سارے رنگ - KHB Point

کے-ایچ-بی پوائنٹ (ملکی و غیر ملکی تمام خبریں فراہم کرنے والاایک مکمل نیوزپلیٹ فام نیٹ ورک)

تازہ ترین

سارے رنگ

ہماری برادری یعنی ’پنجابی سوداگرانِ دہلی‘ میں کسی دکان وغیرہ پر ملازمت کرنے والے کے لیے 10 برس ایک اچھا خاصا عرصہ شمار کیا جاتا ہے، اکثر اتنے عرصے میں کسی دکان پر کام کرنے والا ’لڑکا‘ اس قابل ہوجاتا ہے، یا قریب قریب ہونے لگتا ہے کہ اب وہ اپنی دکان یا اپنا الگ کام وغیرہ شروع کر سکے۔۔۔

ہماری برادری کے تو بعضے گھرانوں میں کاروباری تربیت کی خاطر اس قسم کی نوکری کو تو ایک ایسا فرض سمجھا جاتا ہے، کہ چاہے آپ کے والد کا اپنا جما جمایا کاروبار ہی کیوں نہ ہو، لیکن بیٹے کو کسی نہ کسی کی ’شاگردی‘ میں ضرور بھیجا جائے گا، کہ اسے کام کرنا، دبنا اور دوسرے کی بات سننا آئے۔

یعنی اس کا ’پِتّا مرے‘ عرفِ عام میں اِس عمل کو ’دوسروں کی جوتیاں سیدھی کرنا‘ کہا جاتا ہے کہ کسی کی جوتیاں سیدھی کروگے تو کام کرنا آئے گا۔ اس ’تربیت‘ کے بعد ہی اسے اپنے کاروبار میں مددگار کیا جاتا ہے۔۔۔ ہمیں یہ سب باتیں اپنے صحافتی سفر کا ایک عشرہ مکمل ہونے پر یوں ہی یاد آگئیں۔۔۔ کہ کچھ جمع تفریق تو کریں کہ بطور صحافی ہم نے کیا پایا اور کیا گنوایا۔۔۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ انٹر کے زمانے میں ہم بھی اپنی برادری کی اِس رِیت کو نبھاتے ہوئے ایک اسٹیشنری کی دکان پر کام کر چکے ہیں، اس کا بیان پھر کبھی سہی۔

فی الحال اپنے حالیہ 10 برسوں کو ٹٹولتے ہیں، تو ہمیں یاد آتا ہے کہ 2011ء کی بے روزگاری کی ایک شام ہماری جامعہ اردو کے استاد سر یاسر رضوی (مرحوم) کا فون آتا ہے اور پھر ہم اُن کے بتائے گئے ایک پتے پر اپنے گھر سے کچھ ہی فاصلے پر واقع ایک چھوٹے سے اخبار کے دفتر پہنچے، یہ کوئی جولائی کی تین، چار تاریخ رہی ہوگی۔ یہاں کمپیوٹر پر ہمارا خبر سے ترجمے کا ایک چھوٹا سا ٹیسٹ لیا گیا، ہم نے ڈرتے ڈرتے کر دیا۔

’نوائے وقت‘ میں نیوز ڈیسک پر سال بھر کی تربیت نے خبر سنوارنے میں بہت مدد دی، تو دوسری طرف تین سال قبل ’جاسوسی ڈائجسٹ‘ میں ’ان پیج اردو‘ پر کام کرنا صحیح معنوں میں اب کام آنا شروع ہوا تھا۔۔۔

