لاہور: اقتداراور اختیار،میوزیکل چیئر کی مانند ہوتے ہیں ،کبھی ایک کے پاس اور کبھی کسی دوسرے کے پاس۔مینار پاکستان جلسے کے بعدتحریک انصاف میں شامل ہونے والے جہانگیر ترین کو 2020 ء کے آغاز تک تحریک انصاف میں عمران خان کے بعد سب سے طاقتور اور بااختیار شخصیت تسلیم کیا جاتا تھا، تحریک انصاف کے عام کارکن سے لیکر مرکزی رہنما تک ہر ایک کو یقین تھا کہ جہانگیر ترین نے جو کہہ دیا ،عمران خان اس کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کریں گے۔
2018 ء کے انتخابات کے لئے ٹکٹوں کی تقسیم بالخصوص الیکٹ ایبلز کی شمولیت میں جہانگیر ترین نے فیصلہ کن کردار نبھایا تھا،حکومت کی تشکیل کے بعدجب بھی کوئی اتحادی جماعت ناراض ہوتی تو جہانگیر ترین کو اسے منانے کا ٹاسک دیا جاتا، وزیرا عظم نے زراعت، لائیو سٹاک اور خوراک کے تمام سیکٹر ترین کے سپرد کر دیئے تھے اور اسی بنیاد پر جہانگیر ترین نے 309 ارب روپے مالیت کا ’’وزیر اعظم زرعی ایمرجنسی منصوبہ‘‘ تیار کیا تھا جو ترین کے غیر فعال ہوتے ہی منجمد ہو چکا ہے ۔
تحریک انصاف کو اقتدار میں لانے کیلئے اہم ترین کردار نبھانے والے جہانگیر ترین ،اس وقت اپنے لئے انصاف مانگ رہے ہیںاور بادی النظر میں یوں معلوم ہوتا ہے کہ مستقبل قریب میں جہانگیر ترین گروپ سیاسی میدان میں تحریک انصاف کے مدمقابل ہوگا۔11 اراکین قومی اسمبلی اور 22 اراکین پنجاب اسمبلی نے جہانگیر ترین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اپنا الگ گروپ تشکیل دے دیا ہے جسے ترین گروپ کے نام سے پکارا جا رہا ہے۔ گزشتہ روز ان تمام اراکین اسمبلی نے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کر کے اپنے تحفظات سے آگاہ کردیا ہے۔
انہوں نے وزیر اعظم کو جہانگیر ترین کے خلاف درج ایف آئی اے مقدمات کے حوالے سے جہانگیر ترین کے موقف سے بھی آگاہ کیا ہے جبکہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کون سے افراد ایف آئی اے تحقیقات پر اثر انداز ہو کر جہانگیر ترین کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں ۔وزیر اعظم اس ملاقات کے بعد کیا حکمت عملی اختیار کرتے ہیں یہ تو واضح نہیں لیکن ایک بات طے ہے کہ ایف آئی اے مقدمات اور تحقیقات پر اثر انداز نہیں ہوں گے۔
عمران خان نے سیاست کے آغاز سے لیکر آج تک ایک ہی بیانیہ پیش کیا ہے کہ وہ غیر جانبدار اور یکساں احتساب کے حامی ہیںاور امیر و غریب کیلئے ایک ہی قانون ہونا چاہئے۔ جہانگیر ترین اور عمران خان کے درمیان غلط فہمیوں کا آغاز 2019 ء میں اس وقت ہوا جب ایوان وزیر اعظم کے ایک سینئر ترین بیوروکریٹ نے حکومتی معاملات میں جہانگیر ترین کی مداخلت پر اعتراض کرنا شروع کیا اور پھر ایک دن وزیر اعظم کی موجودگی میں جہانگیر ترین سے کہا کہ ایک وقت میں دو وزیر اعظم نہیں ہو سکتے۔
