سفارتی اور داخلی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے حکومت کو جلد اہم فیصلے کرنا ہوں گے - KHB Point

کے-ایچ-بی پوائنٹ (ملکی و غیر ملکی تمام خبریں فراہم کرنے والاایک مکمل نیوزپلیٹ فام نیٹ ورک)

تازہ ترین

سفارتی اور داخلی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے حکومت کو جلد اہم فیصلے کرنا ہوں گے

 اسلام آباد:  بہت سے اتار چڑھاو آغوش میں لئے سال 2020 گزر گیااور بہت سی امیدیں لئے نیا سال شروع ہوچکا ہے۔

پاکستاں میں تو حکومت نے نئے سال آغاز کا بجلی و گیس مہنگا کرکے کیا جس نے عوام کو بھی آزمائشیں ختم نہ ہونے اور نئے چیلنجز کا سامنا کرنے کیلئے کمربستہ ہونے کا پیغام دیا ہے کیونکہ کپتان نے جانے والے سال کی طرح نئے سال کو بھی ترقی کا سال قرار دیا ہے اور اس سال نوکریاں پیدا ہونے کی نوید سنائی ہے چونکہ اس حوالے سے کپتان کا ماضی کوئی زیادہ مضبوط نہیں ہے ان کے یوٹرن کے فلسفہ نے عوام میں بداعتمادی پیدا کر دی ہے۔

اس لئے اس سال کا آغاز ہی چونکہ بجلی وگیس کی قیمتوں میں اضافے سے ہوا ہے تو عوام میں بھی سے گھبراہٹ محسوس ہونا شروع ہوگئی ہے اور جو سیاسی حالات بن رہے ہیں ان سے حکومتی حلقوں میں بھی گھٹن اور گبھراہٹ واضح محسوس ہو رہی ہے اور اسی گھبراہٹ کو لے کر سیاسی و غیر سیاسی حلقوں کی جانب سے طرح طرح کی پیشنگوئیاں سامنے آرہی ہیں اور ستاروں کے علوم پر ملکہ رکھنے و الے ماہرین و علم نجوم کے ماہرین بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔

اپوزیشن نے حکومت کے خلاف فائنل معرکہ سر کرنے کیلئے طبل جنگ بجادیا ہے اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اپوزیشن کے دعوے ہوائی نہیں ہیں اس کے پیچھے بھی ایک منطق ہے اور کہا جا رہا ہے کہ جنوری کے پہلے عشرے میں کپتان اور اسٹیبلشمنٹ کے راستے جدا ہونے جا رہے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے یہ پیغام حکومتی و اپوزیشن حلقوں کو پہنچادیا گیا ہے اور اپنی لڑائی پارلیمنٹ میں لڑنے کا کہا جا رہا ہے اسی کو لے کر ان ہاوس تبدیلی کی باتیں ہو رہی ہیں ۔

دوسری جانب علم نجوم اور ستاروں کے علوم کے ماہرین بھی کپتان کے بارے میں پیشنگوئیاں کر رہے ہیں کہ صفحہ پلٹتا دکھائی دے رہا ہے ا ور کپتان سیاسی تنہائی کا شکار ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ویسے بھی کپتان سولو فلائٹ کیلئے مشہور جانے جاتے ہیں اور لگ یہی رہا ہے کہ اب آگے سیاسی لڑائی بھی انہیں تنہا ہی لڑنا ہوگی۔

اب اس میں کامیابی کیلئے انہیں اپنے جوہر دکھانا ہونگے لیکن بعض نجومیوں کی جانب سے خطرناک پیشنوگوئی کی جا رہی ہے کہ کپتان استعفی دینے اور اسمبلیاں توڑنے کے آپشنز استعمال کر سکتے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ کوئی ایڈونچر بھی ہو سکتا ہے اور کپتان کیلئے یہ خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے اور جہاں تک حالات کے بگاڑ کی بات ہے تو اس میں سدھار لانے کیلئے سال 2021 میں پاکستان کو بہت سے اہم فیصلے کرنے ہوں گے۔

