کیمرہ ٹریپ؛ نایاب جانوروں تک دسترس کا انمول طریقہ - KHB Point

کے-ایچ-بی پوائنٹ (ملکی و غیر ملکی تمام خبریں فراہم کرنے والاایک مکمل نیوزپلیٹ فام نیٹ ورک)

تازہ ترین

کیمرہ ٹریپ؛ نایاب جانوروں تک دسترس کا انمول طریقہ

برطانیہ کے شہزادے ولیم اور ان کی اہلیہ شہزادی کیٹ مڈلٹن نے حال ہی میں اسلام آباد کی مارگلہ کی پہاڑیوں کا دورہ کیا جہاں وہ تیندوے کی نسل کی نگرانی کے غرض سے اسکول کے بچوں کے ساتھ ایک ‘کیمرا ٹریپ’ بھی نصب کیامگر یہ ’کیمرہ ٹریپ‘ کیا ہوتا ہے اور اس سے جنگلی حیات کو کیا فائدہ ہوتا ہے؟ ماحولیاتی امور کے صحافی خان شہرام یوسفزئی کو پاکستان کے بلند و بالا پہاڑی سلسلوں میں پائے جانے والے برفانی تیندوے کی نسل پر نظر رکھنے کے لیے کیمرہ ٹریپ لگانے کا تجربہ ہے۔ یہ مضمون ان کے تجربات پر مبنی ہے۔

میری نظروں کے سامنے وہ ایک مسحور کردینے والا برفانی تیندوا تھا۔ اس کی موجودگی میں میں مبحوس ہو کر رہ گیا، جیسے اس کی سرخی مائل آنکھیں میرے بدن کو گھائل کررہی ہوں۔ اس کے کان چپٹے اور لب دم بستہ غراہٹ سے سکڑے ہوئے تھے۔ اس کانرم، لچکیلا جسم جیسے چٹان سے گلے مل رہا ہو اور وہ بڑی جست لگانے کے لیے اپنے بدن کو تیار کررہا ہو۔

یہ اتنا نایاب اور دلکش منظر تھا کہ کچھ لمحوں کے لیے میں بھول گیا کہ میں بذات خود وہاں موجود نہیں تھا بلکہ میرے ہاتھ میں ’کیمرہ ٹریپ‘ سے لیا گیا عکس تھا۔ اس نایاب جانور کی جھلک کے لیے عموماً جنگلی حیات کی عکس بندی کرنے والے بھی پہلے سے نصب شدہ ‘کیمرہ ٹریپ’ کی فوٹیج پر انحصار کرتے ہیں۔ ہم نے بھی ایسے ہی کسی تیندوے کی تلاش میں گلگت بلتستان کے ناہموار پہاڑوں میں ایک ہفتہ بسر کیا تھا۔

کیمرہ ٹریپ ہوتا کیا ہے؟

کیمرہ ٹریپ ایک ایسا کیمرا ہوتا ہیں جس کو پانی سے بچاؤ کے لیے سیاہ پلاسٹک کے ڈبے میں محفوظ رکھا جاتا ہے۔ اس ڈبے میں ایک عدد موشن سینسر، میموری کارڈ، دیر تک چلنے والی بیٹریاں اور سرد موسم سے متاثر ہونے سے بچانے کے لیے انسولیشن کی جاتی ہے. تحقیق کے خوگر آئی یو سی این پاکستان کے مینیجر سعید عباس اور دیگر سائنسدان ایسے خطرناک جانوروں پر تحقیق کے لیے کیمرہ ٹریپ کا استعمال کرتے ہیں۔

میں نے اپنے حالیہ سفر پر سعید عباس اور ان کی ٹیم کیساتھ گلگت بلتستان کے علاقے نگر میں ہوپر گلیشیر سے بھی آگے ،گہرے ارغوانی رنگ کی چٹانوں کے بیچ عمدہ فوٹیج کے حصول کے لیے بلند سطح پر ‘کیمرہ ٹریپ’ لگایا تھا۔یہاں ہوا کا گزر بہت تیز تھا اور ایسی ہی جگہوں پر برفانی تیندوے پہاڑی بکروں اور مارخور کے شکار کی گھات میں رہتے ہیں۔ عموماً یہ چھپ کر وار کرتے ہیں اور اپنے طاقتور جبڑوں سے چشم زدن میں شکار کا گلے گھونٹ دیتے ہیں۔

برفانی تیندوں کی گھٹتی تعداد

یہ بات تو یقینی طور پر کسی کو بھی معلوم نہیں کہ یہ علاقہ کتنے برفانی تیندوں کا مسکن ہے۔ دنیا بھر میں اس وقت 4700 کے لگ بھگ برفانی تیندوے پائے جاتے ہیں مگر پاکستان میں ان کی تعداد 400 سے کم رہ گئی ہے۔ ریوڑ کی حفاظت اور بچاؤ کی خاطریہاں بسنے والے گلہ بانوں کے ہاتھوں کئی تیندوے ہر سال مارے جاتے ہیں۔

