اُن سے باقاعدہ سوالات پوچھنے سے پہلے خود ہمیں اپنے ’انٹرویو‘ کے مرحلے سے گزرنا پڑا۔۔۔ ہم کون ہیں، کیا کر چکے ہیں اور کیا کرتے ہیں؟ وغیرہ جیسے بہت سے استفسار ہوئے۔۔۔ بات سے بات نکلی اور انہوں نے بہت سے معاملات پر ہماری رائے بھی لی۔۔۔ اس کے بعد ایک مسکراہٹ کے ساتھ انہوں نے ہمیں انٹرویولینے کی اجازت دی، پھر ہم نے بھی گفتگو میں سہولت محسوس کی۔۔۔ اس دوران وہ ’مشفقانہ سرزنش‘ بھی فرماتی رہیں، جو کل ہمارے انٹرویو کی تیاری تک رہی۔۔۔ اُن کی شخصیت نہایت سنجیدہ، بارعب اور پروقار ہے۔۔۔ بے باکیٔ اظہار اس پر مستزاد۔۔۔! مختصراً یہ کہ تفصیلی بات چیت یا بالمشافہ ملاقات ان سے سرسری ملنے یا فون پر مختصر گفتگو سے یک سر الگ ہی تجربہ رکھتی ہے۔۔۔
یہ ہمارے ملک کی سابق کیبنٹ سیکریٹری اور سفیر ڈاکٹر معصومہ حسن کا ذکر ہے، وہ کہتی ہیں کہ غیاث الدین بلبن نے ہمارے جد امجد ملک علی کو ہرات سے ہندوستان بلا کر قاضی مقرر کیا، ہمارا خاندان 700 سال پانی پت میں رہا۔ تاہم حکمت سے وابستہ بزرگوں کے دلی میں دوا خانے تھے۔ دادا خواجہ انور حسن سول انجینئر تھے، انہوں نے برما کا نہری نظام بنایا، پھر انہیں’ نظام آف حیدر آباد‘ نے ملازمت دی، جہاں انہوں نے بہت ترقی پائی اور ’دکن‘ کے امرا کی طرح انہوں نے بھی اپنے بچوں کو پڑھنے کے لیے کیمبرج بھیجا، میرے والد خواجہ سرور حسن نے وہاں قانون پڑھا اور ’مڈل ٹیمپل‘ سے بیرسٹری کی، پھر علی گڑھ میں پریکٹس کی۔۔۔ مطمئن نہ ہوئے تو ’یونیورسٹی آف دلی‘ آکر قانون پڑھانے لگے، دلی میں ’میونسپل کمیشنر‘ بھی رہے، انہیں دلی سے بہت عشق تھا۔ ہمارا دلی سے دوسرا تعلق یہ تھا کہ دلی کی جامع مسجد کی مرمت ہمارے والد کے تایا کرتے تھے۔۔۔
ڈاکٹر معصومہ حسن نے بھی دلی میں آنکھ کھولی، وہ ’نیو دلی چرچ اسکول‘ میں پڑھیں، تاریخ پیدائش کا سوال ٹال جاتی ہیں، ہندوستان سے ہجرت کا ذکر یوں کرتی ہیں کہ والد پاکستان کے زبردست حامی تھے، وہ بڑی منصوبہ بندی سے یہاں آئے۔ وہ اس وقت ’انڈین انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز‘ کے ڈائریکٹر اور سیکریٹری تھے۔ انہوں نے ’انسٹی ٹیوٹ‘ پاکستان لے جانے کے لیے قائداعظم کی رضا مندی لی، پھر وہاں کے اراکین سے یہ فیصلہ منظور کرایا، والد نے اتنے مسلمان رکن بنا لیے تھے کہ یہ رائے شماری کام یاب ہو گئی۔ پھر لیاقت علی نے پاکستان کے حصے کا سامان کراچی لانے والی ریل میں ایک بوگی انہیں دی، جس میں انہوں نے نہایت راز داری سے کتب خانہ اور دیگر قیمتی سامان پاکستان پہنچایا۔
