اسلام آباد: ملک بھر میں اس وقت شدید ٹھنڈکا راج ہے لیکن سیاسی ماحول گرم اپوزیشن اور حکومت اس وقت شدید تناوکا شکار ہے ۔
ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں اپنے لیے مذاکرات کا دروازہ بند کر کے تصادم کا راستہ اختیار کر رہے ہیں ۔ ملک کی معاشی صورتحال بھی پہلے سے نازک ہے اگر اپوزیشن لانگ مارچ یا دھرنوں کا راستہ احتیار کرتی ہے تو ملکی معیشت تباہ ہو کر رہ جائے گی جبکہ ملک کا وزیراعظم پہلے ہی اس بات کا اعتراف کر چکا ہے کہ انہیں ڈیڑھ سال تو معیشت کے بارے میں سمجھ ہی نہیں آئی اب اگر سمجھ آنا شروع ہو ہی گئی ہے تو اپوزیشن نے مت مارنا شروع کردی ہے۔
اپوزیشن کی جانب سے حکومت کے ایک صفحے کے پلٹنے کی بھی باتیں کی جا رہی ہیں اب اسلام آباد کے میئر کے انتخابی نتائج کو صفحہ پلٹنے کی دلیل کے طور پر لیا جا رہا ہے لیکن ساتھ ہی اپوزیشن جماعتوں میں بھی تفریق واضح ہوتی جا رہی ہے اور جمعیت علماء اسلام میں بھی حقیقی کے نام سے نئے دھڑے کی کوششیں ہو رہی ہیں تو پاکستان مسلم لیگ(ن) میں بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں اب مقتدر حلقے کیا سوچ رہے ہیں یہ توجلد معلوم ہو جائے گا لیکن کپتان کسی کو نہیں چھوڑوں گا کے اپنے بیانئے پر ڈٹ کر کھڑا ہوا ہے اور عمران خان نے ایک دفعہ پھر این آراو کی بحث چھیڑ دی ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اپوزیشن رہنماؤں کو معلوم ہے عمران خان این آر او نہیں دے گا اس لیے پاک فوج پر دباؤ ڈال رہے ہیں، پی ڈی ایم کا مسئلہ دھاندلی ہوتا تو انتخابی اصلاحات میں ہمارا ساتھ دیتے۔ وزیراعظم کی زیر صدارت حکومتی و پارٹی ترجمانوں کا اجلاس منعقد ہوا، اجلاس میں موجودہ سیاسی صورتحال، خصوصاً پی ڈی ایم تحریک پر تبادلہ خیال کیا گیا وزیراعظم نے ترجمانوں سے کہا کہ پی ڈی ایم کی حکومت مخالف تحریک کا کوئی مستقبل نہیں، بات چیت اور مسائل کے حل کا بہترین فورم پارلیمنٹ ہے لیکن اب تک اپوزیشن نے پارلیمنٹ کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا۔
اپوزیشن بھی عوام کو جواب دہ ہے جس نے ڈھائی سال میں قانون سازی میں حصہ نہیں لیا، انھوں نے کہا کہ جھوٹ بول کر عوام کو گمراہ نہیں کیا جا سکتا، پی ڈی ایم غیر فطری تحریک ہے، آج تک عوام کسی کے ذاتی مفادات کے لیے نہیں نکلی، ان کے کہنے پر نیب قانون تبدیل کر لیتے تو آج یہ سڑکوں پر نہ ہوتے، اپوزیشن کی بلیک میلنگ میں نہیں آئیں گے۔ وزیرِ اعظم عمران خان سے مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان نے ملاقات کی جس میں آئینی، قانونی اور سیاسی امور پر گفتگو ہوئی۔ وزیراعظم عمران خان نے جمہوریت کی مضبوطی کے لیے اداروں کے مضبوط ہونے کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ اداروں پر اپنی سیاست چمکانے کے لیے انگلیاں اٹھانے والے کسی قیمت پر جمہوریت کے علم بردار نہیں ہو سکتے، ریاست کے تمام ستون اپنے دائرہ کار میں رہ کر ملکی ترقی کے لیے کام کر رہے ہیں۔
حکومت نے جے یو آئی (ف) کے رہنما مفتی کفایت اللہ کے خلاف فوج مخالف بیان بازی پر کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے، اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ جے یو آئی (ف) کے رہنما مفتی کفایت اللہ کے خلاف فوج مخالف بیان بازی پر کارروائی کی جائے گی ۔
مولانا فضل الرحمان نے اثاثے کیسے بنائے کتنے بنائے، عوام کو آگاہ کیا جائے۔اْدھر مولانا فضل الرحمن نے چیلنج کر دیا ہے کہ اْن کے خلاف الزامات یا گرفتاری جمیعت پر حملہ تصور ہو گا۔ مولانا غفور حیدری نے اپنے دھرنوں کا رخ جی ایچ کیو کی جانب موڑنے کا کہہ کر واضح پیغام بھی دے دیا ہے اور یوں ہر طرف صرف تصادم ہی تصادم دکھائی دے رہا ہے ایسے میں اختیاراتی مثلث کی ٹکراؤ کی پالیسی نظام کو خطرات سے دو چار کر سکتی ہے۔ دوسری جانب مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز اور پیپلزپارٹی کے رہنما بلاول بھٹو نے بھی حکومت کو بی بی کی برسی پر خطاب میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
دوسری جانب اپوزیشن کی جانب استعفوں کی بات سامنے آ رہی ہے اگر اپوزیشن کی جانب سے ایسا کیا گیا تو حکومت کی لیے مشکل بن جائے گی اور نئے الیکشن کی کروانے پڑ سکتے ہیں یا یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ ایک بحران پیدا ہو سکتا اس پر حکومتی وزیر وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے دعویٰ کیا ہے کہ سابق صدر آصف زرداری اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف استعفوں کے حق میں نہیں ۔ تین وفاقی وزرا، شبلی فراز، فواد چوہدری اور فیصل ووڈا نے مشترکہ پریس کانفرنس کی۔
وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ مریم اور بلاول نے زندگی میں آج تک کوئی کام نہیں کیا لیکن اپنی زندگی کی پہلی نوکری بطور وزیراعظم کرنا چاہتے ہیں، شہباز شریف کا جیل میں ہونے کا سب سے زیادہ فائدہ مریم نواز کو ہو رہا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ نے اتحاد میں شامل جماعتوں کے قومی و صوبائی اسمبلی کے ارکان کو استعفے اپنی قیادت کے پاس 31 دسمبر تک جمع کرانے کی ہدایت کر رکھی ہے جبکہ حکومت کو مستعفی ہونے کیلئے 31 جنوری تک کی مہلت دی ہے۔ حکومت ایک سے بڑھ ایک مشکل کا شکار ہو رہی ہے لیکن حکومتی وزرا کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہے ایک طرف تو اسلام آباد میں مئیر کے الیکشن پر شکست دوسری طرف مہنگائی اور اپوزیشن کا دباو ایک اور اتحادی جماعت کی طرف سے تحفظات کا اظہار ایسا لگ رہا حکومت وزرا کا کام بس بیان بازی ہی رہ گیا ہے۔
اہم حکومتی اتحادی جماعت بھی حکومت سے تحفظات کا اطہار کر رہی ہے بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) نے عمران خان کی سربراہی میں وفاقی حکومت کو مکمل حمایت فراہم کرنے کے باوجو وفاقی اور خیبرپختونخوا حکومتوں میں نمائندگی نہ ملنے پر تحفظات کا اظہار کر دیا ہے ۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق بی اے پی کے صدر جام کمال خان علیانی کی سربراہی میں سینیٹرز، اراکین قومی اسمبلی، صوبائی وزرا اور سینئر رہنماؤں پر مشتمل اجلاس میں وفاقی کابینہ میں کم نمائندگی ملنے پر برہمی کا اظہار کیا گیا۔
خیال رہے کہ بی اے پی کے 9 سینیٹرز ہیں جن میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی بھی شامل ہیں، اس کے علاوہ قومی اسمبلی میں ان کے اراکین کی تعداد 5 ہے۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ اجلاس میں سینٹ انتخابات کے علاوہ سینیٹر کلثوم پروین کے انتقال سے خالی ہونے والی سینیٹ کی نشست اور جے یو آئی (ف) کے سید فضل آغا کے انتقال سے خالی ہونے والی بلوچستان اسمبلی کی نشست پر ضمنی انتخاب کے حوالے سے بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ اجلاس میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی اراکین کو بلوچستان کابینہ میں مناسب نمائندگی دی گئی ہے لیکن بی اے پی کو وفاقی اور خیبرپختونخوا کابینہ میں کوئی حصہ نہیں دیا گیا۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ جام کمال خان علیانی نے اجلاس کو یقین دہانی کروائی کہ وہ اپنی پارٹی کے تحفظات سے وزیراعظم عمران خان کو آگاہ کریں گے۔
اس سے قبل بلوچستان سے تعلق رکھنے والی حکومت کی اتحادی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے سربراہ اختر مینگل بھی وفاقی حکومت سے ناراضی کا اظہار کر کے علیحدہ ہوچکے ہیں۔ ترجمان بلوچستان حکومت لیاقت شاہوانی نے کہا کہ ہم وفاقی حکومت میں ایک نشست کے طلبگار اور حق دار ہیں، جس کی وزیراعظم عمران خان نے حکومت تشکیل دیتے ہوئے یقین دہانی بھی کروائی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ پی ٹی آئی نے زبیدہ جلال کو وزیر برائے دفاعی پیداوار کا عہدہ دیا لیکن اس وزارت میں براہ راست بلوچستان کے عوام کا کوئی فائدہ نہیں ہے، انہیں نہ نوکریاں مل سکیں نہ ان کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی کام کیا جاسکا۔
لیاقت شاہوانی نے کہا کہ ہمارے تحفظات بلوچستان کے عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہیں اور ہم وقتاً فوقتاً وزیراعظم کو یاددہانی بھی کرواتے رہے ہیں کہ ہمارے 5 اراکین قومی اسمبلی ہیں، ایک اور وفاقی وزارت کا ہمارا حق بنتا ہے جو کہ بلوچستان کے عوام کی خدمت کرنے کے لیے ہمیں درکار ہے۔
ترجمان بلوچستان حکومت نے مزید کہا کہ بلوچستان کابینہ میں شامل پی ٹی آئی اراکین کو یکساں اہمیت دی جاتی ہے لیکن بدقسمتی سے تحریک انصاف اس محبت کا مناسب جواب نہیں دیتی اور ہمیں یہ محسوس ہوا کہ بی اے پی کے مینڈیٹ کے مطابق اسے وفاقی حکومت میں جگہ نہیں ملی۔ انہوں نے کہا کہ بی اے پی گزشتہ ڈھائی برسوں میں ہر معاملے پر پی ٹی آئی کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی رہی ہے لیکن اس سے قبل بھی وزیراعظم کو اس اہمیت، اس ذمہ داری کا اشارہ کرتے رہے ہیں لیکن اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد ہماری گزارشات بار آور ثابت نہ ہو سکیں۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم اراکین کے استعفوں سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن وفاقی حکومت اگر ہماری گزارشات کو نظر انداز کرتی رہی تو اس سے فرق پڑ سکتا ہے۔
The post مذاکرات کا دروازہ بند، حکومت اور اپوزیشن تصادم کی راہ پر appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/2KPelka