لفظ پاکستان کی کہانی - KHB Point

کے-ایچ-بی پوائنٹ (ملکی و غیر ملکی تمام خبریں فراہم کرنے والاایک مکمل نیوزپلیٹ فام نیٹ ورک)

تازہ ترین

لفظ پاکستان کی کہانی

پاکستان کی اصلاح اس تاریخی تحریک سے وابستہ ہے جس کے نتیجے کے طور پر مسلمانوں کی سب سے بڑی حکومت سرکاری طو پاکستان کے نام سے قائم ہوئی۔

مارچ 1940ء میں کل ہند مسلم لیگ نے لاہور کے مقام پر جو مشہور قرار داد منظور کی تھی اسے قرار داد پاکستان بھی کہا جاتاہے، اس وقت یہ نام ’’پاک ستان‘‘ اور پھر پاکستان بن گیا۔

٭ معنی : لفظی طور پر پاکستان کے معنی ہیں ’’پاکی کی زمین‘‘ یہ دو الفاظ مشتمل ہے ’’پاک اور ستان ‘‘ انسائیکلوپیڈیا آف اسلام کی رو سے لفظ ’’پاک‘‘ کا دوسری زبانوں میں ترجمہ ممکن نہیں، اس لیے کہ یہ لفظ ان ساری چیزوں کا نمائندہ ہے جو مسلم ثقافت میں مقدس اور قابل قدر ہیں۔ پلاٹ کی ہندوستانی ڈکشنری میں پاک کے معنی ’’صاف‘‘ واضح ‘ پاکیزہ‘ مقدس‘ بے داغ ‘ معصوم‘ ستھرا‘‘ بیان کیے گئے ہیں اور ’’ستان ‘‘کے معنی (پلاٹ کی ڈکشنری کی رو سے ) جگہ ‘مقام‘ مرکز‘ اور وقوع ہیں، مثلاً بو ستان کے معنی ایسا مقام جہاں خوشبو ہو‘ یعنی باغ۔ گلستان:۔ جہاں گلاب کے پھول ہوں ریگستان: جہاں ریت ہو۔

٭ ابتدا : پاکستان کے کچھ نکتہ چینوں کا خیال ہے کہ یہ اصطلاح ‘ ہندوستان (یعنی ہندو کا مرکز) کے مقابلے میں بنائی گئی ہے۔ مولانا آزاد نے بھی اس کا غلط مطلب لیا اور کہا کہ پاکستان کی اصطلاح ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ گویا دنیا کے کچھ حصے پاکیزہ اور باقی ناپاک ہیں۔ حالاںکہ اس طرح کی تقسیم قطعی غیراسلامی ہے، لیکن یہ الزامات قطعی بے بنیاد ہیں نوٹس اینڈ کویئریز کے جوائنٹ ایڈیٹر مسٹر آر۔ڈبلیو۔ مس برومر‘ مس برگس‘ ڈاکٹر پرسی ول اسپیئر اور مسٹر ول بورن نے اس سلسلے میں جو تحقیقات کی ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لفظ چوہدری رحمت علی کا پیش کردہ ہے۔ یہ ان صوبوں کے ناموں کے ابتدائی حروف سے مشتق ہے جن پر پاکستان کو مشتمل ہونا تھا۔ پ سے پنجاب‘ الف سے افغانی صوبہ (یعنی شمال مغربی سرحدی صوبہ) ک سے کشمیر س سے سندھ بلوچستان کا تاب کچھ کا کہنا ہے’’ستان‘‘ بلوچستان اور بنگستان (یعنی بنگال) کا مخفف ہے، لیکن اس خیال کی کوئی بنیاد نظر نہیں آتی۔ ڈاکٹر سی ٹی اونینز نے سر رچرڈ برن کی فراہم کردہ معلوم کی بنا پر مختصر آکسفورڈ ڈکشنری (1955) میں پاکستان کے معنی یہ دیے ہیں ’’یہ پنجاب‘ افغانی سرحدی صوبہ‘ کشمیر‘ سندھ کے ابتدائی حروف اور بلوچستان کے آخری تین حروف پر مشتمل ہے، کیوںکہ بھارت کے یہی علاقے تھے جن میں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔‘‘ ایران کو بریکٹ میں رکھا گیا ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ اس کی شمولیت مشتبہ ہے سر سکندر حیات نے بھی کہا تھا ’’مجھے اچھی طرح نہیں معلوم کہ ایران کو بھی شامل کیا گیا ہے یا نہیں۔‘‘ یہ شبہہ بالکل درست ہے، اس لیے کہ ابتدا میں ایران کی شمولیت پیش نظر نہیں تھی، آگے چل کر البتہ چودھری رحمت علی نے تخارستان‘ کچھ اور کاٹھیاواڑ کے بارے میں ضمنی اشارے کیے ہیں۔