یہ روزنامہ ’بشارت‘ کا دفتر تھا، جو حیدرآباد سے شایع ہونے والا ایک چھوٹا سا قدیم اخبار تھا، جس کا ڈیکلریشن اب نئے لوگوں نے حاصل کر کے اِسے حیدرآباد کے ساتھ کراچی سے بھی جاری کرنا تھا۔۔۔ کہنے کو ایک بہت چھوٹا سا اخبار تھا، لیکن تقریباً آزاد اور کافی حد تک متوازن پالیسی کا حامل تھا۔ یہاں ہم اپنے کام کے لیے ہمیشہ ’جنگ‘ اور ’ایکسپریس‘ جیسے اخبارات کو ہی سامنے رکھتے تھے۔۔۔ یہ ہماری صحافت کی باقاعدہ شروعات تھی، ہم نے بہت زیادہ محنت اور دل لگا کر کام کیا۔

’فرنٹ‘ اور ’بیک‘ کے پورے صفحے کے لیے ہم دو ہی افراد ہوا کرتے تھے، پھر بعد میں مزید ’سب ایڈیٹر‘ اور ’نیوز ایڈیٹر‘ وغیرہ رکھے گئے۔۔۔ تب تک ہم نے بغیر کسی ’اوور ٹائم‘ کے ہفتہ وار چھٹیوں میں بھی کام کیا۔۔۔ شاید ڈیڑھ، دو یا تین ماہ تک مسلسل یہ سلسلہ رہا۔۔۔ پھر افرادی قوت بڑھنے سے ہفتہ وار چھٹی ملنا شروع ہوئی، تو پھر ہم یہاں ادارتی صفحے پر حالات حاضرہ پر ’کالم‘ لکھنے لگے۔۔۔ دراصل وہیں ہم نے ’’خانہ پُری‘‘ کا مستقل عنوان چُنا تھا، جو اب یہاں مختلف ڈھب پر جاری وساری ہے۔۔۔

اگست2012 ء میں ہم نے پہلی بار دُہری ملازمت کی اور ماہ نامہ ’دستک‘ میں بطور ’اسسٹنٹ ایڈیٹر‘ کام کرنے لگے، صورت حال یہ ہوئی کہ وہاں دوپہر 12 بجے سے شام پانچ بجے تک، پھر وہاں سے سیدھا ’بشارت‘! چھے بجے سے رات کے کوئی ایک بجے تک۔۔۔ یعنی روزانہ لگ بھگ 12 سے 13 گھنٹے مسلسل کام کرتے۔۔۔ اور ہمیں ایک دن بھی پوری چھٹی نہیں مل پاتی تھی، بس بروز ہفتہ شام سے اتوار کی شام تک چھٹی ہوتی، یعنی ’بشارت‘ میں ہفتے کی اور ’دستک‘ میں اتوار کی ناغہ، یوں دو حصوں میں ہمیں ایک پورا دن آرام کو مل جاتا تھا۔

دُہری نوکری میں بھی ایک عجیب سا سرور اور ’آزادی‘ کا سا احساس ہوا، یعنی بقول شخصے کہ سارے انڈے ایک ٹوکری میں نہیں رکھے، کہ اگر ٹوٹے تو بہ یک وقت سبھی ضایع ہوں۔۔۔ لیکن پھر ’دستک‘ کے دو، تین ماہ بعد ہی جب یہاں ’میگزین‘ کے شعبے کا قیام ہوا، تو انھوں نے ہمیں پیش کش کی، ہم نے اسے بہتر جانا کہ چلیے، دوسری جگہ آنے جانے سے تو بچت رہے گی اور ہم کچھ نہ سہی اپنی نیند تو پوری کر سکیں گے۔۔۔ پھر ہم یہاں اتوار کے چار اخباری صفحات کے ’میگزین‘ کا کام بھی کرنے لگے، درمیان میں جب ادارتی صفحے والے چھٹی پر ہوتے، تو مدیر صاحب ہم سے ’اداریہ‘ بھی لکھوا لیتے تھے۔۔۔ دوپہر 12 سے رات 12، ایک بجے تک کا یہ سلسلہ بھی کوئی ڈیڑھ ماہ ہی چلا۔۔۔

