امریکا طالبان امن معاہدے کے بعد امریکا کا طالبان پر پہلا فضائی حملہ اس اعتبار سے عالمی سطح پر تشویش کا پہلا طوفانی بگولا ہی ہے کیونکہ ابھی اس معاہدے کی منظوری کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی ہے کہ اس پرشکوک ،خدشات اور اندیشوں کے ساتھ ہی بجائے اس پر عملدرآمد کے لیے عالمی طاقتوں، سفارت کاروں اور خطے کے اہم شراکت داروں نے پاکستان میں بیک ڈور ڈپلومیسی کا آغاز کردیا ہے۔
موصولہ اطلاعات کے مطابق طالبان کے افغان صوبوں ہلمند اور قندوز میں افغان فوجی چھاؤنی اور پولیس چیک پوسٹ پر حملوں اور جھڑپوں میں مجموعی طور پر 20 اہلکار ہلاک ہوگئے۔ جواب میں امریکی فوج نے ہلمند میں جنگجوؤں پر فضائی حملہ کیا۔ افغان امن معاہدہ ہونے کے بعد طالبان پر امریکا کا یہ پہلا حملہ ہے۔عالمی ذرایع کا کہناہے کہ فریقین میں کشیدگی اور پرتشدد واقعات نے اگلے ہفتے ہونے والے افغان انٹرا مذاکرات پر سوالیہ نشان بھی لگا دیے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق عالمی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ طالبان نے قندوز میں افغان فوج کی چھاؤنی پر حملہ کیا۔ دو طرفہ فائرنگ میں 16 افغانی فوجی ہلاک ہوگئے جب کہ افغان حکام نے 8جنگجو ہلاک ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔
قندوز میں ہی طالبان نے افغان چیک پوسٹ پر فائرنگ کرکے 4 پولیس اہلکاروں کو ہلاک کردیا۔ دونوں کارروائیوں کے بعد طالبان افغان فوج کا اسلحہ ساتھ لے گئے جب کہ طالبان نے 10 اہلکاروں کو یرغمال بنانے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔ باغ شرکت کے فوجی اڈے کو نشانہ بنائے جانے کی بھی اطلاعات ہیں۔ دوسری جانب اتحادی افواج کے دفاع میں امریکا نے ہلمند میں طالبان پر فضائی حملہ کیا ہے۔ افغانستان میں امریکی افواج کے ترجمان کرنل سونی لی گٹ نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں لکھا کہ امریکا نے 4 مارچ کو ان طالبان جنگجوؤں پر نہر سراج، ہلمند میں فضائی حملہ کیا ہے جو افغان فورسز کی ایک چیک پوسٹ پر حملہ آور تھے۔
حملے کو روکنے کے لیے یہ ایک دفاعی کارروائی تھی جو گیارہ دن میں طالبان کے خلاف ہماری پہلی کارروائی تھی۔ کرنل سونی نے مزید لکھا کہ طالبان رہنماؤں نے بین الاقوامی برادری سے وعدہ کیا تھا کہ وہ تشدد میں کمی اور حملوں میں اضافہ نہیں کریں گے۔ ہم امن کے لیے پرعزم ہیں لیکن اتحادی فورسز کا دفاع کریں گے۔
امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کی جانب سے بیان جاری کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ جنگجو افغان سیکیورٹی فورسز کو بلا ضرورت نشانہ بنانے میں ملوث تھے، طالبان افغانستان میں غیر ضروری حملوں سے گریز کریں، ادھر صدر اشرف غنی نے صوبہ ننگر ہار کے دورے کے بارے میں ایک بیان میں کہا ہے کہ طالبان نے ہمیں قیدیوں کی رہائی کے لیے کہا ہے جس کے جواب میں ہماری شرط ہے کہ طالبان امن مذاکرات کے لیے پاکستان سے انخلا کو ممکن بنائیں، انھوں نے کہا کہ طالبان سے خفیہ نہیں کھلم کھلا مذاکرات ہوں گے۔تاہم ان کا کہنا تھا کہ غیر ملکیوں کے خلاف حملے بند مگر افغانوں کے خلاف حملے کرنا کون سا جہاد ہے۔ میڈیا نے ان کے بیانات کے ان حصوں کو غیر ضروری اہمیت بھی دی ہے جس میں اشرف غنی نے انتہائی تند و تیز لہجے میں کہاکہ طالبان پہلے پاکستان نے نکل جائیں۔
