’’آپ نے شرمانا
نہیں ہے۔۔۔!‘‘
خانہ پُری
ر ۔ ط۔ م
پچھلے برس کی طرح اس سال بھی ’شہرِقائد‘ میں ساون خوب برسا ہے اور شہر کے مختلف علاقوں میں پانی جمع ہونے کی صورت حال کم وبیش پچھلے برس جیسی ہی ہے۔۔۔ لیکن شاید اس پر کی جانے والی سیاست پچھلے برس سے بھی زیادہ عجیب رنگ میں دکھائی دیتی ہے۔۔۔ ہوا یوں کہ شہر کی بلدیاتی حکومت پر براجمان متحدہ قومی موومنٹ، صوبائی حکومت پر پیپلز پارٹی اور وفاقی حکومت پر تحریک انصاف نے جم کر ایک دوسرے پر خوب چھینٹیں اڑائے ہیں۔۔۔ اور عوام نے ان کی ہاہاکار سے تنگ آکر اس بار بھی اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں۔۔۔
میئر کراچی وسیم اختر نے حسب سابق اپنے اختیارات اور پیسہ نہ ہونے کا روایتی راگ الاپا، اور اپنی ’ختم شد‘ ساکھ بچانے کی ایک اور ناکام کوشش کی، دوسری طرف صوبائی وزیر ناصر حسین شاہ نے یہ کہہ کر حد ہی کر دی کہ لوگ پانی کی نکاسی نہ ہونے کے حوالے سے ’فیس بک‘ پر پچھلے برس کی تصاویر اور ویڈیو پھیلا رہے ہیں۔۔۔ یعنی اب آپ اسے ’تجاہلِ عارفانہ‘ کہہ لیں یا کچھ اور۔۔۔ یہ بات ضرور ہے کہ کچھ لوگوں نے دیگر شہروں کی تصویریں بھی ’کراچی‘ کی قرار دے کر خوب مشتہر کی ہیں، لیکن اکثر تصویریں اور ویڈیو تو تازہ تھیں۔۔۔ تیسری طرف (2018ء کے انتخابی نتائج کے مطابق) شہر بھر سے ’بھاری اکثریت‘ حاصل کرنے والی جماعت ’پاکستان تحریک انصاف‘ تھی، جس میں کراچی سے منتخب دو عدد اراکین ’وفاقی وزیر‘ بھی کہلاتے ہیں۔۔۔ وہ بھی ’متحدہ‘ اور ’پی پی‘ کی طرح بیانات اور نمبر بنانے پر زیادہ مرکوز رہی۔۔۔ کبھی تو ایسا لگتا تھا کہ تحریک انصاف کی قیادت ’’آپ نے گھبرانا نہیں ہے!‘‘ کی طرز پر ایک آنکھ میچ کے کہہ رہی ہو کہ ’آپ نے شرمانا نہیں ہے۔۔۔!‘ جسے سن کر بے ساختہ تمام حاکموں سے یہ پوچھنے کو جی چاہتا ہے کہ ’کیا آپ نے شرمانا نہیں ہے۔۔۔؟؟‘
جس طرح ناکامی یتیم ہوتی ہے، اسی طرح آپ پوچھ کر دیکھ لیجیے، آپ کو پتا چلے گا کہ کراچی کے فراہمی آب اور نکاسی آب سے کوڑا کرکٹ، گندگی اور ابتر صورت حال کا کوئی ایک بھی ذمہ دار نہیں ہے۔۔۔! اس حوالے سے سبھی اپنے اپنے تعصبات کے مطابق کسی نہ کسی کو ’ذمہ دار‘ قرار دے رہے ہیں، لیکن مجال ہے کہ شہر میں دو، دو فٹ تک جمع ہونے والے برساتی پانی میں کسی نے بھی ’چلو بھر پانی‘ لیا ہو۔۔۔!
