پنجابی زبان اپنے بولنے والوں کے گھروں سے رخصت ہورہی ہے؟ - KHB Point

کے-ایچ-بی پوائنٹ (ملکی و غیر ملکی تمام خبریں فراہم کرنے والاایک مکمل نیوزپلیٹ فام نیٹ ورک)

تازہ ترین

پنجابی زبان اپنے بولنے والوں کے گھروں سے رخصت ہورہی ہے؟

میری ایک ایسے گھر میں آنکھ کھلی جہاں آپس میں جس زبان میں ابلاغ کیا جاتا ہے اُسے ’’پنجابی‘‘ کہتے ہیں۔

اس کا ادراک اپنے آبائی شہر کوئٹہ کے اُس سرکاری پرائمری اسکول جاکر ہوا جہاں میرے والد نے مجھے داخل کرایا تھا۔وہاں جا کر پتا چلا کہ جس زبان میں دوسروں سے میں ہم کلام ہوتا ہوں اُسے پنجابی کہا جاتا ہے اور اسکول میں یہ نہیں بولی جاتی اورایک نامانوس سی زبان نے وہاں میرا استقبال کیا۔

یوں میری طرح دیگرمقامی زبانیں بولنے والے بچوں کا اسکول کی زبان یعنی اردو سے تعارف شروع ہوااور اُسے سیکھنے کی سعی کا آغاز ہوا۔ تعلیمی سفر جب پرائمری سے مڈل کے درجہ پر پہنچا تو ایک نئی زبان انگلش سے تعلق جوڑنے کو کہا گیا۔ انٹر میڈیٹ تک پہنچے تو کالج میں سائنس جس زبان میں پڑھائی جاتی ہے وہ اردو نہیں۔ لہذا سائنس پڑھنی ہے تو انگلش کو مہارت کے ساتھ سیکھو ۔ یوں اپنی سماجی اور معاشی ضروریات کی تکمیل کے لیے زبانیں سیکھتے سیکھتے ہم ان زبانوں کے اتنے عادی ہوچکے ہیںکہ انھیں اپنے گھروں میں لے آئے اور اپنی مادری زبان کو فراموش کرتے جارہے ہیں۔

یہ خلش اس وجہ سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ ہے کہ آج دنیا بھر میں مادری زبانوں کا بین الاقوامی دن منایا جارہا ہے۔ تو ہم اس احساسِ ندامت کا شکار ہیں کہ پنجابی زبان اپنے بولنے والوں کے گھروں سے رخصت ہورہی ہے۔ شاید ہم شہری علاقوں کی وہ آخری نسل ہیں جنہوں نے اپنے بڑوں سے پنجابی سیکھی اُن سے بولی لیکن اپنے بچوں تک اسے منتقل نا کر پائے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ 20 سال کے دوران پنجاب میں پنجابی زبان بولنے والوں کے تناسب میں 5.5  فیصد پوائنٹس کمی واقع ہوئی ہے۔

پانچویں مردم شماری کے مطابق1998 میں پنجاب کی  75.23 فیصد آبادی پنجابی بولتی تھی یہ تناسب 2017  میں ہونے والی مردم شماری تک کم ہوکر69.67  فیصد ہوگیا ہے۔ پنجابی زبان سے بے اعتنائی صرف پنجاب تک محدود نہیں بلکہ ملک کے تمام صوبوں میں اس کے بولنے والوں کے تناسب میں کمی واقع ہوئی ہے ۔یوں ملکی سطح پر پنجابی بولنے والے افراد کا تناسب مذکورہ بالا عرصہ کے دوران .15 44 فیصد سے کم ہوکر8 38.7 فیصد پر آچکا ہے۔

جو 1982 کی مردم شماری کے مطابق اُس وقت 48.17 ہواکرتا تھا۔ یہ اعدادوشمار خطرے کی وہ گھنٹی ہے جس کی باز گشت اگر آج نہ سنی گئی تو ہم پنجابی زبان کو معدوم ہونے سے کسی صورت نہ بچا پائیں گے۔صورتحال کی سنگینی کا اندازہ ایک اور پہلو سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ مردم شماری میں اپنی ماں بولی پنجابی ہونے کے باوجود پنجابی نہ لکھوانے والوں کے برعکس وہ حضرات جنھوں نے پنجابی زبان کا اپنی مادری زبان ہونے کا اقرارتو کیا ہے لیکن اُن کی ایک بہت بڑی تعداد گھروں میں اپنی بیوی بچوں کے ساتھ پنجابی بولتی ہی نہیں صرف کاغذات میں اُن کی زبان پنجابی ہے یعنی وہ کاغذی پنجابی ہیں۔

پاکستان میں بولی جانے والی پنجابی اگرچہ آج بھی دنیا کی 20 ویں سب سے زیادہ متکلموں کے حوالے سے بڑی زبان ہے۔زبانوں کے حوالے سے امریکہ میں قائم ایتھنو لوگ (Ethnologue) نامی ریسرچ سنیٹر کے Languages of the World. Twenty-third edition کے مطابق پاکستان میں بولی جانے والی پنجابی کے اس وقت بولنے والوں کی تعداد 83 ملین بتائی گئی ہے۔ لیکن ستم ظریفی ہے کہ انفرادی ،معاشرتی ، حکومتی اور ادارہ جاتی عدم توجہی کے باعث یہ زبان تیزی سے روبہ زوال ہے۔ایسا کیوں ہے؟ یہ جاننے کے لیے ہم نے پنجابی زبان کے فروغ میں متحرک چند سنیئر اور نوجوان کارکنوں سے بات کی جس کی تفصیل قارئین کی نذر ہے۔

پروین ملک

پروین ملک ،پنجابی زبان کا ایک معتبر حوالہ ہیں۔ افسانہ نگار ، شاعرہ، براڈ کاسٹر، مترجم، ناشر اور میڈیا شخصیت ہیں۔ آپ وارث شاہ اور بابا فرید ایوارڈ سمیت متعدد ممتاز ادبی ایوارڈز اور امتیازات کی وصول کنندہ ہیں۔آپ نے پنجابی کی مختصر کہانیوں کی دو کتابیں تصنیف کی ہیں۔ ان کی سوانح عمری 2016 میں شائع ہوئی۔آپ پاکستان پنجابی ادبی بورڈ کی سیکرٹری ہیں۔ حکومت پاکستان نے آپ کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں آپ کو تمغہ امتیاز سے بھی نوازہ ہے۔

