ہے جرم ِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات؛ مقتول بھی ہم، مجرم بھی ہم - KHB Point

کے-ایچ-بی پوائنٹ (ملکی و غیر ملکی تمام خبریں فراہم کرنے والاایک مکمل نیوزپلیٹ فام نیٹ ورک)

تازہ ترین

ہے جرم ِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات؛ مقتول بھی ہم، مجرم بھی ہم

15 مارچ 2019 مسلمانوں کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا۔نیوزی لینڈ جیسے پُر امن ملک میں بھی دو مساجد میں مسلمان نمازیوں کو سفید فام دہشتگرد نے بے دریخ فائرنگ کرکے اپنی گولیوں کا نشانہ بنایا، اس دلخراش واقعہ میں 50 سے زائد مسلمان شہید ہوئے۔اس میں 9 پاکستانی بھی شامل تھے، یورپی راہنماؤں نے رسمی بیانات دئیے۔

آہستہ آہستہ یہ المناک اور دلخراش واقعہ بھی وقت کی دھول میں گم ہو جائے گا، اگر یہی واقعہ غیر مسلموں کے خلاف ہوتا اور اس میں کوئی مسلمان ملوث ہوتا تو دنیا میں کہرام مچ گیا ہوتا اور مسلمان ممالک پر حملہ کر دیا جاتا۔ مگر۔۔۔؟

مقبوضہ کشمیر میں 1989سے لے کر اب تک ایک لاکھ بیس ہزار سے زائد مسلمان کشمیریوں کو شہید کیاجا چکا ہے۔ 2 لاکھ سے زائد زخمی ہوئے، ان میں سے کم از کم سات ہزارکشمیری مستقل طور پر معذور ہو چکے ہیں، 2016 سے لے کر اب تک پیلیٹ گنز کے استعمال سے ساڑھے پانچ ہزار لوگ اندھے ہو چکے ہیں ۔ جولائی 2016 میں حزب المجاہدین کے کمانڈ ربرہان وانی کی شہاد ت سے تحریک آزادی میں نیا موڑ پیدا ہوا تھا۔ جولائی 2016 سے اب تک تقریباً 6344 کشمیری شہید ہو چکے ہیں ۔ کشمیر میں ساڑھے سات لاکھ بھارتی فوجی تعینات ہیں، یعنی ہر دس کشمیریوں پر ایک بھارتی فوجی تعینات ہے۔

کشمیر میں موت اتنی ارزاں ہو چکی ہے کہ گبھرو جوان شہید ہونے پر مائیں اور بہنیں ماتم کرنے کی بجائے اس کے جنازے پر سہرے کے گیت گاتی ہیں، شہید کو دلہا بنایا جاتا ہے۔ یہ اتنا دلخراش منظر ہوتا ہے کہ زمین کا کلیجہ پھٹ جاتا ہے مگر عالمی برادری کے کان پر جوں نہیں رینگتی، بعض ممالک تو بھارت کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں ۔ آزادی مانگنے والے کشمیریوں کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ کمزور مسلمان ہیں ۔

٭ پاکستان میں ہونے والی دہشت گرد انہ کاروائیوں میں ستر ہزار (70,000)افراد جام ِ شہادت نوش فرما چکے ہیں، کنٹرول لائن پر شہیدہونے والے بے گناہ شہریوں کی تعداد 400 سے تجاوزکر چکی ہے۔

٭ 2003 میں جب امریکا اور اتحادی افواج نے صدام حسین کے دور ِحکومت میں عراق پر حملہ کیا تو تقریباً چھ لاکھ عراقی شہید ہوئے۔

٭ شام میں اب تک 5 لاکھ 67 ہزار شہری شہید ہو چکے ہیں جن میں 42 ہزار خواتین اور بچے بھی شامل ہیں ۔ صرف 8سالوں میں 3 لاکھ 70 ہزار مسلمان شہید ہوئے ہیں۔

٭ کچھ سال قبل بھارت کے شہر گجرات میں دس ہزار مسلمانوں کو جلا کر راکھ کر دیا گیا اس کے بعد بھارت کے باقی شہروں میں مسلم کش فسادات میں صرف بیس سالوں میں 1750مسلمانوں کو شہید کیا گیا ہے۔

٭ برما میں سات لاکھ مسلمانوں کو ہجرت کے لیے مجبور کیا گیا۔ سات ہزار مسلمانوں کو شہید کیا گیا ۔ 4000 سے زائد ڈوب کر شہید ہو گئے۔ 2700 مختلف حادثات کا شکار ہو ئے۔ بہت بڑی تعداد نے بنگلہ دیش میں پناہ لی۔ میانمار (برما) کا سرکاری مذہب بدھ مت ہے جو کہ اپنے ماننے والوں کو امن کا پیغام دیتا ہے اس کے باوجود مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے۔

