پاکستان کی آبادی کا نصف سے زائد حصہ خواتین پر مشتمل ہے، جو مختلف شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دیتے ہوئے ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کے فعال کردار میں اضافہ ہو رہا ہے۔
دوسری طرف ہمارے ہاں خواتین کو بے شمار مسائل کا سامنا بھی ہے، جن کے ریاستی اور معاشرتی سطح پر حل تک ان کی صلاحیتوں سے مکمل طور پر استفادہ نہیں کیا جا سکتا۔ ملکی ترقی عورتوں کی بھرپور شمولیت اور ان کے حقوق کا تحفظ کیے بغیر ناممکن ہے۔ عورتوں کو درپیش مسائل میں ایک سنگین مسئلہ عصمت دری کے واقعات ہیں۔ چھوٹی عمر سے لے کر بڑی عمر تک کی خواتین اس سنگین جرم سے محفوظ نہیں۔ ننھی زینب کیس اور سیالکوٹ موٹر وے کیس اس کی تازہ مثالیں ہیں۔
خواتین کو تحفظ اور جرم کی صورت میں مجرموں کو قرار واقعی سزا دینا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ عصمت دری کے جرم کے خلاف قوانین اور سخت سزائیں موجود ہیں، لیکن تفتیش اور ٹرائل کے مراحل کو سقم سے پاک کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ موثر قانون سازی اور ان قوانین پرعمل درآمد اصل چیلنج ہے، تاکہ مجرموں کو نشان عبرت بناتے ہوئے متاثرین کو بروقت انصاف مہیا کیا جا سکے۔ حال ہی میں لاہور ہائی کورٹ کے ایک تاریخی فیصلے سے اس سلسلے میں اہم پیش رفت ہوئی ہے، جس سے امید ہے تفتیش کے مرحلے میں بہتری آئے گی اور انصاف کے حصول کا راستہ آسان ہو گا۔
لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس عائشہ اے ملک نے ایک رٹ پٹیشن 13537/2020 بہ عنوان ’’مسماۃ صدف عزیز وغیرہ بنام فیڈریشن آف پاکستان وغیرہ‘‘ میں ریپ کیسز میں ایک مخصوص ٹیسٹ کے متعلق سماعت کی۔ درخواست گزار جو کہ سماجی کارکن، صحافی، وکلا، ماہر نفسیات اور رکن قومی اسمبلی تھے، ان کا موقف تھا کہ ریپ کے واقعات میں سچائی جانچنے کے لیے یہ ٹیسٹ غیر ضروری ہے، کیوں کہ اس ٹیسٹ کا ریپ کیس کو ثابت کرنے سے کوئی تعلق نہیں، نہ ہی اس سے سائنسی یا طبی بنیادوں پر ریپ کی تصدیق کے لیے کوئی مدد ملتی ہے۔
درخواست گزاروں کا موقف تھا کہ متاثرہ عورت کی اس ٹیسٹ کے بارے میں مناسب طریقے سے راہ نمائی نہیں کی جاتی کہ یہ ٹیسٹ کیا ہے اور یہ کہ وہ یہ ٹیسٹ کرانے سے انکار بھی کر سکتی ہے۔ درخواست گزاروں کا کہنا تھا کہ عصمت دری کے واقعات کی جانچ کے لیے سائنسی طریقہ کار اختیار کیا جائے اور اس دوران عورت کی جسمانی اور دماغی صحت یقینی بنانے کے لیے تمام اقدام کیے جائیں۔ مدعا علیہان جن میں وفاق پاکستان اور صوبہ پنجاب شامل تھے کا کہنا تھا کہ اصولی طور پر وہ درخواست گزاروں کے موقف کی تائید کرتے ہیں۔
معزز عدالت جسٹس عائشہ اے ملک نے فریقین کو سننے کے بعد اور قانون شہادت آرڈر 1984ء ، ضابطہ فوجداری ایکٹ 1898ء، اینٹی ریپ آرڈینینس 2020ء ، ریپ کیسز کی تحقیقات کے لیے حکومت کی ہدایات 2020ء ، آئین پاکستان 1973ء ، طب کی کتابوں، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے اداروں، عالمی ادارۂ صحت کی رپورٹوں اور ریپ کیسوں کی تحقیقات کے لیے عالمی ماہرین کی آرا ، سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلوں اور قانونی تشریح کی مستند کتابوں کا مطالعہ کرنے کے بعد قراردیا کہ ریپ یا جنسی تشددکے واقعات کی تحقیق کے لیے متاثرہ عورت کے کنوارپن چانچنے کے رائج ٹیسٹ کی کوئی سائنسی یا طبی بنیاد نہیں ہے۔
