ٹلہ جوگیاں کے راہی - KHB Point

کے-ایچ-بی پوائنٹ (ملکی و غیر ملکی تمام خبریں فراہم کرنے والاایک مکمل نیوزپلیٹ فام نیٹ ورک)

تازہ ترین

ٹلہ جوگیاں کے راہی

قمری مہینے کی دوسری اتوار تھی۔ عجب اتفاق تھا کہ قمری اور عیسائی کلینڈر ایک ساتھ چل رہے تھے۔ چاند پوری آب و تاب کے ساتھ روشن تو تھا مگر سفید روشنی کی بجائے زرد رنگ میں نہایا ہوا تھا۔ صاف ظاہر تھا کہ وہ سورج کی زرد روشنی کو منعکس کر رہا تھا۔

آسمان مکمل صاف تھا مگر کبھی کبھی ایک چھوٹا سا بادل کا ٹکرا انتہائی بالائی یا زیریں حصے کے سامنے آجاتا۔ عجیب سا منظر تھا جب بادل چاند کے زیریں اور بالائی حصوں کے سامنے آ گئے مگر درمیان سے چاند مکمل واضح، صاف اور زرد روشنی میں نہایا ہوا تھا۔

سیالکوٹ چھاؤنی سے دو میل دور شمال کی طرف ایک گاؤں پورن والا میں اسی چاند کی زرد روشنی میں ایک عجیب و غریب سا میلا جاری تھا۔ لوگوں کی مشکوک آمدورفت جاری تھی۔ میلے میں آنے والے ہر آدم اپنے ساتھ دو خواہشات لائے ہوئے تھا۔ ایک اسے یہاں کوئی نہ دیکھے، دوم یہ کہ اس کے گھر کا آنگن کسی ننھے بچے کی آوازوں سے گونجے۔

ایک گاڑی میں سے ایک مرد اور عورت باہر نکلے۔ عورت اپنی باری آنے پر سرمئی رنگ کے مندر میں چلی گئی اور اندر سے مندر کا دروازہ بند کر دیا۔ مندر میں صرف ایک دیے کی لُو تھی۔ اسے یہی لُو اپنے اندر بھی جگانی تھی۔ اسے اسی روشنی میں اپنا مطلوبہ کام کرنا تھا۔ عورت نے پہلے سے موجود گلاب کے پھول ہٹا دیے اور اپنے ساتھ لائے ہوئے گلاب کے پھولوں کو اس جگہ کے اردگرد پھیلا دیا۔ ناامید عورت کی خشک آنکھوں میں ذرا سی امید ابھی باقی تھی۔ مندر میں اس وقت اُس عورت کے سوا اور کوئی نہ تھا، اسے اس بات کا یقین تھا۔

اس نے اپنے بدن کے کچھ حصے کو کپڑوں سے آزاد کیا اور مہکتے پھولوں کے درمیان کچھ دیر کو بیٹھ گئی۔ کچھ دیر کے بعد مندر کا دروازہ اندر کی جانب سے کھلا۔ دروازے کے سامنے موجود کنواں سے اسی عورت کا خاوند پانی کے ڈھول بھر رہا تھا۔ عورت احاطے سے پیچھے کی جانب چلی گئی۔ آدمی بھی اس کے پیچھے ہو لیا۔ عورت نے اسی کنویں کے پانی سے غسل کیا۔ نئے کپڑے پہنے اور باہر آگئی۔ آدمی اپنی بیوی کے پرانے کپڑو، چوڑیوں حتیٰ کہ اس کے جوتوں کو راکھ بنا چکا تھا۔

”پورن کی دعا سے ہمیں بیٹا ملے گا۔

دو نہ امید چہروں پر امید کی ہلکی سے مسکراہٹ پھیلی۔ ”

گاڑی کے باہر نکلتے ہی کنویں کے پانی میں ارتعاش ہوا جیسے کوئی نئی روح پانیوں میں سے جنم لے رہی ہو۔ ایک پرندہ پورن کے کنواں سے پھپھڑاتا ہوا باہر نکلا اور کسی بلند مقام کی جانب پرواز کر گیا۔ شاید اس کے جنم سے پہلے اس پر اس کی منزل کے نشان وحی کر دیے گئے تھے۔ پرندے کے گیلے پَروں میں پورن کے گدلے پانیوں کی نمی تھی۔

کہتے ہیں کہ 70ء میں راجہ سلوان نے پنجاب کے ایک شہر پر قبضہ کرلیا اور پرانے شہر اور قلعے کے کھنڈرات پر ایک نیا شہر اور قلعہ تعمیر کروایا اور اپنے نام کی نسبت سے اس کا نام ”سیالکوٹ ” رکھا۔ راجہ سلوان کی رانی اچھراں (یاد رہے کہ لاہور کا اچھرہ بھی انھی کے نام پر ہے) کے ہاں منتوں، مرادوں کے بعد ”پورن بھگت” پیدا ہوا جسے جوگیوں کے حکم پر پیدائش سے لے کر 12 سال کی عمر تک خاندان (بشمول راجہ اور رانی) سے دور رکھا گیا۔