٭ افغانستان میں اب تک 3 لاکھ سے زائد مسلمان شہید ہو چکے ہیں، اس کے علاوہ بھی مختلف ممالک میں سینکڑوں مسلمانوں کو نسلی تعصب کا شکار بنا یا گیا ہے۔

٭ عراق کویت کی جنگ، ایران عراق کی جنگ ، لیبیاء فلسطین اور دوسرے اسلامی ممالک میں ہونے والے حملوں میں بھی ایک لاکھ 75 ہزار مسلمان شہید ہو چکے ہیں ۔

پاکستان ، مقبوضہ کشمیر، فلسطین ، برما، بھارت، عراق، شام، افغانستان اور دوسرے اسلامی ممالک میں لاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں کو شہید کیا جا چکا ہے مگر اس کے باوجود مسلمانوں کو ہی ظالم ، دہشت گرد اور مجرم قرار دیا جا رہا ہے، صورتحال کا اصل رخ یہ ہے کہ مسلمانوں نے کسی بھی غیر مسلم ملک کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کیا نہ کسی ملک پر چڑھائی یا لشکر کشی کی،کسی بھی غیر مسلم ملک پر بمباری بھی نہیں کی ۔

امریکا کی طرف سے 9/11 کے حملوں کا الزام لگایا جاتا ہے، جبکہ بعد کے شواہد سے یہ بات منظر عام پر آئی کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور دوسری عمارات پر حملوں کے ذ مہ دار صرف یہودی تھے، امریکا میں صرف یہودی لابی ہی سائنس اور ٹیکنالوجی پر اتنا عبور رکھتی ہے کہ جو حملوں کے خلاف مدافعانہ نظام کو بے اثر بنا سکے۔ ان حملوں کی اصل وجہ یہ بنی کہ امریکی انتخابات میں ٹونی الگور جو کہ یہودیوں کا حمایت یافتہ تھا کو زبر دستی ہرا دیا گیا، یہودی جو کہ امریکی معیشت اور تجارت پر چھائے ہوئے ہیں۔

اس کے علاوہ سیٹلائیٹ ٹیکنالوجی اور جنگی سازو سامان کے شعبے میں بھی اجارہ داری قائم کر چکے ہیں انھوں نے اس بات کا شدید اثرلیا کہ ٹونی الگور کو صرف اس لیے حکومت میں نہیں آنے دیا گیا کہ وہ یہودیوں کا حمایت یافتہ تھا اور یہود کے لیے نرم گوشہ رکھتا تھا، 9/11 کا واقعہ اصل میں یہودی اور عیسائیوں کی باہمی چپقلش کا نتیجہ تھا جس کی تمام تر ذمہ داری اُسامہ بن لادن پر ڈال دی گئی۔

اُسامہ بن لادن افغان روسِ جنگ میں امریکا اور اس کے حواریوں کی آنکھ کا تارا تھا، اس نے اپنی دولت اور اپنی افرادی قوت افغانِ جنگ میں دل کھول کر خرچ کی، روس کی شکست میں پاکستان کے بعد اسامہ بن لادن بھی ایک بہت بڑا کردار تھا جس نے امریکا کی دوستی میں افغانِ جنگ میں اپنا بہت کچھ جھونک دیا۔ افغانِ جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا کو پاکستان اور افغان مجاہدین کے علاوہ اسامہ بن لادن بھی کھٹکنے لگا تھا ۔ جن مجاہدین نے افغانِ جنگ لڑی اب وہ امریکا کی نظر میں دہشت گرد ٹھہرے تھے۔

