اسلام آباد: سینٹ انتخابات سے ملکی سیاست میں مچی ہلچل گزرتے وقت کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کمال مہارت سے اپنے سیاسی کارڈ ایک دوسرے کے خلاف استعمال کررہے ہیں۔
حکومت کو گھر بھجوانے کیلئے بننے والا سیاسی جماعتوں کا اتحاد بکھرتا دکھائی دے رہا ہے۔ پی ڈی ایم میں شامل دونوں بڑی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف کھڑی نظر آرہی ہیں۔ پہلے اپوزیشن نے حکومت پر ڈیل کا الزام لگایا اور بلاول بھٹو زرداری نے پارلیمنٹ میں خطاب کے دوران کپتان عمران خان کو سلیکٹڈ کہا۔ اب جب سے پی ڈی ایم کا اتحاد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا ہے تو اب پی ڈی ایم میں شامل دونوں بڑی جماعتوں کے رہنما ایک دوسرے پر ڈیل کے الزامات لگا رہے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے نبیل گبول نے تو اپنی حالیہ گفتگو میں یہ تک دعوی کیا ہے کہ انکے پاس نوازشریف کی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل کے ثبوت موجود ہیں۔ دوسری جانب مسلم لیگ(ن)کی طرف سے اسی قسم کے الزمات پیپلز پارٹی پر لگائے جارہے ہیں۔ بعض تجزیہ کار اپوزیشن کی اس لڑائی کو حکمت عملی قرار دے رہے ہیں انکا خیال ہے کہ اس کا مقصد ملکی سیاست میں تیسری قوت کے طور پر سامنے آنے والی تحریک انصاف کو سیاست سے آوٹ کرکے پھر سے ٹو پارٹی سسٹم کی راہ ہموار کرنا ہے جبکہ کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی پنجاب میں مقبولیت کھو بیٹھی تھی، پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے اسے پنجاب میں مضبوط ہونے میں مدد ملی۔
آصف علی زرداری پنجاب اور بعد ازاں وفاق میں ان ہاوس تبدیلی کی تیاری کر چکے تھے مگر پنجاب میں پیپلز پارٹی کو مستقبل کیلئے خطرہ جانتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ(ن)نے رخ تبدیل کر لیا۔ جس سے دونوں جماعتوں کے درمیان اختلافات بڑھنا شروع ہوگئے۔ کچھ لوگ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ چوہدری نثار بھی اب خاموشی توڑنے جا رہے ہیں اور ان کی سیاست میں واپسی سے سیاسی منظر نامہ تبدیل ہوجائے گا۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ نوازشریف ملک سے باہر ہیں اور شہباز شریف گرفتارہیں۔ شہباز شریف کی رہائی اور لیگی قیادت کی مقدمات سے جان خلاصی کے لیے بیک ڈور رابطے ہو رہے ہیں جن میں چوہدری نثار خاموشی سے کوششیں کر رہے ہیں۔ اگر انہیں کامیابی مل جائے تو پھر چوہدری نثار کی پارٹی میں واپسی بھی ممکن ہوسکتی ہے۔