انھی 12 سالوں کے دوران راجا نے ایک لڑکی لوناں سے شادی کر لی مگر اس کی کوئی اولاد نہ ہوئی۔ بارہ سال بعد جب کہ پورن ایک خوب صورت مرد بن چکا تھا، اپنے باپ کے محل میں واپس آیا تو رانی لوناں کا دل اس پر خراب ہوا مگر پورن وہاں سے بھاگ نکلا۔ رانی لوناں کو سخت طیش آیا۔ اس نے الٹا راجا سے پورن کی شکایت کردی۔ راجا سلوان، جو لوناں پر بری طرح فدا تھا، نے پورن کے ہاتھ قلم کر کے اسے ایک اندھے کنویں میں ڈالنے کا حکم سنا دیا۔

جب راجا سلوان نے لوناں کی باتوں میں آکر پورن بھگت کے ہاتھ کٹوا کر اسے اندھے کنواں میں پھینک دیا تو کچھ دنوں بعد جوگیوں کے روحانی پیشوا گرو گورتھ ناتھ کا وہاں سے گزر ہوا۔ انھوں نے اسے باہر نکالا، اپنی کرامت سے اسے ہاتھ واپس لوٹائے اور اپنے ساتھ ٹیلہ جوگیاں لے گئے جہاں سخت امتحانات کے بعد انھیں جوگ دیا مگر تلقین کی کہ وہ اپنے وطن سیالکوٹ واپس جائیں۔ پورن بھگت جو اب جوگی بن چکا تھا، واپس اپنے وطن آیا۔ شہر میں ہر طرف اسی کا چرچا تھا۔ راجا سلوان لوناں کے ساتھ پورن جوگی کے سامنے پیش ہوا جہاں لوناں نے اپنے گناہ کا اعتراف کیا۔

کہتے ہیں کہ پورن بھگت جوگی نے اسے اپنی کرامات سے حاملہ کیا مگر واپس کبھی اپنے محل نہیں گیا۔ آج بھی بے اولاد جوڑے کنویں پر حاضر ہوتے ہیں۔ لڑکیاں اس کنویں کے پانی سے نہاتی ہیں مگر جو کچھ پہلے پہنا ہوتا ہے (یہاں تک کے جوتے بھی) اسے جلا دیا جاتا ہے اور لڑکی نئے کپڑے پہنتی ہے۔ اس کام کے لئے غسل خانے کنواں کے پاس ہی بنائے گئے ہیں۔

ایک عرصے سے مجھے ٹلہ جوگیاں جانے کا بے پناہ شوق تھا۔ کوشش بہت کی مگر کچھ بھی وسیلہ نہ بن سکا مگر رومی نے کیا ہی زبردست بات کہی تھی ”what you seek is seeking you”  یعنی کہ اگر آپ کسی کام کے لیے کوشش کرتے ہیں تو دنیا کی ہر شے اس کام کے پیچھے لگ جاتی ہے کہ چلو بھائی اس بندے کا کام کرو۔ دنیا شاید ایک چھوٹا لفظ ہے، کائنات مناسب رہے گا کہ ساری کائنات آپ کے پیچھے شاید نہ لگے مگر اس کام اور اس کے متعلقہ افراد کو اکساتی ہے کہ چلو اس بندے کا کام کرو۔ کچھ یہی معاملہ میرے ساتھ بھی تھا۔

میں پچھلے ایک سال سے یاروں دوستوں کے پیچھے تھا کہ مجھے ٹلہ جوگیاں لے چلو کہ میری وہاں مضبوط جڑیں ہیں۔ جس خاندان نے میرے شہر کی بنیاد رکھی، اسی خاندان کا بہادر سپوت پورن بھی اپنے محل کو چھوڑ کر، کان چھدا کر ایک جوگی ہو گیا تھا۔

بالناتھ دے ٹلے دا راہ پھڑیا متا جا گیا کَن پڑوانیاں دا

ٹلے جائیکے جوگی نے ہتھ جوڑے سانوں اپنا کرو فقیر میاں

چھڈ یاریاں چوریاں دغا جٹا، بہت اوکھیاں ایہہ فقیریاں نیں

یہاں میں ٹلہ جوگیاں جانے کو بے تاب تھا، وہی کائنات مجھے ٹلہ بالناتھ بھیجنے کے لیے راہیں نکال رہی تھی بلکہ میرے بارے میں اٹل فیصلہ کرچکی تھی کہ اس قمری ماہ کی دوسری اتوار کو جب چاند پورے جوبن پر ہوگا، یہ بالک ٹلہ جوگیاں کی فضاؤں میں سانس لے گا جن فضاوں میں کبھی رانجھا اور پورن سانس لیا کرتے تھے۔ کائنات نے مجھے جوگی بنانے کے لیے تین مزید جوگیوں کو جنم دیا تھا۔ ان کا جنم میرے جوگ کے لیے ضروری تھا کہ مجھے ایک نہ ایک دن یوگی ہونا ہی تھا۔ چنانچہ تین نومولود یوگی میرے ساتھ تھے۔

