دھوبی کا کُتّا ہوتا ہے یا کتکا؟ - KHB Point

کے-ایچ-بی پوائنٹ (ملکی و غیر ملکی تمام خبریں فراہم کرنے والاایک مکمل نیوزپلیٹ فام نیٹ ورک)

تازہ ترین

دھوبی کا کُتّا ہوتا ہے یا کتکا؟

زباں فہمی نمبر 72

واٹس ایپ بزم ’زباں فہمی ‘ میں کبھی کبھی بہت دل چسپ بحث چھِڑجاتی ہے جو ہمارے تمام اراکین کے لیے معلومات میں اضافے کا سبب بھی بنتی ہے۔ اب کے جو بحث چھِڑی تو وہ دیگر واٹس ایپ حلقوں تک بھی جاپہنچی۔ کسی نے انٹرنیٹ سے مندرجہ ذیل مواد نقل کرکے ارسال کیا:’’دھوبی کا کُتّا، کہاں کا؟: آج ایک نیا انکشاف ہوا۔ یہ پرانی کہاوت جس طرح سننے میں آتی ہے، غلط ہے۔ ’دھوبی کا کُتّا، گھر کا نہ گھاٹ کا‘ میں لفظ کُتّا صحیح نہیں; اصل میں یہ لفظ کُتکا ہے جو لوگوں کی زبان پر چڑھ کر کُتّا بن گیا۔ کُتکا لکڑی کے اس بھاری بھرکم ڈنڈے کو کہتے ہیں جس سے دھوبی میلے کپڑوں کو کوٹتے ہیں۔

ایسے ہی ڈنڈے سے بھنگ بھی گھوٹی جاتی ہے۔ یہ لفظ اردو لغت میں بھی موجود ہے۔ یہ بہت وزنی ہوتا ہے، اسی لیے دھوبی اسے اٹھاکر گھر نہیں لاتے، بلکہ راستے میں کہیں رکھ چھوڑتے ہیں۔ اسی بناء پر کہا جاتا ہے، نہ یہ گھر آتا ہے اور نہ گھاٹ پر چھوڑا جاتا ہے۔ ایسا ہی لفظ ’خُتکا‘ ترکی زبان میں بھی ہے۔

انٹرنیٹ پر یہ معلومات محمد صادق صاحب نے فراہم کی ہیں۔ میں نے بھی اپنے بزرگوں کی زبانی دو کہاوتیں سنی ہیں، جو اَصل میں ایسی نہیں ، جیسی اب رائج ہیں۔ بزرگ بتاتے ہیں کہ ’نہ نومن تیل ہوگی (ہوگا) نہ رادھا ناچے گی‘، اصل میں یو ں تھا کہ ’نہ مَن ہوگا، نہ رادھا ناچے گی‘۔ اور دوسری کہاوت اصل میں یوں تھی،’یہ منہ (منھ) اور منصور کی دار؟‘جسے لوگوں نے مَسور کی دال بنادیا۔ سچ کیا ہے، اللہ ہی جانے۔‘‘

یہی عبارت قدرے مختلف انداز میں ایک دوسرے واٹس ایپ حلقے میں اس طرح نقل کی گئی:’’دھوبی کا کتکہ۔ نہ گھر کا نہ گھاٹ کا۔ جو نئے دور میں بگڑ کر کتا بن گیا۔ دھوبی کا کتا، گھر کا نہ گھاٹ کا، اس میں کتا سے مراد ”کُتا” (dog) ہی لیا، سمجھا اور پڑھا بھی جاتا ہے لیکن آج نئی بات علم میں آئی تو ہماری علمیت کا جنازہ نکل گیا۔

یہ لفظ کُتا نہیں بلکہ کَتا ہے جس سے مراد کپڑے دھونے کا وہ ڈنڈا ہے جسے دھوبی ساتھ لیے پھرتا ہے۔ اصل لفظ کتکہ ہے جو بگڑ کر کتا بن گیا۔ پرانے وقتوں میں کپڑے گھاٹ پر دھوئے جاتے تھے اور کپڑوں کو صاف کرنے کے لیے دھوبی اک بھاری بھرکم ڈنڈے کا استعمال کیا کرتا تھا جس کو کتکہ کہا جاتا تھا۔

