کراچی: ڈیفنس میں پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں طالب علم انتظار کے قتل کو2 برس بیت گئے۔
بوڑھا باپ پرنم آنکھوں سے اپنے بیٹے کے لیے انصاف کی دہائیاں دے رہا ہے لیکن شنوائی نہیں ہورہی ، واقعے کے وقت جن افسران پر الزامات عائد کیے گئے وہ آج بھی عہدے پر ہیں ،مقتول کے والد نے کیس کے تفتیشی افسر پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے تفتیشی افسر تبدیل کرنے کی تحریری درخواست دے دی۔
13 جنوری 2018 کو ڈیفنس خیابان بخاری میں اینٹی کار لفٹنگ سیل کے اہلکاروں نے وائٹ کرولاکار پر اندھا دھند فائرنگ کردی تھی جس سے کار میں سوار 19 سالہ انتظار حسین ولد اشتیاق حسین سر پر گولی لگنےسے موقع پر ہی دم توڑ گیا تھا،گزشتہ روز مقتول کی دوسری برسی کے موقع پر اشتیاق حسین نے رہائش گاہ پر اپنے وکیل کے ہمراہ پریس کانفرنس کی ۔
اشتیاق حسین نے کہا کہ وہ اس سسٹم کے خلاف لڑتے ہوئے تھک گئے ہیں لیکن اپنے بیٹے کے لیے انصاف کی دہائیاں دیتے رہیں گے ، ان کے بیٹے کو باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے قتل کیا گیا، اگر اتفاقی حادثہ ہوتا تو اتفاقی حادثے میں اٹھارہ گولیاں نہیں چلائی جاتیں۔
انھوں نے کیس کے تفتیشی افسر پر بھی عدم اعتماد کا اظہارکیا اورکہا کہ انھوں نے ایس ایس پی ساؤتھ کو تحریری طور پر درخواست دے دی ہے کہ وہ کسی غیر جانبدار افسرسے تحقیقات کرائیں،مذکورہ تفتیشی افسر قاتلوں کو بھرپور سپورٹ کررہا ہے،پراسیکیوٹر جنرل کا رویہ بھی درست نہیں ، کیس میں جن افسران کے نام لیے گئے تھے اور جن پر ملوث ہونے کا شبہ تھا وہ آج بھی پوسٹنگ پر ہیں ،جس اہلکار نے فائرنگ کی وہ ایس ایس پی مقدس حیدر کا گارڈ تھا اور آج مقدس حیدر ایس ایس پی سٹی کی پوسٹ پر موجود ہیں۔
کیس کا تفتیشی افسر مکمل طور پر اعلیٰ افسران کے زیر اثر ہے اور اس سے میرٹ پر تحقیقات کی کوئی امید نہیں ہے،اگر مجھے انصاف نہیں ملا تو ہائی کورٹ سے رجوع کروں گا۔
The post پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں طالبعلم انتظار کے قتل کو 2 برس گزر گئے appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/36RuX0F