1 اسد جوگی: اسد ایک سَچا اور سُچا جوگی ہے۔ اپنی سوچ کو بھٹکنے نہیں دیتا۔ عرصہ ہوا صرف پیر نصیرالدین شاہ صاحب کی شاعری کی طرف ہی دھیان لگاتا ہے۔ یہ پیر صاحب کی طرف کیے گئے یوگ کا ہی کمال ہے کہ اسد پر شاعری بھی پیر صاحب کے رنگ جیسی ہی اترتی ہے۔ میں نے بہت کوشش کی کہ شاعری میں اس کی ایک سمت کی سوچ کو منشتر کر سکو مگر وہ یوگی ہی کیا جو بھٹک جائے۔ اسد ایک پکا یوگی ہے۔

2 اظہر جوگی: اظہر وہ جوگی ہے جس کی کائنات نے ذمے داری لگائی تھی کہ اسی کے طفیل مجھے بھی جوگ نصیب ہو گا یا یوں کہہ لیجیے کہ اسی یوگی کی بدولت مجھے جوگ کی خوشبو نصیب ہو گی اور یقین مانیں میں اسی میں خوش ہوں کہ مجھے فقط وہ خوشبو نصیب ہو جائے، اس رانجھے کے پیروں کی مٹی نصیب ہوجائے جس مٹی کو ہیر سیال اپنی مانگ میں بھرنا چاہتی تھی مگر بھر نہ سکی کہ اس کی قسمت میں ان فضاؤں کی خوشبو نہ تھی۔ وہ شاید مجھ جیسی خوش قسمت نہ تھی۔

تو مجھے کوئی اعتراض نہیں کہ مجھے اظہر جوگی کی وجہ سے جوگ ملے۔ میں اسی میں خوش تھا کہ میں ان پتھروں پر بیٹھنے جا رہا تھا جہاں کبھی رانجھا بیٹھا کرتا تھا۔ میں اسی میں خوش تھا کہ میں بھی ان راہوں پر ہوں گا جن راہوں کو میرے پورن نے محل کی آسائشوں والی زندگی سے افضل جانا اور ایک بھگت ہو گیا، ایک جوگی ہو گیا۔ اظہر جوگی بھی ادب سے محبت کرنے والے جوگی ہے۔

3 خرم بٹ جوگی: اسد جوگی اور اظہر جوگی کا مشترکہ دوست خرم جوگی ہے۔ اگر دنیا میں حقیقتاً یہ قانون لاگو ہوتا کہ ”بٹ کوجا ہوئے تے مار دو” تو اس جوگی کا نام و نشاں عرصہ پہلے اس عارضی دنیا سے مٹ چکا ہوتا۔

4 اور آخر میں، میں ایک بدتمیز جوگی جس کی وجہ سے کائنات کو وختا پڑا ہوا تھا کہ وہ اپنے سارے کام کاج چھوڑ کر بس اسی کام میں لگی ہوئی تھی کہ مجھے بھی ذرا سا یوگ نصیب ہو۔

5 اور سب سے بڑا جوگی، شکیل جوگی تھا جو بھیٹ گاوں کا مقامی تھا، جس نے ہمیں اکبر بادشاہ کے بنائے گئے تالاب تک لے جانے کا وعدہ کیا تھا اور پھر اپنا وعدہ ایسا نبھایا کہ اسی تالاب میں سے ہمیں جوگ کے خوب غوطے لگوا کر لایا۔

ہم سیالکوٹ سے اتوار کی صبح تقریباً ساڑھے تین بجے نکل پڑے تھے۔ موسم بھی کافی دل فریب تھا۔ سارا راستہ بادل چھائے رہے اور کہیں کہیں بارش کی چند بوندیں گریں۔ موسم کے ساتھ ساتھ چاند بھی خطرناک حد تک خوب صورت تھا۔ ایک تو چودھویں کی رات تھی، دوسرا وہ بادلوں کے ساتھ مل کر اٹھکیلیاں کر رہا تھا۔ کہیں وہ بادلوں کے پیچھے چھپ جاتا تھا اور کبھی اپنا مکھڑا دکھا کر ظلم کی انتہا کردیتا تھا کہ چاند کے عاشق اب جائیں تو جائیں کدھر۔ میرا محبوب میرے سامنے تھا مگر میری پہنچ سے بہت دور تھا۔ شاید یہی محبوب اور محبت کی خوب صورتی ہے کہ وہ آپ سے بہت دور ہوکر بھی آپ کے پاس ہوتے ہیں۔ آپ کو سب سے بے گانہ کردیتے ہیں اور مکمل طور پر اپنے حصار میں رکھتے ہیں۔

