پاکستانی ٹیم کاش سری لنکا بن جائے - KHB Point

کے-ایچ-بی پوائنٹ (ملکی و غیر ملکی تمام خبریں فراہم کرنے والاایک مکمل نیوزپلیٹ فام نیٹ ورک)

تازہ ترین

پاکستانی ٹیم کاش سری لنکا بن جائے

’’سری لنکا نے کیا بچوں کی ٹیم بھیج دی، یکطرفہ مقابلوں میں کوئی لطف ہی نہیں آئے گا، پاکستان کو بھی مقابلے کیلیے بی ٹیم میدان میں اتارنی چاہیے‘‘۔

گذشتہ سیریزسے قبل آپ نے بھی اس قسم کے کئی تبصرے سنے ہوں گے، پھر کراچی میں ابتدائی میچز کے دوران مہمان ٹیم کی کارکردگی سے ایسی باتوں کوفوقیت ملی، مگر تیسرے ون ڈے سے آئی لینڈرز فارم میں واپس آنا شروع ہوئے اور لاہور میں منعقدہ تینوں ٹی ٹوئنٹی میچز میں جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ بن گیا، تر نوالہ گلے میں اٹک گیا اور گرین شرٹس کو پہلی بار کلین سوئپ کی رسوائی کا سامنا کرنا پڑا، جنھیں بچہ سمجھا وہ تو بڑوں بڑوں کو پیچھے چھوڑ گئے۔

یہ شکست سرفراز احمد کی کپتانی اور ٹیم میں جگہ بھی ساتھ لے گئی، سری لنکن ٹیم کے کئی اسٹارز سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے پاکستان نہیں آئے، پاکستان کے کئی اسٹارز کو کوچ و چیف سلیکٹر مصباح الحق بھی ’’سیکیورٹی وجوہات‘‘ کی وجہ سے ساتھ لے کر نہیں گئے، البتہ اس کی نوعیت الگ اور تعلق اپنی جاب سیکیورٹی سے ہے، اگر سرفراز احمد، شعیب ملک اور محمد حفیظ ٹور پر جاتے اور ناکامی ہوتی تو کوئی جواز نہ ہوتا، اب خدانخواستہ نتائج اچھے نہ رہے تو یہ کہا جا سکے گا کہ’’نوجوان کرکٹرز کو ساتھ لے کرگئے انھیں سیٹ ہونے کا موقع دیں‘‘۔

کمزور لوگ ناکامی پر دوسروں کے کندھے تلاش کرتے ہیں، سرفراز احمد کو ٹی ٹوئنٹی میں قیادت سے ہٹانے کا فیصلہ غلط تھا، سابق کرکٹرز، سابق بورڈ آفیشلز اور میڈیا سب اس بات سے متفق ہیں، بابر اعظم کو تجربہ حاصل کرنے کا موقع دیے بغیر ہی مشکل ترین دورے میں اہم ترین ذمہ داری سونپ دی گئی، وہ ہمارے لیے ویرات کوہلی سے بڑھ کر ہیں، اگر کارکردگی کا تسلسل برقرار رکھا تو کئی ریکارڈز توڑ دیں گے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کا اچھی طرح خیال بھی رکھا جائے مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو رہا، بابر کو کپتان بنا کر دباؤ کا شکار کر دیا گیا،اب خوانخواستہ ان کی انفرادی کارکردگی اچھی نہ رہی تو ناکامی کا ملبہ ڈال کرمصباح خود کو پھر سائیڈ پر کر لیں گے، ان کی پالیسی یہی ہے سرفراز کو کپتان سے ہٹانے کیلیے خود سفارش کی بعد میں اسے چیئرمین احسان مانی کا فیصلہ قرار دے دیا، شعیب ملک اور محمد حفیظ کو خود ڈراپ کیا مگر استفسار پر کہا کہ ’’میں تو ٹیم میں لینا چاہتا تھا مگر بورڈ حکام نے روک دیا‘‘ یہ انداز درست نہیں،32 لاکھ روپے ماہانہ لے رہے ہیں تو کچھ ذمہ داری بھی لیں، پہلے بھی ذکر کر چکا مجھے ایسا لگتا ہے کہ اتنے زیادہ نوجوان کرکٹرز کو ’’فیس سیونگ‘‘ کیلیے منتخب کیا گیا۔

آسٹریلیا میں بڑے ناموں کے باوجود پاکستانی ٹیم نے کسی باہمی سیریز میں اچھی کارکردگی نہیں دکھائی، مصباح کو بھی زیادہ امیدیں نہیں ہیں، اب نئے کھلاڑیوں کی صورت میں ان کے پاس کوئی جواز تو ہو گا پھر یہی باتیں کرتے کرتے ورلڈکپ آ جائے گا، اپنی غلطی تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں بورڈکو بھی مان لینا چاہیے کہ ناتجربہ کار مصباح الحق کو ایک ساتھ کئی ذمہ داریاں سونپ کرغلط کیا، یوٹرن لیتے ہوئے چیف سلیکٹر یا کوچنگ میں سے کوئی ایک ذمہ داری کسی اور کو سونپ دینے میں کوئی حرج نہیں، انا کے چکر میں پڑے رہے تو مزید خراب نتائج سامنے آئیں گے۔