ہوا یوں کہ وہاں ایک سہ پہر کو ’ایکسپریس‘ کے میگزین مدیر احفاظ الرحمن صاحب کا فون آگیا کہ ’آپ آج کل کہاں ہیں؟ اور کیا کر رہے ہیں؟ وغیرہ۔۔۔ انھوں نے ہمیں ’ایکسپریس‘ کے ’شعبۂ میگزین‘ بلا لیا اور ہم 2012ء میں ہی وہاں جتنی تنخواہ پر ہی ’ایکسپریس‘ میں ’سب ایڈیٹر‘ ہوگئے۔۔۔ بس فرق یہ تھا کہ 12، 13 گھنٹوں کے بہ جائے یہاں آٹھ گھنٹے کام تھا۔۔۔ چلیے یہ شاید قدرت کو ہماری سخت محنت پر رحم آگیا تھا۔۔۔ یہاں صورت حال یہ تھی کہ ’ایکسپریس‘ (میگزین) میں ہم اپنے آٹھ، نو رفقائے کار میں سب سے نئے اور اچھے خاصے ناتجربہ کار سے تھے۔ یوں ہم جیسے نوآموز پر احفاظ صاحب کے باقاعدہ ’رگڑے‘ کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔۔۔ یہ ان کی تربیت کا خاص طریقہ تھا، تاکہ ہمیں اخباری مواد کی تیاری میں سخت محنت اور دماغی عرق ریزی کی عادت ہو۔

’میگزین‘ کے لیے نت نئے موضوعات، اور اس کے مندرجات، لفظوں کا چنائو اور جملوں کی بُنت سے لے کر مواد کی پیش کش تک، انھوں نے ہم پر نہایت سخت گرفت رکھی۔ باقاعدہ ہمارے میگزین انچارج انچارج عثمان جامعی صاحب کو اس کی ہدایت کی گئی تھی۔

اس لیے پھر ہم باہر مختلف جگہوں پر دوڑائے جاتے۔ ہمیں تاکید تھی کہ خبردار، جو دفتر سے ہی بیٹھے بیٹھے کچھ ’کور‘ کرنے کی کوشش کی۔۔۔! خود جائیے، وہاں جا کر دیکھیے، اور پھر کچھ لکھیے۔ ہمیں یاد ہے کہ ہم پہلے ہی اسائمنٹ پر نومبر 2012ء کے اواخر میں بلدیہ ٹائون کی آتش زدگی میں 250 جانوں کا مقتل بننے والی ’علی انٹرپرائزز‘ گئے تھے، اور پھر ان متاثرہ خاندانوں سے بھی ملے تھے۔۔۔ ایسے خاندان جن کے گھر کے چار، چار، پانچ، پانچ افراد کی سوختہ میتوں کی شناخت سانحے کے ڈھائی ماہ بعد تک نہ ہو سکی تھی۔۔۔!

قصۂ مختصر شروعات میں ہم جو کچھ بھی لکھتے، تو وہ احفاظ صاحب کے روبرو پیش ہوتا، مختلف اغلاط پر ہماری خوب سرزنش ہوتی، نصیحتیں کی جاتیں، کبھی ہماری کسی بھول پر، تو کبھی کسی پروف کی غلطی پر۔۔۔ تو کبھی ایسا ہوتا کہ اگلے روز صفحہ چھپنے کے بعد وہ قلم زد کیا ہوا اخبار سامنے رکھ کر ہماری ’تواضع‘ فرماتے۔

اس طرح ہماری خوب اصلاح ہوتی، کبھی کبھی تو طویل لیکچر ہوتے، جس میں اکثر بات تو پروف کی غلطیوں سے چلتی اور ہوتی ہوتی اخباری مندرجات اور دنیا جہاں کے موضوعات میں ہی کہیں بھٹک جاتی، جس میں ہر تھوڑی دیر بعد نصیحتوں کا ایک نیم درشت سا لفظی ’چَپت‘ بھی پڑتا کہ دیکھو میاں، ایسے کرتے ہیں کام، اور یہ ایسے ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔ ان سب میں سب سے خاص بات یہ تھی کہ انھوں نے ہمیں تراش، تراش کر کچھ نہ کچھ بنا ہی دیا تھا کہ پھر وہ ہمارے دیگر سینئرز کی طرح ہم سے بھی مختلف موضوعات پر گفتگو کرنے لگے تھے اور وہ ہمارے کام سے کافی حد تک مطمئن بھی تھے۔ کوچۂ صحافت میں ہماری یہ ’کمائی‘ بھی تو کچھ کم نہیں ہے۔ اللہ احفاظ صاحب کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے، آمین۔

