شاہ عالمی کا ماضی و حال - KHB Point

کے-ایچ-بی پوائنٹ (ملکی و غیر ملکی تمام خبریں فراہم کرنے والاایک مکمل نیوزپلیٹ فام نیٹ ورک)

تازہ ترین

شاہ عالمی کا ماضی و حال

جب کسی قوم کے اجتماعی گناہ اُبل اُبل کر کناروں سے باہر گرنے لگیں تو اس پر ایسے حکمران مسلط کر دیئے جاتے ہیںجو ہمارے اپنے ملک کی تاریخ کا بھی حصہ رہے ہیں۔

دنیا کی تاریخ میں اس طرح کے احساس، فکر اور حمیت سے سراسر عاری اور سونے چاندی و اقتدار کی ہوس میں مبتلا حاکم معاشرے کی ہمہ جہت تباہی کا باعث بنتے رہے ہیں۔ جب حکمرانوں کے ایما پر ان کے پروردہ قبرستانوں پر قبضہ کر کے وہاں شاپنگ پلازے بنانے لگیں تو معاشرے کے پلے کیا رہ جاتا ہے۔

لاہورکی بعد از تقسیم تاریخ سے آگاہ اہل دل جانتے ہیں کہ اس شہر کے شعوری وجود کو جس بیدردی سے نوچا گیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ غیرت، حمیت اور دیانتداری جیسے اوصاف پیدائشی کم اور ماحولیاتی زیادہ ہوتے ہیں لہذا جب ایسا  ماحول حکمرانوں کی جانب سے پروان چڑھایا جائے تو معاشرے کی تہ در تہ تباہی کوئی نہیں روک سکتا اور سماجی  اقدار کا حد درجہ متاثر ہو جانا یقینی امر ہے، ان میں تجارتی اقدار بھی شامل ہیں، نتیجتاً کاروباری مفادات کے لئے انسانی گراوٹ اور منافقت اس عروج کو پہنچ جاتی ہے کہ دودھ کو اللہ کا نور کہنے والے اس میں پانی ملاتے رتی بھر شرم محسوس نہیں کرتے۔

اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہو سکتی کہ کاروبار، روزگار، تجارت سب ضروری ہے، اسی ضرورت کے تحت تجارتی مراکز کا قیام اور ان کی نشوونما بھی اہم  ہے۔ دنیا میں ہر جگہ ایسا ہی ہے کہ مختلف علاقے مخصوص کاروبار کی وجہ سے نہ صرف جانے جاتے ہیں بلکہ وہ اپنے علاقائی فوائد سے آگے بڑھتے ہوئے ان گنت لوگوں کے لئے وسائل مہیا کرتے ہیں اور ان سرگرمیوں سے مستفید ہونے والوں میں کاروباری طبقات کے علاوہ مزدوروں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہوتی ہے جو  خون پسینہ بہا کر اپنے خاندانوں کی بھوک مٹانے اوران کے غربت زدہ وجود کو ڈھانپنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔

قیام پاکستان سے قبل بھی لاہور کو ہندوستان میں ایک منفرد حیثیت حاصل تھی جو تقسیم کے بعد کئی گنا بڑھ گئی اس کی وجہ اس شہر کی ہمہ گیریت تھی، جس میں اس کا محل وقوع اور تجارتی مواقع کی دستیابی بھی اہمیت کے حامل رہے ہیں مگر اس کی بنیادی وجوہات یقیناً کچھ اور ہیں۔ لاہور کے عاشق اس بات سے واقف ہیں کہ لاہور کا مقام و مرتبہ اس کی تاریخی عمارات و پس منظر، فن و ثقافت کی درس گاہ کی حیثیت، علمی و ادبی روایات اور کھیلوں کا مرکز ہونے کی وجہ سے رہا ہے۔

یہ شہر جوایک طرف حضرت علامہ جیسے الہامی شاعر، فلسفی اور اُمت کے مصلح اور دوسری طرف فیض احمد فیض صاحب جیسے نظریاتی شاعروں اور ادیبوں کو کھینچ کے اپنی طرف لے آیا بلکہ یہاں کی فنکار پرست فضا نے خانصاحب مہدی حسن اور میڈم نورجہاں، استاد سلامت علی خان، استاد شوکت علی طبلہ نواز، نصرت فتح علی خان، امانت علی خان، عبدالستار تاری طبلہ نواز جیسے خاص لوگوں اور انگنت فقیدالمثال فنکاروں کو خود سے محبت کرنے کی ترغیب دی۔ اس شہر میں ساغر صدیقی اور ناصر کاظمی جیسے فقیر منش درد مندوں نے ڈیرے ڈالے اور صادقین جیسے صدیوں کے بیٹوں نے اسکو اپنا مسکن بنایا۔