نوجوانوں کو سری لنکا کیخلاف ہوم سیریز میں آزمانا چاہیے تھا وہاں عمر اکمل اور احمد شہزاد جیسے کھلاڑیوں کو لے آئے، اب مشکل دورۂ آسٹریلیا میں اگر کوئی نیا کھلاڑی صلاحیتوں کا اظہار کرنے میں ناکام رہا تو اس کے کیریئر پر فل اسٹاپ نہیں لگا دیجیے گا بلکہ مزید مواقع دے گا، سرفراز کی طرح ہر بار قربانی کے بکرے ڈھونڈے کے بجائے ایک بار آئینہ دیکھ لیں پتا چل جائے گا اصل مسئلہ کیا ہے۔

آسٹریلیا میں پاکستانی ٹیم نے جب آخری بار ٹیسٹ میچ جیتا اس وقت بابر اعظم ایک سال کے تھے، اس وقت ہمیں وسیم اکرم، وقار یونس اور انضمام الحق سمیت کئی اسٹارز کا ساتھ حاصل تھا، اب بیشتر کھلاڑی زیادہ تجربہ کار نہیں،16سالہ نسیم شاہ اور17برس کے موسیٰ خان کی صلاحیتوں پر کوئی شک و شبہ نہیں لیکن کیا دونوں ابھی اتنے مشکل دورۂ آسٹریلیا کیلیے ذہنی طور پر تیار ہیں؟

انھیں پہلے چند برس ڈومیسٹک کرکٹ کھیل کرصلاحیتیں نکھارنے کا موقع دینا چاہیے تھا، بیچارے تابش خان جیسے بولرز 550 وکٹیں لے کر بھی سلیکٹرز کی نظرکرم کے منتظر ہیں اور کہاں بعض خوش نصیبوں کو فوراً ہی موقع مل جاتا ہے، مناسب یہ ہوتا کہ وقار یونس انھیں آف سیزن میں نیشنل اکیڈمی میں گروم کرتے مگر براہ راست قومی ٹیم میں شامل کر لیا گیا، اظہر علی کو پہلے قیادت خود چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اب دوبارہ ذمہ داری سونپ دی۔

ایک طرف نوجوان کپتان دوسری طرف34سالہ کپتان، بورڈ کو خود نہیں پتا کہ وہ کیا کر رہا ہے، ٹیسٹ ٹیم سے تو مجھے کوئی امید نہیں، البتہ ٹی ٹوئنٹی میں شایدپرفارمنس کچھ بہتر رہے، مصباح چند روز پہلے عثمان قادر کے بارے میں سوال پر بھڑک اٹھے تھے کہ ’’اس کی کون سی پرفارمنس ہے‘‘ اب انھیں ٹیم میں لے آئے، یہاں بابر اعظم کی بچپن کی دوستی کام آگئی، مگر انھیں خیال رکھنا ہو گا دوست نہیں اچھے کھلاڑی میچز جتواتے ہیں، رضوان کو ٹی ٹوئنٹی میں زیادہ مواقع نہیں ملتے مگر اب انہی پر انحصار کرنا ہوگا،آصف علی اب تک صرف کاغذ پر پاور ہٹر ثابت ہوئے ہیں دیکھتے ہیں آسٹریلیا میں کیا کرتے ہیں، یہاں بھی 37 سالہ محمد عرفان کو ٹیم میں لے کر خود ہی ’’نوجوانوں‘‘ پر انحصار کی اپنی ہی پالیسی کی نفی کر دی گئی۔

شاید آپ لوگوں کو میری بات اچھی نہ لگے مگر آسٹریلیا کے دورے میں قومی ٹیم سے زیادہ امیدیں وابستہ نہ کریں ورنہ افسوس ہوگا، یقیناً میں بھی ہر پاکستانی کی طرح یہی چاہتا ہوں کہ ہم جیت کر آئیں، جس طرح سری لنکا کو کوئی کسی خاطر میں نہیں لا رہا تھا مگر اس نے پاکستان میں سب کو غلط ثابت کر دیا، کاش پاکستانی ٹیم بھی سری لنکا بن جائے اور آسٹریلیا میں فتوحات حاصل کرے، یقین مانیے اپنے آپ کو غلط ثابت ہوتے دیکھنے کی بھی مجھے بیحد خوشی ہوگی۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

 

The post پاکستانی ٹیم کاش سری لنکا بن جائے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » کھیل https://ift.tt/2Pk583c