک چین سے نہیں بیٹھے جب تک 1973ء کے آئین میں ختم نبوت کے عقیدے کو شامل کرا کے قادیانیوں کو خارج الاسلام نہ قرار دلوادیا۔

آپ تحریک پاکستان میں تو نہ تھے مگر تعمیر پاکستان میں ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ آپ قادرالکلام شاعر، میدان صحافت کے جری سالار اور سیاست کے بے تاج بادشاہ تھے۔ شورش کا علمی، ادبی اور سیاسی جریدہ چٹان، بلاشبہہ اردو ادب میں ایک بہترین اضافہ ہے۔آغا شورش کاشمیری کے حلقۂ احباب میں ڈاکٹر سید عبداللہ، احسان دانش، سردار حمید نظامی، مجید نظامی، شہید حسین سہروردی، مولانا ابوالاعلیٰ مودودی، مفتی شفیع عثمانی، ذوالفقارعلی بھٹو، نوبزادہ نصراللہ خان اور دیگر افراد شامل تھے۔آغا شورش کاشمیری 24 اکتوبر1975ء کو اپنے خالق حقیقی سے جاملے اور آپ کو لاہور کے شہر خموشاں، میانی صاحب قبرستان میں دفن کیا گیا۔

خواجہ دل محمد؛
خواجہ دل محمد اسلامیہ کالج لاہور کے سابق پرنسپل تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ میونسپل کمشنر اور لاہور امپروومنٹ ٹرسٹ کے ٹرسٹی بھی رہ چکے ہیں۔ آپ کی وفات 28 مئی 1961 کو ہوئی۔ آپ کی قبر میانی صاحب کے آخری کونے میں واقع ہے۔

میاں محمد سلطان؛
قبر کے کتبے کے مطابق میاں محمد سلطان، سرائے سلطان اور لنڈا بازار کے بانی تھے جن کا انتقال 4 فروری 1876 کو ماہ رمضان کی 27 تاریخ کو ہوا۔

دیگر بزرگانِ دین و مشہور ہستیاں؛
ان کے علاوہ میانی صاحب قبرستان میں بڑے چھوٹے کئی مزار و مقبرے موجود ہیں جن میں بہت سے نام ور و گم نام بزرگانِ دین آرام فرما رہے ہیں جن سے ہم واقف بھی نہیں۔ حضرت خواجہ چراغ الدین اولیاء، حضرت خواجہ عبدالمجید سید سرہالی چشتی قادری، حضرت خواجہ عامر مجید چشتی قادری، حضرت خواجہ فیروز الدین، سید معصوم علی شاہ کے مزارات اور حضرت موسیٰ خاں، زیڈ اے سلہری، حمید نظامی، مجید نظامی، صوفی تبسم، منوبھائی، میاں عبدالرشید، عبدالمالک شہید، زبیدہ خانم، وزیراعظم لیاقت علی کی والدہ، کی قبریں بھی یہاں موجود ہیں۔

بہت سے خاندانوں نے یہاں اپنے احاطے بھی بنا رکھے ہیں جہاں ایک ہی خاندان کے کئی لوگوں کی قبریں موجود ہیں اور کچھ جگہ خالی بھی ہے۔ یہاں جا کر ایک عجیب طرح کا اطمینان محسوس ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے یہ قبریں ہم سے کچھ کہنا چاہتی ہیں۔
کیا۔۔۔۔؟؟؟؟ یہ تو وہاں جا کر ہی پتا چلے گا۔

(اگر آپ بھی یہاں مدفون کسی اور مشہور ہستی کے بارے میں جانتے ہیں تو دیے گئے ای میل پر مجھے ضرور بتائیں، شکریہ)

The post اس شہرخموشاں میں سوتا ہے کون کون appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3eCdH68