کیا دوستی میں سب جائز ہوتا ہے۔۔۔؟
حبا رحمن، کراچی

لفظ ’دوستی‘ یوں تو ایک بہت خوب صورت رشتہ ہے۔ انسان جب کسی مصیبت، غم یا خوشی میں ہو تو ان احساسات میں اس کے گھر والوں کے ساتھ ساتھ اگر اس کے دوست بھی ہوں، تو اس کی یہ خوش نصیبی ہوتی ہے، لیکن اگر زندگی کی خوش نصیبی کو بدنصیبی میں بدلنے والے بھی دوست ہی ہوں تو پھر کیا کیجیے گا۔۔۔؟
سبھی دانش وَر اور لکھنے والے یہی کہتے آئے ہیں کہ دوست انسان کی خوشی کا سبب ہوتے ہیں، لیکن کوئی یہ کیوں نہیں بتاتا کہ کبھی کبھار انسان کو اندر سے برباد کرنے والوں میں بھی کسی دشمن کا نہیں، بلکہ اس کے اپنے دوستوں کا ہی ہاتھ ہوتا ہے۔

زندگی میں کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنے بھول پن میں ان کو بھی اپنا دوست مان لیتا ہے، جو کبھی خود اپنے ساتھ بھی اچھا نہیں کر سکتے، تو سوچیے، کہ وہ آپ کے ساتھ مخلص کیسے ہوں گے؟ مجھے آج تک یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ آخر چار دوستوں میں ایک دوست سب کا خیال رکھنے والا ہو، یا سب کو ساتھ رکھنے والا ہو، تو باقی اس کا اتنا استحصال کیوں کرتے ہیں؟ وہ بے چارہ اگر کچھ کہتا نہیں ہے، تو اس کا مطلب یہ تو نہیں ہوتا کہ اس کو کچھ بھی کہتے ہی چلے جاؤ، یا اس کی شرافت کا فائدہ اٹھاتے چلے جاؤ۔

آج بہت سے لوگوں کے ذہنی دباؤ کی وجہ دوستوں کا یہ رویہ ہی ہوتا ہے۔۔۔ آخر لوگ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ان کی یہ حرکت کسی انسان کو کتنا توڑ بھی سکتی ہے اور خاص طور پر جب وہ دوست ہوں۔ انسان اپنا اندر باہر سب دوستوں کے آگے رکھتا ہے اور دوستوں سے جب وہی چیز نہ ملے، تو انسان گھٹ گھٹ کر ختم ہونے لگتا ہے، اس کا دوستی پر سے بھروسا اٹھ جاتا ہے۔

یہاں تک کہ پھر وہ تنہائی پسند ہو جاتا ہے۔ اس لیے انسان کو یا تو بہت سوچ سمجھ کر دوست بنانے چاہئیں یا پھر ان کو اپنے اتنا قریب نہیں کرنا چاہیے کہ جب وہ اپنا اصلی چہرہ دکھائیں، تو اسے تکلیف ہو۔ اس لیے یہ کہنا کہ دوستی میں سب جائز ہوتا ہے، بالکل غلط ہے، تصویر کا دوسرا رخ بھی سامنے رکھنا چاہیے، بقول فراز؎
’’دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا‘‘

