11 ستمبر کو لاہور ہائیکورٹ نے لاہور ٹریفک پولیس کو حکم دیا کہ وہ یہ امر ضروری بنائے، سڑکوں پر گامزن سبھی موٹر سائیکل سوار ہیلمٹ زیب تن کریں۔
عدالتی حکم نامہ پاکر لاہور پولیس نے بڑی سرگرمی سے کارروائی کی اور ان موٹر سائیکل سواروں کو بھاری جرمانے کیے گئے جنہوں نے ہیلمٹ نہیں پہن رکھے تھے۔ تاہم عدالتی حکم نامے نے لاہور کے شہریوں کو ہیلمٹ پہننے یا نہ پہننے کے سلسلے میں تقسیم کردیا۔
ایک طبقے کا خیال ہے کہ یہ حکم نامہ درست اور صائب ہے۔ ہر موٹر سائیکل سوار کو ہیلمٹ پہننا چاہیے کیونکہ یہ حادثے کی صورت میں سر کو ضرب سے بچاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موٹر سائیکل ایک خطرناک سواری ہے اور بہت سے سوار خدانخواستہ حادثے کا شکار ہوکر سر پر چوٹ لگنے سے ہی چل بستے ہیں۔ اس نکتہ نظر سے دیکھا جائے، تو واقعی ہیلمٹ ایک مفید ایجاد ہے جو قیمتی انسانی جان بچانے میں کام آتی ہے۔
لیکن یہ بھی سچ ہے کہ سبھی موٹر سائیکل سوار ہیلمٹ نہیں پہن سکتے۔ بعض لوگ اسے پہن کر فطری طور پر گھبراہٹ محسوس کرتے ہیں۔خاص طور پر گرمیوں کے موسم میں اسے پہن کر ان کا دم گھٹنے لگتا ہے۔ اسی طرح بعض لوگوں کی گردن یا سر کے ساتھ کوئی طبی مسئلہ ہوتا ہے۔ وہ بھی ہیلمٹ پہن کر بائیک چلانے میں دشواری محسوس کرتے ہیں۔ کبھی کبھی کسی مرض کے باعث ڈاکٹر بھی تجویز کرتے ہیں کہ مریض ہیلمٹ پہننے سے اجتناب کرے۔
ٹریفک پولیس کے مطابق جو موٹر سائیکل سوار کسی طبی مسئلے کے باعث ہیلمٹ نہیں پہن سکتے، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک میڈیکل بورڈ کے سامنے پیش ہو۔ بورڈ یہ فیصلہ کرے گا کہ آیا اسے ہیلمٹ پہننا چاہیے یا نہیں! اگر ثابت ہوجائے کہ کسی مسئلے کی وجہ سے ایک شخص ہیلمٹ نہیں پہن سکتا، تو پھر اسے سرٹیفکیٹ جاری کیا جاتا ہے۔ ٹریفک پولیس اسے دیکھ کر پھر ہیلمٹ نہ پہننے پر اس کا چالان نہیں کرتی۔تاہم سوچنے کی بات یہ ہے کہ آج کی مصروف زندگی میں کم ہی لوگوں کے پاس اتنا وقت ہوتا ہے کہ وہ پولیس کے میڈیکل بورڈ کے سامنے پیش ہونے کی خاطر چکر پر چکر لگائیں۔اس عمل کو زیادہ آسان ہونا چاہیے۔
ماضی میں بھی پاکستان کے مختلف صوبوں اور اضلاع میں ٹریفک پولیس موٹر سائیکل سواروں کو ہیلمٹ پہننے پر مجبور کرنے کے لیے مہم چلاتی ر ہی ہے۔ ایسی پہلی مہم 2005ء میں اسلام آباد میں چلائی گئی تھی۔ بعدازاں کراچی، لاہور اور دیگر شہروں کی ٹریفک پولیس بھی ’’ہیلمٹ پہنو مہم‘‘ چلانے میں پیش پیش رہی۔ مگر دیکھا گیا ہے کہ ایک دو ماہ بعد یہ مہم سرد پڑجاتی ہے۔
ایک متنازع معاملہ