ایسا ہرگز نہیں ہے کہ شاہ عالمی کوئی نوزائیدہ بچہ ہے۔ تاریخی طور پر اٹھارویں صدی کے اوائل میں اس وقت کے مغل حکمران شاہ عالم کی وفات پر اس کے نام سے لاہور کی فصیل میں پہلے سے موجود ’’بھیروالہ‘‘ دروازہ کا نام بدل کر “شاہ عالم دروازہ” رکھ دیا گیا جو بتدریج کاروباری مرکز کی شکل اختیار کرتا چلا گیا۔

جہاں قیام پاکستان سے قبل ہندو تاجروں کی اکثریت تھی، اسی بناء پرتقسیم ہند پر اس بازار کو ایسے مسلمانوں کی طرف سے آگ میں جھونک دیا گیا جیسے ہندووں نے دہلی میں مذہبی نعروں کی آڑ میں مسلمانوں کی دکانوں کو لوٹ کر راکھ کا ڈھیر بنا دیا تھا۔ اس مذہبی نفرت نے جہاں غالب کی دھلی کو اجاڑا وہیں لاہور کے شاہ عالم دروازے کے نام نشان تک کو بھی نذر آتش کر دیا۔ انسان عجب درندہ اوراس کا لالچ عجب بلا ہے، ان سانحات کے بعد نہ جانے کس کس نے سچے جھوٹے دعووں کی بنیاد پرتہذیب و تمدن کی جلی کٹی لاشوں پرکھڑے شاہ عالم کو پھر سے آباد کیا مگر اب کے اس آباد کاری کا مقصود محض کاروباری مفادات تھے جن کے حصول کے لئے سماجی پہلوؤں کو یکسر نظر انداز کیا گیا، یوں رفتہ رفتہ اس بازار نے ایک ایسے اڑدھے کی شکل اختیار کرلی جس نے اپنے ارد گرد کھڑی صدیوں کی آئینہ دارعلم وادب، فن وثقافت اور فنکاروں سے گہری محبت کی بنیاد پرکھڑی تہذیب کو نگلنا شروع کردیا۔

یہ وہ وقت تھا جب  ماضی قریب کے ایک دور حکومت میں اس شہر بے مثال کی گلیوں میں سیاسی اجارہ داریوں کی خرید و فروخت کو اس انداز سے رواج دیا جا رہا تھا کہ یہاں کے تمدن کا تار تار ہل گیا۔ تجارتی مفادات اوربے راہ روسیاسی چلن نے مل کے شاہ عالمی کے کاروباری تاثر کو تو چار چاند لگا دئے، مگر ایسے میں ہمارے جیسے معاشروں میں ایسے بازار کے وجود پر بے ترتیبی سے اگنے والے بازو بڑی تیزرفتاری سے شہر کی روایت کا گلا گھونٹنا شروع کر دیتے ہیں۔

شاہ عالمی بھی ایک ایسی آکاس بیل ہے جس نے اپنے تجارتی پنجے ایسے گاڑے کے لاہور کے ثقافتی درختوں کو پھول پتوں اور پھل سے محروم کر دیا۔ ذمہ داران نے بھی نہ اس پر توجہ دی نہ ہی ان کی کوئی خاص دلچسپی تھی اور نہ ہی ان کو اس بات کا ادراک ہی تھا کہ قومیں ایسے بے تکے اور بے ترتیب کاروباری مراکز پر کھڑی نہیں ہوتیں بلکہ اپنی تہذیب اور روایات کی مضبوطی پر پرورش پاتی ہیں۔ شاہ عالمی جوں جوں پھیلتی گئی ارد گرد کی آبادیوں کے گھر کھڑے کھڑے دکانوں اور کارخانوں میں تبدیل ہونا شروع ہو گئے،اس تبدیلی کی بنیاد خالصتاً کاروباری یا منافع کے لالچ پر رکھی گئی تھی لہٰذا  اس نے نہ صرف سماج کو بحیثیت مجموعی متا ثر کیا بلکہ آگے بڑھتے ہوئے رسم پردہ داری کو بھی الٹ پلٹ کر رکھ دیا۔

ایک ہی گھر کی دو منزلوں میں گھر کے مالکان رہائش پذیر رہے جبکہ تیسری منزل کسی جوتوں یا چوڑیوں کے کارخانہ دار یا کسی گودام کے لئے کرائے پر دے دی گئی۔ گھروں کے اندر بنے ان چھوٹے چھوٹے کارخانوں اور گوداموں میں کام کرنے کے لئے دور دور سے مزدوروں اور کاریگروں نے لاہور کا رخ کیا، ہر کارخانہ دار ایسا مزدور یا کاریگر پسند کرتا ہے جو نوجوان ہو، تاکہ اس کی جوان ہڈیاں کام کا زیادہ بوجھ اٹھا سکیں اور اس کارخانہ دار کے لئے زیادہ منافع کا باعث سکیں۔

