کوئٹہ: بلوچستان کے سرکاری ملازمین نے 25فیصد تنخواہوں میں اضافے سمیت دیگر 19مطالبات کے حق میں دھرنا دے رکھا ہے جس کی وجہ سے سرکاری دفاتر سکولوں اور ہسپتالوں میں کام ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے ۔صوبائی حکومت اور سرکاری ملازمین آمنے سامنے آگئے ہیں اور دونوں اطراف سے فی الحال گزرتے وقت کے ساتھ صورتحال سنگین ہوتی جا رہی ہے۔
سرکاری ملازمین نے صوبائی حکومت کو الٹی میٹم دیا ہے کہ اگر ان کے مطالبات تسلیم کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری نہیں کیا گیا تو وہ پورے صوبے میں پہیہ جام ہڑتال سمیت دیگر انتہائی اقدامات سے گریز نہیں کریں گے۔
سرکاری ملازمین نے ایک دن کیلئے صبح 9سے دوپہر 2بج تک ٹوکن مختلف شاہراہوں پر پہیہ جام کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔ حکومت اور دھرنا دینے والے سرکاری ملازمین کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ہوچکے ہیں جو کہ بامقصد ثابت نہیں ہوئے حکومت نے سرکاری ملازمین کے ان مطالبات کے حوالے سے ایک جائزہ کمیٹی بھی تشکیل دی جس نے اپنی سفارشات مرتب کرکے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کو ارسال کردی ہیں۔ دھرنا دینے والے سرکاری ملازمین کا کہنا ہے کہ کمیٹی نے جو سفارشات کی ہیں اس میں بھی انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔
لہذا وہ ان سفارشات سے لاعلم ہیں اور اسے تسلیم نہیں کرتے۔ ادھر صوبائی حکومت بھی مالی مشکلات کے باعث کوئی بڑا فیصلہ لینے کی پوزیشن میں نہیں۔ گزشتہ دنوں وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال نے اس تمام صورتحال پر ایک ویڈیو پیغام بھی جاری کیا جس میں انہوں نے مالی مشکلات کے ساتھ ساتھ اپنی حکومت کے دو سالہ دور کے دوران کئے گئے اقدامات کا ایک جائزہ بھی پیش کیا۔ اپنے اس پیغام میں وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کاکہنا تھا کہ اب تک 20 ہزار افراد کو سرکاری ملازمتیں دی ہیں، مزید بھی دی جارہی ہیں ، ملازمین کے الاونسز ، تنخواہیں بڑھائی ہیں۔ صوبے کی 10 فیصد آبادی سرکاری ملازم ہے حکومت نے صرف سرکاری ملازمین ہی نہیں بلکہ دیگر شعبوں کے لوگوں کو بھی بہتر روزگار کے مواقع فراہم کئے ہیں۔
بلوچستان پر یہاں آباد تمام لوگوں کا حق ہے۔ اگر ہر سال چھ ماہ بعد یہی رونا روئیں کہ تنخواہیں اور الاونس بڑھیں تو عوام کے لئے کچھ نہیں کر سکیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت ساحلی پٹی ، معدنیات کے شعبے کی بہتری کی طرف جا رہی ہے، اداروں کو بہتر کرکے اخراجات کو کم کررہی ہے ، شفافیت کے لئے اقدامات کئے جا رہے ہیں تاکہ عوام کے پیسے کا درست استعمال ہو۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو سال کے دوران پنشن بل 30 ارب سے بڑھ کر 40 سے 50 ارب ہوگیا اور آئندہ دو تین سال بعد یہ 60 ارب سے تجاوز اور پانچ سال بعد 100سے 120ارب ہوجائیگا ایک وقت ایسا ہوگا کہ حکومت تعلیم ، صحت ، سڑکیں ، ڈیم ، سماجی بہبود ، زمینداری کے لئے کچھ نہیں کریگی اورصرف تنخواہیں پنشن ، الاونس دیتی رہے گی۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی معیشت ، ریونیو ، مالی حالت کو کوئی نقصان ہوتا ہے تو سب سے زیادہ متاثر سرکاری ملازمین ہونگے۔ ہم کیوں ایسے فیصلے کریں جن کا بوجھ صوبہ برداشت نہ کرسکے۔ انہوں نے کہا کہ ملازمین کے مطالبات کا خزانہ پر بوجھ 10 سے 15 ارب روپے آئیگا کل تمام ملازمین کھڑے ہونگے تو ہمیں 20سے 25ارب اور دینے پڑ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنے آپ کو ایسی سمت میں لیکر جا رہے ہیں جس سے لوٹنا بہت مشکل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اس بات کا احساس کرنا چاہیے کہ ہم برسر روزگار ہیں اور اچھی تنخواہ مل رہی ہے۔