دراصل موٹر سائیکل چلاتے ہوئے ہیلمٹ پہننا یا زیب تن نہیں کرنا پوری دنیا میں متنازع معاملے کی حیثیت رکھتا ہے۔ امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا وغیرہ میں بہت سے موٹر سائیکل سوار ہیلمٹ پہننے کے قانونی حکم کو اپنی شخصی آزادی پر حملہ سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، یہ فیصلہ کرنا موٹر سائیکل سوار کے پاس ہونا چاہیے کہ وہ ہیلمٹ زیب تن کرے یا نہیں! تاہم بیشتر ممالک میں موٹر سائیکل سواروں پر قانونی طور پر فرض ہے کہ وہ ہیلمٹ پہنے رکھیں۔
لاہور اور صوبہ پنجاب کے دیگر شہروں میں جاری ٹریفک پولیس کی حالیہ ’’ہیلمٹ پہنو مہم‘‘ اس لحاظ سے منفرد ثابت ہوئی کہ اس میں موٹر سائیکل سواروں پر بھاری جرمانہ عائد کیا گیا۔ از روئے قانون یہ جرمانہ ایک یا دو سو روپے ہے۔ مگر اس مہم کے دوران پولیس نے خلاف ورزی کے مرتکب موٹر سائیکل سوار پر پانچ سو تا ایک ہزار روپے جرمانہ کیا۔ اس ضمن میں پولیس نے انوکھا طریق کار اپنایا۔ٹریفک پولیس ٹریفک کی مختلف ”24” خلاف ورزیوں پر ڈرائیوروں کو جرمانے کرسکتی ہے۔ ہیلمٹ نہ پہننے والے ڈرائیوروں کو تین چار خلاف ورزیاں جمع کرکے جرمانے کیے گئے تاکہ رقم بھاری بھرکم بن جائے۔
اسی بھاری جرمانے نے لاہوری موٹر سائیکل سواروں کی چیخیں نکلوادیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بڑھتی مہنگائی نے پہلے ہی معاشی مسائل میں مبتلا کررکھا ہے۔گیس،بجلی اور پٹرول کا خرچ نکال کر روزمرہ اخراجات کے لیے کم ہی رقم بچتی ہے۔ اب ’’ہیلمٹ پہنو مہم‘‘ کا بھاری جرمانہ انہیں مالی طور پر مزید زیربار کررہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف سے منسلک بعض افراد کا دعویٰ ہے کہ یہ مہم اس لیے چلائی گئی تاکہ عوام میں عمران خان حکومت کے خلاف نفرت پیدا کی جاسکے۔ یہ مہم چلانے میں سابقہ حکومت کے تعینات کردہ سرکاری افسر ملوث ہیں جو موجودہ حکومت کو عوام میں بدنام کرنا چاہتے ہیں۔
2015ء میں بھی لاہور ٹریفک پولیس نے موٹر سائیکل سواروں کو ہیلمٹ پہننے پر آمادہ کرنے کے لیے بھر پور تحریک چلائی تھی۔ اس موقع پر بھی دلچسپ دعویٰ سامنے آئے تھے۔ مثلاً یہ کہ ایک اعلیٰ حکومتی عہدے دار نے چین سے بڑی تعداد میں ہیلمٹ منگوائے تھے۔ وہ ہیلمٹ فروخت کرنے کی خاطر ہی شہر میں ’’ہیلمٹ پہنو مہم‘‘ کا آغاز کر دیا گیا۔ جب ہیلمٹ کا سارا سٹاک بک گیا، تو مہم ختم کردی گئی۔
اس بار بھی مہم شروع ہوئی، تو راتوں رات لاہوری مارکیٹوں میں ہیلمٹوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ جو ہیلمٹ پانچ چھ سو روپے میں دستیاب تھا، اس کی قیمت ڈیڑھ دو ہزار روپے تک جاپہنچی۔ یوں ہیلمٹ فروخت کرنے والوں کی بیٹھے بیٹھے چاندی ہوگئی۔
مہم کے دوران یہ بات بھی سننے میں آئی کہ موٹر سائیکل چلانے والوں کی اکثریت نچلے اور درمیانے طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ لہٰذا وہ مالی لحاظ سے اتنی استطاعت نہیں رکھتی کہ ہزاروں روپے مالیت کا ہیلمٹ خرید سکے۔ اسی لیے اکثر موٹر سائیکل سوار پلاسٹک سے بنے ہیلمٹ پہنے دیکھے گئے۔ یہ ہیلمٹ کسی بھی طرح حادثے میں ڈرائیور کا بچاؤ نہیں کرسکتے۔