جہانگیر ترین کے حامیوں کے مطابق اس بیوروکریٹ کے ساتھ اینٹی ترین افراد شامل ہوتے گئے اور یہ ایک مضبوط گروپ بن گیا جس میں اعظم خان سمیت اسد عمر، شاہ محمود قریشی، زلفی بخاری ،علی زیدی ، شہزاد اکبر سمیت کئی اہم اراکین حکومت شامل ہیں۔ اسی دوران ایک سویلین خفیہ ادارے نے جہانگیر ترین کی فیملی کی ایک ریکارڈنگ وزیر اعظم کو پیش کی جس میں مبینہ طور پر ترین فیملی کی خواتین وزیر اعظم کی اہلیہ بشری بی بی کے بارے سخت الفاظ میں گفتگو کر رہی تھیں ۔
سیاسی حلقوں کے مطابق اسی ریکارڈنگ سے جہانگیر ترین کے خلاف ایک باضابطہ محاذ وجود میں آیا جسے بنی گالہ کی آشیر باد بھی حاصل تھی ۔دھیرے دھیرے جہانگیر ترین کمزور ہو نے لگے ،پنجاب میں ترین کی طاقت سمجھے جانے والے عبدالعلیم خان اور چوہدری سرور بھی ناراض ہو کر ترین گروپ کو چھوڑ کر چلے گئے ۔جہانگیر ترین نے حالات کو بھانپتے ہوئے کچھ عرصہ کیلئے بیرون ملک قیام کرنا پسند کیا لیکن 7 ماہ بعد جب مقتدر حلقوں نے انہیں واپسی کیلئے گرین سگنل دیا تو ترین واپس آ گئے لیکن اینٹی ترین لابی بھی تازہ دم ہو کر میدا ن میں اتر پڑی اور اس نے شوگر سکینڈل کی آڑ میں ترین کے خلاف کارروائیوں کی حمایت کر کے وزیر اعظم اور ترین کے درمیان کم ہوتے فاصلوں کو ناقابل عبور خلیج میں تبدیل کردیا ہے۔
جہانگیر ترین کے ساتھ جس تعداد میں اراکین اسمبلی موجود ہیں ،وہ اپوزیشن کے ساتھ مل کر وفاق اور پنجاب میں حکومت گراسکتے ہیں۔ بعض با خبر حلقوں کا دعوی ہے کہ جہانگیر ترین از خود میدان میں نہیں اترے اور نہ ہی یہ تمام اراکین اسمبلی بنا کسی اشارے کے کھل کر سامنے آئے ہیں، محسوس ہوتا ہے کہ تبدیلی سرکار والوں کیلئے بھی کہیں تبدیلی پروگرام تیار ہو رہا ہے۔
ترین گروپ شاید کسی دوسری سیاسی جماعت میں شامل نہ ہو لیکن اپنی الگ حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے وہ ق لیگ، ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے ساتھ مستقبل کی سیاست میںایک پیج پر آ سکتا ہے ۔عمران خان کو اس پیچیدہ صورتحال کا بخوبی اندازہ ہے۔
اسی لئے ابھی تک جہانگیر ترین یا ان کے کسی فیملی ممبر کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے اور فی الوقت معاملات مقدمات کی تفتیش تک محدود رکھے گئے ہیں لیکن مستقبل میں ٹکراو کی صورتحال بنتی ہے تو حکومت بھی تمام آپشن استعمال کرے گی۔ فواد چوہدری اور چوہدری غلام سرور اگر مصالحت کیلئے کوشاں ہیں تو وہیں شاہ محمود قریشی اور علی امین گنڈا پور نے کھل کر ترین کی مخالفت کرنا شروع کردی ہے۔ ممکن ہے کہ اراکین اسمبلی کے ایک بڑے گروپ کی وجہ سے جہانگیر ترین کو عارضی ریلیف مل جائے اور نئے مقدمات درج نہ ہوں اور نہ ہی نئی تحقیقات کی جائیں اور ترین کو موجودہ مقدمات کا سامنا کرنے دیا جائے لیکن یہ بہت واضح ہے کہ جہانگیر ترین اورعمران خان ایک پیج پر نہیں رہے اور ان کی دوستی ختم ہو چکی ہے، صرف رسمی اعلان ہونا باقی ہے ۔