حکیم سعید نے کہا ’’مجھے اپنی نیند ایک گھنٹے کم کرنی پڑے گی۔۔۔!‘‘
سعدیہ راشد

شروع میں ابا جان (حکیم محمد سعید) کا غصہ بہت تیز تھا۔ سب ان سے ڈرتے تھے کہ وہ ناراض نہ ہوں، لیکن برہمی میں وہ ڈانٹتے ڈپٹتے نہیں تھے۔ میں نے دفتر میں انھیں کبھی چلاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ غصے میں ان کا چہرہ سرخ ہو جاتا اور وہ خاموش ہو جاتے۔

جب وہ خاموش ہو جاتے، تو سب خاموش ہو جاتے، لیکن یہ صحیح نہ تھا۔ میڈم ڈی سلوا ان کے مزاج کو سمجھ گئی تھیں وہ بولتی رہتی تھیں۔ بولتے رہنے سے ابا جان کا غصہ جلدی اتر جاتا تھا۔ آہستہ آہستہ ابا جان کا غصہ کم ہوتا گیا، وہ آخر میں تو بہت نرم ہوگئے تھے۔ میڈم کہتی تھیں ’’وہ ایک چیتے کی طرح تھے، لیکن اب ایک معصوم بلی کی طرح ہوگئے ہیں۔‘‘

ابا جان کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے رفقائے کار سے مشورہ ضرور کرتے تھے۔ وہ شوریٰ کے قائل تھے۔ جو لوگ ان کے اعتماد کے تھے، وہ ان سب کی رائے سنتے ، غور کرتے اور پھر فیصلہ کرتے۔ ایک دفعہ فیصلہ کرلیتے، تو بس اس پر قائم رہتے۔ اپنے مشن کی کام یابی کے لیے انھیں بڑی محنت کرنا پڑی۔ ایک طرف ادارۂ ’ہمدرد‘ کی تعمیر وترقی، دوسری طرف طب یونانی کا جسے ابا جان کہتے تھے کہ یہ طب اسلامی ہے۔

اس کا دنیا میں نام روشن کرنا اور اسے تسلیم کرانا اور علم کے میدان میں ان کی پیش قدمیاں ۔ یہ سب بڑے کام تھے۔ ان میں بڑی جاں فشانیاں تھیں۔ ان معاملوں میں جب انھیں کوئی فکر لاحق ہوتی، وہ عموماً خاموش ہو جاتے۔ زیادہ تر اپنے اوپر ہی جھیل لیتے۔ ابتدا میں کسی سے ذکر تک نہ کرتے، لیکن اب بعد میں وہ کہنے لگے تھے۔ آخر دنوں میں تو انھوں نے مجھ سے کہا کہ مجھے اب اپنی نیند ایک گھنٹے اور کم کرنی پڑے گی۔ میں نے کہا یہ آپ کیسے کریں گے۔ چار گھنٹے تو آپ سوتے ہیں۔ تین گھنٹے سو کر آپ کام کس طرح کریں گے۔

وہ کہنے لگے ’نہیں مجھے کام بہت ہے۔ مجھے اپنی نیند ایک گھنٹے کم کرنی ہی پڑے گی۔ میں اب محسوس کرتی ہوں کہ ابا جان کو جلدی کیوں تھی۔ وہ مشن کو پورا کرنا چاہتے تھے۔ جو پودے انھوں نے لگائے تھے، انھیں بار آور دیکھنے کے لیے بے چین تھے، وہ اور بہت کچھ کرنا چاہتے تھے۔

اپنی سوچ کو انھوں نے اپنے تک محدود نہیں رکھا۔ برملا اظہار کر دیا۔ وہ اپنی زندگی کے ہر ہر لمحے کو اپنے خیالات اپنے احساسات سب ریکارڈ کر گئے ہیں۔ ان کی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے، جو چھپا رہ گیا۔ وہ ایک کھلی کتاب کی مانند تھے۔ جسے انھوں نے لوگوں کے سامنے رکھ دیا تھا کہ لو پڑھ لو، جان لو اور پرکھ لو۔

(ایک انٹرویو سے ماخوذ)