دوردراز علاقوں کے کاریگر و مزدور اس لئے بھی پسند کئے جاتے ہیں کہ وہ رات کارخانے ہی میں سونے کی وجہ سے ہر وقت دستیاب اور نسبتاً کم اجرت پر کام کرنے کو رضا مند ہوتے ہیں اور اگر یہ غیر شادی شدہ ہوں تو اور زیادہ سود مند سمجھے جاتے ہیں کہ ان کو اپنے گھر کی کوئی بھی کوئی خاص فکر نہیں ہوتی اور وہ اپنے چھوٹے علاقوں سے لاہور جیسے بڑے شہر میں آکر اس کی رنگینیوں میں گم ہو جاتے ہیں اور یہ بات بھی کارخانہ دار ہی کے لئے سود مند ثابت ہوتی ہے۔

مگر کیا کسی نے  اس سے جنم لینے والی ان گنت پیچیدگیوں پر غور کیا ہے کبھی، اپنی معاشی مجبوریوں کو شکست دینے کے لئے آنے والے معمولی پڑھے لکھے یا مکمل ان پڑھ اجنبی نوجوان جب دن رات گلی محلوں میں چہل قدمی کرتے ہوں اورایک دوسرے کی بغل میں کھڑے مکانوں میں براجمان ہوں اور ان کے پیروں میں اپنے یا کسی کے خاندان کی روایت کی کوئی بندش نہ ہو، جب تنگ گلیوں میں ایک گھر کی کھڑکی کا دوسرے گھر کی کھڑکی سے بمشکل بازو برابر فاصلہ ہو تو کیسی کیسی اقدار شکن باتوں کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔

لاہور صرف ایک شہر نہیں تھا بلکہ ملک بھر کی شعوری تربیت گاہ تھا، حضرت علی ہجویریؒ کے آستانے کی دیواروں کے سائے میں پاکستان کے حکمرانوں کا تعین ہوتا تھا جس کی وجہ اس کے گرد بسنے والے لوگوں کی سیاسی پختگی تھی، بھاٹی اور لوہاری کی گلیوں کے تھڑے حکومتیں بناتے اور بگاڑتے تھے، اس کی گلیوں میں بسنے والے فنکاروں، موسیقاروں، ادیبوں اور شاعروں نے غربت اور پسماندگی کے باوجود ایسے شاہکار تخلیق کئے جن کی نہ صرف پاکستان بلکہ ہندوستان نے بھی پیروی کی لیکن کسی منصوبہ بندی کے بغیر اس بے ہنگم سرگرمی نے یہ سب برباد کرکے رکھ دیا اور صرف لاہور کو روحانی بربادی میں مبتلا نہیں کیا بلکہ پاکستان کوفکری مفلسی کا شکار کرتے ہوئے اس پورے خطے کو اس کے فیض سے محروم کر دیا۔

نظام جمہوریت کی ماں برطانیہ کا آئین تحریری نہیں بلکہ روایات کی پاسداری پر مبنی ہے۔ کسی کو جرات نہیں ہے کہ اس کی ایک روایت سے رتی برابر انحراف کی کوشش کرے۔ ہم ان روایات سے متفق ہوں یا نہ ہوں مگر برطانیہ نے انہی کی بدولت ساری دنیا پر راج کیا ہے۔ یاد رہے کہ قومیں صرف بے ہنگم کاروباری دوڑ کی بناء پر دنیا میں عزت نہیں پاتی بلکہ اپنی روایات اور اقدار کی مضبوطی سے اپنے عالمی رتبے کا تعین کرتی ہیں جوآخرکاران کی باعزت معاشی خوشحالی کا باعث بھی بنتا ہے۔

وقت کا پہیہ ابھی بھی الٹا گمایا جا سکتا ہے، مگر اس کے لئے انتہائی سماج دوست اور معاشرہ سازی کا شعور رکھنے والا لیڈر چاہئے، تاجر تنظیموں کو اعتماد میں لیتے ہوئے شاہ عالمی بلکہ لاہور کے دروازوں کے گرد براجمان تمام تھوک کے بازاروں کورفتہ رفتہ دس سے پندرہ سالوں میں راوی کے پار منتقل کر دیا جائے، ایک وسیع علاقہ اس کے لئے مختص کردیا جائے جہاں انہی بازاروں کے ناموں سے جدید طرز پر مارکیٹیں تعمیر کی جائیں جس میں تمام تاجروں کو ان کے موجودہ رقبے کے برابر رقبہ ترجیحی بنیادوں پراور موجودہ دوکانوں اور گوداموں کی قیمت فروخت کے برابر پیسوں پر مہیا کیا جائے، یوں بھی شاہ عالمی کا موجودہ ڈھانچہ ہرگز اس قابل نہیں کہ وہ پاکستان کو مستقبل قریب میں ملنے والی تجارتی مواقع سے فائدہ اٹھا سکے۔

اندرون لاہور کے باسی اس بات سے ناواقف ہیں کہ ایسی صورت میں شہر کی سیاحتی قدر کی بحالی ان کے لئے کس قدر خوشحالی کا باعث بن سکتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل قائم کی جانے والی شاہی قلعہ کے ساتھ واقع فوڈ سٹریٹ اس کی ایک روشن مثال ہے۔

The post شاہ عالمی کا ماضی و حال appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3fYTHYE