کراچی: پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج (ہفتہ) کوہیپاٹائٹس سے بچاؤ کا عالمی دن منایا جارہا ہے اس دن کی مناسبت سے مختلف سرکاری اور نجی اسپتالوں میں ماہرین جگر آگاہی سیمینار منعقدکریں گے اس حوالے سے ماہرین جگر نے پریس کانفرنس کے دوران انکشاف کیا کہ پاکستان میں40 فیصد غیرمحفوظ انتقال خون کی وجہ سے تھیلیسیمیا اور دیگر مریضوں میں ہیپاٹائٹس کا مرض تیزی سے منتقل ہورہا ہے۔
پاکستان میں محفوظ انتقال خون کی نگرانی نہ کرنے کی وجہ سے ہیپاٹائٹس سمیت خون کے دیگر امراض دوسروں میں بھی منتقل ہورہے ہیں بالائی سندھ میں ہیپا ٹائٹس ڈیلٹا (ڈی) وائرس شدت اختیار کررہا ہے ، ڈیلٹا وائرس کا علاج سندھ میں موجود نہیں۔
پاکستان میں بی اور سی وائرس میں ایک کروڑ45 ہزار جبکہ ڈی (ڈیلٹا) وائرس میں8 لاکھ مریض مبتلا ہیں ان میں سے سالانہ 40 ہزار اور یومیہ 111 مریض دم توڑ جاتے ہیں یہ بات گیسٹرو انٹالوجسٹ پروفیسر ضیغم عباس، پروفیسر وسیم جعفری، ڈاکٹر لبنی کامرانی، ڈاکٹر سید منیر، ڈاکٹر فیصل سعید، ڈاکٹر صالح چنا، ڈاکٹر عبدالقیوم میمن، ڈاکٹر بشیر احمد شیخ،ڈاکٹر صادق ،ڈاکٹر زاہد اعظم سمیت ماہرین طب نے جمعہ کو مقامی ہوٹل میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
ماہرین جگر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہیپاٹائٹس کے مرض کی وجہ سے جگر کے کینسر میں اضافہ ہورہا ہے جبکہ دنیا بھر کے ممالک سے 2030 تک اس مرض کے خاتمے پر عملدرآمد شروع کر دیا ہے لیکن پاکستان میں اس وائرس کے حوالے سے صورتحال انتہائی خراب ہے، پروفیسر ضیغم عباس کا کہنا تھا کہ ہیپاٹائٹس سی تشخیص ہونے پر 95 فیصد کامیاب علاج موجود ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے اور بچوں کے بی اور سی وائرس کے ابتدائی ٹیسٹ کیے جائیں۔
انھوں نے بتایا کہ سندھ اور پنجاب کے بیشتر اضلاع ایسے بھی ہیں جہاں ہیپاٹائٹس بی اور سی کی شرح ہولناک صورت اختیارکرتی جا رہی ہے انھوں نے کہاکہ بی وائرس بچوں کیلیے نقصان دہ ہوتا ہے لہٰذا بچے کی پیدائش کے فوری بعد نوزائیدہ کو بی وائرس سے بچاؤ کا حفاظتی ٹیکہ لگوانا چاہئے جو کہ طبی زبان میں برتھ ڈوزکہاجاتا ہے، بچوں کی پیدائش کا حفاظتی ٹیکہ بچوں کے حفاظتی پروگرام میں شامل نہیں البتہ ای پی آئی میں بچوں کو ہیپاٹائٹس سے بچاؤ کا ٹیکہ 6 ہفتے بعد لگایا جاتا ہے جبکہ دنیا بھر کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ بچہ کی پیدائش کے بعد بی وائرس کا ٹیکہ لگوایا جائے، دیگر ماہرین کا کہنا تھا ڈیلٹا وائرس بی وائرس کے ساتھ ہوتا ہے ڈی وائرس اکیلا حملہ آور نہیں ہوتا۔
ڈاکٹر صالح کا کہنا تھا کہ پاکستان میں 10لاکھ افراد ڈی وائرس کا شکار ہیں یعنی ایسے مریضوں میں بی اور ڈی وائرس شامل ہے اندرون سندھ میں گھوٹکی میں 58 فیصد افراد D وائرس کا شکار ہیں جس مریض کو بی اور ڈی وائرس لاحق ہو جائے تو علاج مشکل ہو جاتا ہے۔ ہیپاٹائٹس بی سرفیس اینٹی جن اور سی وائرس کی اینٹی باڈیز ٹیسٹ لازمی کرائیں حاملہ خواتین کو بھی بی وائرس کا ٹیسٹ لازمی کرانا چاہیے تاکہ پیدا ہونے والا بچہ کو بچایا جا سکے۔
جناح اسپتال کے پروفیسر مسرورکا کہنا تھا کہ نوجوانوں میں ای وائرس پایا جارہا ہے جبکہ ڈاکٹر لبنی نے بتایا کہ پاکستان میں40 فیصد انتقال خون غیر محفوظ طریقے سے کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے یہ وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔
The post بالائی سندھ میں ہیپا ٹائٹس ڈی وائرس شدت اختیار کرنے لگا، ماہرین appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو » صحت https://ift.tt/2mMHOM1