٭ Now or Never : جنوری1933ء میں ایمونائل کالج کیمبرج میں چودہری رحمت علی نے ایک اعلامیہ لکھا جس کا عنوان تھا ’’اب یا کبھی نہیں۔‘‘ اس اعلامیے کو نمائندہ بنانے کے لیے انہوں نے ایسے لوگوں کو تلاش کیا جو اس پر دستخط کر سکتے تھے۔ ان کے کہنے کے مطابق ’’یہ بڑی دقت طلب مہم ثابت ہوئی، اس لیے ایک مہینے کی مسلسل کوششوں کے بعد صرف تین طالب علم ملے جنہوں نے اس اعلامیے کو پڑھنے اور بحث و تمحیص کے بعد اس پر دستخط کرنے اور اس کی حمایت کا وعدہ کیا۔ چناںچہ اس تینوں کے دستخطوں کے ساتھ میں نے اپنے کیمبرج کے کے پتے سے 28 جنوری 33ء کو یہ اعلامیہ جاری کیا۔ دوسرے تین دستخط کرنے والوں کے نام یہ تھے۔۔۔ خان محمد اسلم خان خٹک (آکسفورڈ) صاحبزادہ شیخ محمد صادق (انز کورٹ لندن) اور خان عنایت اللہ خان، جو اس وقت امراض حیوانات کے کالج میں زیرتعلیم تھے۔

یہ اعلامیہ چار سائیکلواسٹائل صفحوں پر مشتمل تھا، لیکن اسی سال میسرز فوانسٹر اینڈ جیگ کیمبرج سے چھپواکر پاکستان نیشنل موومنٹ 16۔ ماؤنٹیگ روڈ کیمبرج کی طرف سے شائع کردیا گیا۔ 34ء اور اپر یل 38ء میں ہفت روزہ اسلام لاہور نے اسے پھر چھاپا۔

اس پمفلٹ میں بھی پاکستان کے نام کے بارے میں اشارہ موجود ہے۔ ہندو ستان کی تاریخ کے اس نازک لمحے میں جب کہ برطانوی اور ہندوستانی مندوبین برصغیر کے لیے ایک وفاقی دستور کی سنگ بنیاد رکھ رہے ہیں۔ ہم آپ سے اپنے مشترکہ ورثے اور ’’پاک ستان‘‘ یعنی ہندوستان کے پانچ شمالی صوبے پنجاب‘ افغان‘ صوبہ (شمال مغربی سرحدی صوبہ) کشمیر‘ سندھ اور بلوچستان میں رہنے والے تین کروڑ مسلمانوں کی طرف سے اپیل کرتے ہیں کہ ہمیں اس سیاسی قتل اور قومی تباہی سے بچایا جائے۔،،

چودہری رحمت علی نے اس پمفلٹ کے ساتھ تحریر کردہ خط میں کہا تھا ’’میں جو اپیل ساتھ بھیج رہا ہوں وہ پاک ستان کے تین کروڑ مسلمانوں کی طرف سے ہے۔ اس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ بھارت کے دوسرے صوبوں کے افراد کے مقابلے میں ان کی جداگانہ حیثیت کو تسلیم کیا جائے اور پاکستان کو جداگانہ وفاقی دستور دیا جائے جو اس کے مذہبی سماجی اور تاریخی پس منظر مبنی ہو ۔‘‘

ابھی تک ’’ پاک ستان‘‘ کے الفاظ استعمال کیے گئے تھے، پاکستان کا لفظ پہلے بار اس خط کے دوسری اشاعت میں ملتا ہے جس میں چودہری رحمت علی کے دستخطوں کے نیچے لکھا ہو تھا ’’بانی پاکستان نیشنل موومنٹ۔‘‘ خالدہ ادیب خانم سے ایک انٹرویو میں بھی چودہری رحمت علی اس بات کی تصدیق کی کہ یہ نام پانچ صوبوں کے نام سے مشتق ہے ’’مسلمانوں نے پہلے پہل پاکستان کو اپنا مرکز بنایا۔ اس سے میری مراد ہے پنجاب، شمال مغربی سرحدی صوبہ، بلوچستان۔ میں نے پاکستان کا نام ان ہی صوبوں کے ناموں کو ملا کر بنایا ہے۔‘‘