اس وقت سفارتی داخلی اور سیاسی معاشی طور پر پاکستان کی پوزیشن کچھ خاص نہیں ہے اس حکومت سے عوام کو بہت امید تھی کہ کچھ بہتر ہو گا لیکن اس حکومت کی بھی کارگردگی خاص نہیں، وعدوں کے بعد وعدے ہی کیے جا رہے ہیں ، بس سیاسی تنقید براے تنقید ہی ہو رہی ہے اس وقت سفارتی سطح پر پاکستان پر بہت دباو ہے ۔ مسلماں دنیا تقسیم ہو چکی ہے اور پاکستان ابھی تک فیصلہ نہیں کر سکا کہ مسلم دنیا میں ہمارا کیا رول ہو گا ۔ دوسری جانب مچھ میں گیارہ کان کنوں کے بے دردری سے قتل نے بہت سے دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔

دوسری جانب سیاسی طور پراپوزیشن اور حکومت کی لڑائی کیا رخ اختیار کرے گی، معاشی طور پر پاکستان پہلے ہی بہت کمزور ہے اگر اپوزیشن کی جانب سے لانگ مارچ شروع ہوا تو معیشت تباہ ہو کر رہ جائے گی۔ نائب صدر مسلم لیگ (ن) مریم نواز نے کہا ہے کہ پی ڈی ایم لانگ مارچ ضرور کرے گی ، لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان موسم کی صورت حال دیکھ کر کریں گے۔

بہاولپور میں لاہور واپسی سے قبل میڈیا ٹاک کرتے ہوئے مریم نواز کا کہنا تھا کہ عمران خان نے استعفی نہ دیا تو 31 جنوری کو دیکھیں گے  وہ عزت سے جانے پر راضی نہیں تو عوام کے ساتھ مل کر فیصلہ کریں گے ۔ لانگ مارچ کا اعلان عوام کی سہولت دیکھ کر کریں گے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ معاشی میدان کی اس اگلی جنگ کے لیے پاکستان کی حکومت اور شعبہ ہائے زندگی کو ابھی سے تیاری کرنا ہوگی۔ لاک ڈاؤن کے باعث ایک اندازے کے مطابق ابھی تک ایک کروڑ پندرہ لاکھ افراد بے روزگار ہوچکے ہیں۔

عالمی اداروں کا یہ کہنا کہ وبا کا اگلا مرکز جنوبی ایشیا ہو سکتا ہے ۔ جس سے صورتِ حال مزید تشویش ناک ہو سکتی ہے ۔ کورونا وائرس کے معیشت پر اندازے سے زیادہ اثرات پڑے جس سے شرح نمو گراوٹ کا شکار ہوگئی ۔ اگر شرح نمو مسلسل گرنا شروع ہو جائے تو لوگ لمبے عرصے تک بے روزگار رہتے ہیں۔ صرف مارچ میں پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ 25 فی صد تک گری ہے اور روپے کی قدر میں چھ فی صد کمی واقع ہوئی ۔ ملک کی معیشت پر دو طرح سے دباوپڑا ۔ ابھی سال کا آغاز ہوا ہی تھا کہ حکومت نے عوام پر بجلی گیس مہنگائی کا بم گرا دیا۔ سال دو ہزار بیس کے آغاز کو بھی ترقیاتی سال کہا گیا تھا لیکن ترقیاتی کام نظر نہیں آئے۔

دوسری جانب سفارتی محاذ پرسعودی فرمانروا شاہ سلمان نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو مستقل طور پر سعودی عرب میں قیام کی پیشکش کی ہے۔ شاہ سلمان نے نواز شریف کو سعودی عرب آنے اور ملاقات کی دعوت کا پیغام بھجوایا ہے اور کہا ہے کہ اگر نواز شریف مستقل طور پر سعودی عرب رہنا چاہیں تو سعودی عرب ان کا خیر مقدم کرے گا۔