کہتی ہیں کہ ’’ پنجاب کے سرکاری اسکولوں میں اردو کو ذریعہ تعلیم قرار دیے جانے کے بعد ایک طویل عرصہ ایسا گزرا جب تقریبا ًپورے صوبے کی بول چال کی زبان پنجابی اور پڑھنے لکھنے کی زبان اردو تھی مگر کوئی زبان بولنے پر قدغن نہ تھی اس لیے تضادات زیادہ ابھر کر سامنے نہ آئے۔ یوں پنجابی بولنے والوں کی قابل ذکر تعداد موجود رہی اصل مسئلہ اس وقت شروع ہوا جب کسی پنجابی دشمن شخص یا اشخاص کی طرف سے ا سکولوں کو ہدایات جاری کی گیں کہ طلبا کے اردو بولنے پر سختی سے عمل کروایا جائے۔

کوئی زبان تعلیمی دھارے سے دور کر دی جائے ۔اُس کے بولنے والوں کو احساس دلایا جائے کہ ان کی زبان کمتر ہے تو بولنے والوں کی تعداد کم ہی ہوگی۔پنجابی کے فروغ کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ وہ پالیسی میکر تھے اور ہیں جو سے پیدا تو پنجاب میں ہوئے مگر کبھی اپنی دھرتی کے نہ ہوئے۔

پنجابی پڑھنے والوں کی تعداد تقریباً دس فیصد تک ہے مگر جس زبان کو کبھی پرائمری سکول کی دہلیز پار کرنا نصیب نہ ہوا ہو اس میں کس طرح لکھنے کی استعداد بہم پہنچائی جا سکتی ہے۔پنجابی زبان جب تک پرائمری سے بی اے تک سب اسکولوں اورکالجز میں لازمی مضمون کی حیثیت سے نہی پڑھائی جاتی تب تک بہتری کی صورت بنتی نظر نہیں آتی‘‘۔ اُنہوں نے کہا کہ ’’پاکستان پنجابی ادبی بورڈ نے 1976 سے لیکر ابتک کتابیں شائع کرنے کے علاوہ سیمینار کروائے ہر حکومت کو یہ احساس دلانے کی کوشش کی کہ لوکائی کی زبان کو جبر سے دبایا یاکچلا نہی جاسکتا۔ پنجابی ادبی بورڈ اور دوسری پنجابی تنظیموں کی کوششوں سے اب پورے پنجاب میں جگہ جگہ اپنی مادری زبان کے حقوق کی بات چل پڑی ہے لوگوں کو اپنی زبان کے مقام کا احساس ہونے لگا ہے۔ یہ منزل کی طرف ایک قدم ہے۔

ڈاکٹر مشتاق عادل کاٹھیا

ڈاکٹر مشتاق عادل کاٹھیا ،پیشہ کے لحاظ سے استاد ہیں۔ سیالکوٹ یونیورسٹی میں اردو کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ہیں۔ لیکن اوڑھنا بچھونا پنجابی ہے۔ 9 کتابوں کے مصنف ہیں۔ پنجابی کتابوں کی اشاعت، پنجابی مشاعرے اورپنجابی کانفرنسزکے اہتمام میں پیش پیش رہتے ہیں۔ پنجابی کے نامور ادبی ایوارڈ ’’مہکا ں ایوارڈ‘‘ کے روح رواں ہیں۔

کہتے ہیں کہ ’’ہمارا پڑھا لکھا طبقہ پنجابی بولنا پنجابی لکھنا اپنی بے عزتی سمجھتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ سمجھا جاتا ہے کہ جو لوگ پنجابی بولتے ہیں وہ پسماندہ ہیں اس لیے پنجابی لکھنے پڑھنے اور بولنے کا رجحان کم ہوتا جارہا ہے۔ میرے خیال میں اس وقت کُل پنجابیوں کا صرف دس فیصد پنجابی پڑھ سکتا ہے ۔کیونکہ میں 15 سال سے مہکا ںکے نام سے پنجابی سہ ماہی رسالہ جاری کر رہا ہوں اور گذشتہ تین سال سے پنجابی چانن کے نام سے  ہفت روزہ اخبار چلا رہا ہوں تو مجھے پتہ ہے کہ لوگ کتنی دلچسپی لیتے ہیں۔

وہ دیکھتے ہیں کہ اخبار اچھا ہے بہت خوبصورت ہے لیکن کہتے ہیں کہ ہمیں پنجابی پڑھنی نہیں آتی ۔ میں اُنھیں کہتا ہوں کہ پڑھنے کی کوشش تو کریں۔ جو اردو لکھ پڑھ لیتا ہے اُسکے لیے پنجابی لکھنا اور پڑھنا بالکل مشکل نہیں ہے‘‘۔ اُ ن کا کہنا ہے کہ ’’ پنجابی کے لئے جو تھوڑا بہت کام ہورہا ہے وہ انفرادی سطح پرہورہا ہے مجموعی طور پر کچھ نہیں ہو رہا ۔ پنجابی کی اہلیت کو بڑھانے کے لیے پہلی بات تو یہ ہے کہ پنجابی کو سکولوں میں لاگو کیا جائے اس کے علاوہ حکومت پنجابی کتابیں لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرے ان کی کتابیں سرکار شائع کرائے ۔اگر کسی میڈیکل کی کتاب کا پنجابی میں ترجمہ ہوتا ہے کسی سائنس کی کتاب کا کسی ہسٹری کی کتاب کا ترجمہ ہوتا ہے تو گورنمنٹ اس کے لئے خصوصی فنڈ رکھے اورتمام کتابیںسرکاری خرچ پر شائع ہوں۔