بڑی بے صبری سے میں سوہنی کے چناب کا انتظار کرنے لگا کہ چناب کے پانیوں میں اپنے محبوب چاند کو دیکھوں گا۔ واللہ اس نظارے کو سوچ کر ہی میں خوش ہو رہا تھا۔ وصال سے زیادہ تصور وصال میں خوشی کا احساس ہو رہا تھا۔ جونہی گاڑی چناب کے پل پر آئی تو میں نیاشتیاق بھری نگاہوں سے نیچے دیکھا۔ مگر یہ کیا؟ چناب کے پانیوں میں مجھے چاند کا عکس نہ دکھا۔ سوچا کہ شاید چاند کے آگے بادل آ گئے ہوں گے۔ فوراً آسمان کی طرف دیکھا، مگر وہاں تو چاند موجود تھا۔ حیرانی اور پریشانی کے عالم میں دوبارہ چناب میں دیکھا۔ تب جا کر احساس ہوا کہ نیچے تو پانی ہی نہیں تھا۔ یقیناً یہ وہ چناب نہ تھا جو سندھ طاس معاہدے کے بعد ہمیں ملا تھا۔ یہ وہ چناب نہیں تھا جس کا ضامن ورلڈ بینک تھا۔ اس کے پانی پیچھے اور بہت پیچھے روک دیے گئے تھے۔

میری ساری خوشی ماند پڑتی جا رہی تھی۔ مجھے اس وقت ” بہاؤ” شدت سے یاد آ رہا تھا۔ سرسوتی جو بڑے پانیوں کی ماں اور ساتویں ندی تھی، شدت سے یاد آ رہی تھی۔ چاند کی روشنی میں چناب کنارے بیٹھے کچھ لوگوں میں مجھے پاروشنی، ورچن اور سحرو کا عکس دکھائی دے رہا تھا جو ” بڑے پانیوں ” کے انتظار میں تھے۔ تو کیا چناب بھی ایک اور سرسوتی بننے جا رہا تھا؟ کیا چناب کی تہذیب بھی مٹنے جا رہی تھی؟ میری ریڑھ کی ہڈی میں ایک خوف کی لہر دوڑ گئی۔

ایک عرصہ ہوا کہ جب چناب کو دریائے عشق کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان زمانوں کا ذکر ہے جب دنیا بھر کے سوداگر سرزمینِ ہندوستان کو سونے کی چڑیا کے نام سے یاد کرتے تھے۔ سوداگر دوردراز کے ملکوں سے طرح طرح کا سامان لے کر آتے اور اس کے عوض کئی قسم کے ہندوستانی مال لاد کر واپس جایا کرتے تھے۔

یہ قصہ ہے ان زمانوں کا جب ”چنھاں” کے کنارے مٹی کے برتن بنتے تھے۔ یہ بات ہے اس سوہنی کمہارن کی جس کی انگلیاں لوبیے کی کچی پھلیوں سے مشابہ تھیں، جس کا اصل نام تو کچھ اور تھا مگر اس کے حُسن و جمال کی وجہ سے اسے سوہنی کا نام دیا گیا کہ اس کی خوبصورتی کی مثال نہ ملتی تھی۔ کوچہ بہ کوچہ، شہر بہ شہر اس کے حُسن کی دھوم تھی۔ جس کی زلفیں، لال لال ہونٹ، رخسار سب ہی نازک اور سوہنے تھے۔

یہ وہ زمانہ تھا جب مغل بادشاہ شاہجہان کا دلی اپنے عروج تھا۔ بخارا کا عزت بیگ دربار میں حاضری کے بعد دلی سے لاہور جاتے ہوئے ”چنھاں” کے کنارے رکا اور سوہنی کے عشق میں گرفتار ہوا مگر سوہنی سے اپنے عشق کو چھپا کر رکھا۔ جب سوہنی کو پتا چلا تو وہ بھی اس کے عشق میں گرفتار ہوگئی۔ عزت بیگ نے عشق میں سب کچھ کھو دیا، روپیہ پیسہ کاروبار۔ پہلے گھر کی صفائی اور پھر بھینسوں کی چروائی کی اور عزت بیگ سے مہیوال یعنی بھینسوں کا رکھوالا بن گیا۔ رات کو دریا پار کرتا اور تازہ بھونی اور مچھلی سوہنی کو کھلاتا۔ ایک دن جب مچھلی نہ ملی تو اپنی ران سے گوشت کا ٹکڑا کاٹ کر کباب بنائے۔

سوہنی، مہیوال کی ٹانگوں سے رستے خون کو دیکھ کر ایسا ڈری کہ اب خود ہی دریا پار اس سے ملنے جانے لگی۔ تیراکی سے ناواقف مگر مٹی کے ہر بھید سے واقف سوہنی، گھڑے پر بیٹھ کر روز دریا پار کرتی۔ ِحاسدوں نے ایک رات سوہنی کے مضبوط گھڑے کی جگہ کچا گھڑا رکھ دیا۔ سوہنی اس چال کو سمجھ گئی مگر دل کے ہاتھوں مجبور چنھاں کے چڑھے ہوئے پانیوں میں اترگئی۔

چنھاں کی بپھری ہوئی لہروں نے سوہنی کو اپنے اندر سما لیا۔ مہیوال بھی سوہنی کے پیچھے کودا۔ سوہنی کو اپنی آغوش میں لیا اور چنھاں کے بیچوں بیچ ایک مشترکہ قبر میں اتر گیا۔ سوہنی کمہارن اور بخارے کا عزت بیگ (مہیوال) دونوں مر گئے۔ چنھاں، چنھاں سے چناب بن گیا اور بعد میں ”سوہنی کا چناب” اور ”دریائے عشق” بھی کہلوایا۔ چناب آج بھی رواں دواں ہے، چناب کے گرد بہت شہر آباد و شاد ہیں اور یہ کہانی آج زندہ و پائندہ ہے۔