ہم پانچ آدمی والدین، دادی، میں اور میرے بھائی 15 اگست کو پاکستان پہنچے، براستہ لاہور کراچی آئے۔ والد ایک بار آچکے تھے، لیکن ہمارے لیے کراچی نئی دنیا تھی۔ پہلے کینٹ اسٹیشن کے قریب شامیانے میں ٹھیرے، پھر رات ہی کو والد ’بیچ لگژری ہوٹل‘ کے پاس ایک ’بیرک‘ میں لے گئے۔ صبح اٹھے، تو بالکل سامنے سمندر پایا، ہم نے زندگی میں پہلی بار سمندر دیکھا۔۔۔ پھر 13 برس ہم یہیں رہے۔
ڈاکٹر معصومہ حسن نے سینٹ جوزف اسکول سے سینئر کیمبرج، سینٹ جوزف کالج سے بی اے اور پھر جامعہ کراچی سے 1962ء میں ایم اے (سیاسیات) کیا۔ ایم اے کے نتائج سے پہلے حکومت پاکستان کی میرٹ اسکالر شپ مل گئی، پھر ’کیمبرج یونیورسٹی‘ سے ایم اے اور پھر ’پی ایچ ڈی‘ کیا۔ کہتی ہیں کہ ہمارے خاندان میں خواتین کی تعلیم کا رواج تھا، دادی اور پھوپھیاں بہت پڑھی لکھی تھیں۔ ہمارے والد نے چھوٹی پھوپھی کو 1930ء میں لندن پڑھنے بھیجا، میں تو بہت بعد میں گئی۔
ڈاکٹر معصومہ جامعہ کراچی کا ذکر بہت قدر سے کرتی ہیں، کہ پہلے ماحول بہت اچھا تھا۔ صدر شعبہ سیاسیات الیاس احمد اسلامی تاریخ کے بہت بڑے اسکالر تھے، سید عادل حسین بھی بہت قابل استاد تھے۔ تب آج کل کی گالی گلوچ اور غنڈہ گردی نہ تھی۔ مخالفین سے مناظرے کرتے، نعرے لگتے، بات کبھی پولیس تک نہیں گئی۔ لبرل معاشرہ تھا، کوئی حجاب نہیں کرتا تھا، ساتھ گھومتے پھرتے اور ہنسی مذاق کرتے تھے، آج کل کی فضول قسم کی قدغن نہیں تھی۔ جامعہ کراچی سے آج بھی لگاؤ ہے، اس کی ’سینڈیکیٹ‘ اور ’سینیٹ‘ کی رکن ہوں۔
وہ ملک کی پہلی خاتون ’پی ایچ ڈی‘ ہونے کی بات رد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ مجھ سے پہلے بھی خواتین ڈاکٹریٹ کر چکی تھیں۔ انہوں نے ملک کی پہلی وفاقی سیکریٹری ہونے کی بھی درستی کی اور کہا کہ مجھ سے پہلے سلیمہ احمد اور گلزار بانو اس عہدے پر رہ چکی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ مجھے دنیا میں کہیں بھی نوکری مل سکتی تھی، لیکن میں نے ملک میں ہی ملازمت کا فیصلہ کیا، اور یہ طے کیا کہ نجی شعبے کے لیے کام نہیں کروں گی۔ جامعہ کراچی گئی، لیکن شیخ الجامعہ آئی ایچ قریشی نے مجھے بہت جونیئر پوزیشن کی پیش کش کی، میں نے انکار کر دیا۔ پھر 1967ء میں ’نیپا‘ (نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ایڈمنسٹریشن) میں بطور فیکلٹی ممبر میری ملازمت کا آغاز ہوا۔