ان کتابوں کوا سکولوں میں بھیجیں ۔کالج اور یونیورسٹیز کی لائبریریوں میں بھیجیں‘‘۔ڈاکٹر صاحب مزید کہتے ہیں کہ ’’پنجاب میں جتنے اردو شاعر ہیںتقریباً تمام کا پنجابی کلام بھی موجود ہے ۔لیکن جب کتاب شائع کرنے کی بات آتی ہے اورشاعر پیسہ جمع کرکے اپنی کتاب چھپوانے کے مرحلے میں آتا ہے تو وہ اپنی اردو کی کتاب چھپاتا ہے کیونکہ اردو کی کتاب استعمال ہو جاتی ہے کوئی نہ کوئی قاری پڑھ لیتاہے۔ لیکن پنجابی کتاب کے ساتھ ایسی کوئی صورت حال نہیں ہے ۔اگر پنجابی کی کتابوں کو بھی سرکاری اور عوامی سطح پر پذیرائی ملے لوگ دلچسپی لیںتو یقینا پنجابی لٹریچر کی اشاعت بہتر ہوسکتی ہے ۔

پنجاب میں اگر سو کتابیں شائع ہوتی ہیں تو میرے اندازے کے مطابق اس میں20 کتابوں کے لگ بھگ پنجابی میں شائع ہوتی ہیں‘‘۔اُنھوں نے کہا کہ ’’کوئی بھی زبان اُس وقت ترقی کرتی ہے جب اُس سے روزی روٹی جڑی ہوتی ہے ۔جب پنجابی زبان کی تعلیم عام ہو گئی ۔پنجابی میں پڑھنے والے نوجوانوں کو نوکریاں ملیں گی تو خودبخود لوگوں کا پنجابی کی جانب رجحان ہوگا ۔اب دو چار لکھاری جوپنجابی لکھ رہے ہیںان کی حوصلہ افزائی کا طریقہ یہ ہے کہ ان کی کتابوں پر ایوارڈ دیے جائیں انعام دیا جائے ہمارا ادارہ مہکاں پنجابی ادبی بورڈ 2008 سے ہر سال پنجابی زبان کی کتابوں پر ایوارڈ دیتا ہے ۔سیرت ،نعت ،غزل ،نظم، کہانی ،تحقیق، تنقید ہر موضوع پر فرسٹ سیکنڈ اور تھرڈ آنے والی کتابوں پر پر ایوارڈ دیتے ہیں۔

ہمارے پاس چونکہ وسائل کم ہیں تو ہم اس لئے صرف ایوارڈ دیتے ہیں کیش پرائز نہیں دے پاتے ۔گورنمنٹ کی سطح پر اگر کتابوں کے مقابلے ہوں تو یقینا نوجوان لکھاریوں کی حوصلہ افزائی ہوگی اس طریقے سے کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اندر جو لوگ پنجابی کے آرٹیکل لکھتے ہیں ان کا مقابلہ ہو انہیں انعام دیا جائے تو اس جانب لوگوں کو راغب کیا جا سکتا ہے۔ بدقسمتی سے پنجابی لٹریچر کا مارکیٹ سائز نہ ہونے کے برابر ہے پہلی بات تو یہ ہے کہ مجموعی طور پر کتاب خرید کر پڑھنا گناہ سمجھا جاتا ہے۔اس حوالے سے یہ ہوسکتا ہے کہ کسی ادیب کی ایک کتاب آئی ہے تواس کتاب کی پرنٹنگ کے اخراجات فرض کریں سو روپے فی کتا ب ہیں۔تودیگر مصنف سو روپے کے حساب چار یا پانچ کتابیں خرید لیں ۔ اس طریقے سے کتاب بھی زیادہ سے زیادہ تقسیم ہوجائے گی۔

کتابوں کے شائع ہونے کے رجحان میں بھی بہتری آئے گی۔لیکن افسوس ہمارے یہاں ہر بندہ اس امید میں بیٹھا ہوا ہوتا ہے کہ مجھے کتاب لکھی ہوئی مفت گھر پر دی جائے ۔لہذاہم شاعروں اور ادیبوں کو بھی اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا ۔کیونکہ دوسرے لوگ تو خریدار نہیں ہیں۔ ہم تو کوشش کریں اس طرح سے ایک دوسرے کی مالی مدد بھی ہو جائے گی اور کتابیں بھی چھپتی رہیں گی۔اس کے علاوہ ہمیں کتاب خرید کر پڑھنے کی عادت بنناہوگی ۔جب کتاب خرید کر پڑھنے کا رجحان ہوگا اس سے لٹریچر کی اشاعت بڑھے گی ‘‘۔

ڈاکٹر جمیل احمد پال

ڈاکٹر جمیل احمد پال ،ریٹائرڈ پروفیسر ہیں ۔ پنجابی روزنامہ اخبار ’’ لوکائی‘‘ نکالتے ہیں۔ پنجابی ورکر ہیں۔

اُن کا کہنا ہے کہ ’’وطن عزیز میں پڑھنے اور لکھنے کی اہلیت ہی چکر میں ڈالنے والی بات ہے۔ دیہات کا بیشتر حصہ ان پڑھ ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں صرف 25 فیصد لوگ خواندہ کی بین الاقوامی تعریف پر پورا اترتے ہیں۔ ہمارے ہاں جو لوگ ٹیڑھے میڑھے لفظوں میں اپنانام لکھنے کے قابل ہیں انہیں بھی ’’خواندہ‘‘ سمجھ لیا جاتا ہے۔ حکومت ہر سال اپنے بیان کردہ سابقہ اعداد و شمار میں دو چار فیصد کا اضافہ کر دیتی ہے اور اس طرح اب پاکستان میں خواندہ لوگوں کی تعداد 60 فیصد کے لگ بھگ پہنچائی جا چکی ہے۔

پاکستان میں اردو ذریعہ تعلیم ہے جو فارسی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔ پنجابی کے لیے بھی یہی رسم الخط ’’شاہ مُکھی‘‘ کے نام سے مستعمل ہے۔ اس لحاظ سے تو پنجاب کی جو آبادی خواندہ ہے اسے پنجابی پڑھنے لکھنے کی اہلیت بھی حاصل ہو جاتی ہے۔ تاہم اس اہلیت کا استعمال کہیں نہیں کیا جاتا۔ کتاب پڑھنے کا کلچر ہی یہاں موجود نہیں ہے۔ تعلیم یافتہ لوگ بھی نوکری لگنے کے بعد پڑھنے لکھنے سے گریز کرتے ہیں‘‘۔پنجابی زبان کے فروغ میں پنجابی پریس کیا کردار ادا کر سکتا ہے اس سوال کے جواب میں اُن کا کہنا ہے کہ ’’ پریس کی بجائے ’’میڈیا‘‘ کا لفظ استعمال کرنا زیادہ بہتر ہو گا۔