پاکستان میں ٹریفک حادثات بڑھنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ خصوصاً شہروں مثلاً کراچی،لاہور، راولپنڈی اسلام آباد،پشاور وغیرہ میں اب لاکھوں گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں دوڑتی پھرتی ہیں۔ موٹر سائیکل سستی ہونے کے باعث اب یہ نچلے طبقے کی دسترس میں بھی آچکی۔ لہٰذا روزانہ ہزارہا لوگ موٹر سائیکلیں خرید رہے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ ایک طرف گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی تعداد بڑھ رہی ہے تو دوسری سمت سڑکوں کی چوڑائی ویسی ہی ہے۔صرف مرکزی سڑکیں ہی کشادہ کی جاتی ہیں۔ اسی لیے اب شہری سڑکوں پر بہت ہجوم رہنے لگا ہے۔ اس ہجوم میں حادثات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ اکثر اوقات صاف ستھرے طریقے سے گاڑی یا موٹر سائیکل چلانے والا بھی قانون شکن اور جلد باز ڈرائیور کی کوتاہی کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس لیے شہروں میں خصوصاً موٹر سائیکل سواروں کو چاہیے کہ وہ احتیاط سے بائیک چلائیں اور ہیلمٹ ضرور زیب تن کریں۔ یہ ان کی زندگی محفوظ و مامون کرنے والا عمدہ سہارا ہے۔
دنیا بھر میں جرمانے
ہیلمٹ نہ پہننے پر دنیا کے سبھی ممالک میں موٹر سا ئیکل ڈرائیوروں کو جرمانے کیے جاتے ہیں۔ لاہور اور پنجاب کے دیگر شہروں میں حالیہ ’’ہیلمٹ پہنو مہم‘‘ کے دوران شہریوں نے اس امر پر غم و غصے کا اظہار کیا کہ جرمانہ بہت زیادہ کیا جارہا ہے۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ سب ممالک میں ہیلمٹ نہ پہننے پر ڈرائیور کو بھاری جرمانے کا سامناکرنا پڑتا ہے۔
مثال کے طور پر امریکا کی بیشتر ریاستوں میں جرمانہ پانچ سو سے ایک ہزار ڈالر کے مابین ہے۔ پاکستانی کرنسی میں اس جرمانے کی رقم باسٹھ ہزار روپے سے ایک لاکھ چوبیس ہزار روپے بنتی ہے۔ امریکی ریاست جارجیا میں تو پولیس ہیلمٹ کے بغیر کسی موٹر سائیکل سوار کو پکڑے، تو عدالت بطور سزا اسے ’’چھ ماہ‘‘ کے لیے جیل بھی بھجوا سکتی ہے۔یہ جرمانے اسی لیے زیادہ ہیں تاکہ لوگ قانون شکنی کرنے سے باز رہیں۔بھاری جرمانے کا خوف انھیں جرم کرنے سے روکے رکھتا ہے۔
برطانیہ ہی کو دیکھیے جہاں حکومت ہیلمٹ پہننے کی قانونی پابندی پر عملدرآمد کرانے کے سلسلے میں بہت ہی زیادہ سخت ہے۔ وہاں کوئی ڈرائیور ہیلمٹ کے بغیر بائیک چلاتا پکڑا جائے، تو اسے اپنی جیب سے 500 تا 2000 پونڈ کے مابین رقم ادا کرنا پڑتی ہے۔ پاکستانی کرنسی میں یہ جرمانہ اسّی ہزار تا تین لاکھ بیس ہزار روپے بنتا ہے۔ برطانیہ میں سڑکوں پر تیزی سے موٹر سائیکل چلانا بھی ممنوع ہے۔ اگر کوئی ڈرائیور مقررہ حد پار کرے، تو اسے ’’دس ہزار پونڈ‘‘ جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔
انڈونیشیا، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب وغیرہ میں بھی ہیلمٹ نہ پہننے پر ہزاروں روپے جرمانہ ہوتا ہے۔ بھاری بھرکم جرمانوں کے باعث ہی تمام ممالک میں موٹر سائیکل سوار نہ صرف ہیلمٹ پہنتے ہیں، بلکہ وہ قوانین کے مطابق اپنی بائیک چلاتے ہیں۔ اسی لیے ان ملکوں میں موٹر سائیکل سواروں سے متعلق حادثات کی شرح پاکستان کی نسبت بہت کم ہے۔کچھ عرصہ قبل تک بھارت میں جرمانے کی رقم کم از کم 100 روپے تھی۔ مگر اس سال بیشتر بھارتی ریاستوں میں ہیلمٹ نہ پہننے کا جرمانہ کم از کم ایک ہزار روپے کردیا گیا ہے۔ سری لنکا میں اس جرمانے کی شرح دو ہزار روپے اور بنگلہ دیش میں پانچ سو تا ایک ہزار ٹکا ہے۔
سوشل میڈیا پر تبصرے
صوبہ پنجاب میں ٹریفک پولیس کی ’’ہیلمٹ پہنو مہم‘‘کا آغاز ہوا تو اس پر سوشل میڈیا میں متحرک و سرگرم پاکستانیوں نے مختلف تبصرے کیے جو دلچسپ ہیں اور اور غوروفکر کی دعوت دینے والے بھی۔چند تبصرے ملاحظہ فرمائیے:
٭ہمارے عوام سرعام ٹریفک قوانین کا مذاق اڑاتے ہیں۔عدلیہ اور صوبائی حکومت نے ان قوانین کی خلاف ورزی پر بھاری جرمانے عائد کر کے مثبت قدم اٹھایا۔ہم لوگ یونہی ’’بندے کے پُتر‘‘بنیں گے۔
٭اگر بھاری جرمانے کیے جارہے ہیں تو حکومت کا فرض ہے کہ وہ سڑکیں ٹھیک کرائے،ڈرائیوروں اور مسافروں کی انشورنس کرانے کا بندوبست کرے اور انھیں دیگر متعلقہ سہولیات مہیا کرے۔تبھی بھاری جرمانے عائد کرنے کا جواز سمجھ میں آتا ہے۔
٭ہیلمٹ نہ پہننے پر جرمانہ نچلے پاکستانی طبقے کی جیب پر اچھا خاصا بار ہے۔پھر یہ خیال آتا ہے کہ ہماری قوم خاصی ٹیرھی ہے۔جب اسے ڈنڈا دکھایا جائے تبھی وہ سیدھی راہ پہ چلتی ہے۔
٭لگتا ہے،کسی سیاست داں یا بڑے افسر نے ہیلمٹ بنانے کی فیکٹری کھول لی ہے۔
٭موٹرسائیکل سواروں کو سائیڈ کا شیشہ نہ لگانے پر بھی بھاری جرمانہ کرنا چاہیے۔سائیڈ شیشیوں کی مدد سے خوفناک حادثوں سے بچنا ممکن ہے ۔کیا وہ ایک ہزار کا ہیلمٹ اور سائیڈ مرر نہیں خرید سکتے؟جبکہ یہ دونوں اشیا ان کی قیمتی زندگیاں بچاتی ہیں۔
٭پاکستان صرف اسی وقت ترقی یافتہ اور خوشحال مملکت بنے گا جب یہاں قانون کی حکمرانی قائم ہو جائے۔
٭قانون کی پاسداری کرانے کی خاطر موٹر سائیکل سواروں پہ جرمانے عائد کرنا کوئی غیرمعمولی بات نہیں۔لیکن ان لوگوں کو بھی پکڑنا چاہیے جو سستے ہیلمٹ مہنگے داموں بیچ رہے ہیں۔مختلف معیار کے ہیلمٹوں کی قیمتیں حکومت کو مقرر کرنا چاہیے۔
The post ہیلمٹ پہنو ورنہ بھاری جرمانہ بھرو appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/2CyTVX4