ملا عمر کے دورِ حکومت میں طالبان ٹریپ ہوئے اور انھوں نے اسلامی تعلیمات کو لے کر مذہبی انتہا پسندی کا مظاہرہ کیا جس کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کی ساکھ بھی متاثر ہوئی۔ جب 9/11 کا واقعہ ہوا تو امریکا اور وہاں بسنے والے عیسائی دہل کر رہ گئے، یہودیوں نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا مخصوص ایجنڈا امریکی حکومت کے سامنے رکھا۔ پھر دنیا میں ایک نئی جنگ شروع ہو گئی امریکی، نیٹو اور ایسافٖ فورسز اسامہ بن لادن کا مقابلہ کرنے کے لیے براستہ پاکستان، افغانستان میں داخل ہو گئیں۔ افغانِ جنگ میں حصہ لینے والے پاکستانی مجاہدین جو کہ امریکا کی نظر میں دہشت گرد ٹھہرے اس صورتحال سے خاصے بددل ہوئے انھوں نے جارحانہ کاروائیاں شروع کر دیں ۔کہا جاتا ہے کہ مجاہدین کو اس نہج تک لانے میں غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کا بہت بڑا کردار تھا۔ مجاہدین بھی ٹریپ ہو گئے، انھوں نے غیر ملکی قوتوں کے خلاف اپنا غصہ نکالنے کی بجائے پاکستانی عوام، فورسز اور اداروں پر غصہ نکالنا شروع کر دیا۔ پاکستان کی سیاسی و عسکری قوتوں کی حکمتِ عملی کی وجہ سے ملک عراق، شام، لیبیاء اور افغانستان بننے سے بچ گیا۔

ایک طویلِ جنگ نے پاکستان کو نئی زندگی اور قوت بخشی، ملک کی اہم قوتوں کو احساس ہوا کہ ’’ہے جرمِ ضعیفی کی سزا ء مرگِ مفا جات ‘‘چنانچہ اب ہر پہلو کی اصلاح کرنے کا ارادہ کیا گیا، ایک نئے پاکستان کی بنیاد رکھ دی گئی ہے، دنیا بھر کے مسلمانوں کی کسمپرسی اورِ بِے بسی کا اندازہ لگاتے ہوئے کچھ سخت فیصلے بھی کیے گئے، دہشت گردی سے آہنی ہاتھوں سے نپٹا گیا، ملک کو اندرونی طور پر کمزور بنانے کی تمام سازشیں ناکام بنائی گئیں، جب پاکستان نے ایسی جنگ جیتی کہ جس کی کسی کو بھی ا’مید نہ تھی، انڈیا پیٹھ ٹھونک کر میدان میںآ گیا، مگر پاکستان کے عسکری ادا روں کی پیشہ ورانہ مہارت اور پاکستان میں تیار کیے گئے جدید اسلحہ اور جے ایف 17تھنڈرکی وجہ سے پیٹھ پھیر کر بھاگ گیا ۔

فوجی محاذ پر تو ہماری مضبوطی کو بھانپ بھی لیا گیا ہے اور فوجی صلاحیت کو سراہا بھی جا رہا ہے مگر ابھی تک ہمارا اقتصادی محاذ خاصا کمزور ہے۔اگر دیکھا جائے تو اس وقت مسلمان ممالک میں صرف پاکستا ن ہی ایٹمی قوت ہونے کے علاوہ مضبوط عسکری قوت بھی ہے، مگر ابھی بہت سے محاذوں پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے، قوم کو باشعور بنانے کی ضرورت ہے، سائنس اور ٹیکنالوجی کے علاوہ جدید ریسرچ پر شدید توجہ دینے کی بھی اشد ضرورت ہے، افرادی قوت اور وسائل کو بہتر طریقے سے استعمال کرنے کی صلاحیت پیدا کرنی ہوگی۔ اقتصادی حالت بہتر کرنے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے ۔

یہ بات نہایت اہم ہے کہ اگر چہ اس وقت دنیا کے مختلف حصوں میں آزادی کی تحرکیں چل رہی ہیں، مگر سب سے کامیاب تحریک مقبوضہ کشمیر کے کشمیریوں کی ہے، اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ مقبوضہ وادی کے عوام اپنے آپ کو پاکستان سے جڑا ہوا سمجھتے ہیں، جبکہ دنیا کے دوسرے حصے کے مسلمان مظلومیت اور بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں، انتہا تو یہ ہے کہ یہی مسلمان دشت گردی کا شکار ہیں، برما میں باقاعدہ وہاں کی فوج نے نہتے روہنگیا مسلمانوں کو بے گھر ہونے پر مجبور کیا، فلسطین میں اسرائیلی گرفت مضبوط ہو رہی ہے، عراق اور شام پر امریکی اور نیٹو بمباری کے باوجود احتجاج کا ایک لفظ بھی نہ ادا کر سکے، صرف افغانستان میں مزاحمت جاری ہے مگر یہ مزاحمت بھی خاصی کمزور ہے وگرنہ نیٹو اور ایساف کی افواج چند ماہ سے زیادہ وہاں قدم نہیں جما سکتی تھیں۔