پنجابی پریس یقینا پنجابی زبان کے فروغ میں کردار ادا کر سکتا ہے لیکن پریس کے برے دن شروع ہو چکے ہیں۔ دنیا بھر میں پرنٹ میڈیا کی بجائے الیکٹرانک میڈیا چھا رہا ہے اور اخبارات پڑھنے والے بیشتر لوگ بھی اب انٹرنیٹ پر ہی پڑھتے ہیں۔

میڈیا ہی پر اظہار کے بہت سے دیگر ذرائع بھی موجود ہیں چنانچہ پنجابی سمیت کسی بھی زبان کے فروغ کے لیے میڈیا کا کردار دن بدن اہم ہوتا چلا جا رہا ہے‘‘۔پنجابی میں چھپنے والے اخبارات اور رسائل کی تعدادکے حوالے سے ڈاکٹر جمیل احمد پال کہتے ہیں کہ ـ’’ پنجابی زبان میں اس وقت دو اخبارات اور چند رسائل شائع ہو رہے ہیں۔ رسائل نکلتے اور بند ہوتے رہتے ہیں۔ پچھلی صدی تک عام طور پر ان کی مجموعی تعداد ایک درجن کے لگ بھگ رہتی رہی۔ لیکن اب کچھ رسائل انٹرنیٹ پر منتقل ہو چکے ہیں اور کاغذ پر طبع نہیں ہوتے‘‘۔ پنجابی صحافت کے مستقبل کے حوالے سے اُن کا کہنا ہے کہ ’’ دنیا بھر میں پرنٹ میڈیا کا مستقبل تاریک ہے۔ اخبارات و رسائل کاغذی اشاعت (ہارڈ کاپی ) بند کر کے انٹرنیٹ پر منتقل ہو رہے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی پنجابی صحافت کی کاغذی اشاعت کا مستقبل تاریک لیکن انٹرنیٹ پرروشن تر ہے‘‘۔

مسعود ملہی

مسعودملہی ،پنجابی براڈکاسٹنگ کا ایک معروف حوالہ ہیں اُنھیں پنجابی نشریاتی خدمات کے اعتراف میں پنجابی زبان کا سب سے بڑا ایوارڈمسعودکھدرپوش ایوارڈ سے 2016 میں نوازا گیا۔ا سکے علاوہ پنجابی لٹریچر کا نامور مہکاں ایوارڈ 2013میں بھی حاصل کرچکے ہیں۔ریڈیوپاکستان سے بطور کمپئیر1997 سے وابستہ ہیں۔ دنیا کے سب سے بڑے پنجابی ریڈیو نیٹ ورک ‘‘پنجابی ریڈیو یو ایس اے’’ سے وابستگی کو 11 سال ہوگئے ہیں۔آسٹریلیا کے سرکاری ریڈیو کی پنجابی سروس Punjabi  SBS کے لیے 2013 سے نشریاتی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

ان کے ریڈیو کے پنجابی ڈراموں کی کتاب تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔پنجابی شاعری کی کتاب بھی جلد منظر عام پر آنے والی ہے۔ آپ مختلف شخصیات کے150 سے زائد پنجابی انٹرویو ریڈیو آسٹریلیا کے لیے مکمل کرچکے ہیں۔ بطور پنجابی ایکٹیویسٹ اپنی فنی خدمات کو 2004 سے پنجابی زبان تک محدود کرچکے ہیں اور پنجاب کی سرکاری زبان پنجابی ہونے کے ساتھ ساتھ اس کو بنیادی تعلیم کا لازمی حصہ بنانے کے حامی ہیں۔مسعود ملہی کہتے ہیں کہ ’’اس وقت عہد حاضر میں میڈیا ایک طاقتور ذریعہ ہے جس کے ذریعے آپ اپنی بات باآسانی دوسروں تک پہنچا سکتے ہیں۔

اور الیکٹرانک میڈیا میں ریڈیو ایک قدیم حیثیت کا حامل ذریعہ ہے۔ریڈیو پر پیش کیے جانے والے پنجابی زبان کے پروگراموں کی مقبولیت کا اندازہ ان پروگرامز کو پیش کرنے والی آوازوں کی شہرت سے لگایا جاسکتا ہے۔ جو عوام میں پزیرائی کے کئی ریکارڈ بنا رہی ہیں۔یہ پنجابی پروگرام ہی اصل میں پنجابی زبان کی نمائندگی کرتے ہیں۔لیکن زبان کے فروغ کے حوالے سے سرکاری اور غیر سرکاری ریڈیوز کے پروگرام جو کردار ادا کرسکتے تھے۔بدقسمتی سے انہوں نے وہ ذمے داری نہیں نبھائی۔ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ ہم ان پروگرامز کے ذریعے پنجاب، پنجابی اور پنجابیت کا پرچار کرتے لیکن ہم نے ان پروگرامز کو طنزومزاح کا وہ بھونڈا رنگ دیا کہ یہ جگت بازوں کی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ ثابت ہوئے۔

اور یوں انٹرنیشنل ریڈیوز کے پنجابی پروگرامز کے مقابلے میں ہمارے ریڈیوز کے پنجابی پروگرامز اپنی جگہ بنانے میں آج اتنے کامیاب نہیں۔اس کی وجہ ان پروگرامز کو پیش کرنے والوں کا سطحی طور پر زبان و بیان اور پنجابی ادب سے واقف ہونا ہے۔دوسرا ہم نے جدید رجحانات کو یکسر نظر انداز کردیا۔ یوں ہماری مجبوری ہے کہ ہم اپنے ہاں پیش کیے جانے والے پنجابی پروگرامز کو پنجابی زبان کے نمائندہ پروگرامز شمار کرتے ہیں۔ہاں یہ امید ضرور کی جاسکتی ہے کہ ان پروگرامز کو جدید خطوط پر استوار کرکے ہم حقیقی طور پر پنجابی زبان کے فروغ اور اثر کے حوالے سے نشریاتی کردار ادا کرسکتے ہیں۔اُن کا کہنا ہے کہ ’’ ہمارے میڈیا میں جو افراد بنجابی زبان میں پروگرام کر رہے ہیں اُن میں نمایاں تعداد معیاری پنجابی نہیں بول رہے اور نہ ہی اُن کے لب و لہجے اُنکی پنجابی کا ساتھ دیتا ہے۔

اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ گھر وں میں، تعلیمی اداروں اور رہن سہن میں اس جنریشن نے پنجابی نہیں بولی۔ جس کی وجہ سے انہیں دقّت اٹھانا پڑتی ہے۔ دوسرا میڈیا انڈسٹری کو اچھے پنجابی گفتگو کرنے والے اس لیے نہیں مل رہے کہ کبھی کسی نے پنجابی کا یہ ٹیلنٹ منتخب کرنے کے لیے کسی یونیورسٹی یا کالج کے پنجابی ڈیپارٹمنٹ کارخ نہیں کیا۔کبھی وہاں جاکر آڈیشنز نہیں رکھے اور اگر کسی نے رکھے بھی ہیں تو وہ بھرپور انداز سے نہیں رکھے جو پنجابی کی اس جنریشن کواپنی جانب راغب کرسکتے۔کبھی کسی میڈیا نے اوپن پنجابی آڈیشنز کا اہتمام نہیں کیا۔ میڈیا ڈگری تکنیکی ضروریات تو پورا کردیتی ہے لیکن فنی ضروریات، زبان و بیان کے ماہر تو زبان کے شعبے سے ہی ملیں گے۔یہی وجہ ہے کہ جو پنجابی پروگرامز میں پیش کی جا رہی ہے وہ ٹوٹے پھوٹے لہجے،الفاظ کی جگالی ہے۔

زبان کی شیرینی اور گہرائی جو اثرپذیری کا اصل راز ہے۔ اس سے وہ عاری اور خالی ہے‘‘۔مسعود کہتے ہیں کہ’’پنجابی کا فروغ انفرادی طور پر پنجاب میں بسنے والے ہر فرد کی ذمے داری ہے اور اجتماعی طور حکومت کی ذمے داری ہے۔وقت آگیا ہے کہ ہم یہ سمجھ لیں کہ تمام مادری زبانوں کو ان کا جائز مقام دینا اب ایک ضرورت ہے۔لیکن پنجاب میںپنجابی کوسرکاری طور پر آج تک تسلیم نہیں کیا گیا۔ضرور ت اس امر کی ہے کہ اسے بنیادی تعلیمی زبان بنا کر نافذ کیا جائے۔ورنہ اس کے بولنے والوں کی تعداد میں کمی کا خدشہ رہے گا۔ گورنمنٹ اس زبان میں روزگار کے مواقع پیدا کرے تو جو لوگ اس زبان سے کنارہ کشی کررہے ہیں وہ بھی واپس آئیں گے اور اسے نسل در نسل بولنے میں عار محسوس نہیں کریں گے‘‘۔

صبا پرویز کیانی

صبا پرویز کیانی، کھوجو Khojo کے نام سے یوٹیوب چینل پر پنجابی زبان میں پنجاب کی تاریخی، کلچرل، سماجی موضوعات کو زیر بحث لاتی ہیں۔ ان کی انفرادیت یہ کہ وہ اردو میں ڈاکٹریٹ کر رہی ہیں مگر پنجابی میں تحقیقی ویڈیوز بنا کر ماں بولی کی خدمت کررہی ہیں۔صبا پرویز کیانی آئندہ نسلوں کے لئے پنجابی کلچر ، ادب، ورثہ، تاریخ اور سماجیات کے موضوعات کو سوشل میڈیا کے ذریعے محفوظ کرنا چاہتی ہیں۔ وہ اردو اور پنجابی میں شاعری کرتی ہیں جو پنجابی اور اردو کے مشہور رسائل میں شائع ہوتی رہتی ہے۔

پنجاب کے مختلف موضوعات پر انگریزی زبان میں آرٹیکلز بھی لکھ چکی ہیں جو پاکستان اور بھارت کی نیوز ویب سائٹس پر شائع ہوچکے ہیں۔وہ پنجابی اور پنجابیات سے پیار کرتی ہیں اور اسی میدان میں کام کرنا چاہتی ہیں۔اُن کا کہنا ہے کہ ’’ سوشل میڈیا ابلاغ کو بالکل مختلف سطح پر لے گیا ہے۔ اس کے ذریعے ہماری انفرادی سوچ ہماری اپنی زبان میں اب کسی سنسر کے بغیر لوگوں کی بڑی تعداد تک پہنچ رہی ہے۔

تمام زبانوں کے ساتھ ساتھ ہمارے اردگرد پنجابی زبان میں بھی سوشل میڈیا پر ابلاغ ہورہا ہے۔ پنجابی موسیقی، پنجابی ادب کے ساتھ ساتھ پنجابی کلچر کو فروغ مل رہا ہے۔میں بطور پنجابی یو ٹیوبر یہ کہہ سکتی ہوں کہ نئی نسل کو پنجابی سے متعارف کروانے میں سوشل میڈیا اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

پنجابی زبان کے فیس بک پر بہت زیادہ follow کئے گئے پیجز اور یوٹیوب چینلز ہیں جو پنجابی کے پھیلاؤ میں ایک حد تک کردار ادا کر رہے ہیں۔بھارتی پنجاب سے تو نیوز چینلز کی ایک بھرمار ہے جو اپنی خبریں بھی پنجابی زبان میں لوگوں تک پہنچا رہے ہیں۔ ہمارے پنجاب میں پنجابی زبان میں کام کرنے والے فیس بک پیجز اور یوٹیوب چینلز کی زیادہ توجہ پنجابی ورثہ اور تقسیم کے وقت پیش آنے والے انسانی المیوں کی طرف ہے۔ پنجابی ورثہ کو سوشل میڈیا پر دکھاتے ہوئے بھی تاریخی حقائق کو پیش نہیں کیا جاتا۔ میرے خیال میں صرف ورثے کو مختلف ویڈیو شاٹ میں دکھا دینے سے مقصد پورا نہیں ہو جاتا۔ کلچر، لوک تاریخ، پنجاب کی سماجی زندگی کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ پنجاب کے زیادہ تر یوٹیوب چینلز اور فیس بک پیجز پر بات اردو میں کی جاتی ہے۔

