جیسے ہی میٹرک کا رزلٹ آتا ہے طلبہ و طالبات میں کیریئر کونسلنگ کا شور اٹھتا ہے۔ ہر کوئی اچھے سے اچھے کی تلاش میں منہگے منہگے اداروں کی طرف رجوع کرتا ہے۔حالاں کہ کیرئیر کونسلنگ کی بنیاد ساتویں جماعت سے شروع ہوجانی چاہیے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں کیریئرکونسلنگ گائیڈنس کی طرف کبھی توجہ دی ہی نہیں گئی، اسی وجہ سے اکثر طلبہ و طالبات اس ضمن میں پریشانی کا شکار نظر آتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لڑکیاں غلط شعبے کا انتخاب کر لیتی ہیں جو ان کی جنس اور مزاج کے برخلاف ہوتا ہے۔
سول انجینئرنگ، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ، آئی سی سی اے وغیرہ لڑکیوں کے لیے کارآمد شعبے ہونے کے بجائے پریشانی کا سبب بن جاتے ہیں، لیکن جب وہ اتنے سال لگا کر ایک مقام پر پہنچنے کے خواب دیکھ رہی ہوتی ہیں تو انہیں پتا چلتا ہے کہ وہ اپنے کیریئر کا غلط انتخاب کرچکی ہیں۔ایک بڑی کمپنی سڑکوں کی مرمت کے لیے مرد سول انجینئر سے کام لینا چاہتی ہے، وہ لڑکیوں کو اس شعبے کے لیے قابل اعتماد نہیں سمجھتے ہیں، بلکہ لڑکیوں کو اس شعبے میں تحقیر یا استہزائیہ نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
طلبہ و طالبات کو چاہیے کہ آٹھویں جماعت سے ہی اپنے پسندیدہ شعبے کی معلومات اکھٹی کریں، اس کے متعلق اپنے والدین اور اپنے اساتذہ سے مشاورت اور مباحثہ کریں، اس شعبے میں آگے بڑھنے والے لوگوں کو تلاش کرکے ان سے اس شعبے کی پڑھائی کے متعلق دریافت کریں۔ باقاعدہ اس کا ایک چارٹ بنائیں۔ اسی طرح اگر دو تین چیزوں میں آپ کی دل چسپی ہے تو سب کی معلومات الگ الگ اکٹھی کرکے نویں جماعت میں پہنچنے سے پہلے ہی اپنی آنے والی زندگی میں کیریئر کا انتخاب سوچ لیں اور پھر اس مقصد کے تحت اپنے آپ کو آگے بڑھائیں۔
غلط مضامین کا انتخاب بعض اوقات والدین اوراساتذہ کے دباؤ یا پھر بھائی بہن یا کزنزکی دیکھا دیکھی کرلیا جاتا ہے اور غلط مضامین کے انتخاب کی وجہ سے اکثر طلبہ و طالبات پریشانی کا شکار نظر آتے ہیں۔ میٹرک کے بعد غلط مضمون کے انتخاب کا احساس اکثر بچوں کو انٹرلیول پر ہی ہو جاتا ہے مگر پھر پلٹ کر جانا،وقت کا ضیاع سمجھا جاتا ہے اور آگے اپنے مزاج اور ذہنیت کے برخلاف اسی مضمون کو قائم رکھنا مشکلات سے دوچار کرتا ہے۔ زندگی عجیب کشمکش کا شکار ہو جاتی ہے۔ یورپی ممالک میں تعلیم کے دوران ہی بچوں کی صلاحیتوں اور رجحانات کوبھانپ کر انہیں آگے بڑھایا جاتا ہے۔
اس سلسلے میں کیریئرگائیڈنس کی اشد ضرورت ہوتی ہے، انسان کی فطرت ہے کہ اسے زندگی کے ہر دور میں راہ نمائی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ کبھی وہ اپنے بڑوں سے اور بزرگوں سے اور کہیں اپنے استادوں سے اور کہیں اپنے دوستوں سے راہ نمائی حاصل کرکے آگے بڑھتا ہے۔ اگر اسے بروقت اور صحیح راہ نمائی مل جاتی ہے تو زندگی کامیابی سے ہمکنار ہوجاتی ہے، لیکن اگر غلط راہ نمائی اور غلط انتخاب کرلیا جائے تو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا جاتا ہے جو انسان کو مایوسی کے اندھیرے میں جھونک دیتا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں کیریئر گائیڈنس کو ایک مستقل شعبے کی حیثیت حاصل ہے ،جس میں سائیکولوجسٹ، سائیکاٹرسٹ، کونسلر اور تھراپسٹ کی خدمات میسر ہوتی ہیں۔ جو طلبہ و طالبات کے آئی کیو لیول کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں کیریئر گائیڈنس مہیا کرتے ہیں جس سے ایک طالب علم اپنے لیے صحیح کیریئر کا انتخاب کرکے اسی کو اپنا مقصد اور نصب العین بنا کر آگے بڑھتا ہے اور پھر اس شعبے میں کامیابی حاصل کرکے اپنا لوہا منوا تا ہے۔