وہ کتکہ گھاٹ پر نہیں رکھا جاتا تھا کیوں کہ کوئی اور اٹھا لے گا اور گھر لانے میں بے جا مشقت کرنی پڑتی۔ اس لیے (اس لیے) دھوبی وہ کتکہ راستے میں مناسب جگہ چھپا دیتا اور اگلے دن نکال کر پھر استعمال کرلیتا۔ اس طرح کتکہ نہ گھر جا پاتا اور نہ گھاٹ پر رات گزارتا۔ منقول۔‘‘ واٹس ایپ بزم ’زباں فہمی ‘ میں ہمارے بزرگ معاصر، معروف سخنور، (سابق شیخ الجامعہ لال شہباز قلندریونی ورسٹی، خادم علی شاہ بخاری انسٹی ٹیوٹ و نیو پورٹ یونی ورسٹی، سابق رجسٹرار جامعہ کراچی) محترم پروفیسرمحمدرئیس علوی نے تردید کرتے ہوئے فرمایا:’’جناب کتا درست ہے۔

دھوبی اپنے ساتھ کو ئی ڈنڈا لے کر گھاٹ پر کبھی نہیں گیا۔ اس کے ساتھ گدھے پر لادی اور پیدل عام طور پر کتا ہو تا تھا۔ وہ گھاٹ پر کپڑے کوٹتا نہیں تھا بلکہ پاٹ پر کپڑوں مارتا/ پٹختا تھا۔ پاٹ اس پتھر کی سل یا لکڑی کے بنے ہوئے موٹے تختے کو کہتے تھے جس پر وہ کپڑوں کو کئی کئی بار زور زور سے مارتا یا پٹختا تھا۔ کُشتی کا داؤں، دھوبی پاٹ بھی دھوبی کے کپڑوں کو اٹھا کر پاٹ پر پٹختے سے مستعار ہے۔

آج کل دھوبی کس طرح کپڑے دھوتے ہیں، ہمیں نہیں معلوم۔‘‘۔۔۔۔ہمارے ایک اور بزرگ کرم فرما، محترم انیس احمدصدیقی (شعبہ تشہیر کی نامور ہستی ) نے تائید کرتے ہوئے ارشاد کیا: ’’یہی صحیح ہے۔ تاریخی طور پر گدھا اور کتا دھوبی کے کلیدی معاونین رہے ہیں۔ جب کپڑے دھو کر دور تک سوکھنے کے لیے پھیلائے جاتے تو کتا ہی اُن کی رکھوالی کرتا۔ شریک بحث، رکن واٹس ایپ بزم زباں فہمی جناب محسن رضا (ایم فل اسکالر) نے کہا: کتا (dog) نہیں ہے بلکہ کتا (زبر سے) ہے۔ ایک پروفیسر صاحب نے بتایا تھا۔

اور فُلاں نیوز چینل پر ایک صاحب پروگرام کرتے ہیں انھوں نے بھی یہ بتایا تھا۔ کتے پر دھوبی کپڑے پٹخ پٹخ کر دھوتا تھا–کتا (dog) ہر دھوبی کے ساتھ تو نہیں ہوتا ہو گا۔ خاکسار نے عرض کی: یہ بات بلاسندوحوالہ پھیل رہی ہے۔۔۔۔۔تو محترم محسن رضانے فرمائش کی:’’جی سر ! پھر ہمیں حوالہ دے دیں تاکہ ہم لوگوں کو بتا سکیں۔

خاکسار کا جواب یہ تھا: ’’لغات اور اہل زبان کا روزمرہ، محاورہ ہی سند ہے۔ پروفیسرمحمدرئیس علوی اور محترم انیس احمدصدیقی دونوں ہی صاحب علم ہیں۔ محسن رضاصاحب نے صوتی پیغام میں ایک مشہور ٹی وی ’بقراط‘ کا نام لیتے ہوئے مزید استفسار کیا کہ آیا گھوڑے بیچ کر سونا درست ہے یا (اُن فاضل کے بقول) بِیچ کر (بے کے نیچے زیر)۔ ہم نے اس پر توجہ دیے بغیرکہا کہ موصوف ایک مشہورشاعر کے فرزند اور بیرون ملک سے سندیافتہ ہیں۔