جو کہ افسوس کی بات ہے۔ پنجابی خود ہی پنجابی کو فروغ دینے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتا ہے۔اُن کا کہنا ہے کہ ہم ایک نعرہ سنتے ہیں’’پنجابی زبان کو اسکولوں میں نافذ کیا جائے‘‘۔ مجھے تو کبھی کبھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے پنجاب میں پنجابی زبان کا فروغ صرف اس ایک نعرے کی نظر نہ ہو جائے۔ ہم پنجابی زبان کے فروغ کے دوسرے تمام راستے چھوڑ رہے ہیں۔ تقسیم کے بعد بھارتی پنجاب میں سکھوں کی مقدس کتاب گورو گرنتھ صاحب سے عقیدت اور ہندی کے خوف نے پنجابی کووہاں زندہ رکھنے میں اہم کردار نبھایا۔ جبکہ ہمارے پنجاب میں ہم نے پنجابی سے ناطہ توڑ کر اردو سے جوڑ دیا۔ ہم نے انگریزوں کی روش پر چلنے کو ترجیح دی اور اندر ہی اندر یہی سمجھا کہ پنجابی تو اَن پڑھ اور جرائم پیشہ افراد کی بولی ہے۔کسی کو گالی دینی ہو تو پھر یہ زبان ٹھیک ہے۔

یوں ہم کلچرل دوری کا بھی شکار ہوئے۔ پنجابی کلچر، بولی سے پیار اور اپنائیت ہماری زندگیوں سے ختم ہوتی گئی۔ پنجاب نے سب سے زیادہ بیوفائی کی اپنی ماں بولی کے ساتھ۔ پنجابی لکھاری اردو میں لکھنے لگے۔ یوں پنجابی زبان میں جو ناول، افسانے اور اشعار لکھے جانے تھے وہ اردو میں لکھے گئے۔ ہماری فلم بھی وقت کے ساتھ غیر معیاری ہوتی گئی۔ جبکہ بھارتی پنجاب کی فلم اس وقت پنجابی زبان اور کلچر کے فروغ میں بہت اہم رول ادا کر رہی ہے۔

ہمارے ہاں حکومتی اداروں نے پنجابی کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا۔ اب توعام بول چال میں بھی پنجابی کم ہوتی جارہی ہے۔ ایک بات طے ہے جس زبان سے مذہب یا معیشت جڑے ہوں گے اسے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ہمارے ہاں پنجابی کے ساتھ نہ تو کوئی مذہبی روایت جڑی ہے اور نہ ہی کاروبار زندگی۔ ہاں وہ لڑکیاں جو سکولوں کالجوں میں آکر اردو بولنے لگتی ہیں وہ اگر پنجابی بولتی رہیں تو شاید آئندہ نسلوں کی ماں بولی پنجابی ہی رہے‘‘۔

ابرار ندیم

ابرار ندیم ، پنجابی اردو شاعر ،کالم نگار اور براڈکاسٹرہیں۔ اب تک آپ کے دو پنجابی شعری مجموعے ’’کون دلاں دیاں جانے ‘‘اور’’اساں دل نوں مْرشد جان لیا‘‘جبکہ ایک اردو شعری مجموعہ’’ اب بھی پھول کھلتے ہیں ‘‘شائع ہوچکا ہے۔ ایک بڑے قومی اخبار میں ہفتہ وار فکائیہ کالم لکھ رہے ہیں۔ایوان صدر اسلام آباد اور لاہور آرٹس کونسل کے زیر اہتمام منعقدہ مشاعروں اور عالمی ادبی کانفرنسوں میں بارہا شرکت کے علاوہ بین الاقوامی مشاعروں اور مختلف ادبی تقریبات میں شرکت کر چکے ہیں۔ ریڈیو پاکستان سے بطور سینئر پروڈیوسر منسلک ہیں۔

ریڈیو پاکستان کے چینل ایف ایم 101 پر بطور میزبان ایک عرصے سے پنجابی اور اردو زبانوں میں شوز بھی کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیںکہ ’’ پنجاب میں پنجابی شاعری، کہانی، افسانہ اور نثر کے عوام الناس میں فروغ کے حوالے سے بات کی جائے تو ماضی کے مقابلے میں اس میں بہتری تو آئی ہے لیکن اس کی رفتار انتہائی مایوس کن ہے لیکن سوشل میڈیا کی وجہ سے پنجابی شاعری اور بھارتی پنجاب میں بننے والی پنجابی فلمیں حیران کن حد تک فروغ پا رہی ہیں۔بلکہ مقبولیت میں ہمارے خطے میں بولی جانے والی دیگر زبانوں کو بھی پیچھے چھوڑ رہی ہیں‘‘۔اُن کا کہنا ہے کہ ’’پنجاب کے عام نوجوان کی پنجابی ادب سے جْڑت شاعری اور فلموں کی حد تک ہے ۔

پنجابی شاعری کے مقابلے میں لوگ افسانہ سننا زیادہ پسند نہیں کرتے البتہ شاعری اور افسانہ دونوں سمجھ لیتے ہیں ۔ہمارے ہاں زبانوں کی تفریق کے بغیرمجموعی طور پر کتابیں پڑھنے کا رجحان کم سے کم تر ہو جارہا ہے اردو کے چند ایک منتخب لکھنے والوں کے علاوہ کسی بھی زبان میں کتاب چھپوانے کے لئے لکھاری کو خود رقم خرچ کرنا پڑتی ہے بالخصوص پنجابی زبان میں تو سو فیصد کتاب پر خود خرچ کرنے کے بعد اسے ادیبوں اور دوستوں کے حلقے میں مفت تقسیم بھی کرنا پڑتا ہے۔ پنجابی زبان و ادب کے مستقبل کی اگر بات کریں تو میرے خیال میں اسے کوئی خطرہ نہیں ہے خاص طور پرپنجابی شاعری اور فلم کی وجہ سے‘‘۔