مسلمانوں کی کسمپرسی کی اصل وجہ جدید علوم سے دوری ہے، بے پناہ دولت وسائل اور افرادی قوت ہونے کے باوجود انھیں استعمال کا طریقہ نہیں آتا۔ انہی اقوام کی محتاجی ہے کہ جو انھیں نیست و نابود کرنے پر تلے ہوئے ہیں جو کہ ان کی دولت لوٹ کر اپنے خزانے بھر رہے ہیں، کئی اہم مسلم ممالک عالمی قوتوں کی کالونی بنے ہوئے ہیں، اس وقت سیٹلائٹ ٹیکنالوجی پر عبور حاصل کرنا اہم ضرورت ہے۔ خلیجی ممالک کے پاس اس قدر دولت ہے کہ وہ اپنی دولت کا معمولی سا حصہ خرچ کرکے اس ٹیکنالوجی پر عبور حاصل کر سکتے ہیں مگر اس مقصد کے لیے انھیں جدید علوم کو بہت زیادہ اہمیت دینی ہوگی ۔

جدید ترین تعلیمی اداروں کا جال بچھانا پڑے گا، مگر اس وقت خلیجی ممالک اپنے اختلافات میں الجھے ہوئے ہیں آپس میں متحارب ہیں، کبھی ان ممالک میں دولت اسلامیہ عراق و شام (داعش) جیسی تنظیمیں پیدا کی جاتی ہیں، حوثی گروپ کو ہلہ شیری دے کر اپنے ہی مسلمان بھائیوں پر حملہ کر دیا جاتا ہے، کبھی شیعہ سنی کا مسئلہ کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ عراق نے کویت پر حملہ کر کے ایسی غلطی کی کہ جس کا خمیازہ عراقی عوام ابھی تک بھگت رہی ہے ، ایران، عراق جنگ میں بھی مسلمانوں کو ہی نقصان پہنچا، اب افغانستان غیر ملکی ایجنڈے کو پورا کرتے ہوئے ہر قدم پر پاکستان کی مخالفت کر رہا ہے۔ اس وقت صرف مسلم ممالک ہی میدان جنگ بنے ہوئے ہیں، بے پناہ دولت اور وسائل ہونے کے باوجود ہر معاملے میں اغیار کے مختاج ہیں، مسلمانوں کی اس ذلت کی اصل وجہ اسلام سے دوری ہے، اسلام کی بنیادی تعلیمات سے انخراف ہے، اسلام میں امتِ مسلمہ کا تصور ہے، ہماری تمام عبادات اجتماعیت کا درس دیتی ہیں مگر دنیا بھر کے مسلمان بکھر چکے ہیں بیت المال کا تصور خاصا کمزور ہو چکا ہے۔

اسلام انسانیت کے لیے سراسر بھلائی ہے، اسلا م انفرادیت کی حوصلہ شکنی کرتا ہے، عبادات کے ذریعے اور اجتماعی زندگی کا تصور واضح کردیا گیا ہے کہ تمام فرض عبادات میں اجتماعیت کا ہونا ضروری ہے، نماز میں بھی فرض اجتماعی طور پر اور نفل اور سنتیں انفرادی طور پر ادا کی جاتی ہیں، اسلام میں بیت المال کا تصور ہے مگر مسلمان اپنے ذاتی خزانے اور تجوریاں بھر رہے ہیں، تیل اور اللہ تعالی کی نعمتوں سے حاصل ہونے والی دولت یہود و نصاریٰ بنکوں میں جمع کروائی جا رہی ہے۔

اسلام میں دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں کرنے سے منع کیا گیا ہے اور واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اللہ تعالی کے دئیے ہوئے مال پر تمام مسلمانوں کاحق ہے، قرآن پاک میں اللہ تعالی کے دیئے ہوئے رزق کو بانٹنے کا حکم دیا گیا ہے مگر عرب ممالک سمیت تمام اسلامی ممالک میں اس حکم سے انخراف کرتے ہوئے ذاتی مال و دولت میں اضافہ کیا جا رہا ہے، یہ دولت مسلمانوں کی اجتماعی حالت بہتر بنانے کے لیے استعمال نہیں ہو رہی۔ حد تو یہ ہے کہ سعودی عرب جیسا مسلمان ملک بھی پاکستان کو بھی سود پر رقم اور ادھار تیل دے رہا ہے۔ مسلمانوں میں طبقاتی تفریق بڑھ رہی ہے ، کئی ممالک میں مسلمانوں کی حالت نا گفتہ بہ ہے ،کئی ممالک میں دولت کی فراوانی ہے، دولت اور سونے کے انبار لگے ہوئے ہیں مگر ان ممالک کو یہ منظور ہے کہ ان کی دولت سے اغیار فائدہ اٹھائیں، بہانے سے ان کی دولت ہڑپ کر جائیں مگر غریب مسلمان ممالک کی حالت بہتر بنانا منظور نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی دولت سائنس و ٹیکنالوجی اور جدید ریسرچ پر استعمال کرنا منظور نہیں ہے۔