دوسری طرف پیر 27 جولائی 2020ء کو شہر میں برسات کا ایک عجیب ہی ماجرا ہوا۔۔۔ فیڈرل بی ایریا، ناظم آباد، بلدیہ ٹاؤن، نارتھ ناظم آباد، اورنگی ٹاؤن اور بفرزون وغیرہ میں کئی گھنٹے موسلا دھار بارش ہوتی رہی، جب کہ باقی شہر میں ٹھیک طرح سے بوندا باندی بھی نہ ہوئی، بلکہ زیادہ تر وقت تیز دھوپ نکلی رہی۔۔۔ ماہرین کی اصطلاح کے مطابق یہ غیر متوقع شدید برسات ’بادل پھٹنے‘ کا نتیجہ تھی۔۔۔ جس سے کراچی کے صرف مذکورہ علاقوں میں تین سے چار گھنٹے مسلسل مینہ برستا رہا اور ’اورنگی‘ وغیرہ میں تو سیلابی صورت حال پیدا ہوگئی۔۔۔ لیکن اس ’سیلاب‘ میں بھی بے چارے کراچی کے عوام ہی ڈوبے اور ان کی حکمرانوں سے وابستہ توقعات غرق ہوئیں۔۔۔
ہم اگر غور کریں تو میئر کراچی کی جماعت ’متحدہ قومی موومنٹ‘ 22 اگست 2016ء کے بعد سے اپنے نام کے آخر کے بریکٹ یا قوسین میں لکھے ہوئے ’پی‘ پر بہت زیادہ زور دیتی ہے۔۔۔ بقول شخصے اسی ’پی‘ میں ہی تو اب اس کی ’جاں بخشی‘ ہے۔۔۔ اگر وہ اس ’پی‘ کی لاج رکھ کر سارا برساتی پانی ’’پی‘‘ جائے۔۔۔؟؟ دفعتاً پھر یہ خیال آیا کہ ’پینے‘ کے لیے ’قرض کی مے‘ یا ’کمیشن‘ کی ’لے‘ ہونا بھی تو ضروری ہے۔۔۔ شاید ’بھتّے‘ ’کھا‘ کر ڈکار لیے ہوں اور سوچا ہوگا کہ چلو بہت ’کھا‘ لیا اب کیوں نہ ’کچھ‘ پی لیں۔۔۔! اس لیے ’ایم کیو ایم‘ کے ساتھ ’پی‘ کا بھی ایک ’دم چھلّا‘ لگا لیا، (حالاں کہ یہ ’پی‘ ان کے نام کا حصہ شروع سے ہی ہے) ویسے یہ ’پی‘ کی خصوصیت تو ہماری سبھی حکمراں جماعتوں میں پائی جاتی ہے۔
ہمارا مطلب ہے انگریزی کا لفظ ’پی‘۔ جیسے ایم کیو ایم (پی!)، پی! ٹی آئی اور رہی گذشتہ 12 برس سے صوبۂ سندھ کی سیاہ سفید کی مالک، تو اس میں تو ایک ساتھ تین، تین ’پی‘ ہیں یعنی ’پی! پی! پی!‘ خیر، برکھا کے جَل کا کیا ہے، صاف نہ بھی ہو تو تیز دھوپ میں خشک ہو ہی جائے گا۔۔۔ البتہ اس برسات نے جس طرح بہت سی دیواروں سے پرانی تحریریں ’تازہ ‘ کی ہیں، وہیں ایک پرانی بحث بھی دوبارہ چھیڑ دی ہے، یعنی ’کراچی صوبے‘ کی۔۔۔! اب شہری حلقوں میں ایک بار پھر یہ آوازیں اٹھنے لگی ہیں کہ ملک کا پانچواں صوبہ ’پانچویں قومیت‘ کا ہونا چاہیے۔۔۔ دوسری طرف اتنی ہی زور شور سے اس پر ردعمل بھی سامنے آرہا ہے کہ ’سندھ ناقابل تقسیم ہے۔۔۔!‘ دیکھیے کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک۔۔۔
۔۔۔
’’اب کیا کریں۔۔۔؟‘‘
مرسلہ: سعید احمد، عزیزآباد
آپ لندن میں ’’10 ڈاؤننگ اسٹریٹ‘‘ جائیں، آپ کو لکڑی کا ایک بھدا سا دروازہ ملے گا۔ آپ اس کے اندر داخل ہوں، تو سامنے ’’کیبنٹ ہال‘‘ ہے جس میں بہ مشکل 50 افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ اس کے گرد دو چھوٹے چھوٹے کمرے ہیں۔ جن میں صوفے لگے ہوئے ہیں۔ اس کے اوپر (دوسری منزل) وزیراعظم کا آفس ہے۔
معمولی سا کمرا جس میں ایک دفتری میز، ایک بڑی کرسی اور چند چھوٹی کرسیاں ہیں۔ کمرے میں ایک تولیے، چند فائلوں اور ایک آدھ تصویر کے علاوہ کوئی قابل ذکر چیز نہیں۔ اس آفس کے باہر وزیراعظم کے عملے کے چند دفتر ہیں۔ ایک کیبنٹ سیکریٹری کا دفتر‘ ایک پرسنل سیکریٹری اور اس کے سیکریٹری کا دفتر اور ایک پروٹوکول آفیسر کا دفتر۔ تیسری منزل وزیراعظم ہاؤس ہے، جہاں وزیراعظم اپنی فیملی کے ساتھ اپنی آئینی مدت پوری کرتا ہے۔
یہ دو بیڈ روم کی ایک معمولی سی رہائش گاہ ہے۔ جس میں کوئی خانساماں، کوئی بٹلر اور کوئی چوکی دار نہیں۔ گھر کے تمام کام خاتون اول کرتی ہیں جبکہ دروازہ کھولنا بند کرنا وزیراعظم کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ سرکاری خدمات کی بجا آوری کے بعد مسٹر ٹونی بلیئر اور مسز بلیئر سر جوڑ کر گھر چلانے کے نسخے ڈسکس کرتی ہیں۔ ذاتی دوستوں سے ملنے کے لیے اپنی پرانی گاڑی میں جاتے ہیں۔ خریداری کے لیے ’سیل‘ کے سیزن کا انتظار کرتے ہیں اور مہمانوں کی آمد پر دونوں میاں بیوی ’’اب کیا کریں؟‘‘ کی کھسر پھسر بھی کرتے ہیں، جب کہ ہمارے ہاں کی صورت حال آپ سب جانتے ہی ہیں۔
۔۔۔
جب کراچی پر بم باری ہو رہی تھی۔۔۔!