قوی امکان ہے کہ نواز شریف مستقل طور پر نہ سہی لیکن عمرہ کی ادائیگی اور سعودی حکمران شاہ سلمان اور محمد بن سلمان سے ملاقات کے لیے جلد سعودی عرب کا دورہ کریں گے۔ دورے کے پیش نظر نواز شریف کے سٹاف افسر، حسین نواز کے ذاتی دوست، اسکول فیلو ود دیگر سٹاف کے ہمراہ سعودی عرب پہنچ گئے ہیں جہاں پر وہ نواز شریف کی حسین نواز کی رہائش گاہ پر قیام کے انتظامات میں مصروف ہیں۔رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ برطانوی وزارت خارجہ نے بھی نواز شریف کو سنگل دے دیا ہے کہ آپ اپنا علاج مکمل ہونے تک لندن میں پاسپورٹ کی میعاد ختم ہونے کے باوجود رہ سکتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق نواز شریف سعودی حکمرانوں سے ملاقات،عمرہ کے لیے سعودی عرب ضرور جائیں گے لیکن مستقل رہائش لندن میں ہی رکھیں گے۔آخری آپشن کے طور پر امریکا منتقلی پر غور کیا گیا ہے تاہم اس کے امکانات کم ہیں ۔ اگر نواز شریف قطر منتقل ہونا چاہیں تو وہاں کے حکمرانوں سے بھی سیف الرحمان بات کر چکے ہیں جنہوں نے نواز شریف کی متوقع  آمد کا خیر مقدم کیا ہے۔ اس بات کا امکان کم ہے کہ نواز شریف لندن چھوڑ کر امریکا، سعودی عرب یا قطر منتقل ہو جائیں البتہ وہ عمرہ کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب ضرور جائیں گے۔

ایک طرف وبا پر قابو پانے کے لیے اضافی مالی وسائل درکار ہیں تو دوسری جانب لاک ڈاؤن اور کورونا وائرس کے عالمی اثرات کے باعث محصولات میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے اس وبا سے پاکستان میں صنعت اور خدمات کے شعبے کے علاوہ سب سے زیادہ روزانہ کی بنیاد پر کام کرنے والے لوگ متاثر ہوئے ۔ پاکستان کی 64 فی صد آبادی دیہات میں رہتی ہے جو گندم اور چاول سے لے کر پھل سبزیاں اور دودھ و گوشت کی طلب کو پورا کرلے تو ملک میں بحرانی صورتِ حال پیدا نہیں ہو گی۔

دنیا کے دیگر سربراہان مملکت کی طرح پاکستان کے وزیراعظم نے بھی اقوام متحدہ اور عالمی مالیاتی اداروں سے اپیل کی ہے کہ کورونا وائرس کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے ترقی پذیر ممالک کو قرضوں میں چھوٹ دی جائے۔ عالمی اداروں کے مطابق اگرچہ کرونا وائرس کی یہ وباء دنیا کے تقریباً ہر ملک کو متاثر کر رہی ہے لیکن غریب ممالک کے لیے مسائل زیادہ سنگین ہیں۔

آئندہ برس 12 ممالک قحط اور فاقہ کشی کا شکار ہو سکتے ہیں، ادھرعالمی خوراک پروگرام عالمی خوراک پروگرام نے خبردار کیا ہے کہ آئندہ برس بد ترین انسانی بحران کا سال ثابت ہو سکتا ہے اور 12 ممالک قحط کے خطرات سے دو چار ہو سکتے ہیں۔  اقدامات سے اس خطرے کا سد باب کیے جاسکنے پر زور دیا ہے۔جبکہ مہلک کورونا وائرس کے عالمی معیشت پر تباہ کن اثرات جاری ہیں اور اقتصادی لحاظ سے دنیا کے مضبوط ممالک پر بھی اس کے گہرے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔

The post سفارتی اور داخلی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے حکومت کو جلد اہم فیصلے کرنا ہوں گے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/2JO0HgN