اگر مسلمان متحد ہو جائیں اور امت ِ مسلمہ کاتصور واضح ہو جائے، دولت پر نادار مسلمان ممالک اور ضرور ت مند مسلمانوں کا حق سمجھ لیا جائے، یہ دولت مسلمانوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کی بجائے، تعلیم، صحت اور بہتر خوراک کے لیے خرچ کی بجائے۔ یہ دولت باہمی جھگڑوں پر خرچ کرنے کی بجائے امتِ مسلمہ کی ترقی و سرفرازی کے لیے خرچ کی جائے تو نہ صرف مسلم ممالک میں اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکات نازل ہوںگی بلکہ کچھ عرصہ بعد وہ دنیا میں ’’لیڈنگ رول‘‘ ادا کرتے نظر آئیںگے۔

اس وقت جن اسلامی ممالک کے پاس دولت ہے وہ اپنی دولت عیش و عشرت پر خرچ کر رہے ہیں، خلیجی ممالک میں انفرادی طور پر لوگ اربوں ڈالر کے مالک ہیں، جب سعودی عرب میں کرپشن کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا تو صرف چند شہزادوں نے دو سو ارب ڈالر حکومت کو واپس کر دئیے، دولت بے انتہا مگر بے بسی ، کسمپرسی اور مختاجی بھی بے انتہا ہے، اس کی وجہ اجتماعیت کے درس کو فراموش کر کے انفرادی زندگی گزارنا ہے،خود غرضی اور نفسانفسی کے ان جذبات کی وجہ سے مسلمان دنیا بھر میں دوسری اقوام کے ظلم و استحصال کا نشانہ بنے ہوئے ہیں ان کی دولت سے اسلام دشمن ممالک فائدہ اٹھا رہے ہیں مگر پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان جیسے ممالک میں مسلمان امت کسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہے۔ اُمت کو متحد ہو کر آگے بڑھنا ہوگا۔ جب غریب مسلم ممالک میںمعاشی استحکام پیدا ہوگا تو یہاں اخلاقی وسماجی برائیاں بھی ختم ہونگی، ترقی کی دوڑ میں یہ ممالک شامل ہونگے، اللہ کی برکات بھی شامل ہوں گی اور موجودہ ذلتِ اور رسوائی بھی ختم ہوگی۔

1۔ جب حضوراکرم ﷺ کا وصال ہوا تو ضرورت کی چند اشیاء کے سوا گھر میں کچھ بھی نہ تھا مگر دیوار پر سات تلواریں لٹکی ہوئی تھیں ۔
۲۔ فتح ایرا ن کے بعد جب مال غنیمت مدینہ لا یا گیا تو خلیفہ وقت حضرت عمر فاروق ؓ آبدیدہ ہو گئے لوگوں نے وجہ پوچھی تو کہا کہ جس مال و دولت نے ایرانیوں کو عیش پسند بنا دیا مجھے خوف ہے کہ مسلمان بھی اس دولت کی وجہ سے عیش پسند نہ ہو جائیں۔
۳۔ اُموی خلیفہ عمر بن عبدالعزیز ؒ نے اپنے خاندان کی ساری جائیداد اور ذاتی مال بیت المال میں جمع کرا دیا، اب تو انفرادی طور پر بے شمار مسلمانوں کے خزانے بھر ے ہوتے ہیں ۔
۴۔ کہا جاتا ہے کہ اگر خلیجی ممالک اپنی تمام تر دولت مغربی ممالک اور امریکا وغیرہ سے نکال لیں تو ان ممالک میں فوراً بحرانی کیفیت پیدا ہو جائے گی ۔
۵۔ اگر مسلم ممالک متحد ہو جائیں اور بھارت کا جنگی جنون اور پاگل پن ختم ہو جائے تو ترقی یافتہ ممالک کی اسلحہ صنعت کو اس قدر زِک پہنچے گی کہ یہ ممالک اپنے پائوں پر کھڑے نہیں رہ پائیں گے ۔

The post ہے جرم ِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات؛ مقتول بھی ہم، مجرم بھی ہم appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » انٹر نیشنل https://ift.tt/2ODaRPb