مرسلہ: شاہدہ یوسف، راول پنڈی
ایک زمانے میں یہ دستور تھا کہ امرا و رؤسا عمارت تعمیر کراتے تو اس کی ’نیو‘ میں اپنی حیثیت اور مرتبے کے مطابق کوئی قیمتی چیز رکھ دیا کرتے تھے۔ نواب واجد علی شاہ اپنی ایک منہ چڑھی بیگم، معشوق محل سے آزردہ ہوئے، تو اس کی حویلی ڈھا کر ایک نئی عمارت تعمیر کرائی۔ معشوق محل ذات کی ڈومنی تھی۔
اس نسبت سے اس کی تذلیل و تضحیک کے لیے نیو میں طبلہ سارنگی رکھوا دیے۔ میں نے اس کتاب کی بنیاد اپنی ذات پر رکھی ہے۔ جس سے ایک مدت سے آزردہ خاطر ہوں کہ ’’پیشہ سمجھے تھے جسے ہوگئی وہ ذات اپنی‘‘ کم و بیش 20 سال پرانی یادوں اور باتوں کی پہلی قسط 1972ء میں مکمل ہوگئی تھی۔ یاد پڑتا ہے کہ اس کے دو باب دسمبر 1971ء میں موم بتی کی روشنی میں ان راتوں کو لکھے گئے، جب کراچی پر مسلسل بم باری ہو رہی تھی اور راکٹوں اور اک اک گنز کے گولوں نے آسمان پر آتشیں جال سا بن رکھا تھا۔ ہماری تاریخ کا ایک خونچکاں باب رقم ہو رہا تھا۔
ہجوم کار اور طبیعت کی بے لطفی نے تین سال تک نظر ثانی کی اجازت نہ دی۔ ستمبر 1975ء میں جب معدے سے خون آنے لگا اور ڈیڑھ مہینے تک نقل و حرکت بستر کے حدود اربعہ تک محدود ہوکر رہ گئی، تو بارے یک سو ہوکر زندگی کی نعمتوں کا شمار و شکر ادا کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ مسوّدے پر نظر ثانی کا مرحلہ بھی لیٹے لیٹے طے ہوگیا۔ اپنی تحریر میں کاٹ چھاٹ کرنے اور حشو و زوائد نکالنے کا مسئلہ بڑھا ٹیڑھا ہوتا ہے۔ یہ تو ایسا ہی عمل ہے جیسے کوئی سرجن اپنا اپنڈکس آپ نکالنے کی کوشش کرے۔
(مشتاق احمد یوسفی کی کتاب ’’زرگزشت ‘‘ سے ماخوذ)
۔۔۔
کسی کو ’غائب‘ کرنا مشکل نہیں!