ہماری موٹر سائیکلیں تیزرفتاری کے ساتھ اپنی منزل کی جانب دوڑ رہی تھیں۔ رات اور بارش کے سبب جرنیلی سڑک پر زیادہ گاڑیوں کا ہجوم نہ تھا، کچھ ہی دیر بعد جہلم ٹول پلازہ آ گیا اور میرے دل میں پھر سے آرزو جاگی کہ چاند کا عکس جہلم کے پانیوں میں دیکھا جائے، مگر یہاں بھی حالات کچھ مختلف نہ تھے۔ پہلے میں جب بھی جہلم کے پل سے گذرتا تھا تو انور مسعود یاد آ جاتا تھا اور اس کے یاد آنے سے پہلے ہی چہرے پر مسکان آ جاتی تھی۔

”کھٹ کے چلانے نہیں میں کارخانے دوستو

چار آنے، چار آنے، چار آنے دوستو”

مگر آج مجھے ٹلہ جوگیاں کا وہ شاعر نصیر کوی یاد آ رہا تھا، جس نے بہت عرصہ پہلے جہلم کی اسی حالت کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔

مندر، گرجے، مسجد دے پیراں نوں دھو کے لنگھدا ایں

گردوارے متھا ٹیکن لئی کھلو کے لنگھدا ایں

 

ہن منہ پھیر کے ستا رہنا ایں تیریاں راہواں ملاں

جہلم تیرے پانیاں اندر پہلے جیاں گلاں کتھے

گلزار کے شہر دینہ کی گلیاں بہت پیچھے رہ گئی تھیں جب ہم نے جی ٹی روڈ کے بائیں جانب قلعہ روہتاس کا بورڈ آویزاں دیکھا۔ مین روڈ سے نیچے اترتے ہی سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی۔ کہیں کہیں آبادیاں تو تھیں مگر مجموعی طور پر سب ویرانہ ہی تھا۔

جی ٹی روڈ سے قلعہ روہتاس زیادہ دور نہیں۔ اس کے برج، عظیم دروازے اور فصیلیں داستانوی قلعہ کا منظر پیش کرتی ہیں۔ ہمارے پاس وقت کی قلت تھی ورنہ قلعہ روہتاس ایسا نہیں کہ اسے دیکھے بنا آگے بڑھا جائے۔

قلعہ روہتاس ان چند قلعوں میں سے ایک ہے جو کسی دریا کے کنارے آباد نہیں ورنہ اکثر و بیشتر قلعہ دریا کے کنارے ہی تعمیر کیا جاتا تھا کہ پانی کی قلت نہ ہو۔ تاریخ کی کتابوں میں درج ہے کہ شیر شاہ سوری نے یہ قلعہ گکھڑ قبائل کو قابو میں رکھنے کے لیے تعمیر کروایا تھا۔ ان قبائل کا خوف اس قدر تھا کہ شروع میں کوئی بھی یہ قلعہ تعمیر کرنے کے لیے راضی نہ ہوا مگر ایک سِل کے بدلے ایک اشرفی کوئی عام بات نہیں۔ جی ہاں شیر شاہ سوری نے ایک سِل رکھنے کی اجرت ایک اشرفی مقرر کی، تب جا کر یہ تعمیر ہوا۔

مگر اس قلعے نے کبھی کوئی جنگ نہیں دیکھی، اس کا کبھی محاصرہ نہیں ہوا۔ گکھڑوں نے اس قلعے کو سنجیدہ نہیں لیا اور اسی کے اطراف میں اپنی روز مرہ کی زندگی جیتے رہے۔ انھوں نے اس قلعے پر قبضہ کرنے کی نہ کبھی کوشش کی اور نہ ہی انھیں اس کی ضرورت تھی۔ شیر شاہ سوری کی افواج قلعے کے اندر مزے کی زندگی گزارتی رہیں اور باہر گکھڑ قبائل۔ دونوں نے ایک دوسرے کا احترام کیا اور اپنے کام سے کام رکھا۔

قلعہ روہتاس کے پار جاتے ہی ایک نیلے رنگ کے بورڈ پر ”گوردوارہ چوا صاحب ” لکھا تھا۔ روایت ہے کہ بابا گرونانک اپنے ساتھی بھائی مردانہ کے ساتھ اس علاقے سے گزر رہے تھے تو بھائی مردانہ کو سخت پیاس محسوس ہوئی۔ آس پاس پانی نہ پا کر بابا گرونانک نے اپنا عصا زمین پر مارا تو ایک چشمہ پھوٹ پڑا۔ اسی چشمے سے استفادہ کرتے ہوئے شیرشاہ سوری نے قلعہ روہتاس تعمیر کیا۔ چوںکہ چشمے کو مقامی زبان میں چوا کہتے ہیں اسی لیے یہ علاقہ چوا صاحب کہلوایا۔ ہم ٹلہ جوگیاں کے راہی تھے لہذا ہم چپ چاپ گزرتے گئے.