پاکستان میں سب سے زیادہ والدین اپنے خواب اپنے بچوں کے ذریعہ پورے کروانا چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر، انجینئر اور چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ایسے شعبے ہیں جن میں بیش تر والدین اپنے بچوں کو بھیجنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح سائنسی مضامین کو عرصہ دراز سے برتری اور فوقیت حاصل ہے۔ جو طالب علم سائنس میں اعلیٰ اسٹیڈیز برقرار رکھتا ہے ان کو ستائشی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے، جب کہ آرٹس کے شعبے کا انتخاب کرنے والے طلباء و طالبات کو کند ذہن سمجھا جاتا ہے حالاں کہ آرٹس کے شعبے میں اب اتنی ترقی ہو گئی ہے کہ اب اس شعبے میں بہت زیادہ کامیابی کے مواقع میسر ہیں لیکن ہماری اسی پرانی سوچ اور ذہنیت نے ہمارے بچوں کو پریشانی میں مبتلا کیا ہوا ہے۔
لڑکیوں کے لیے آرٹس مضامین میں عموماً ہوٹل منیجمنٹ کورس، ٹیکسٹائل ڈیزائننگ کورس،آرکی ٹیکچر اور گرافک ڈیزائننگ کورس کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ یہ ان لڑکیوں کے لیے ہیں جن کے اندر تخلیقی صلاحیتوں کا رجحان ہے وہ اپنے ہاتھوں سے اپنی تخلیقات کو پروان چڑھاکر نہ صرف اپنے آپ کو منوا سکتی ہیں بلکہ خود اطمینانی حاصل کرکے خود کو مطمئن اور خوش بھی رکھ سکتی ہیں۔
اسی طرح جن لڑکیوں کا آئی کیو لیول بہت اچھا ہے اور وہ سائنس کے مضامین میں دل چسپی رکھتی ہیں، ان کو میڈیکل کے شعبے ایم بی بی ایس، ڈی فارما یا بی فارمیسی کی طرف توجہ کرنی چاہیے، کیوںکہ ایم بی بی ایس کے ذریعے وہ ایک اچھی گائنی بن سکتے ہیں اسی طرح ڈی فارما او بی فارمیسی کے ذریعے وہ لیباٹری یا دواؤں کے شعبوں کی طرف اپنی صلاحیتوں کو صرف کرسکتی ہیں۔
کامرس کے مضامین کا انتخاب لڑکیوں کے لیے سودمند ثابت نہیں ہوتا، کیوں کہ اکثر کمپنی ہولڈرز اس سلسلے میں لڑکوں کا انتخاب بہتر گردانتے ہیں جس کی وجہ سے لڑکیاں ڈی گریڈ ہو جاتی ہیں، کیوں کہ کامرس کے مضامین میں میتھس اور اکاؤنٹس نمایاں مضامین ہوتے ہیں اور اس میں عموما لڑکوں کو ہی زیادہ فوقیت حاصل رہتی ہے۔
کمپیوٹر کے مضامین میں لڑکیاں کافی آگے بڑھ رہی ہیں اور اس میں مواقع بھی بہت زیادہ ہیں۔ ٹیکسٹائل ڈیزائننگ اور گرافک ڈیزائننگ کے شعبے بھی کمپیوٹر کی تعلیم کے ساتھ منسلک ہو گئے ہیں، اس لیے کمپیوٹر کے مضامین کو منتخب کر کے لڑکیاں اپنی صلاحیتوں کو آگے بڑھا سکتی ہیں، ساتھ ویب مارکیٹنگ اور ویب ڈیزائننگ میں بھی لڑکیوں کے لیے کافی مواقع موجود ہیں۔
چناں چہ اس ضمن میں والدین کا ساتھ بے انتہا ضروری ہوتا ہے، اگر والدین اپنی بچیوں کی صلاحیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی بھرپور حوصلہ افزائی کریں تو بعید نہیں کہ یہ بچیاں بہت آگے تک جائیں گی اور اپنا، اپنے والدین کا اور اپنے ملک کا نام روشن کرسکیں گی۔
The post لڑکیوں کی کیریئر کونسلنگ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/2D0SEcc