مسلم لیگ ن کی طرح پاکستان پیپلز پارٹی بھی فوری طور پر اپنے مقدمات سے جان چھڑوانے کے لیے بھاوتاو کر رہی ہے۔ کہیں پر کچھ انڈراسٹینڈنگ ہوچکی ہے۔ جس کا اشارہ قومی احتساب بیورو کی پاکستان پیپلزپارٹی پرہاتھ ہولا رکھو کی پالیسی سے نظر آرہا ہے دوسری طرف ن لیگ کو یہ بھی خطرہ تھا کہ اگر پیپلز پارٹی اسی طرح پنجاب میں فعال رہی تو یہ مسلم لیگ ن کیلئے خطرہ ہوگا اور مستقبل میں پنجاب ن لیگ کے ہاتھوں سے نکل جائے گا اور اگلے عام انتخابات میں پپلز پارٹی،پی ٹی آئی اور ق لیگ بھی اتحادی بن سکتے ہیں یہ وہ تمام خدشات ہیں جو دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان خلیج کی وجہ ہیں۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اپوزیشن کی تقسیم حکومت کو آکیسجن فراہم کرے گی اور عوامی غیض و غضب کے سامنے ڈھال بنے گی ویسے تو جب سے تحریک انصاف کی اقتدار میں آئی اس دن سے کارکردگی کی بجائے اپوزیشن کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہی ہے یہی وجہ ہے کہ پچھلے اڑھائی سال میں بدترین گورننس کے باوجود حکومت کو کسی بڑے دھچکے کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
انسداد دہشت گردی کے جج کے قتل پر وفاقی وزیر فواد چاہدری کا بیان بھی انکی اپنی حکومت کے خلاف کسی چارج شیٹ سے کم نہیں۔ اپنے بیان میں فواد چوہدری حکومت میں ہوتے ہوئے انسداد دہشت گردی کے جج کے قاتلوں کو پکڑ کر کیفرکردار تک پہنچانے کے لئے ریاست سے تمام تر وسائل بروئے کار لانے کا کہہ رہے ہیں۔
اب وہ خودحکومت میں ہیں، کیا انہیں نہیں معلوم یہ انکی حکومت کے ہی کرنے کے کام ہیں، یہ مطالبہ وہ کس سے کر رہے ہیں۔ اسی طرح کی صورتحال حفیظ شیخ کو وزارت خزانہ سے ہٹانے کے معاملہ میں دیکھنے میں آئی کپتان کا بیانیہ کچھ تھا اور اس کی ٹیم کا بیانیہ کچھ اور۔ وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت ترجمانوں کے حالیہ اجلاس میں شہزاد اکبر نے بنیادی اشیائے خور و نوش کے حوالے سے قانون سازی پر بریفنگ دی ، حماد اظہر نے اجلاس کو ملکی معاشی صورتحال پر بریفنگ دی ، وزیراعظم نے گزشتہ ڈھائی سال میں حکومتی کامیابیوں کو اجاگرکرنے کی ہدایت کی۔
وزیراعظم نے حماد اظہر کو معاشی اشاریوں کی سمری ترجمانوں کو دینے کی ہدایت کی ،وفاقی وزیر داخلہ نے کہاکہ آپ نے عوام سے منسلک ہو کر دل جیت لیاآپ جو بھی بات کر رہے تھے، حقیقت پسندانہ بات تھی،لوگ سننا چاہتے ہیں، امید ہے یہ سلسلہ جاری رکھیں گے۔ وزیراعظم عمران خان نے ترجمانوں کو پی ڈی ایم پر بات کرنے سے روکتے ہوئے ہدایت کی کہ اپوزیشن کے بیانات پر جوابات کے بجائے حکومتی کارکردگی اجاگر کریں، شوگر مافیا کے خلاف پہلی دفعہ جامع ایکشن ہو رہا ہے، سٹے بازوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جا رہا ہے۔
رمضان میں عوام کو چینی سستے داموں میسر ہوگی اس اہم اجلاس میں وزیراعظم عمران خان نے سٹے بازوں کے خلاف ون ونڈو آپریشن کا قانون لانے کی منظوری دے دی اور میڈیا سے متعلق امور پر خصوصی کمیٹی بھی قائم کردی جس میں فواد چوہدری، شبلی فراز، فیصل واوڈا، یوسف بیگ مرزا شامل ہیں یہ کمیٹی حکومتی کارکردگی اور بیانیے سے متعلق روزانہ کی بنیاد پر اجلاس کرے گی۔ یہ خبر بھی گردش میں ہے کہ اگلے چند دنوں میں وفاقی کابینہ میں مزید ردوبدل کے امکانات ہیں جس میں فواد چوہدری کو پھر سے وزیر اطلاعات بنانے کی باتیں ہو رہی ہیں جبکہ شیخ رشید کا قلمدان پھر سے بدلنے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں۔