محکمہ وائلڈ لائف ،این جی اوز، رینجرز اور متعدد قومی اور بین الاقوامی تنظیموں کے ماہرین کی زیرنگرانی پہلی بار برفانی تیندوں کے صحیح اعدادو شمار کے لیے گنتی کی جارہی ہے۔ اس امر سے یہ امید بندھی ہے کہ ان کی تعداد کے حوالے سے درست معلومات میسر آئیں گی جس کی بدولت اس جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے خاطر خواہ اقدامات کیے جائیں گے جیسے دوسری جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے دیگر علاقوں میں کیے جاتے ہیں۔

کیمرہ ٹریپ سے معاونت کیسے ممکن ہے؟

سعید عباس نے کہا کیمرہ ٹریپ کی مدد سے تیندوں کی کھوج میں خاصی معاونت ملی ہے۔ ‘ ہم نہ صرف ان کے پیروں کے نشانوں سے ان کا کھوج لگا سکتے ہیں بلکہ ان تصاویر کے ذریعے بھی ان کی نشاندہی کرسکتے ہیں۔ ہم ایک ایک تیندوے کی نشاندہی کرسکتے ہیں اور ان کے تقسیم شدہ علاقوں کی شناخت بھی عین ممکن ہے۔’

کیمرہ ٹریپ سے قبل سائنس دانوں کے پاس برفانی تیندوں کی تعداد کا تخمینہ لگانے کا طریقہ ان جانوروں کے پنجوں کے نشان کی پیمائش پر مبنی تھا جس میں غلطی کا امکان بہرحال موجود تھا مگر’کیمرہ ٹریپ’ کے ذریعے ان کو انفرادی طور پر رنگت اور جسم پر موجود دھبوں کے نشانات کے توسط سے شناخت کیا جاسکتا ہے جو ہر تیندوے کی کھال پر مختلف انداز میں الگ الگ پائے جاتے ہیں۔

‘کیمرہ ٹریپ’ ان علاقوں میں کام کرنے والی تنظیموں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ سعید عباس نے بتایا کہ اب تک جتنے مقامات پر ‘کیمرہ ٹریپ’ نصب کیا گیا ہے اس میں جنگلی حیات کے علاوہ ہمیشہ مختلف انواع کی چیزیں نظر آجاتی ہیں۔ ‘کئی بار شکاریوں کی نقل و حرکت جاننے کے لیے کیمروں کو متحرک کیا جاتا ہے جو کئی تصاویر اتار لیتے ہیں۔ ایسے شکاری بیشتر برفانی تیندویاور دیگر جانوروں کے شکار کے لییان کا پیچھا کرتے ہیں جو انھیں محفوظ علاقوں میں لے جاتا ہے۔ ایسے علاقوں میں ساری نقل و حرکت ‘کیمرہ ٹریپ’ کے ذریعے حاصل کی جاتی ہیں۔ لیکن شکاریوں کی سرگرمیوں کا علم اکثر کئی ماہ کے بعد ہوتا ہے، جب کیمروں کو اتارا جاتا ہے اور ان سے تصاویر حاصل کی جاتی ہیں۔’

سعید کا کہنا تھا کہ ‘پہلے پہل تو میں نے ان تصاویر کو مقامی لوگوں کی نقل و حرکت کے طور پر لیا مگر پھر مجھے ان کی سرگرمیاں مشکوک نظرآنے لگیں۔ ان تصاویر میں مقامی لوگوں کے ساتھ کچھ شکاری بھی تھے،جنھوں نے پیسوں کے عوض مقامی لوگوں کی خدمات حاصل کی ہوئی تھیں۔’

سعید نے مزید بتایا کہ انھوں نے تمام تفصیلات قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مقامی لوگوں تک پہنچائیں جس کی وجہ سے ذمہ دارشخص کی نشاندہی ممکن ہوئی اور اس نے اعتراف کیا کہ شکاریوں کے ایک گروہ نے پہاڑوں میں رہنمائی کرنے کے لیے اسے پیشگی ادائیگی کی تھی۔

ٹرافی ہنٹنگ معاہدہ اور اس کی خلاف ورزی

قارئین کے لیے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ شمالی علاقہ جات کی تمام کمیونٹیزکے ساتھ ‘ٹرافی ہنٹنگ پروگرام’ کے تحت ایک معاہدہ ہے جس کی مدد سے مقامی افراد خطے میں مارخوروں اور پہاڑی بکروں کے لائسنس یافتہ شکار سے آمدنی کما سکتے ہیںمگر تیندوے کا شکار معاہدے کی صریح خلاف ورزی تھی۔ اس معاہدے کے تحت مقامی افراد برفانی تیندوں اور دیگر جانوروں کے شکار نہ خود کر سکتے ہیں اور نہ ہی باہر سے آنے والیغیر قانونی طور پر شکار کرنے والے شکاریوں کو کسی بھی قسم کی معاونت فراہم کر سکتے ہیں اگر کمیونٹی اپنے عہد کو برقرار رکھتی ہے تو ان کو علاقے کو غیر قانونی شکار سے محفوظ بنانے پر سالانہ انعام سے نوازا جاتاہے۔ تاہم اگر کسی برادری کا کوئی فرد غیر قانونی شکار میں ملوث پایا جائے تو اس کی برادری اپنی انعامی رقم سے مرحوم ہوجاتی ہے۔ سعید عباس نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ‘ایسی کوئی مثال نہیں ہے کہ جب کسی برادری کو اپنے انعام سے ہاتھ دھونا پڑا ہوں مگر اس کا خدشہ ہمیشہ رہتا ہے۔’