علی عثمان باجوہ


علی عثمان باجوہ، نوجوان پنجابی ایکٹیویسٹ ہیں۔شارٹ اسٹوری رائٹر ہیں اور اس حوالے سے ملکی سطح کے کئی مقابلوں میں اول پوزیشن حاصل کر چکے ہیں ۔ فلم ڈائریکٹرہیں ان کی لکھی اور ڈائریکٹ کردہ دو شارٹ فلمیں مختلف ایوارڈز جیت چکی ہیں۔ اسکرپٹ رائٹر ، اداکار اور براڈکاسٹرہونے کے ساتھ ساتھ تھیٹر ڈراموں کے رائٹر اور ڈائریکٹربھی ہیں۔

اس وقت پاکستان ٹیلی ویژن پر پنجابی کے ایک پروگرام کی میزبانی بھی کر رہے ہیں۔ پنجابی زبان کے فروغ کی ضرورت کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ’’جس طرح دنیا کی تمام زبانوں کو بچانے کی ضرورت ہے اسی طرح پنجابی کا فروغ بھی ضروری ہے۔پنجاب کی تاریخ اس زبان سے جڑی ہوئی ہے اگر یہ زبان ختم ہوگئی تو تمام تر تاریخ اور لوگ علم ختم ہو جائے گا اور پنجابی قوم مزید آئیڈنٹی کرائسس(شناخت کا بحران) کا شکار ہو جائے گی‘‘۔اُن کا کہنا ہے کہ ’’پنجابی زبان کا فروغ حکومت پنجاب اور عوام دونوں کی برابر کی ذمہ داری ہے۔

اس کے علاوہ عالمی تنظیمیں جو زبان کے فروغ کے لیے بنائی گئی ہیں ان کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے‘‘۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ پنجاب کا نظام تعلیم ایسا ہے جو نئی نسل کو پنجابی زبان بھولانے کے لیے ترتیب دیا گیا ہے۔ اس لئے پنجابی نہ صرف پنجاب بلکہ پورے پاکستان میں ایک سوتیلی بیٹی جیسی ہے۔

پنجاب میں پنجابی کے فروغ اور لکھنے پڑھنے کی اہلیت کو بڑھانے کا فوری اور ضروری حل پنجابی کے مضمون کو پہلی جماعت سے بی اے تک لازمی مضمون کی صورت دی جائے اور اسے پنجاب بھر کے تمام تعلیمی اداروں میں لاگو کیا جائے‘‘۔اُن کا کہنا ہے کہ ’’پنجابی روزمرہ بول چال کو فروغ تبھی دیا جاسکتا ہے کہ جب اس زبان کو اقتصادیات کے ساتھ جوڑا جائے گا ۔پنجابی زبان عام لوگوں کے لیے کمائی کا ذریعہ بنے اس کے علاوہ سرکاری سطح پر عوامی اعلانات پنجابی زبان میں کیے جائیں۔ یونیسکو اور یونائیٹڈ نیشنز کا چارٹر جہاںمادری زبان بولنے، اپنانے اور اس کے فروغ کا حق دیتا ہے وہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین اور قانون بھی اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ہر صوبہ اپنی ماردی زبان کے فروغ کے لیے کام کرے‘‘۔

ڈاکٹر افتخار احمد بیگ


ماہر تعلیم ڈاکٹر افتخار احمد بیگ کہتے ہیں کہ ’’ مادری زبان بچوں کی پاس پرسنٹیج کے تناسب کو بڑھانے کے لیے بہت اہم اور ضروری ہے کیونکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بچے جتنی آسانی سے اپنی مادری زبان میں سیکھتے ہیں اتنا کسی دوسری زبان میں نہیں سیکھتے اور دنیا میں یہ اصول طے شدہ ہے کہ کہ جن بھی قوموں نے ترقی کی ہے انہوں نے اپنی زبان میں ہی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ترقی کی ہے ۔ ہمارے ابھی بھی غیرترقی یافتہ رہنے کی ایک نمایاں وجہ اپنی مادری زبان میں تعلیم نہ دینا ہے ۔اس کے علاوہ اسکولوں سے ڈراپ آؤٹ کی ایک بہت بڑی وجہ مادری زبان میں تعلیم کا نہ ہونا ہے کیونکہ چھوٹے بچے بہت آسانی سے اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرتے ہیں سیکھتے ہیں اور سیکھنے میں سہولت محسوس کرتے ہیں ۔

ان پر جب کسی دوسری زبان کا بوجھ ڈالیں گے تو یہ ایک اضافی بوجھ ہوگا جس سے گھبرا کر بچے تعلیم کے میدان سے بھاگ جاتے ہیں لہذا اگر ہمیں اپنی شرح خواندگی بڑھانی ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ بچوں کی کم ازکم ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دیں تاکہ وہ سہولت کے ساتھ تعلیم حاصل کریں اور اس کے بعد اپنے وسائل اور حالات کے مطابق تعلیم جاری رکھیں۔ ڈاکٹر افتخار بیگ کا کہنا ہے کہ ’’ پنجابی زبان ابھی سکولوں کی سطح پر پڑھائی نہیں جاتی ۔پچھلے دنوں میں نے ایک پی ایچ ڈی کا تھیسز کرایا ہے جو پنجابی زبان کی ابتدائی تعلیم کے لئے افادیت پر ہے اس میں بہت سے والدین نے اس بات کو Endorse (تائید)کیا ہے کہ بچوں کی ابتدائی تعلیم مادری زبان میں ہونی چاہیے۔ پنجابی زبان اسکولوں میں ابتدائی زبان کے طور پر نافذ کریںتو پھرہی ہم پنجابی کی افادیت کو محسوس کر سکتے ہیں ۔