تب ’نیپا‘ بالکل نیا تھا، پھر دھیرے دھیرے یہ ملک میں ’سروس ٹریننگ انسٹی ٹیوشنز‘ میں سب سے اچھا ادارہ بن گیا۔ یہاں ہر شعبے اور ہر علاقے کے لوگ آتے، اس لیے مجھے یہاں مختلف محکموں کے حوالے سے معلومات حاصل ہوئیں اور یہ پتا چلا کہ حکومت کیسے چلتی ہے، اگر میں کسی ایک شعبے میں چلی جاتی تو مجھے یہ سب پتا نہیں چلتا۔ ’نیپا‘ میں کبھی کوئی فیکلٹی ممبر ڈائریکٹر نہیں بنا۔ وہ ہمیشہ مین اسٹریم حکومت سے آتا تھا، میں واحد فیکلٹی ممبر اور خاتون تھی، جو اس عہدے پر فائز ہوئی، لیکن مجھے گریڈ 22 پہلے ہی مل چکا تھا۔
سفارت کاری کے ذکر پر وہ بتاتی ہیں کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ کیا وجہ تھی جو بے نظیر بھٹو مجھے وفاقی سیکریٹری نہیں بنانا چاہتی تھیں۔ انہوں نے مجھے بالواسطہ کہلوایا کہ ویمن ڈویژن کی سیکریٹری بن جاؤ۔ میں نے انکار کر دیا، کیوں کہ یہ ایک قسم کا تعصب ہوتا ہے کہ عورت کسی اور شعبے میں نہیں صرف ویمن ڈویژن میں ہی آسکتی ہے۔ بے نظیر کا مسئلہ میری سمجھ میں آرہا تھا کہ میں 22 گریڈ میں واحد خاتون تھی، تب 21 گریڈ میں بھی کوئی خاتون نہ تھی۔ پھر انہوں نے مجھے آسٹریا میں سفیر بنا دیا، جو بہت بڑا چیلنج تھا، جینیوا اور نیویارک کے ساتھ ویانا بھی اقوام متحدہ کا ہیڈ کوارٹر ہے، وہاں بڑے بین الاقوامی ادارے بھی ہیں۔ میں ویانا میں اقوام متحدہ کے دفتر میں پاکستان کی مستقل مندوب رہی، یونائیٹڈ نیشنز انڈسٹریل ڈیلولیپمنٹ آرگنائزیشن (UNIDO)، انٹرنیشنل اٹامک ایجینسی (I.A.E.A) اور کرائم پروینشن ا ینڈ کرمنل جسٹس کے علاوہ آؤٹر اسپیس اور انسداد منشیات کے اداروں میں ملک کی نمائندگی کی۔ گروپ آف 77 کی چیئرپرسن منتخب ہونے کو وہ اپنے لیے بہت بڑا اعزاز قرار دیتی ہیں۔
ڈاکٹر معصومہ نے بتایا کہ ’مجھے بھیجا تو بے نظیر نے تھا، واپس آئی تو نواز شریف کا دور تھا، میں نے صدر فاروق لغاری کو کرٹیسی کال کی، جیسا کہ سفیر کرتے ہیں، تو انہوں نے کہا کہ ہر ایک اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ آپ بہت اچھی سفیر تھیں، اب آپ کیا کرنا چاہتی ہیں؟ میں نے کہا، جو فرمائیں، وہ بولے ’فیڈرل سیکریٹری‘ بننا چاہیے، میں نے کہا اگر ہو سکے تو انہوں نے کہا کہ میں وزیراعظم سے کہتا ہوں۔ لیکن میں بے نظیر کی بھیجی ہوئی تھی، اس لیے ایسا ممکن نہ ہو سکا۔
یوں ڈاکٹر معصومہ حسن 1997ء میں دوبارہ ’نیپا‘ کی ڈائریکٹر ہوگئیں، کہتی ہیں کہ میں ’کنٹریکٹ‘ کے بہ جائے ’ڈیپوٹیشن‘ پر سفیر ہوئی تھی۔ مجھ سے بھی کنٹریکٹ کرانا چاہا تھا، لیکن میں نے انکار کیا کہ ایک ’سول سرونٹ‘ سے کیسے کنٹریکٹ کر سکتے ہیں، پھر انہوں نے ڈیپوٹیشن مان لیا۔ 1999ء میں جنرل پرویز مشرف برسراقتدار آئے، تو انہوں نے مجھے ’کیبنٹ سیکریٹری‘ بنایا، ایک طرح سے یہ مجھ پر کوئی بڑا احسان بھی نہیں تھا، کیوں کہ میں ملک کی سب سے سینئر سول سرونٹ تھی۔‘