میں یہ نہیں کہتا کہ یہ ایسا پیکج ہے جو آج کے دور سے مطابقت رکھتا ہے مگر نجی شعبے کی نسبت سرکاری ملازمین کو بہتر تنخواہیں مل رہی ہیں جن میں ان کا خاندان اپنا گزر بسر کر سکتا ہے ۔ سیکرٹریٹ سمیت دیگر اداروں میں تنخواہیں اچھی ہیں ایسے ایس ایس ٹی ٹیچر ہیں جو ایک سے ڈیڑھ لاکھ تنخواہ لیتے ہیں جبکہ اسی بلوچستان کی ایک بیٹی اور بیٹا جو نجی شعبے میں ٹیچر ہیں انہیں 15 سے 20 ہزار روپے تنخواہ ملتی ہے۔ سرکاری ملازمین اگر اپنا کام درست انداز میں کرتے ہوئے حق ادا کریں تو ہم ایک نہیں دگنا تنخواہیں بڑھائیں گے لیکن ہم سب جانتے ہیں ملازمین کس طرح اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے پہلی بار ملازمین کی بہتری کے لئے اقدامات کئے ہیں۔ صوبے کے ہر ضلع میں جی او آر سسٹم بنا رہے ہیں تاکہ ملازمین کو گھر مل سکیں کوئٹہ میں افسران کے لئے گھر بنا رہے ہیں۔ حکومت نے ہر لحاظ سے اقدامات کئے ہیں جمہوری حکومت کے طور پر ہمیں بھی توقع ہے کہ ملازمین بھی ہمارا ساتھ دیں۔ ملازمین میرے لئے قابل احترام ہیںحکومت جام کمال خان کی ذات ملکیت ،کمپنی ،فیکٹری نہیں وزیراعلیٰ کی حیثیت سے اچھے ذہن سے مستقبل کو مد نظر رکھتے ہوئے سوچوں اور فیصلے کروں۔ اگر سیاسی اسکورننگ کے حوالے سے فیصلے کروں یہ پیسے میری جیب سے نہیں جائیں گے۔ 25کے بجائے 50فیصد الاؤنس دیکر نعرے بھی لگوائے جا سکتے ہیں لیکن کیا یہ مستقل حل ہے؟ اس سے مشکلات بڑھیں گی اور پانچ سال بعد چیزیں ہاتھ سے نکل جائیں گی۔
حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے چیزوں کو اچھی سمت کی طرف لیکر جائیں، سسٹم اور معیشت کر بہتر کریں ،وسائل کا درست استعمال کریں اگر ہم نے کام نہیں کیا تو آنے والی نسلوں کو اچھا بلوچستان اور پاکستان دے کر نہیں جائیں گے ۔میں ملازمین سے التجا کرتا اور امید رکھتا ہوں کہ ہمیں کچھ چیزوں کو ہٹ کر دیکھنا اور سوچنا چاہیے اور صوبے کی ترقی اور کام کی بہتری کی جانب بڑھنا چاہیے اپنے اداروں کو بہتر انداز میں آگے لائیں اساتذہ ، ڈاکٹر ، افسران ، کلرکس سمیت تمام طبقات اپنی ذمہ داریاں پوری کریں تو ہم صوبے کا ریونیو بڑھا سکتے ہیں۔
سیاسی مبصرین کے مطابق بلا شبہ بلوچستان کی معاشی حالت اچھی نہیں۔ وسائل کم اور مسائل زیادہ ہیں۔ ملازمین کو بھی اس صورتحال کا تدارک کرنا چاہئے اور حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ درمیان کا راستہ تلاش کرکے کفایت شعاری کو اپنائے، اپنے غیر ترقیاتی اخراجات کو کم کرے۔ ہڑتالوں دھرنوں اور احتجاج جس سے عوام کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ذہنی کوفت سے بھی عوام دوچار ہوتے ہیں اور عرصہ دراز سے یہ طرز عمل بجٹ قریب آنے پر سرکاری ملازمین کی طرف سے دیکھنے کو ملتا ہے جس میں بعض اپوزیشن جماعتیں بھی سیاسی سکور کرنے ان کے شانہ بشانہ آجاتی ہیں اور جب یہ جماعتیں اقتدار میں ہوتی ہیں تو ان کا رویہ ان ملازمین کے حوالے سے مخالفانہ ہوتا ہے۔
اس طرز عمل میں بھی تبدیلی کی ضرورت ہے اور سیاسی سکورنگ کے بجائے سب کو خواہ وہ سرکاری ملازمین ہوں یا سیاسی جماعتیں اس صوبے اور اسکے عوام کے مفاد کو عزیز رکھنا چاہئے۔ ان سیاسی مبصرین کے مطابق حکومت اور سرکاری ملازمین کو مل بیٹھ کر اس مسئلے کا حل صوبے کی مالی مشکلات کو مد نظر رکھ کر عوام اور پسماندہ صوبے کے بہتر مفاد میں نکالنے کی ضرورت ہے جس میں اپوزیشن جماعتوں کو بھی اپنا کلیدی اور مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔
The post سرکاری ملازمین کا احتجاج: درمیانی راستہ اختیار کرنے کی ضرورت appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/2PzaMBm