جہانگیر ترین کی تحریک انصاف کیلئے خدمات اور قربانیوں کا موازنہ کسی دوسرے رہنما سے نہیں کیا جا سکتا، تحریک انصاف کی تنظیم سازی سے لیکر انتخابی منصوبہ بندی تک ہر معاملے میں ترین نے عمران خان کا بھرپور ساتھ دیا،ن لیگ دور حکومت میں ان کے بزنس کو نشانہ بنایا گیا، وفاقی وصوبائی اداروں کے ذریعے کھوج لگانے کی کوشش کی گئی کہ ترین کے خلاف کچھ نکل آئے لیکن کامیابی نہ ہوئی، میاں نواز شریف کی نا اہلی کو بیلنس کرنے کیلئے جہانگیر ترین کو نا اہل کیا گیا لیکن ترین نے کبھی شکوہ شکایت نہیں کی ۔
آج اگر وہ ناراض ہو کر کچھ کہہ رہے ہیں تو اسکا مطلب ہے کہ وہ اپنے دوست کے برتاوسے دل گرفتہ ہیں۔جہانگیر ترین کو یقین ہے کہ ان کے خلاف ہونے والی کارروائیوں بارے کپتان کو علم ہے اور شاید رضامندی بھی شامل ہو لیکن ابھی تک جہانگیر ترین براہ راست عمران خان کو مورد الزام نہیں ٹھہرا رہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی جہانگیر ترین گروپ سے ملاقات کا نتیجہ جانچنے کیلئے کچھ روز انتظار کرنا ہوگا ،اگر ایف آئی اے تحقیقات کی رفتار سست ہوجاتی ہے تو یہی اخذ کیا جائے گا کہ ’’مفاہمت‘‘ غالب آچکی ہے لیکن بادی النظر میں ایسا ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔عید کے بعد ملکی سیاست بھی گرم ہو گی اور ترین گروپ کی سرگرمیاں بھی اپنا رخ بدلیں گی اور اس وقت ہی یہ معلوم ہوگا کہ تبدیلی کی ہوائیں کس سمت کو جا رہی ہیں۔
اپوزیشن جماعتیں بھی فی الوقت جہانگیر ترین اور ان کے ہم خیال اراکین اسمبلی کی سرگرمیوں کا بغور جائزہ لے رہی ہیں اور سب سے اہم یہ کہ اپوزیشن یہ دیکھنا چاہتی ہے کہ وزیر اعظم کی ترین گروپ سے ملاقات کے بعد کیا صورتحال بنتی ہے۔ وزیر اعظم نے ترین گروپ کے معاملات کو ہینڈل کرنے کیلئے گورنر چوہدری محمد سرور اور سینیٹر علی ظفر کو سپیشل ٹاسک دیا ہے، چوہدری سرور جوڑ توڑ کے ماہر ہیں لیکن ان کی جہانگیر ترین بارے رائے سے تمام حلقے واقف ہیں۔
عمران خان کو اس معاملے میں لاپرواہی یا یکطرفہ رائے سازی سے اجتناب کرنا ہوگا ،ناراضگیاں اور غلط فہمیاں اپنی جگہ لیکن جہانگیر ترین کی قربانیوں کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ ایک کہاوت ہے کہ تعلق قائم رکھنا ممکن نہ رہے تو پھر کم ازکم ماضی کے تعلق کا بھرم ضرور قائم رکھنا چاہئے۔
The post عمران خان اور جہانگیر ترین کے درمیان خلیج ناقابل عبور بن چکی ہے ؟ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3gKQwb2