٭ہندوستانی قومیت : 7دسمبر 38ء کو چودہری رحمت علی نے ٹائمز کو جو خط لکھا اس میں بھی یہ بیان دہرایا۔ اسی طرح 40ء میں انہوں نے ایک پمفلٹ شائع کیا جس کا عنوان ’’ملت اسلامیہ اور ہندوستانیت کی لعنت‘‘ تھا۔ اس میں چودہری صاحب نے لکھا ’’حقیقت یہ ہے کہ یہی وہ احساس تھا جس کی بنا پر 1933ء میں میں شمال مغرب کے پانچ صوبوں کے لیے پاکستان کا نام تجویز کیا۔‘‘ اس احساس کے بار ے میں ان کی مزید تشریح بہت دل چسپ ہے اور ہم اسے بہ تما م وکمال پیش کر رہے ہیں۔

’’اپنی جوانی کے زمانے میں مجھے اپنی قوم اور ملک کے بارے میں تین چیزیں بالکل واضح معلوم ہونے لگی تھیں۔ پہلی یہ کہ ہندوستان کے لیے انڈس کی وادی یا وادیٔ سندھ اور شمال مغربی ہندوستان کے لیے شمال مغربی ہندوستان کے نام فرسودہ اور خطرناک ہیں۔ یہ فرسودہ اس لیے ہیں کہ یہ ایک ایسے تصور پر مبنی ہے جس کی غلطی ساتویں صدی میں واشگاف ہوچکی تھی۔ اس کے ساتھ خطرناک بھی ہے اس لیے کہ اس نے اس ملک کو ہندوستان یعنی ہندوؤں کی سر زمین بنادیا۔ حالاںکہ ہم بارہ صدیوں پہلے اس مذہب کو ترک کرچکے۔ اس لیے میرے ذہن میں یہ آیا کہ یہ نام ہمارے بدترین دشمن ہیں، کیوںکہ ان کے ذریعے زمانہ قدیم کی روحیں اور معزول شدہ قیادتیں ہم پر بدستور مسلط ہیں اور ہماری قومیت کی جڑیں کھوکھلی کر رہی ہیں۔

دوسری بات یہ کہ جد ید دنیا میں اپنی قومیت کو تسلیم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہماری قوم اور ہمارے وطن کا ایک نام ہو، ایک ایسا نام جس کے ذریعے ہماری ہندوستانی اور ایشیائی قومیت کو متحد کیا جاسکے۔ اس لیے کہ میرے نزدیک یہ اتحاد لازمی بھی ہے اور ناگزیر بھی۔ کسی نام کے نہ ہونے کی وجہ سے پہلے بھی ہمارے مقاصد کو نقصان پہنچا ہے اور آئندہ تو یہ ہمارے لیے زبردست ترین خطرہ بن سکتا ہے۔ اس لیے کہ دوسری چیزوں کے علاوہ یہ کاسٹ ہندوؤں اور دوسروں کے دل میں یہ ولولہ ابھارے گا کہ ہندوستان میں اسپین کی تاریخ دہرائیں اور ہندوستانی مرکزیت کے گرد جمع کرکے ہماری ایشیائی قومیت یعنی ایران‘ افغانستان اور تخارستان سے ہمارے تعلقات کو ختم کر دیں۔

تیسری بات یہ کہ ہم جو ہندوستانی اور تخارستان سے اور ایشیائی وطنوں میں بکھرے ہوئے ہیں اگر ایک نئے نام کے تحت متحد نہ ہوئے تو ہم میں ایشیا اور ہندوستان میں رہنے والا کوئی بھی باقی نہیں بچے گا۔

ان حقائق کے ادراک نے مجھ میں ایک ایسا جذبہ پیدا کیا کہ میں ایک ایسا نام تلا ش کروں جو ہماری روح کی غمازی کرے اور ہماری تاریخ اور ہمارے آرزوؤں کی علامت بن سکے۔ ایک ایسا نام جو ہندوستانیوں کی ہندوستانی قومیت سے الگ کرکے اسلامی قومیت سے جوڑ دے اور جو ہندوستان کے ساتھ ہمارے مصنوعی قومی اور علاقائی تعلق کی بجائے ایران‘ افغانستان اور تخارستان سے ہمارے صحیح اسلامی‘ قومی اور علاقائی تعلقات پیدا کر دے اور اس طرح ہم ہندوستانیت اور برطانوی سام راج دونوں کے چیلینج کا جواب دے سکیں‘ اور ایران افغانستان اور تخارستان کے بھائیوں سے تعلق پیدا کر سکیں۔