معزز عدالت کا مزید کہنا تھا کہ خواتین کے خلاف کسی بھی قسم کے امتیازی سلوک کی روک تھام اور بچوں کے حقوق کے لیے قائم اقوام متحدہ کی خصوصی کمیٹی بھی اس ٹیسٹ کی مذمت کرتی ہے۔ پاکستان عورتوں اور بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے تمام بین الاقوامی قوانین کا پابند ہے، جو اس طریقے کی ممانعت کرتے ہیں، کیوں کہ اس کے بہت خطرناک جسمانی، نفسیاتی اور معاشرتی نتائج ہیں۔
معزز عدالت کا کہنا تھا کہ قومی اور بین الاقوامی قوانین کی موجودگی میں حکومت پاکستان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس معائنے پر پابندی لگائے۔ یہ بات عالمی سطح پر مانی جاتی ہے کہ اس ٹیسٹ کا معاملہ ثابت کرنے سے کوئی تعلق نہیں اور یہ صرف غیر ضروری طور پر کسی خاتون کے بنیادی اور نجی حقوق کے خلاف ہے۔ یہ عمل عورت کو بے توقیر کرتا ہے اور اس کی عظمت کے برعکس ہے۔ معزز عدالت کا مزید کہنا تھا کہ اس طرح کے ٹیسٹ سے مبینہ ملزم کے بہ جائے متاثرہ عورت کا ٹرائل شروع ہو جاتا ہے۔
یہ ٹیسٹ صنفی امتیاز پر مبنی ہے اور یہ سارا عمل آئین پاکستان کے آرٹیکل 14,9 اور25 کے خلاف ہے۔ ان آرٹیکل کے مطابق ہر انسان کا حق ہے کہ اُس کی زندگی محفوظ ہو اور وہ باعزت معاشرتی زندگی گزار سکے ۔ اُس کو کسی قسم کے امتیازی سلوک کا سامنا نہ ہو، نہ ہی اسے بدنام کیا جائے۔ اُس کو مناسب جسمانی و دماغی صحت کی سہولتیں حاصل ہوں۔
معزز عدالت کا کہنا تھا کہ جنسی تشدد یا عصمت دری ایک سنگین جرم ہے۔ یہ عورت کی ذات اور عظمت پر حملہ ہوتا ہے، اس معاملے کو بہت غور و فکر اور احتیاط سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ طبی معائنے کی رپورٹ میں مناسب انداز میں متاثرہ خاتون اور تحقیقات کو بیان کرنا چاہے اور غیرضروری باتوں سے مکمل اجنتاب کیا جائے۔ متاثرہ عورت کے رویے، لباس، ماضی کے معاملات کے بارے میں گمان کرنا آسان ہے، لیکن ان گمانوں کے اثرات کو ختم کرنا بہت مشکل ہے، جس کے متاثرہ عورت پر بہت خطرناک اثرات ہوتے ہیں، جس سے اس کی زندگی تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس لیے ریپ کیسوں کی تحقیقات کرنے والے تمام افسروں کی مناسب تربیت ہونی چاہیے، تاکہ متاثرہ عورت کی جسمانی اور دماغی صحت کو محفوظ بنایا جا سکے۔
آخر میں معزز عدالت کا کہنا تھا کہ ریپ کیسوں کی تحقیقات میں جانچنے کا رائج ٹیسٹ غیر منطقی ہے اور طبی بنیاد پر اس کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ لہٰذا یہ ٹیسٹ غیر قانونی اور آئین پاکستان کے خلاف ہے۔ حکومت پاکستان اور پنجاب حکومت کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ عصمت دری کے واقعات کی تحقیق کے لیے ایسے معائنے پر پابندی لگائیں اور اس طرح کے واقعات کی تحقیق کے لیے سائنسی بنیادوں پر مناسب طریقۂ کار وضع کیا جائے۔
عورتوں کے حقوق کے لئے اس تاریخی فیصلے پر جسٹس عائشہ اے ملک خراج تحسین کی مستحق ہیں۔ اب یہ متعلقہ اداروں اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس فیصلہ کی روشنی میں ایسے واقعات کی شکار عورتوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے اور اس طرح کے واقعات کی تحقیق سائنسی بنیادوں پر ہو تاکہ خواتین اپنے آپ کو پاکستان کا محفوظ اور معزز شہری سمجھتے ہوئے ملکی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکیں۔ ایسے قانونی فیصلے، قانون کی حکمرانی اور کسی بھی ملک کی ترقی کی ضمانت فراہم کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان اور ہائی کورٹ کو چاہیے کہ اہم قانونی فیصلوں کو اُردو میں بھی شائع کرے تاکہ عام شہری بھی اپنے حقوق اور ان کے قانونی تحفظ سے آگاہی حاصل کرسکے۔
The post ریپ کیس کی تحقیق appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3elCwTH