کیمرہ ٹریپ ایک ‘ہتھیار’

غیر قانونی طور پر شکار کرنے کے ایسے واقعات نے سعید اور دیگر محققین کی توجہ اس جانب مبذول کروائی ہے کہ وہ ‘کیمرہ ٹریپ’ کے توسط سے شکاریوں کا کھوج لگائیں۔ ان محققین کے پاس شکاریوں کا مقابلہ کرنے کا واحد ذریعہ کیمرہ ہی ہے۔

‘ہر برس ہم ممکنہ شکاریوں کو پکڑنے کے لیے برفانی تیندوے کی حدود والے علاقوں میں میں’کیمرہ ٹریپ’ نصب کرتے ہیں۔ میں ہمیشہ دعا کرتا ہوں کہ ہمیں کوئی شکاری اس میں نظر نہ آئے۔ مگر کوئی شکاری نظر آتا ہے تو کم از کم ہمارے پاس اس کے خلاف ٹھوس ثبوت موجود ہوتے ہیں۔’

مارگلہ کی پہاڑیوں کے لیے ناگزیر

شمال کے دور درازسَربلند پہاڑوں کی مانند ہمالیہ سلسلے کا نقطہ آغازیعنی مارگلہ کی پہاڑیوں کا نیشنل پارک نباتات اور حیوانات کے لیے کم نہیں ہے۔ یہ علاقہ جنگلی جانوروں اور نایاب پرندوں کی جائے پناہ ہے۔ 125 کلومیٹر کے فاصلے پر پھیلے ہوئے اس پارک کا دلفریب قدرتی حسن نہ صرف وفاقی دارالحکومت کے ماتھے کا جھومر ہے بلکہ اس خطے میں موجود نایاب جنگلی حیات کا بھی مسکن ہے۔

گلگت بلتستان میں کام کرنے والے ماہرین کی طرح مارگلہ نیشنل پارک میں بھی تیندوں کے تحفظ اور ان کی نقل و حرکت پر نگاہ رکھنے کے لیے کیمرہ ٹریپ کا استعمال شروع کردیا گیا ہے۔ نیشنل پارک میں موجود جنگلی جانوروں کے شکار کے لیے اکثر شکاری گھات میں رہتے ہیں اورجانوروں کے عدم تحفظ کی وجہ سے یہاں پائی جانے والی جنگلی حیات خطرے سے دوچار ہے۔

کیمرہ ٹریپ نصب کرنے والے گمنام ہیروز کو خراج تحسین

جنگلی حیات کے تحفظ، نگرانی اور سروے کے لیے کیمرہ ٹریپ کا استعمال انتہائی مؤثر ثابت ہورہا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی کی بدولت تکنیکی اعتبار سے اس میں مزید بہتری کے امکانات روشن ہیں۔ ‘کیمرہ ٹریپ’ کے توسط سے جو واضح تصاویر ہم تک پہنچتی ہیں وہ ایسی نایاب مخلوق کی ہوتیں ہیں جو دنیا کے انتہائی دور دراز مقامات اور پہاڑوں میں رہتی ہے۔ یہ ایسے علاقے ہیں جہاں موسم سرما میں درجہ حرات منفی 20سینٹی گریڈ تک گرجاتا ہے۔ماہرین برفانی تیندوں کی غاروں تک پہنچنے کے لیے انتہائی کٹھن فاصلے طے کرتیہیں اور ایک ایک تصویر کے حصول کے لیے بڑے بڑے پہاڑیوں سلسلوں کو عبور کرنا پڑتا ہے۔

‘کیمرہ ٹریپ’ نصب کرنا بذات خود ایک انتہائی دشوار کام ہے اور اسے کرنے والے ماہرین اور محققین کی محنت کو کم ہی سراہا جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ یہی وجہ ہو کہ برطانوی شاہی جوڑے کی پاکستان آمد پر اس مقصد کی طرف توجہ دلانے کے لیے ایک ‘کیمرہ ٹریپ’ نصب کرنے کا منصوبہ بھی بنایا گیا ہے۔ یہ ایک طرح کا ان گمنام ہیروز کو خراج تحسین بھی ہوگا جو سارا سال اپنی زندگی خطرے میں ڈال کر ماحول اور اس میں رہنے والے نایاب جانوروں کی حفاظت کرتے ہیں۔

The post کیمرہ ٹریپ؛ نایاب جانوروں تک دسترس کا انمول طریقہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/31El432