تحریک انصاف کا ریکارڈ ہے کہ اپنی معاشی پالیسیوں، ناقص حکمرانی اور قیمتوں پر کنٹرول میں ناکامی کی وجہ سے جتنی تیزی سے انہوں نے عوامی حمایت کو کھویا ہے، پنجاب میں اس کا سب سے زیادہ فائدہ نواز شریف اور ان کی پارٹی کو ہو رہا ہے، اس وقت ن لیگ اس پوزیشن میں نظر آ رہی ہے کہ وہ نواز شریف کے بغیر بھی پنجاب سے اکثریت حاصل کر سکتی ہے، اس کے لیے نواز شریف کی تصویر ہی کافی ہے۔ اس افسوسناک پیش رفت میں نیب نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے اور رہی سہی کسر حکومتی رہنماوں نے پوری کی ہے۔
جنہوں نے احتساب کے عمل کوسیاسی انتقام کے اپوزیشن کے بیانیہ کو تقویت پہنچائی ہے اب براڈ شیٹ کمیشن رپورٹ بھی حکومت کے اپنے گلے پڑتی معلوم ہو رہی ہے کیونکہ اثاثہ جات ریکور کرنے والی برطانوی فرم براڈشیٹ کے سربراہ کاوے موسوی نے پاکستان میں براڈشیٹ کمیشن کی انکوائری رپورٹ مسترد کرتے ہوئے نہ صرف رپورٹ کو عدلیہ کی تاریخ پر سیاہ دھبہ قرار دے دیا ہے بلکہ کمیشن کے سربراہ عظمت سعید سے معافی مانگنے کا بھی کہا ہے ورنہ کارروائی کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اپنے حالیہ بیان میں کاوے موسوی کا کہنا تھاکہ جسٹس (ر) عظمت نے رپورٹ میں مجھے سزا یافتہ قرار دیا لیکن سول توہین سے کرمنل ریکارڈ نہیں بنتا، جسٹس (ر) عظمت سعید کو اندازہ ہی نہیں کہ کرمنل اورسول توہین میں کیا فرق ہوتا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ جسٹس (ر) عظمت 7 دن میں معافی مانگیں ورنہ قانونی کارروائی شروع کروں گا، جسٹس (ر) عظمت نے معافی نہ مانگی تو لندن ہائیکورٹ میں ان کے خلاف کارروائی ہوگی۔
کاوے موسوی کا مزید کہنا ہے کہ وفاقی وزیرعلی زیدی رابطے میں تھے، جوڈیشل انکوائری میں کسی ایک شخص کا بیان نہیں لیا گیا جبکہ اہم گواہ میں تھا، رپورٹ میں حقائق چھپانے کی کوشش کی اور یہ رپورٹ عدلیہ کی تاریخ پرسیاہ دھبہ ہے، ارکان یا تو اس رپورٹ کی مذمت کریں یا پھرعوام کے سامنے سرجھکا کر چلیںان کا مزید کہنا تھاکہ وزیراعظم عمران خان کو قانون کے مطابق انکوائری کرانی چاہیے تھی، عمران خان اس انکوائری پر یقین کرتے ہیں تو انہیں وزیراعظم کے عہدے پر رہنے کا حق نہیں، نیب کا حصہ رہنے والے شخص سے انکوائری کرانا ہی غلط تھا۔
کاوے موسوی کے مطابق جسٹس (ر) عظمت کو مفادات کے ٹکراؤ کے باعث انکوائری سے معذرت کرلینی چاہیے تھی، عظمت سعید نے قوم کی خدمت نہیں کی بلکہ عدلیہ کے لئے شرمساری کا باعث بنے ہیں، جسٹس (ر)عظمت سے انکوائری کرانا ’لومڑی سے مرغی کی حفاظت کرانے کے مترادف تھا۔
The post دونوں بڑی اپوزیشن جماعتیں ایک مرتبہ پھر مد مقابل appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3rW6YXR