جنرل ضیا الحق کے زمانے کا ذکر ہوا، ڈاکٹر معصومہ نے بتایا کہ جب اُن کے شوہر فتح یاب علی خان ’ایم آر ڈی‘ میں فعال ہوئے، تو انہیں ’جبری رخصت‘ پر بھیج دیا گیا، کہتی ہیں کہ یہ چھٹیاں کام بھی آئیں، کیوں کہ فتح یاب مقدمات میں اسیر تھے، پولیس ہمیں کوئی ملازم نہیں رکھنے دیتی تھی۔ اُسے اتنا تنگ کرتی کہ وہ بھاگ جاتا۔ میں صبح بچوں کو اسکول چھوڑتی، سامان لیتی پھر کھانا تیار کرتی اور پھر جیل میں فتح یاب کا کھانا دے کر آتی، پھر بچوں کو اسکول سے لے کر آتی، اور پھر شام کا کھانا دینے جاتی۔ پھر ساتھی قیدی کے اہل خانہ سے آپس میں کھانے کی ذمہ داریاں بانٹ لیں۔ دو ہفتے بعد اجازت لے کر فتح یاب سے مل پاتے، اس دوران ایک آدمی بھی ساتھ ہوتا۔
طلبہ تحریک کے سرگرم کارکن فتح یاب علی خان سے شادی کے سوال پر ڈاکٹر معصومہ بتاتی ہیں کہ وہ جامعہ کراچی میں ساتھ تھے، 1969ء میں شادی ہوئی، دو بیٹے ہیں۔ بڑے بیٹے حسن علی خان آرکیٹکچر ہیں اور حبیب یونیورسٹی میں لبرل آرٹس پڑھاتے ہیں۔ چھوٹے بیٹے بیرسٹر اسد علی خان لندن میں ہیں۔
فتح یاب کے بعد ان کی ’مزدور کسان پارٹی‘ کی صورت حال سے لاعلمی ظاہر کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ میں کبھی سیاسی یا سماجی کارکن نہیں رہی۔ فتح یاب سمجھتے تھے کہ مہاجر کے نام پر قومیت نہیں ہونا چاہیے، وہ سمجھاتے تھے کہ ’مہاجر‘ کے مطلب کا ہم پرا طلاق نہیں ہو سکتا۔
آج فتح یاب علی خان جیسی فکر رکھنے والوں کا ذکر ہوا تو ڈاکٹر معصومہ بولیں کہ ’ضرور ہوں گے، جو اصولوں پر چلتے ہیں، میں ذاتی طور پر نہیں جانتی۔ میں بالکل بھی مایوس نہیں، ہمارے ہاں کی سیاست کے ضرور مثبت اثرات نکلیں گے۔ اپنی خود نوشت لکھنے کے سوال پر وہ کہتی ہیں کہ ’لکھتے رہتے ہیں کبھی ان شا اللہ کتابی صورت میں بھی چھپوا دیں گے۔‘
افغان طالبان اور امریکا کے مذاکرات پر ڈاکٹر معصومہ بولیں کہ اگر کوئی سمجھوتا ہو گیا، تو موجودہ افغان حکومت کیا کرے گی؟ ابھی ایسے بہت بڑے بڑے سوالیہ نشان ہیں۔ یہ ہمارے لیے اچھا ہوگا کہ وہاں امن آجائے۔۔۔ ہماری افغان پالیسی میں بہت نشیب وفراز آئے۔ ایک بہت بڑی سوچ ہے کہ ہمیں کبھی ان کی پشت پناہی نہیں کرنا چاہیے تھی، لیکن ایک تاریخ بھی تو ہوتی ہے۔‘
ڈاکٹر معصومہ کا خیال ہے کہ ملک میں ارتقائی سیاسی عمل سے ’بہتر جمہوریت‘ ہو سکتی ہے۔ ہمارے سیاست دانوں کی نئی نسل پرانوں سے بالکل مختلف ہے، نواب زادہ نصراللہ اور بزنجو وغیرہ بہت دور اندیش تھے۔ اب سیاسی اقدار بدل گئی ہیں، مجھے نہیں یاد کہ پہلے والوں نے کبھی ناشائستہ گفتگو کی ہو۔
۔۔۔
ایک دن جیل سے فتح یاب ’غائب‘ ہوگئے!