ایک قصبے کے بعد کچھ ویرانہ سا آیا تو یک دم ہماری موٹر سائیکل ڈھولنے لگی۔ موٹر سائیکل کا پچھلا ٹائر پنکچر ہوچکا تھا۔ ایک میکینک کی دکان کچھ دیر پہلے ہی گزری تھی۔ اللہ تعالیٰ کا شکر تھا کہ دکان پاس تھی، اگر نہ ہوتی تو کیا ہوتا اور اگر کسی ویرانے میں پھر ٹائر پنکچر ہو گیا تو۔۔۔۔۔ ایک سبق اب مل رہا تھا کہ اگر آپ بائیک پر لمبے سفر پر نکلنا چاہتے ہیں تو آپ کے پاس پنکچر کا پورا سامان ہونا چاہیے اور آپ کو پنکچر لگانا بھی آنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ شکر کہ پھر یہ مسئلہ درپیش نہ ہوا۔ سڑک نا قابلِ برداشت حد تک خراب تھی۔

ہم ایک ایک موٹر سائیکل پر دو افراد تھے اور دونوں کے پاس سامان سے بھرے بیگ بھی تھے کیوںکہ اوپر ایک بوند بھی پانی میسر نہیں۔ آپ کو کھانے پینے کا سب سامان ساتھ لے کر جانا پڑتا ہے۔ ہم چاروں کا سفر سڑک کی وجہ سے مشکل سے مشکل تر ہو رہا تھا مگر اب اسے پورا تو کرنا ہی تھا۔ اب سامنے کے منظر کھل چکے تھے۔ سامنے مکمل سبزے سے بھرے ہوئے پہاڑ تھے۔ انہی پہاڑوں کے دامن میں ٹلہ جوگیاں تھا، جس کے ہم راہی تھے۔ وہیں پر اکبرِاعظم کا تعمیر کردہ ایک تالاب بھی تھا جس میں ہمیں ایک فرضی اشنان کرنا تھام مگر واضح نظر آ رہا تھا کہ وہ پہاڑ فی الحال بہت دور تھے، سمجھ لیجیے کہ ابھی عشق کے امتحان بہت تھے۔

ٹلہ جوگیاں سطحِ سمندر سے تین ہزار فٹ بلند ہے وہاں کی آب و ہوا میں خنکی نمایاں ہے۔ انگریز حکومت میں ڈپٹی کمشنر جہلم گرمیاں ٹلہ جوگیاں پر ہی گزارا کرتے تھے۔  ہم چلتے جا رہے تھے۔ ہم میں سے کسی کو بھی راستہ معلوم نہ تھا۔ فقط اتنا معلوم تھا کہ ہمارے سفر کا آخری گاؤں ”بَھیٹ” تھا جہاں شکیل نامی محبتوں سے بھرا ہوا ایک شخص ہمارا منتظر تھا۔ پاکستان کے شمال میں واقع ”وادی شمشال” کو جانے پر سڑک پر آخری گاؤں ”اسکولے” ہے جس سے آگے بقول تارڑ صاحب وہی لوگ جاتے ہیں جن کے دماغ میں فتور ہوتا ہے۔ بالکل ایسے ہی ”بَھیٹ” گاؤں سے آگے بھی دماغ میں فتور رکھنے والے ہی جاتے ہیں۔ ایک متوازن دماغ والے شخص کا کام نہیں کہ فقط ایک تالاب میں فرضی اشنان کے لیے، رانجھے کے قدموں پر قدم رکھنے کے لیے صبح ساڑھے تین بجے گھر سے نکلے، سفر کی صعوبتیں برداشت کرے اور پھر ایک بلند و بالا پہاڑ بھی چڑھے۔ ہمارے دماغوں میں فتور تھا۔

اس لیے ہم راستے میں پوچھتے جاتے تھے کہ ”بَھیٹ” گاؤں کس طرف ہے کہ بَھیٹ گاؤں کا شکیل جوگی ہمارا منتظر تھا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ راستے میں کون کون سے قصبے آ رہے تھے۔ منظر اب مکمل طور پر کُھلا ہوا تھا اور ہمیں صرف بھیٹ پہنچ جانے سے غرض تھی۔ تقریباً چھے گھنٹے کے موٹر سائیکل کے تھکا دینے والے سفر کے بعد ساڑھے نو بجے ہم سڑک کے آخری گاؤں ”بَھیٹ” میں تھے۔ ہر ایک گھنٹے بعد ہم نے دس منٹ کا سڑک پر کھڑے ہو کر آرام ضرور کیا تھا کہ یہ ہمارے اور موٹر سائیکل دونوں کے لیے بہت ضروری تھا۔ ہاں ناشتے کے لیے ہمارا یہ آرام کم و بیش آدھے گھنٹے کا ہو گیا تھا، نماز کا وقفہ الگ۔ شکیل اس قدر پیارا انسان ہے کہ اس کی خوب صورتی کو بیان کرنے کے لیے الگ مضمون درکار ہے۔ شکیل سڑک پر اپنے کندھے پر ”پٹھوں کی پَنڈ” رکھے ہمارا منتظر تھا۔ لاکھ منع کرنے کے باوجود بھی شکیل نے ہمارے لیے شربت بنوا لیا جسے پی کر ہم فوراً اپنی منزل کی طرف چل پڑے۔ ٹھیک دس بجے ہم ٹلہ جوگیاں کے ٹریک پر کھڑے تھے۔