اس تناظر میں پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بہت اہم معروضات پیش کی ہیں، ان کا کہنا تھا کہ بہت سے قوتیں افغانستان میں امن نہیں چاہتیں، انھوں نے نام نہیں بتائے تاہم خطے کے راز و نیاز سے واقف قوتوں کو خوب اندازہ ہے کہ ان کا اشارہ کس جانب ہے، شاہ محمود نے کہا کہ صورت حال کو خراب ہونے سے بچانا سب کا فرض ہے، مگر انھوں نے یہ بات زور دے کر کہی کہ پاکستان اس بار مہاجرین کو قبول نہیں کرے گا، انھوں نے کہا کہ طالبان سے معاہدے کے مطابق امریکا مداخلت نہیں کرے گا اور پاکستان کا کردار بھی ایک سہولت کار کا ہے۔
ان کی طرف سے ایسی عملیت پسندانہ بات ان تمام ممالک کو سننی چاہیے جو امریکا افغانستان معاہدے کی روح کو گھائل ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے، اور خطے کو امن، ترقی اور استحکام کی منزلوں پر گامزن دیکھنے کے متمنی ہیں۔ لیکن وزیر خارجہ نے سینیٹ سے خطاب کے دوران افغان صورت حال کے مضمرات اور افغان حکومت اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت پر بھی زور یا کہ بھارت کو اس ساری صورت حال میں کسی قسم کا کردار نہیں دینا چاہتے، وجہ اس کی سب کو معلوم ہے کہ افغانستان میں بھارت کی دلچسپی خطے کے امن کو تہہ و بالا کرنا اور اپنے دہشت گردانہ ایجنڈے کو بلوچستان میں تقویت دینا ہے، حقیقت اتنی ہے کہ امریکا بھارت سے دامن کش ہونے پر اس لیے تیار نہیں کہ اس کے اپنے مفادات کا بوجھ ناقابل بیان ہے۔
افغانستان میں امن ایک بہت بڑا چیلنج ہے اور پاکستان کا کردار اس میں بنیادی نوعیت کا ہے، اس کی سہولت کاری اپنے ساتھ خطے کے لیے معنویت رکھنی ہے، کیونکہ پرامن افغانستان نہ صرف پاکستان کے لیے بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے لیے اہمیت رکھتا ہے،شاہ محمود قریشی کا کہنا درست ہے کہ افغان مسئلہ کا حل افغان عوام کے پاس ہے، وہ کہتے ہیں کہ معاہدے میں قیدیوں کی رہائی کا طریقہ کار دو طرفہ ہے، اس کے مطابق امریکا افغانستان کے کسی معاملے میں دخل نہیں دیگا،وہاں بھارت کا کوئی سیکیورٹی کردار بھی پاکستان کو قبول نہیں، انھوں نے واضح کیاکہ 19سال کی جنگ آسان نہ تھی،جس میں ہزاروں جانوں کا ضیاع ہوا۔
امریکا طالبان میں کئی رکاوٹیں حائل رہیں، فریقین کوایک معاہدے پر متفق کرنے کی دشواری درپیش تھی، طالبان اور امریکا کی گفت وشنید میں پاکستان حصہ دار نہ تھا نہ ہے، اس سے زیادہ ہو سکتا ہی نہیں،انھوں نے کہاکہ یہ فیصلے افغانستان کے ہیں اور اسی کے لیے ہیں،حق افغان عوام کا ہے، ہماری سرخ لکیریں ہیں جس کا ہم ذکر کریں گے،ہم مشترکہ آپریشن کے خواہاں تھے نہ ہیں، وزیر خارجہ کے مطابق افغانستان میں خدانخواستہ کوئی مسئلہ پیدا ہوا تو مہاجرین کا ایک اور ریلا آسکتا ہے جس کا بوجھ ہم شاید برداشت نہ کرسکیں۔