بہرحال اہل زبان نہیں۔ ماضی قریب میں انھوں نے ایک پھلجڑی چھوڑی توخاکسار نے کالم زباں فہمی میں اس کے متعلق لکھا تھا۔ وہ نہ تو اہل زبان ہیں نہ ہی ماہرزبان۔۔۔۔۔اس طرح کی بات کہتے ہوئے سندوحوالہ لازم ہے۔ محترم رئیس صاحب نے مزید ارشاد کیا کہ ’’حوالے کے لیے کشتی کا داؤں، دھوبی پاٹ کافی ہے کہ اس میں بھی مخالف کو اپنی پشت پر لے کر سامنے پٹختے ہیں، یہی کام کپڑوں کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ دھوبی ان کو اٹھا کر سامنے پاٹ پر پٹختا ہے۔ پاٹ کی تعریف پہلے آچُکی ہے۔

دھوبی کپڑوں کو کسی لکڑی سے نہیں پیٹتا ہے بلکہ کپڑوں کو پاٹ پر مارتا یا پٹختا ہے۔‘‘ ہم نے اپنے نجی کتب خانے میں موجود کچھ مستند لغات کی گَرد جھاڑی تو حسب معمول، لغات کشوری سے ابتداء کی۔ مولوی سید تصدق حسین رضوی نے لفظ ’کتکہ‘ کا مطلب موٹا ڈنڈا لکھتے ہوئے اسے فارسی الاصل قرار دیا ہے۔

نوراللغات میں پہلے لفظ کُتَک لکھا ہے جس کے معنی ہیں، سونٹا اور مُوسل۔ یہ ہندی الاصل لفظ مذکر ہے،{راجہ راجیسور راؤ اصغرؔ کی ہندی۔ اردو لغت میں شامل نہیں}۔ جبکہ اسی لغت میں کُتکا کے ذیل میں لکھا ہے: مذکر، ترکی (زبان) میں موٹا ڈنڈا، بھنگ گھوٹنے کا سونٹا۔ فرہنگ آصفیہ کے بیان کی رُو سے کُتَک (نیز خُتک) کے تے پر تشدید بھی ہے اور اس کے معانی میں مُوسل کے ساتھ مُوسلی بھی شامل ہے۔

اب دیکھیے یہ انکشاف کہ اسی لفظ سے ترکی کا خُتکا /کُتکا بنا ہے، جس کے معانی ہیں: بھنگ گھوٹنے کا سونٹا، سونٹا، موسل (فرہنگ آصفیہ)۔ فرہنگ آصفیہ میں اس پیشے کے متعلق یہ اندراجات شامل ہیں: ۱)۔ دُھلائی (ہندی) اسم مؤنث، کپڑے دھونے کی اُجرت، دُھلوائی۔۲)۔ دُھوب (ہندی) اسم مذکر، شوپ، دُھلاوَٹ، ۳)۔ دُھوب پڑنا (ہندی) فعل لازم، شوب پڑنا، دھویا جانا،۴)۔ دھوبن (ہندی) اسم مؤنث، دھوبی کی بیوی، کپڑے دھونے والی عورت، ایک چڑیا کا نام (پرندہ: دھوبی چڑیا)، ۵)۔ دھوبی (ہندی) اسم مذکر، کپڑے دھونے والا، برینٹھا {یہ لفظ بالکل متروک اور نامانوس ہے}۶)۔ دھوبی پاٹ (ہندی ) اسم مذکر، کُشتی کے ایک پیچ کا نام جس میں حریف کو کمر پر لاد کر دے مارتے ہیں