ٹریک کے آغاز پر ہم سب توانائی سے بھرپور تھے، آرام و سکون سے پتھروں پر چل رہے تھے بلکہ چڑھ رہے تھے کیوںکہ بلندی رفتہ رفتہ بڑھ رہی تھی۔ اردگرد بڑی بڑی جھاڑیاں تھیں۔ تصاویر بناتے ہوئے ہم تھوڑا ہی چڑھے تھے کہ تھک گئے اور پھر ہم ”تھکنے تھکنے” والا کھیل کھیلنے لگے۔ ہم تھوڑی دیر پہاڑ چڑھتے تھے، زرا سا تھکتے تھے، پانی پیتے تھے اور جی بھر کر آرام کرتے تھے کہ جیسے ہم یہاں پہاڑ چڑھنے نہیں بلکہ آرام کرنے آئے ہوں۔ شکیل کی لمبی کلہاڑی جو اس نے حفاظت کے لیے ساتھ لے لی تھی، میں نے پکڑ لی۔ جسے میں چھڑی کے طور پر استعمال کر رہا تھا۔ اس سے مجھے اوپر چڑھنے میں کافی آسانی ہو رہی تھی۔ انرجی لیول کو بحال رکھنے کے لیے ہم سب میٹھی گولیاں اور بسکٹ کھا رہے تھے۔

راستے دشوار ہو رہے تھے اور ایک موڑ پر ہمارے ایک ساتھی اظہر نے ہمت ہار دی۔ اظہر کی زندگی کا یہ پہلا ٹریک تھا۔ شاید اسے ”ہائیٹ” ہوگئی تھی۔ اظہر کو ہمت دلواتے ہوئے ہمیں کافی وقت لگ گیا۔ اظہر پتھر سے اٹھ نہیں رہا تھا جب کہ ہمیں چوٹی پر ”بار بی کیو” کرکے رات ہونے سے پہلے واپس بھی آنا تھا۔ جی ہاں آپ نے بالکل درست پڑھا ہے، ہم شہزادے ٹلہ جوگیاں کی بلندی پر بار بی کیو کا سامان ساتھ لے کر جا رہے تھے۔ ہم سب نے بمشکل اظہر بھائی کو اوپر جانے کے لیے راضی کیا۔

طے یہ پایا کہ شکیل آگے چلے گا، میں اور بٹ صاحب درمیان میں اور پیچھے اسد اور اظہر۔ یہ ترتیب اپنے آپ ہی بن گئی تھی۔ شکیل چوںکہ مقامی تھا اور متعدد بار اوپر جا چکا تھا، اس لیے بہت تیزی سے اوپر جا رہا تھا۔ میں اور بٹ صاحب آرام سے مگر مسلسل چڑھائی چڑھ رہے تھے اور پیچھے ذرا سست رفتار سے اسد اور اظہر۔ بلندی میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھ۔جھاڑیاں اس قدر بلند اور گھنی تھیں کہ ہم ان میں گم ہو رہے تھے، زمین نظر نہیں آ رہی تھی۔ ہم سب اللہ تعالیٰ کے بعد شکیل کے بھروسے چلتے جا رہے تھے۔

دائیں جانب سرسبز ٹیلوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا اور پھر بائیں جانب راستے کے کناروں پر پتھروں سے ترتیب شدہ ایک سڑک کا آغاز ہو گیا جو اس بات کی دلیل تھی کہ ہم جوگیوں کے اس پہاڑ کی بلندی پر پہنچنے والے ہیں۔ اب ایک سیدھا راستہ شروع ہو چکا تھا جس میں کہیں بھی کوئی بلندی نہ تھی۔

سیدھی سادی عام سی سڑک تھی مگر ہم پہلے کی بلندیوں سے اس قدر تھک چکے تھے کہ اب سیدھی سڑک پر چلنا محال ہو رہا تھا۔ انتہائی بلندی پر ہم سب تنہا تھے مگر قدرت کے بے انتہا قریب تھے۔ ہوائیں جب درختوں کے بیچوں بیچ سے گزرتی تھی تو ایک رومانوی ارتعاش پیدا ہو رہی تھی۔ پرندوں کی بولیاں عجیب و غریب سی تھیں۔ ٹلہ جوگیاں کے پرندے بھی کوئی عام پرندے نہیں تھے بلکہ جوگی پرندے تھے، جو یقیناً رتبے میں ہم سے بہت بلند تھے۔

سیدھی سڑک کے ختم ہونے کے بعد تھوڑی بہت چڑھائی تھی جس کے بعد ٹلہ جوگیاں پر بنا ہوا ریسٹ ہاؤس ہمارے سامنے کھڑا تھا۔ ٹلہ جوگیاں کا منظر جو ہماری آنکھوں میں نقش ہوا اس میں ایک ویران سرسبز تنہائی کا پھیلاؤ تھا جو جنگلوں اور کھنڈرات پر امڈا ہوا تھا۔ ٹلہ جوگیاں کی ہوائیں جس میں ہم سب سانس لے رہے تھے، وہ بھی ہزاروں سال پرانی تھیں۔