مرسلہ: رفعت رضا، لاہور
کہتے ہیں ’لاحول ولاقوۃ‘ پڑھو تو شیطان غائب ہو جاتا ہے۔ میرا دوست ’ف‘ کہتا ہے ’’کسی کو غائب کرنا کون سا مشکل کام ہے۔ یہ تو میرے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔‘‘ ٹھیک کہتا ہے جب وہ بایاں ہاتھ بڑھا کر ادھار مانگتا ہے، تو اس کا مقابل پلک جھپکتے ہی غائب ہو جاتا ہے۔ ’شیطان‘ پہلا وکیل بھی ہے۔
جس نے آدم کو مشورہ دیا کہ پھل کھالو، پھر تم سے کوئی جنت کا قبضہ نہ لے سکے گا۔ ہمیشہ کے لیے یہیں رہوگے اور فیس مشورے میں جنت لے لی۔ اپنی غلطی تسلیم نہیں کی۔ شاید اسی لیے ہم بھی آج کل اپنی غلطی نہیں مانتے۔ جھوٹ کے پاؤں نہیں پہیے ہوتے ہیں، مگر سچے کے پاؤں تو ہوتے ہیں سر نہیں ہوتا۔ کہتے ہیں اکیلے آدمی کے ساتھ دوسرا شیطان ہوتا ہے۔ اسی لیے میں ساتھ ہوں۔ ’ف‘ کہنے لگتا ہے: ’’وہ خود کو اکیلا محسوس کر رہا ہے۔‘‘ اس دنیا کا پورا نظام شیطان کی وجہ سے چل رہا ہے۔ اگر شیطان نہ رہے تو کوئی انسان نہ رہے، سب ’فرشتے‘ ہو جائیں۔
ہمیں انسان رہنے کے لیے شیطان چاہیے۔‘‘ وہ نہ ہوتا تو بہت سوں کے بچے بھوکے مر جاتے کہ یہی تو ان کا ذریعہ روزگار ہے۔ شیطان نہ ہو تو کس کے خلاف تقریریں کریں۔ یہ سارے حُسن کے بازار، رقص و موسیقی کی محفلیں اس کے ’دم قدم‘ سے تو ہیں۔ وہ نہ ہوتا تو کوئی سیاست داں اور شاعر نہ ہوتا۔ عورت کا تو کوئی کام ہی نہ رہ جاتا۔ کہتے ہیں عورت زمین پر شیطان کی ایجنٹ ہے۔ یہ ٹھیک لگتا ہے کیوں کہ شیطان بھی تو مذکر ہی ہے۔
(ڈاکٹر یونس بٹ کی کتاب ’’مزاحیات‘‘ سے انتخاب)
۔۔۔
اَن پڑھ نامہ
کلیم چغتائی
اَن پڑھ کا ہے قصیدہ کسی نے پڑھا خطیر
اَن پڑھ کے فیصلے ہوئے سارے ہی ملک گیر
اَن پڑھ کا مرتبہ ہے حکومت میں اب کبیر
اَن پڑھ ہی مارتے ہیں وہی بنتے ہیں ظہیر
اَن پڑھ نے ہے پڑھایا، عبث علم ہے یہاں
اَن پڑھ ہی کھینچتے ہیں مکاتب میں اب لکیر
اَن پڑھ ہی اب کثیر ہیں پیروں میں دست گیر
اَن پڑھ ، معالجوں میں بھی ہوتے ہیں داروگیر
اَن پڑھ کوئی نظر نہیں آتا ہے اب فقیر
اَن پڑھ ہے کام یاب، ہو وہ پیر یا جواں
اَن پڑھ، عدالتوں میں دلائل کے ترجماں
اَن پڑھ اُڑا رہے ہیں جہازوں کے کارواں
اَن پڑھ اٹھا رہے ہیں عماراتِ خستہ جاں
اَن پڑھ ہیں سب امورِ سیاست کے راز داں
اَن پڑھ ہی قبل ازیں ہیں تو اَن پڑھ ہی بعد ازاں
اَن پڑھ نے ایسا باندھا ہے اب دل نشیں سماں
اَن پڑھ کے سامنے کوئی رک پائے گا کہاں
اَن پڑھ بنیں جو ملک کے نادان حکم راں
اَن پڑھ اجاڑ دیں گے سہولت سے گلستاں
اَن پڑھ نہ رہنے دیں گے کوئی علم کا نشاں
ان پڑھ ہیں مومن و جگر و درد اور دبیر
اَن پڑھ ہی ہوگئے ہیں اب اقبال اور میر
اَن پڑھ کئی ہیں غالب و اکبر کئی نظیر
اَن پڑھ ہی اب فگار ہیں اَن پڑھ ہوئے ضمیر
اَن پڑھ ہوئے ہیں رونقِ بزمِ سخن وَراں
اَن پڑھ ہیں قوم و ملک کے معمارِ اولیں
اَن پڑھ ہی خِردبیں ہیں، اَن پڑھ ہی دوربیں
اَن پڑھ ہی اب بچائیں گے یہ ملک، ہے یقیں
اَن پڑھ نہ رہنما ہو، کبھی سوچنا نہیں!
اَن پڑھ کی برکتوں سے ہے آباد کُل جہاں
ان پڑھ کا مشغلہ ہے ریاست کی پھاڑ چیر
ان پڑھ کے سامنے نہیں ٹکتی ہے ٹیڑھی کھیر
ان پڑھ کی ہے کہانی سہانی و دل پذیر
ان پڑھ کی داستاں کا نہیں ہے کوئی اخیر
ان پڑھ کی داستان رہے گی یوں ہی رواں
The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/2Ymt0ar