لہٰذا یہ ایک ایسا نام ہونا چاہیے تھا جو ہماری زندگی کے تمام روحانی‘ اخلاقی‘ تاریخی‘ جغرافیائی‘ ماوراجغرافیائی اور ماورا قومی اور اخوتی عوامل کی غمازی کر سکے۔ ہمارے ملی مقاصد پورے ہو سکیں۔ بہ الفاظ دیگر اس نام میں عوام کے لیے زبردست اپیل اور کشش ہونی چاہیے‘ جو ان کے دل میں گھر کرکے انہیں اس ملی تحریک کی حمایت پر آمادہ کر سکے۔ کیوںکہ اس کے بغیر وہ زبردست تحریک پیدا نہیں ہوسکتی جو ہماری آزادی کی ضامن ہوگی اور جس کے نتیجے کے طور پر بندوستان اور ایشیا میں زبردست علاقائی تبدیلیاں رونما ہوں گی اور اس ملک میں ہمارے ملی مقاصد ہورہے ہوسکیں گے۔ ان چیزوں کے پیش نظر مجھ سے زیادہ یہ بات کون جانتا ہے کہ یہ بڑا زبردست کام تھا ایک ایسا کام جس پر ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے‘ اور ایک ایسا کام جسے لازماً کیا جانا چاہیے۔

کئی سال پہلے میں نے یہ کام شروع کیا اور اس میں اپنی پوری صلاحیتیں لگادیں۔ میں نے اس کی خاطر اپنی پڑھائی کا ہرج کیا اور اس بات سے تو قطعی بیگانہ ہوکر کہ واپس اپنے ملک جا کر مجھے کوئی اچھا روزگار بھی مل سکے گا یا نہیں‘ میں نے اپنا تن من دھن جھونک دیا۔ میں نے اس کی خاطر چِلّے کیے خدا سے راہ نمائی کی دعا مانگی اور اس کی راہ نمائی پر بھروسا رکھتے ہوئے اس کام کے لیے ہر ممکن راستہ اختیار کیا۔ یہاں تک کہ خدا نے مجھے راہ نمائی دی اور میرے ذہن میں پاکستان اور پلان کے نام دیے جواب ہماری قوم کے لیے روح رواں بن چلے ہیں۔‘‘

یہ تو تھا پاکستان کے نام کے بارے میں اب اس نام کے عناصر کا ذکر سنیے:۔

’’پاکستان فارسی اور اردو دونوں کا لفظ اور یہ ان صوبوں کے ناموں کے ابتدائی حروف پر مشتمل ہے جو پاکستان میں شامل ہوں گے، یعنی پنجاب‘ افغانیہ (شمال مغربی سرحدی صوبہ) کشمیر‘ ایران‘ سندھ (بشمول کچھ اور کاٹھیاواڑ)‘ تخارستان‘ افغانستان اور بلوچستان۔ اس کا مطلب ہے پاک باز افراد کی سر زمین‘ ایسے افراد کا مرکز جو روحانی طور پر صاف ستھرے ہوں۔ یہ ہماری قوم کے مذہبی عقائد اور نسلی آغاز کی مظہر اور ہمارے اصل وطن کے علاقائی عناصر کی نمائندہ ہے۔ اس کے علاوہ اس کا کوئی اور مطلب اور تعبیر درست نہیں۔ جن لوگوں نے اس کی کو ئی اور تعبیر کی ہے اس کا سبب یا تو ان کا شوق اجتہاد ہے یا اس کی ابتداء او ر تشکیل کے بارے میں لاعلمی‘‘

٭قرارداد لاہور : 1940ء سے لفظ پاکستان قرارداد لاہور سے متعلق ہوگیا۔ قائداعظم نے اس سلسلے میں خود وضاحت کی تھی۔

’’میں اب پاکستان کے بارے میں ایک اور چیز کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ آج کل ایک پروپیگنڈا شروع کردیا گیا ہے جو میرے نزدیک انتہائی شرارت پسندانہ بلکہ سب سے زیادہ شرارت پسندانہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مسٹر جناح ان علاقوں کو جو شمال مغرب یا مشرق میں ہیں کو پاکستان تصور کرتے ہیں اور باقی کو ناپاک سمجھتے ہیں۔ میں نے یہ بات کئی حلقوں سے سنی اور ششدر رہ گیا۔ آپ جانتے ہیں کہ جھوٹا پروپیگنڈا کیا کچھ نہیں کرسکتا۔ مجھے یقین ہے کہ آب اس بات کی گوہی دیں گے کہ جب ہم نے قرارداد لاہور کی منظوری دی تھی تو اس میں پاکستان کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا تھا۔ یہ الفاظ کس نے ہم سے منسوب کیا؟