شاہ محمود قریشی نے اعتماد کے فقدان کی جو بات کی ہے وہ بھی حقائق سے جڑا ہوا آج کا سب سے بڑا سچ ہے، یہ بد اعتمادی بقول شاہ صاحب کے افغانستان کے ایک طبقے اور عالمی قوتوں کے مابین پائی جاتی ہے،ادھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایک اعصاب شکن معاہدہ جو بڑی کوششوں اور کئی ملکوں کی اجتماعی کاوشوں اور بیش بہا مساعی سے کامیاب ہوا ہے اسے بچانا ایک ٹیسٹ کیس ہے،اسے جنگ اور بربادی کی نذر نہیں ہونا چاہیے۔
افغانستان بلاشبہ جنگ سے نڈھال ہوچکا، اس کے عوام کے بے پناہ مسائل ہیں، صدر اشرف غنی کو پاکستان سے محاذ آرائی کے بجائے خوشدلی سے اس کے کردار کی تعریف کرنی چاہیے، اور انھوں نے کچھ روز قبل پاکستان کے حوالے سے خیر سگالی کے جذبات کا اظہار بھی کیا تھا مگر نامعلوم کیا ہوا کہ وہ پاکستان کے بارے میں مخاصمانہ بیانات دے رہے ہیں اور طالبان سے کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنا تعلق پاکستان سے توڑیں پھر، بات کریں، ان سے ایسے مرحلہ میں اس قسم کے رویے کی توقع نہیں رکھی جاسکتی تھی مگر اب بھی وقت ہے کہ افغانستان کو امن و آسودگی دینے کے لیے افغان حکمرانوں کو دور اندیشی اور سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
یہ خوش آیند امر ہے کہ سابق امریکی سفیر برائے پاکستان کیمرون منٹر کی طرف سے بیک ڈور ڈپلومیسی جاری ہے، اس عمل کو موثر طریقے سے بڑھاوا ملنا چاہیے، ایک اجتماعی آؤٹ لک کو لے کر عالمی سفارت، ماہرین اور خطے کے بارے میں دردمندی کا احساس رکھنے والی قوتیں آگے بڑھ کر امریکا، افغانستان، چین اور پاکستان کے اشتراک سے امن کے ’’ گریٹر کاز‘‘ کو افغانستان کے سیاسی مسئلہ کا پائیدار حل قرار دے کر بہت ساری تباہ کاریوں کا راستہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے روک سکتی ہیں۔
اس وقت افغانستان میں استحکام، باہمی خیرسگالی، کشادہ دلی اور سیاسی بریک تھرو وقت کا تقاضہ ہے، متحارب قوتیں افغانستان کے مستقبل کو پیش نظر رکھیں اور تاریخ کی درست سمت میں اپنی ترجیحات کا تعین کریں تو دنیا امریکا طالبان معاہدہ کو یاد رکھے گی۔ویسے بھی افغانستان کے عوام نے بہت دکھ سہہ لیے ہیں ‘ اب انھیں افغان قیادت سے بہت زیادہ توقعات ہیں کہ وہ اپنے ملک اور اپنے عوام کے بارے میں سوچیں گے۔ اگر لبرل اور غیرلبرل ‘پشتون ‘تاجک ‘ ازبک ‘منگول اور دیگر نسلی گروہوں کا جھگڑا برقرار رہا تو امن کا موقع ضایع ہو جائے گا۔ افغانستان میں استحکام اور امن کا قیام افغان قیادت کی اولین اور لازمی ذمے داری ہے ۔ امریکا ‘پاکستان یا کسی اور ملک پر اپنی غلطیوں ‘کوتاہیوں اور نااہلیوں کا الزام عائد کرنا درست طرز عمل نہیں ہے۔ طالبان ہوں یا اشرف غنی ‘عبداللہ عبداللہ وغیرہ ‘یہ سب افغان ہیں۔ اگر وہ ہی اپنے ملک کو تباہ کرنا چاہتے ہیں تو پھر کوئی اور انھیں نہیں بچا سکے گا۔
The post امن معاہدے کو بچانے کی ضرورت appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/32UNKqu