لیکن ابھی تک ہماری گورنمنٹ کی کسی پالیسی میں ابتدائی سطح کی تعلیمی اداروں میں پنجابی زبان میں تعلیم دینا اور پنجابی کی تعلیم دینا فی الحال شامل نہیں ہے۔ ہماری تعلیمی پالیسیاں اور دیگر تمام پالیسیاں بنانے میں بدقسمتی سے ایسے لوگ شامل ہوگئے ہیں جن کا ہمارے مقامی کلچر ہمارے مقامی ضروریات کے ساتھ تعلق ہی کوئی نہیں ہے لہذا وہ پالیسیاں اور پروگرام بنا کرہوا میں چھوڑ دیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم بہتری کی بجائے تنزلی کی جانب گامزن ہیں‘‘۔ اُنھوں نے اس بات پر زور دیا کہ ’’پنجاب اسمبلی میں یہ تحریک ہونی چاہیے کہ پنجاب میں تعلیم مادری زبان میں دی جائے اور اس پر عمل درآمد کی باقاعدہ رپورٹ لی جائے تب جا کر کہیں بات بنے گی۔اس کے علاوہ پنجاب میں پنجابی زبان کی تعلیم کو ہر سطح Patronizeکیا جائے ۔

بابو کلچر کو اس میں سے نکالا جائے مقامی لوگوں کو اس میں شامل کیا جائے ۔ہماری اسمبلی اس پر زور دے ۔ہمارے تعلیم کے وزیر اور خاص طور پر جو اسکول ایجوکیشن کے وزیر کو اس بات کی یقین دہانی کرانی چاہیے کہ اس پر کام ہو رہا ہے۔ ہمارے اسکولوں کے مجاز ایگزیکٹو آفیسرز کو پنجاب اسمبلی اور پنجاب حکومت کی طرف سے واضح ہدایات آنی چاہیے کہ وہ تعلیمی اداروں میں جب انسپکشن پر جائیں تو بچوں کے ساتھ ساتھ پنجابی میں سوال جواب کریں ۔

چیکنگ کے لیے جانے والے آفیسرز اساتذہ کے ساتھ پنجابی میں گفتگو کریں تو اس سے بچوں کی حوصلہ افزائی ہوگی‘‘۔ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ ’’ہمیں پنجابی کو بطور مضمون اس کا نفاذ عمل میں لانا ہوگا اگر ہم پنجابی کا نفاذ عمل میں لے بھی آتے ہیں تو اس کے باوجود مسئلہ یہ ہے کہ ہم پنجابی واحد ایسی قوم ہیں کہ ہمیں پنجابی زبان پر کوئی فخر نہیں ہے۔ حتیٰ کہ ہمارے ہاں ایک بہت ہی مشہور نجی اسکول نے اپنے بچوں کے اسکول کی حدود کے اندر پنجابی زبان بولنے پر پابندی لگا دی کہ یہFoul Language ہے۔جبکہ اس کے برعکس پاکستان کی دیگر مقامی زبانوں کے سارے لوگ اپنی مادری زبانوں میں اپنے دفاتر میں گفتگو کے دوران اپنے تعلیمی اداروں میں گفتگو کے دوران اپنی مادری زبان کا استعمال کرتے ہیں۔لہذا ہمیں بھی اپنے گھروں میں بچوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے کے وہ پنجابی بولیں‘‘ ۔

نواز طاہر


نواز طاہر، سنیئر صحافی ہیں 1985 سے پنجاب اسمبلی کی کوریج کر رہے ہیں۔پنجابی زبان کے فروغ کے سلسلے میں صوبائی اسمبلی کی کارکردگی کے حوالے سے اپنی یاداشتیں بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ پنجاب اسمبلی میں سرکاری زبان قومی زبان اردو ہی ہے لیکن اسمبلی میں دفتری زبان انگریزی ہے۔ خط وکتابت میں اردو بھی رائج ہے ۔ قواعدو ضوابط کے تحت اراکین کی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اسپیکر کی اجازت سے اردو کے علاوہ انگریزی یا اپنی مادری زبان میں بات کرسکتے ہیں۔

پنجاب اسمبلی میں صوبے کی اکثریتی مادری زبان پنجابی میں اکثر بات کی جاتی ہے بعض اوقات ایوان میں پنجابی میں بات کرتے ہوئے اسپیکر سے اجازت لئیے بغیر بھی اراکین بات کرتے ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں جن قانون سازوں کوزبانوں کے حوالے سے کریڈٹ دیا جاسکتا ہے ان میں حنیف رامے ، چوہدری پرویز الٰہی ، فضل حسین راہی، عبدالرشید بھٹی اور سرائیکی کے حوالے سے مرحوم سید ناظم شاہ کی سرائیکی زبان اور وسیب کے حوالے سے تقریر کو بھی تاریخی قراردیا جاسکتا ہے ۔

پنجاب اسمبلی کا بحیثیت قانون ساز ادارہ صوبے میں پنجابی زبان کو نصاب کا حصہ بنانے کیلئے کوئی قابل ذکر کردار دکھائی نہیں دیتا ماسوائے دو ایک قرارداد کے جس میں صوبے میں پنجابی زبان کو فروغ دینے کا مطالبہ کیا اور دہرایا گیا ۔پنجاب اسمبلی میں کیا جانے والا ایسا کوئی مطالبہ یاداشت اُگل نہیں رہی جس میں صوبہ سندھ کی طرح پنجاب میں بھی پرائمری کے نصاب میںپنجابی شامل کرنے اور لازمی قراردینے کا مطالبہ کیا گیا ہو ۔ بحیثیت مجموعی دیکھا جائے تو پچھلے تین عشروں سے زائد کی پنجاب اسمبلی نے پنجابی زبان کو فروغ دینے ، پنجابی نصاب مرتب اور رائج کرنے کے لئے وہ کردار ادا نہیں کیا جو حقیقی معنوں میں صوبے کے عوام کا بنیادی حق ہے ‘‘۔

اقوام متحدہ کے مطابق ہر دو ہفتوں میں ایک زبان اپنے ساتھ ایک مکمل ثقافتی اور دانشورانہ ورثہ لے کر غائب ہوجاتی ہے۔ ہمیں پنجابی زبان کو اس خطرے سے بچانا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ جہاں چاہ ہے وہاں راہ ہے ۔ بس ہمیں پنجابی زبان سے اپنی عملی چاہت کا اظہارگھر، اسکول،بازار ،دفاتر ہر سطح پر کرنا ہوگاتو پھر اس کے فروغ کی راہیں بھی خود بخود ہی نکل آئیں گی۔

 

The post پنجابی زبان اپنے بولنے والوں کے گھروں سے رخصت ہورہی ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3ui7wtt