ہم سب اب ٹلہ جوگیاں پر تھے۔ ہم سب شہر کی مادی زندگی کو چھوڑ کر کچھ دیر کے لیے ایک ویرانے میں آباد ہو گئے تھے۔ شمال کا آخری گاؤں اسکولے ہے، جس سے آگے صرف وہی لوگ جاتے ہیں جن کے دماغ میں فتور ہوتا ہے، منظر کی ہوس ہوتی ہے۔ اسی طرح ٹلہ جوگیاں کا یہ پہاڑ بھی کوئی عام پہاڑ نہیں تھا، جس کے دماغ میں فتور اور آنکھوں میں مناظر کی ہوس نہ ہو، صرف وہی اس پہاڑ کا رخ نہیں کرتا ہے۔ ہمارے دماغوں میں فتور تھا، اسی لیے ہم کچھ دیر کے لیے ہی سہی جوگیوں کی اس زمین پر آباد ہو گئے تھے جسے بالناتھ نے آباد کیا تھا۔ پورن بھگت نے اس سر زمین کو اپنے خون سے سینچا تھا، رانجھے کا عشق بھی یہی مکمل ہوا اور ہندوستان کا ایسا کوئی راجا ایسا نہیں گزرا جس نے اس ٹلے پر جانا اپنے لیے اعزاز نہ سمجھا ہو۔

قدیم تاریخ چاہے کتنی ہی ہیجان خیز اور ذہن کو جِلا دینے والی ہو، ایک عام سی روٹی کا متبادل نہیں ہو سکتی۔

ہم نے آدھی رات گزر جانے پر اپنے سفر کا آغاز کیا تھا، جہلم پہنچ پر ہلکا پھلکا ناشتہ کیا تھا۔ اب پونے چار گھنٹے کا ٹریک کرنے کے بعد اتنی ہمت بھی نہ تھی کہ ٹلہ پر اک نگاہ ہی کرلیں۔ فوراً سے پہلے ہم نے انگھیٹی پر کوئلے دہکا دیے۔ ہمارا پلان اوپر ٹلہ کی بلندیوں پر بار بی کیو کا تھا جس کا مکمل بندوبست ہم گھر سے ہی کر کے چلے تھے۔

انگیٹھی کی ضرورت نہ پڑی تھی، کیوںکہ ہم نے اینٹوں سے ایک مصنوعی انگیٹھی بنالی تھی۔ بالناتھ کے ٹلہ پر جہاں کبھی جوگی لوگ جوگ کے لیے جایا کرتے تھے، جہاں رانجھے کے عشق کی تکمیل ہوئی تھی، وہاں اب بار بی کیو کی خوشبو ایک افواہ کی مانند پھیل رہی تھی۔ بار بی کیو پر آئل لگانے کے لیے ہم آئل کا پیکٹ گھر ہی بھول آئے تھے مگر اس کا حل ہم نے پودینے کی چٹنی سے نکال لیا تھا۔ اب گرم گرم بار بی کیو پر آئل کی بجائے پودینے کی چٹنی لگ رہی تھی جس نے بار بی کیو کا ذائقہ دوبالا کردیا تھا۔

جیسے اکبر بادشاہ کے دربار میں تان سین جب رانگ چھیڑتا تھا، بس ویسے ہی اکبر بادشاہ کے ہی بنائے گئے تالاب کے کنارے بیٹھا شکیل ہمارا پوٹر اپنی خوب صورت آواز میں ہمیں ”ہیر” سنا رہا تھا۔

ٹلہ جوگیاں پر موجود درختوں میں سے کسی درخت کے نیچے بیٹھ کر بابا گرونانک بھائی مردانہ سے رباب سنا کرتے تھے۔ یہی تالاب کی سیڑھی پر بیٹھ کر رانجھے نے اپنے کان پھڑوائے تھے۔

تاریخ میں تو صرف ایک رانجھا کا نام ملتا ہے مگر وہ نہ تو ٹلہ کے در و دیوار پر ہے اور کہیں درختوں پر مگر ایسے کئی رانجھے ہیں جنھوں نے اپنے اپنے نام ٹلہ کے درودیوار پر لکھ دیے ہیں۔ یہ سستے عاشق ہیں جو بنا محنت کے جوگ لینے کے متمنی ہیں۔ ٹلہ جوگیاں کے تالاب کی یہی کسی سیڑھی پر بیٹھ کر رانجھے نے کان پھڑوائے تھے مگر ان سیڑھیوں پر کائی جمی تھی۔ تالاب کے کسی کونے میں بارش کا پانی بھی موجود تھا۔ اب یہاں فقط بارش کا پانی ہی جمع ہوتا تھا ورنہ پینے کو یہاں ایک بوند بھی میسر نہیں۔

The post ٹلہ جوگیاں کے راہی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3aXVgGB