کپڑا دھونے کی سِل یا تختہ،۷)۔ دھوبی کا چھیلا (ہندی) صفت، پرائے مال پر اِترانے والا، دورَنگا، ناموزوں لباس والا، ۸)۔ دھوبی کا کُتّا(ہندی) اسم مذکر۔ اِلَّل لَذی نہ اُلَّل لَذی، اِدھر نہ اُدھر، بے سروپا آدمی، محض نکمّا اور بے کار آدمی، آوارہ گرد جیسے ’دھوبی کا کُتّا، گھر کا نہ گھاٹ کا‘ {اِلَّل لَذی نہ اُلَّل لَذی خالصاً زنانہ فقرہ /کہاوت ہے۔ یہ جب بولا جاتا تھا کہ جب کوئی شخص کسی معاملے میں تَذَبذُب کا شکار ہو اور کسی ایک طرف ہونے کی بجائے کبھی کچھ تو کبھی کچھ کہتا ہو۔ غیرمستقل مزاج پر بھی منطبق ہوتا تھا}۔ یہاں محض اطلاعاً عرض کردوں کہ راجہ راجیسور راؤ اصغرؔ جیسے فاضل نے اپنی ہندی۔ اردو لغت میں دھوبی شامل نہیں کیا اور قدرت نقوی نے بھی اس کے ضمیمے میں اس کا ذکر ضروری خیال نہیں کیا۔

نوراللغات میں فرہنگ آصفیہ سے استفادے کے بعد، لکھا ہے: ’’دھوبی سے بَس نہ چلے، گدھے کے کا ن کاٹے (مَثَل) [یعنی] زبردست سے (پر) زور نہ چلا تو کمزور کو دَبالیا۔‘‘ زیربحث کہاوت کے متعلق مولوی نورالحسن نَیّر نے لکھا ہے: ’’اُس شخص کی نسبت بولتے ہیں جو کسی مَصرَف کا نہ ہو، جیسے ’ارے ہندوستانی بھائیو! خدا کے واسطے، کچھ ہاتھ پاؤں ہِلاؤ۔ اب تو گھر بار سب جگہ ترقی کا دَور دورہ ہوچلا۔ اب تو مُنہ (منھ) چھُپانے کو کہیں جگہ نہیں رہی۔ اگر پھسڈی رہ گئے تو پائے رفتن نہ جائے ماندن۔ سچ مچ دھوبی کے کُتّے، گھر کے نہ گھاٹ کے‘‘۔

نوراللغات میںلفظ ’کَتّا‘ کے ذیل میں لکھا ہے: (ہندی ) بالفتح (یعنی زبر سے)، ایک مشہور قسم کی تلوار جو آگے سے چوڑی اور دُہری دھار کی ہوتی ہے۔ اسی لغت میں لفظ ’کُتّا‘ (جانور) کے دیگر معانی میں لکھا ہے: بندوق کا گھوڑا، گھڑی کا پُرزہ جو چکّر کو روکتا ہے، رَہٹ کی لکڑی جو اُس کے چکّر کے اوپر لگی رہتی ہے، (نیز) کنایتاً پیٹ جیسے یہ کُتّا ایسا پیچھے لگا ہے کہ کہیں سے ہو، پہلے اِسے کھِلادو۔ مزید تفصیل کے لیے لغت ملاحظہ فرمائیں۔ کُتّے کے متعلق فرہنگ آصفیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک قسم کی گھاس بھی کُتّا کہلاتی ہے، جس کی بال کپڑوں میں لپٹ جاتی ہے۔

اسے لیدھڑا بھی کہا جاتا ہے۔ مزید تحقیق کی تو پتا چلا کہ یہ گھاس عربی میں السبط المحدب، فارسی میں خوردال، انگریزی میں ان ناموں سے پکارا جاتا ہے:Buffel grass, African foxtail grass, Foxtail Buffalo grass,Blue buffalo grass, Rhodesian foxtail and Sandbur ۔ اس کا نباتی نام Cenchrus cilié ہے۔ یہاں رک کر ایک دل چسپ نکتہ بیان کرتا ہوں۔ ہمارے یہاں نیلے پھولوں کی ایک بیل کو ’’کُتّا بیل‘‘ اور اس کے پھولوں کو کُتے والے پھول کہا جاتا ہے۔