’’ ثبوت قبر میں ہے۔۔۔!‘‘
کمال الدین احمد

صاحب زادہ خورشید احمد اے جی بلوچستان تھے۔ ان دنوں لٹھے اور کفن کے کپڑے پر کنٹرول تھا اور یہ باقاعدہ پرمٹ سے ملا کرتا تھا۔ بلوچستان کے بی ایریا میں کفن کا کپڑا شاہی جرگے کے اراکین اور سرداروں کے ذریعے لوگوں کو ملا کرتا تھا۔ مسلم لیگ سردار اور نوابی سسٹم کے خلاف تھی۔ اس لیے ہفتہ وار ’’خورشید‘‘ اور ہفتہ وار ’’الاسلام‘‘ کے صفحات اس سسٹم کے خلاف بھرے رہتے تھے۔

ان دنوں فضل احمد غازی ان دونوں اخباروں کے ایڈیٹر تھے۔ انھوں نے ایک خبر شایع کی کہ مری کے علاقے میں ستر، اسّی روپے کے عوض ایک کفن کا کپڑا ملتا ہے (حالاں کہ کفن کے لیے کنٹرول ریٹ بہت ہی کم تھا۔) اور وہاں کے لوگ اتنے غریب تھے کہ کفن نہ ملنے کی وجہ سے اپنے مردوں کو چٹائیوں میں لپیٹ کر دفن کر دیتے تھے۔

اس اخبار کی اشاعت پر سردار دودا خان بہت مشتعل ہوئے اور گھبرا کر کچھ سرداروں سمیت ’اے جی جی‘ کے پاس شکایت لے کر پہنچے۔ اے جی جی نے فضل احمد غازی کو بلایا اور اس خبر کا ذریعۂ اطلاع اور ثبوت مانگا۔ ظاہر ہے کہ فضل احمد غازی اپنے اخبار کے نامہ نگار کا نام کس طرح بتاتے، جب کہ وہ نامہ نگار اسی سردار کے علاقے کا آدمی تھا۔ اس کی موت یقینی تھی، اگر نام بتا دیا جاتا، کیوں کہ سرداروں کو ان دنوں بہت اختیارات حاصل تھے۔ فضل احمد غازی نے نامہ نگار کا نام بتانے سے انکار کرتے ہوئے ’اے جی جی‘ سے کہا کہ میرے پاس صرف ایک ثبوت ہے۔

وہ یہ ہے کہ آپ میرے ساتھ چلیں میں آپ کو قبر بتاتا ہوں۔ آپ اسے کھدوائیں، اگر اس میں مردہ چٹائی میں لپٹا ہوا نکل آئے، تو آپ سزا کے طور پر سردار صاحب کو دفن کردیں اور اگر مردہ کفن میں ملبوس نکلے، تو سزا کے طور پر مجھے دفن کر دیں۔

جواب معقول تھا۔ ’اے جی جی‘ جو بہت مشتعل تھے، ٹھنڈے پڑ گئے اور بولے ’’ کیا تم مجھے مروانا چاہتے ہو، جو قبر کھودنے کے لیے کہہ رہے ہو؟‘‘ اور اس کے فوراً بعد سردار کی طرف رخ کر کے کہا ’’کیا یہ چیلنج قبول ہے؟‘‘ سردار کو تو یقین تھا کہ جس قبر کو کھودا گیا، اس میں سے مردہ چٹائی میں نکلے گا، اس لیے اس نے صاف انکار کر دیا کہ وہ قبر کھدوانے کے لیے تیار نہیں۔ اس پر ’اے جی جی‘ نے کہا کہ ’’ تم قبر نہیں کھدوا سکتے، تو میں اسے کس بات پر سزا دوں۔ کیوں کہ اس کا ثبوت تو قبر میں ہے۔‘‘

(تصنیف ’’صحافت وادیٔ بولان میں،‘ سے ایک دل چسپ اقتباس)

The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3jxrVH5