(جواب ہندوؤں نے) تو پھر مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجیے کہ یہ ان کی غلطی ہے۔ انہوں نے اس قرارداد کی اس بنا پر مخالفت شروع کردی کہ یہ پاکستان سے متعلق ہے۔ وہ فی الحقیقت مسلمانوں کی تحریک سے بے خبر تھے۔ انہوں نے یہ لفظ ہم پر ٹھونس دیا جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ کُتے کو برا نام دو اور پھر اسے پھانسی دے دو۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان کا لفظ ہندو اور برطانوی پریس نے ہمیں دیا ہے‘ ہماری قرارداد کا ایک عرصے تک نام قرارداد لاہور تھا۔ میں اپنے برطانوی اور ہندو دوستوں سے کہتا ہوں کہ آپ کا شکریہ کہ آ پ نے ہیں ایک مناسب لفظ دیا۔‘‘

’’اس لفظ پاکستان کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟ یہ قائداعظم یا مسلم لیگ نے نہیں گھڑا بلکہ 1929اور1930ء کے درمیان لندن میں کچھ نوجوانوں نے جو چاہتے تھے کہ شمال مغرب کا کچھ حصہ بقیہ بھارت سے جدا ہوجائے، یہ نام ایجاد کیا۔ انہوں نے پنجاب سے ’’پ‘‘، افغانیہ سے ’’الف‘‘، کشمیر سے ’’ک‘‘، سندھ سے ’’س‘‘ اور بلوچستان سے ’’تان‘‘ لے کر ایک نیا لفظ بنالیا۔ اس وقت اس لفظ کے خواہ کچھ بھی معنی ہوں لیکن ہر مہذب ملک میں نئے لفظ ایجاد ہوتے ہیں۔ اب پاکستان کا مطلب قرارداد لاہور ہو چکا ہے۔ ہمیں ایک نئے لفظ کی تلاش تھی اور وہ ہمیں مل گیا اور اب ہم اسے قرارداد لاہور کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔‘‘ اس کے علاوہ 1944ء میں گاندھی‘ جناح مراسلت میں اس لفظ کی ابتدا اور اس کے حاصل کردہ معنوں پر اشارہ ملتا ہے۔ 15ستمبر 44ء کے خط میں مسٹر گاندھی نے پوچھا ’’پاکستان کا لفظ قرارداد میں موجود نہیں‘ کیا اس کے معنی وہی ہیں جو ابتدا میں تھے؟ یعنی پنجاب‘ افغانستان‘ کشمیر‘ سندھ‘ بلوچستان جن کے حروف سے یہ نام بنا تھا؟ قائداعظم نے17ستمبر1944ء کے خط میں جواب دیا ’’ درست‘ پاکستان کا لفظ اس قرارداد میں موجود نہیں اور اس کے معنی بھی وہ نہیں جو ابتدا میں تھے۔ اب اس لفظ کے معنی قرارداد لاہور کے ہیں۔‘‘

٭ اسلامی جمہوریہ پاکستان : آزادی ہند ایکٹ 1947ء کی رو سے ہندوستان کو دو ریا ستوں میں تقسیم کر دیا گیا اور اس کی رو سے اس علاقوں کو جن مین مسلمانوں کی اکثریت ہے پاکستان کہا جائے گا۔

’’دفعہ ایک کی رو سے 15اگست1947 سے دو ریاستیں بھارت اور پاکستان قائم ہوں گی۔ دوسرے نام پیش کرنا بھی آسان ہے، لیکن یہ نام چوںکہ متذکرہ بالا پارٹیوں کو پسند رہے ہیں اور انہیں یہ بھی اختیار ہے کہ ریاستوںکہ قائم ہوجانے کے بعد انہیں تبدیل کرسکیں، لہٰذا یہ مناسب نہیں معلوم ہوتا کہ اس بل میں ترمیم کی جائے یا اس نکتے پر مزید وقت صرف کیا جائے۔‘‘

پاکستان کے 1956ء کے دستور کی رو سے پاکستان کا نام اسلامیہ جمہوریہ پاکستان رکھا گیا تھا۔ دستور کے خاتمے کے بعد جو قوانین 10اکتوبر 1958ء کو نافذ کیے گئے۔ ان کی رو سے مملکت کا نام پاکستان رکھا گیا۔8 جون62ء کو جو دستور بنایا گیا اس کی رو سے مملکت کانام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا گیا۔

The post لفظ پاکستان کی کہانی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/2P7pKhb