یہ دراصل Asian pigeonwings ہے جس کے بہت سارے نام ہیں اور ہندو اپنی پوجا کی رسوم میں بھی استعمال کرتے ہیں۔ پروفیسر محمد حسن کی مُرَتّبہ فرہنگ اردو محاورات میں زیر بحث کہاوت کو بطور محاورہ شامل کرتے ہوئے یہی لکھا گیا: ’’اِدھر، اُدھر پھرنے والا، نکمّا آدمی‘‘، پھر ایک اور اضافہ یہ کیا گیا: ’’دھوبی کا گیت (کی گت)، دھوبی جانے یعنی جس کا کام، اُسی کو بھاوے‘‘۔ ہم تو یہی سنتے پڑھتے آئے ہیں کہ جس کا کام اُسی کو ساجے (یعنی سجتا ہے)۔ ناموراستاد فارسی محترم حضوراحمدسلیم مرحوم (شعبہ فارسی، جامعہ سندھ، جام شورو، حیدرآباد۔ سندھ) نے اپنی درسی کتاب ’آموزگارِفارسی‘ میں ’’دھوبی کا کُتّا، گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘ کا فارسی مترادف بھی تحریر فرمایا تھا: ’’از آنجا ماندہ، از اِین جا راندہ۔‘‘ (طبع چہارم، فروری ۱۹۸۴ء)۔ فرہنگ عصریہ (اردو سے فارسی لغات) از حافظ نذراحمد، پرنسپل شبلی کالج ، لاہور کی رُو سے یہ برعکس ہے: ازاین جا درماندہ و ازآنجا راندہ۔

اب آتے ہیں محاورے/کہاوت ’’گھوڑے بیچ کر سونا‘‘ پر۔ فرہنگ آصفیہ کا بیان ہے: ’’’گھوڑے بیچ کر سونا‘‘ (ہندی)۔ فعل لازم:۔ بالکل فارغ، بے پروا اور مطمئن ہوکر سونا، بے فکری سے پڑکر سونا، پاؤں پھیلاکر سونا۔ چونکہ گھوڑے کے سوداگر کو، جب تک اُس کا مال نہیں بک لیتا، سب سے زیادہ فکر اور تردد رہتا ہے اور بیچ لینے کے بعد، وہ نہایت بے فکر ہوجاتا ہے، اس وجہ سے معنی مذکورہ پر اطلاق ہونے لگا یعنی گھوڑے کی فکر سے نچنت (نِش +چَنت) ہوجانے کے سبب، پاؤں پھیلاکر سویا۔‘‘

پروفیسر محمد حسن کی مُرَتّبہ فرہنگ اردو محاورات کے مطابق، گھوڑے بیچ کر سونا کے معنی ہیں پاؤں پھیلاکر، بے فکری سے سونا۔ اسی طرح ’’یہ منھ اور مسور کی دال‘‘ کے متعلق بھی بہت مشہور حکایت ہے کہ کسی نواب (ایک بیان کے مطابق نواب واجدعلی شاہ) نے کسی باورچی سے مسور کی دال پکانے کی فرمائش کی اور جب اس کے اجزاء کی تعداد، مقدار اور قیمت دیکھی تو بہت متعجب ہوا۔ باورچی غصہ کرکے اَدھ کچی دال کی ہنڈیا اُلٹ کر، وہاں سے چلاگیا۔ تمام لغات میں اس کی بابت بیان ملتا ہے۔ نامعلوم کہاں سے اس کے برعکس کوئی اور توجیہ تلاش کرلی گئی جو کم ازکم فی الحال، دورازکار معلوم ہوتی ہے۔

فرہنگ عصریہ (اردو سے فارسی لغات)از حافظ نذراحمد کے بیان کے مطابق ’’یہ منھ اور مسور کی دال کے لیے فارسی میں کہا جاتا ہے: حلوہ خوردن را رُوی (رُوے) باید۔ تمام مآخذ سے خوشہ چینی کرتے ہوئے بندہ یہی کہہ سکتا ہے کہ بلا سند وحوالہ پھیلائی گئی یہ بات غلط ہے کہ اصل کہاوت ہمارے مشہور جانور، اور مغرب میں علامت ِ وفاداری، کُتّا صاحب کی بجائے کَتّا یا کُتکا یا کُتکہ کے متعلق ہے۔ ٹی وی کے بقراط کو یہی بات ذرا بقراطی انداز میں سمجھانے کے لیے خاکسار یوں سعی کرتا ہے: یہ لسانی قیاس ہے جسے اجتہاد کا درجہ ملنا بعیدازقیاس ہے، چہ جائیکہ اس پر اِجماع ہوجائے۔

The post دھوبی کا کُتّا ہوتا ہے یا کتکا؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/38nXKNU