اسلام آباد: ہائی کورٹ نے قطری گاڑیوں کی برآمدگی سے متعلق کیس میں ریمارکس دیے ہیں کہ ریاست کے اندر ریاست نہیں چلے گی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق سینیٹر سیف الرحمن کی کمپنی سے قطری گاڑیاں پکڑنے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی تو ڈائریکٹر کسٹم انٹیلی جنس عبدالحمید مروت عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ اس کیس میں اصل مجرم کون ہے؟۔ ڈائریکٹر کسٹم انٹیلی جنس نے جواب دیا کہ شیخ حمد بن جاسم ہیں لیکن ان کو سفارتی استثنی حاصل ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں دفتر خارجہ کی طرف سے کسٹم حکام کو بھیجا گیا جواب پیش کیا گیا جس میں دفتر خارجہ نے گاڑیوں کو ری ایکسپورٹ کرنے کیلئے قطری سفارتخانے کو دو ماہ کا وقت دینے کی سفارش کی۔ دفتر خارجہ نے کہا کہ یہ دو طرفہ تعلقات کا معاملہ ہے اس لیے قطری سفارتخانے کو اس معاملے میں وقت دیا جائے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کسٹم ڈائریکٹر کو تنبیہ کی کہ آپ ملک کے خارجہ امور میں مداخلت کررہے ہیں، کیا آپ قطری سفارت خانے کے خلاف کارروائی کرسکتے ہیں، یہ دونوں ممالک کے تعلقات کا معاملہ ہے، آپ نے خیال نہیں رکھا، ریاست کے اندر ریاست نہیں چلے گی، جس کلیکٹر کسٹم نے یہ گاڑیاں پاکستان لانے کی اجازت دی اس کو گرفتار کرتے۔
کسٹم انٹیلی جنس افسر نے بتایا کہ حمد بن جاسم کے نام پر 280 گاڑیاں پاکستان میں آئیں جن میں سے 26 پکڑیں لیکن باقی کا نہیں پتہ، اس حوالے سے چاروں صوبوں کی پولیس اور کسٹم کلیکٹر کو آگاہ کردیا ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے حکم دیا کہ وزارت خارجہ کی تجویز کی روشنی میں ایف بی آرسے رائے لیں۔ عدالت نے تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت چھ فروری تک ملتوی کردی۔
The post ریاست کے اندر ریاست نہیں چلے گی، اسلام آباد ہائی کورٹ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو » پاکستان http://bit.ly/2F1tRUQ