کراچی: مقررین نے کہاہے کہ پاکستان میں آلودہ پانی سے ہر سال ہزاروں افراد مر جاتے ہیں۔
مقررین نے وفاقی اردو یونیوسٹی کے شعبہ ارضیات کے تحت پانی کے عالمی دن پرمنعقدہ آگہی سیمینار سے خطاب میں بتایا کہ بین الاقوامی عالمی ادارے آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں قلت آب کے شکار ممالک میں پاکستان تیسرے نمبر پر پہنچ چکا ہے اس کی اہم وجہ پانی کا ذخیرہ نہ کرنا اوراسکا نامناسب استعمال ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی طرح پانی کودو حصوں میں تقسیم کردیاجائے ایک حصہ صاف پانی جسے کھانا پکانے اورپینے کے استعمال میں لایا جائے ،دوسرے حصے میں قدرے آلودہ پانی جسے گھریلو و دیگر امور سرانجام دینے کے لیے استعمال کیا جائے۔
شعبہ ارضیات کی چیئرپرسن سیما ناز صدیقی نے اظہارخیال کرتے ہوئے کہاکہ بدلتے ہوئے موسم حکومتی اداروں کی ناقص حکمت عملی کے باعث پاکستان میں صاف پانی کی دستیابی جیسے مسائل میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اورتحقیق کے مطابق اگریہی ہی صورتحال برقرار رہی تو2025 میں پاکستان میں صاف پانی کی شدید کمی واقع ہوجائے گی۔
سیمینارسے پروفیسر ڈاکٹر وقار حسین،پروفیسر ڈاکٹر محمود احمد، پروفیسر ڈاکٹر شاہانہ عروج کاظمی،جامعہ کراچی کے انسٹی ٹیوٹ آف انوائرمینٹل سائنسز کے ڈاکٹرعامر عالم گیر ، عبدالسلام یونیورسٹی فیصل آباد کے ڈاکٹر مرزا نصیر احمد مراد،مہران یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر احسن صدیقی، پروگرام آرگنائز سہیل انجم، شہلا بانو نے بھی خطاب کیا۔
عرفان عباسی، ڈاکٹر غلام مرتضی، ڈاکٹر محمود احمد، ڈاکٹرسید بصیر حسن نے پینل ڈسکشن میں حصہ لیا،پروفیسروقار حسین نے کہاکہ پانی ترقی پذیر ممالک کی معیشت پر بھی اثر اندازہوتاہے، پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کے لیے پانی کی بڑی مقدار کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ لوگوں کو پینے کے لیے صاف پانی تک دستیاب نہیں ہے۔
پروفیسرشاہانہ عروج کاظمی نے کہا کہ پاکستان میں آلودہ پانی کے استعمال سے ہر سال نہ صرف ہزاروں لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں بلکہ کینسر،ہیپاٹائیٹس اے اور ای ، ٹائیفائیڈ،ہیضہ، دانتوں اور ہڈیوںکی مختلف بیماریوں میں بھی مبتلاہور ہے ہیں۔
ڈاکٹر محمود احمد نے کہا کہ گلیشئرزتیزی سے پگھل رہے ہیں جس سے دینا بھر میں حیرت انگیز طور پر موسمیاتی تبدیلیاں واقع ہورہی ہیں، پاکستان کا المیہ ہے کہ یہاں پانی کو محفوظ کرنے کا نظام اب تک وضع نہیں کیا گیا ہے جس کے باعث قدرتی وسائل سے حاصل شدہ زیادہ ترپانی ضائع ہوجاتا ہے۔
ڈاکٹر عاصم عالمگیر نے اظہارخیال کرتے ہوئے کہاکہ دنیا بھر میں14بلین گندا پانی سمندروں میں ڈالا جاتا ہے اورآلودہ پانی کے استعمال کے باعث1,8ملین لوگ سالانہ اموات کا شکار ہوجاتے ہیں۔
یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے50فیصد اسکولوں میں بچوں کا پینے کا پانی فراہم نہیں کیا جاتاہے،دنیا بھر میں آلودہ پانی کے باعث پیدا ہونے والی بیماریوں میں مبتلاہوکر روزانہ 5ہزار بچے ہلاک ہورہے ہیں، پاکستان میں صرف30فیصد لوگوں کو پینے کاصاف پانی میسر ہے،لوگوں کو اپنے گھروں میں پانی اسٹور کرنے والے ٹینکوں کی صفائی کا بھی خیال رکھنا اور پانی کے بے دریغ استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔
پروفیسر ڈاکٹر احسن صدیقی نے کہا کہ سندھ میں81فیصد پانی پینے کے قابل نہیں، دریائے سندھ کا پانی عالمی ادارہ صحت کے مطابق بہترین پانی ہے۔ جسے ہم خود اپنے ہاتھوں تباہ کررہے ہیں۔
ڈاکٹر سید بصیر احمد نے کہا کہ اگر ہم نے پانی کو احتیاط سے استعمال نہیں کیا توزراعت تودو رکی بات پینے تک کا پانی دستیاب نہیں ہوگا،سندھ میں سیوریج کے پانی کی ٹریٹمنٹ کا ایک بھی پلانٹ کام نہیں کررہا ہے آلودہ پانی براہ راست سمندروں، دریا اور کینالوں میں خارج کیا جارہا ہے جو ماحولیات کوتیزی سے تباہ کررہا ہے۔
شعبہ ارضیات کے استاد سہیل انجم نے ملک بھر سے سیمینار میں شریک ہونے والے محققین کا شکریہ ادا کیا،پروگرام کے اختتام پرمقررین میں اعزازی شیلڈز تقسیم کی گئیں،سیمینار سے قبل ایڈمن بلاک سے عبدالقدیر آڈیٹوریم تک پانی کی اہمیت اجاگرکرنے کے لیے ریلی نکالی گئی جس میں ،مقررین ،اساتذہ اورطلبانے بڑی تعدادمیں شرکت کی ۔
جامعہ کراچی کے شعبہ فوڈ سائنس اینڈٹیکنالوجی کے پروفیسر ڈاکٹر عابد حسنین نے کہا کہ پانی ایک نعمت ہے اور اس کی انسانی زندگی میں بڑی اہمیت ہے،بچوں کو ابتدا ہی سے پانی کی اہمیت کے بارے میں بتاناچاہیے تاکہ اس کے ضیاع کوروکا جاسکے،جرمنی میںہر گھر میں پا نی کے دومیٹرزلگے ہیںجن سے پانی کے استعمال اورضیاع کی جانچ کی جاتی ہے،پاکستان میں بھی اس قسم کا نظام ہو تو پانی کے ضیاع کو روکا جا سکتا ہے۔
پرنسپل انسٹی ٹیوٹ آف اوشین گرافی پروفیسر ڈاکٹرنزہت خان نے کہا کہ آئندہ 20 سال میں 40 فیصد لوگوں کوپانی دستیاب نہیں ہوگا، پانی کی قلت اہم ترین مسئلہ ہے،دنیا میں اگرکسی مسئلے پرعالمی جنگ چھڑی تو پانی ہوگا، پانی کی مینجمنٹ کا نظام ہونا نہایت ضروری ہے ہمیں چیک اینڈ بیلنس کا نظام بنا نا ہو گا،ہم اپنی عام زندگی میں پانی کو بے دریغ ضائع کر رہے ہیں،واٹر سیکیورٹی سسٹم بنا نا ہو گا۔
قاضی سید صدر الدین نے کہا کہ الخدمت زندگی کے7شعبہ جات قدرتی آفات ،صاف پانی ،صحت، تعلیم ،مواخات ،کفالت یتامیٰ اور کمیونٹی سروسز میں خدمات انجام دے رہی ہے۔ اس وقت کراچی میں 38آرو واٹر فلٹریشن پلانٹس کے ذریعے سالا نہ لاکھوں افرادصاف پانی سے استفادہ کر رہے ہیں،ان پلانٹس کے ذریعے عالمی معیار کا پا نی فراہم کیا جارہا ہے ،انھوں نے کہا کہ الخدمت تھر اور مٹھی میں بھی پانی کے منصوبوں پر کام کررہی ہے،انجینئرطفیل زبیری نے شرکا کو’’واٹر ٹریٹمنٹ ٹیکنالوجی ‘‘پرپریزینٹیشن دی۔
پروفیسر ڈاکٹر ارم بشیرنے کہا کہ ہمیں پانی کو محفوظ بناناہوگااوراس کے لیے معاشرے کے ہرفرد کو کردار ادا کرنا ہوگا،اس موقع پر مہمانوں کوشیلڈ پیش کی گئیں،سیمینار کے اختتام پر اساتذہ اور طلبا وطالبات نے پروفیسر ڈاکٹر عابد حسنین کی قیادت میں واک بھی کی۔
The post پاکستان میں آلودہ پانی سے ہر سال ہزاروں افراد مر جاتے ہیں، مقررین appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو » صحت https://ift.tt/2pxzZvI