بستر مرگ پر کینسر کی مریضہ کا 18گھنٹے کا جشن او رپھر موت - KHB Point

کے-ایچ-بی پوائنٹ (ملکی و غیر ملکی تمام خبریں فراہم کرنے والاایک مکمل نیوزپلیٹ فام نیٹ ورک)

تازہ ترین

بستر مرگ پر کینسر کی مریضہ کا 18گھنٹے کا جشن او رپھر موت



22دسمبر2017ء کا دن ہیدر اور ڈیوڈموشنر کی زندگی کا اہم ترین دن تھا۔اس روز ہیدر نے بستر مرگ پر شادی کا جشن منایا۔سرطان کے مرض میں مبتلا بستر مرگ پر پڑی ہیدر نے شادی کی خواہش ظاہر کی جو پوری ہو گئی۔ ہیدرنے بستر مرگ پر سفید جوڑا پہنا۔ ڈیوڈنے اسے انگوٹھی پہنائی ، ہسپتال کے
کمرے میں موجود ان کے تمام دوستوں اور رشتہ داروں نے خو ب جشن منایا۔ اس کے شوہر کو پتہ تھا کہ اس کی زندگی بہت ہی کم رہ گئی ہے لیکن وہ ہر صورت میں اس مرنے والی لڑکی سے شادی کا خواہش مند تھا۔ چنانچہ 22دسمبر کو ہسپتال کے کمرے میں خوب ہلا گلا ہوا۔ ہسپتال کے اس کمرے میں مسٹر ڈیوڈ موشنر اور ہیدر کے سبھی دوست جمع ہوئے۔سب کی آنکھوں میں آنسو موتیوں کی طرح تیر رہے تھے، انہیں معلوم تھا کہ ہیدر کا یہ آخری دن ہے۔ اس شادی کے محض 18گھنٹے بعد ہسپتال کے کمرے میں 31 سالہ ہیدر نے آخری ہچکی لی۔ اور اپنے خالق حقیقی سے جاملی۔ پہلے 30دسمبر کو شادی طے تھی۔ مگر ڈاکٹروں کے ایما پر شادی کی تاریخ 22دسمبر کر دی گئی۔ دسمبر 2016ء میں انہوں نے خو ب ہلا گلا کیا تھا۔ اس وقت وہ اپنے جسم میں چھپے ہوئے سرطان کے پھیلتے ہوئے مرض سے قطعی نا آشنا تھی۔ اس نے پچھلی کرسمس اپنے منگیتر کے ساتھ بہت دھوم دھام سے منائی تھی۔ اور بڑے پلازہ کے ڈانسنگ فلور پر دونوں نے گھنٹوں ڈانس کیا تھا۔ اس کے چند ہی مہینوں بعد اتفاقیہ طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنے پر ایک تکلیف دہ حقیقت سامنے آئی۔ ڈاکٹروں نے اس کی طرف دیکھا
اور افسوسناک لہجے میں بولا کہ ’’میڈم آپ چوتھے درجے کے سرطان میں مبتلا ہیں، بچنے کی کوئی امید نہیں‘‘۔ تب 31سالہ نفسیات دان چند ہی ہفتوں میں بستر مرگ پر پہنچ گئی۔ کونیکٹیکٹ کے سینٹ فرانسس ہسپتال میں اس کا علاج شروع ہوا۔ اسے سرطان سے لڑتے ہوئے ایک سال ہو چکا تھا۔ اب ہمت جواب دے چکی تھی اور ڈاکٹروں کے بقول وقت بہت کم رہ گیاتھا۔وہ 2016ء سے ایک باہمت عورت کی طرح سرطان کے آگے ڈٹ گئی تھی۔ ’’ میں زندہ رہنا چاہتی ہوں، یہ مرض مجھے ہرا نہیں سکتا‘‘۔ بقول ڈاکٹر وہ سرطان کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ چوتھے مرحلے پر کوئی مریض بھی ہفتہ دو ہفتہ سے زیادہ زندہ نہیں رہ پاتا، وہ تو ایک سال تک سرطان کے بھیانک جراثیموں سے لڑتی رہی۔