’’جیل سے ایک دن کھانے کا برتن جوں کا توں واپس آگیا، تو پتا چلا کہ فتح یاب جیل سے ’غائب‘ ہیں اور کوئی بتانے کو تیار نہیں کہ وہ کہاں گئے۔ ہم کئی دن تک مارے مارے مارے پھرتے رہے، آخر ہوم سیکریٹری سے پتا چلا کہ انہیں تفتیش کے لیے حب چوکی لے گئے ہیں۔ غوث بخش بزنجو کی جماعت کے ’بی ایم کُٹّی‘ بھی ان کے ساتھ تھے، پھر وہ تو رہا ہو گئے، لیکن فتح یاب کو واپس جیل بھیج دیا، ضیا دور میں جیل آنا جانا رہا۔ ’ایم آر ڈی‘ کی تحریک کے ’ڈیکلریشن‘ پر فتح یاب سمیت 9 راہ نماؤں نے دستخط کیے، لیکن فتح یاب واحد راہ نما تھے، جن پر مقدمہ بنا۔‘‘
ڈاکٹر معصومہ خاموش ہوگئیں، تو ہم نے پوچھا ’’کیوں؟‘‘ تو وہ بولیں ہو سکتا ہے کہ وہ انہی سے زیادہ خائف ہوں۔ گرفتار سب کو کیا، لیکن مقدمہ نہیں بنایا۔ جب فتح یاب کو ایک سال کی سزا ہوئی، تو انہوں نے جیل میں مٹھائی منگائی اور کہا کہ ایوب خان کے دور میں بھی مجھے سزا ہوئی تھی۔ کچھ دن بعد پھر فتح یاب جیل سے غائب ہو گئے، پتا چلا کہ سکھر بھیج دیا ہے۔ بہ ذریعہ ہوائی جہاز ملنے جاتی۔ ہوم سیکریٹری نے بتایا کہ پیپلز پارٹی کے ناصر بلوچ اور ایاز سموں کو پھانسی دے رہے ہیں اور فتح یاب بہت بااثر قیدی ہیں، اس لیے انہیں یہاں نہیں رکھ سکتے۔ پھانسیوں کے بعد کراچی واپسی کے لیے کہا تو انہیں بچوں کی لانڈھی جیل میں لائے!
’’پرویز مشرف کو تین برس میں اقتدار چھوڑ دینا چاہیے تھا!‘‘
ہم نے پرویز مشرف کی ’کیبنٹ سیکریٹری‘ سے اُن کی طرز حکومت پر اطمینان کا پوچھا، کہ تھے تو وہ بھی بالاخر ایک آمر ہی؟ وہ بولیں کہ وہ آمر تھے، لیکن ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ جب انہوں نے حکومت سنبھالی، تو کسی نے بھی ان کے خلاف کوئی احتجاج نہیں کیا۔۔۔ عدالت عظمیٰ نے انہیں تین سال دیے، جس کے بعد انہیں انتخابات کرا کے اقتدار چھوڑنا تھا، لیکن اس سے پہلے ہی وہ صدر بن گئے۔‘ وہ ہنستے ہوئے کہتی ہیں ’لیکن تب تو میں جا چکی تھی، اس لیے اس میں میرا کوئی ہاتھ نہیں!‘
’’جنرل پرویز مشرف آئے، تو فتح یاب کا کیا کہنا تھا؟ وہ تو پچھلے دو جرنیلوں کے خلاف رہے۔۔۔‘‘ اس سوال پر وہ بولیں ’’فتح یاب کیا سب کا ایک ہی رویہ تھا کہ کسی نے بھی مخالفت نہیں کی۔‘‘
’لیکن تھے تو وہ غاصب، چاہے پچھلوں سے کتنے ہی بہتر تھے۔۔۔‘ ہم نے کہا، تو وہ گویا ہوئیں ’میں تو نہیں کہتی کہ وہ بدتر یا بہتر تھے۔۔۔‘
’وہ ایک جمہوری حکومت کو تو ختم کر کے آئے۔‘ ہم نے ٹکڑا لگایا، تو انہوں نے اتفاق کرتے ہوئے کہا ’’بالکل صحیح کہہ رہے ہیں، لیکن سرکاری ملازمین کے پاس تو کوئی اختیار نہیں ہوتا۔‘‘
’فتح یاب صاحب کیا کہتے تھے؟‘ بات پھر اصل سوال کی طرف لوٹ آئی، تو انہوں نے دیوار پر ٹنگی ہوئی فتح یاب صاحب کی تصویر کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ ’وہ آپ فتح یاب سے ہی پوچھ لیں۔۔۔!‘‘
۔۔۔
جب ’پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز‘ (PIIA) سرکاری تحویل میں گیا۔۔۔
’پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز‘ (PIIA) کی چیئرپرسن ڈاکٹر معصومہ کہتی ہیں میرا اس ادارے سے خاص لگاؤ ہے، میرے والد نے پاکستان میں اِس ادارے کو ’فریئر ہال‘ کے کچھ کمرے کرائے پر لے کر شروع کیا، 1955ء میں ہم موجودہ مقام پر منتقل ہوئے۔ اس ادارے کے بانی بہت بڑے لوگ تھے، جن میں اے بی حلیم، جمشید نسروانجی، ممتاز حسین، یوسف ہارون، آغا شاہی، بیورو کریٹ رشید اے ابراہیم، ڈاکٹر محمود حسین، شائستہ اکرام اللہ، جہاں آرا شاہ نواز اور کچھ پارسی اور ہندو وغیرہ شامل ہیں۔ 1980ء میں اس آزاد سوچ کے ادارے کو جنرل ضیا نے صدارتی حکم کے ذریعے قبضے میں لے لیا، یہ بہت برا وقت تھا۔ مجھے ہٹا کر ساری کونسل تحلیل کی اور ایڈمنسٹریٹر بنا دیے۔۔۔ جسٹس قدیر اور ائیر مارشل نور خان کے بعد جنرل غلام عمر کو یہاں ایڈمنسٹریٹر بنایا۔ ہم نے آرڈیننس کو چیلینج کیا، ہماری پٹیشنز خارج ہو جاتی اور ہم پھر فائل کر دیتے، یہ سلسلہ چلتا رہا، پھر ضیا الحق اللہ کو پیارے ہو گئے۔ بے نظیر نے بھی وہ ’آرڈیننس‘ منسوخ نہیں کیا۔ اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار نے درمیانی راستہ نکالا، غلام عمر کی جگہ مجھے ایڈمنسٹریٹر بنوا دیا۔ اب عدالتی پٹیشن میرے بھی خلاف ہوگئی۔ جب وہ پٹیشن لگی تو میں نے عدالت میں یہ کہہ دیا کہ پٹیشنرز بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ یوں یہ ادارہ 1980ء تا 1993ء حکومت کے پاس رہنے کے بعد ہمیں واپس مل گیا۔‘
انٹرویو کے بعد ہم نے ’انسٹی ٹیوٹ‘ کا وسیع وعریض کتب خانہ دیکھا، جس سے تشنگانِ علم 15 سو رپے سالانہ کے عوض استفادہ کر سکتے ہیں۔ اِسے ’آن لائن‘ کرنے کے حوالے سے ڈاکٹر معصومہ کہتی ہیں کہ ابھی اس حوالے سے کچھ سوچا نہیں۔
احتجاج پر فتح یاب کو اسکول سے نکال دیا گیا
ڈاکٹر معصومہ اپنے شوہر مرحوم فتح یاب علی خان کے حوالے سے بتاتی ہیں کہ انہوں نے اپنے اسکول میں پہلی ’بغاوت‘ کی۔ ان کا خاندان حیدرآباد (دکن) سے آیا، ان کے والد وہاں بڑی جائیدادوں کے مالک تھے، ہجرت کے بعد وہ پہلے کراچی آئے اور پھر شکار پور چلے گئے۔ تب مہاجر طلبہ کو سرکاری وظیفہ ملتا تھا، ایک مرتبہ انہیں اسکول میں یہ پیسے نہیں ملے، تو انہوں نے احتجاجی جلوس نکالا، جس کا نتیجہ اسکول سے بے دخلی کی صورت میں نکلا۔ پھر وہ کراچی آکر پڑھے اور یہاں ایوب خان کے خلاف طلبہ کی تحریک میں شامل ہوئے وہ ’’ملزم نمبر 1‘‘ تھے، انہیں ’ملٹری عدالت‘ سے چھے ماہ سزا ہوئی 1961-62ء میں وہ بہاول پور جیل سے لوٹے، تو انہیں بہت شہرت ملی۔ پھر انہیں کچھ ساتھیوں سمیت کراچی بدر کیا، مگر پھر وہ ہر شہر سے نکالے جاتے رہے یوں دربدر ہوئے۔ آخر میں انہیں مشرقی پاکستان کے طلبہ نے دعوت دی، لیکن انہیں کوئٹہ مین ایک برس کے لیے محصور کر دیا گیا۔
فتح یاب علی خان کی روپوشی کے دنوں کے حوالے سے ڈاکٹر معصومہ نے بتایا کہ پولیس روزانہ گھر آکر خوف زدہ کرتی کہ فتح یاب کا بتاؤ؟ پولیس میرے بھائی بیرسٹر کاظم حسن اور قریبی رشتے داروں سمیت میری اماں کے گھر کے تمام ملازموں تک کو لے گئی۔ ایک دن پولیس نے اماں سے کہا کہ ہم آپ کی پوتیوں کو لے جائیں گے، تو وہ بولیں ’میں نے تو سنا تھا ضیا الحق چادر اور چار دیواری کی پاس داری کرتا ہے۔‘
The post پتا نہیں کیوں بے نظیر مجھے وفاقی سیکریٹری نہیں بنانا چاہتی تھیں، سفیر ڈاکٹر معصومہ حسن appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/2JAiWU3