سیاست میں تشدد کا بڑھتا ہوا عنصر جمہوری اقدار کیلئے مہلک - KHB Point

کے-ایچ-بی پوائنٹ (ملکی و غیر ملکی تمام خبریں فراہم کرنے والاایک مکمل نیوزپلیٹ فام نیٹ ورک)

تازہ ترین

سیاست میں تشدد کا بڑھتا ہوا عنصر جمہوری اقدار کیلئے مہلک

 اسلام آباد:  غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹتی اور ملک دشمنی کے الزامات عائد کرتی حکومت، اب اپنے ہی وزیروں کے متضاد اور بے مقصد بیانات کے چنگل میں پھنسی دکھائی دیتی ہے۔

ابھی سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر فواد چوہدری کی قومی اسمبلی میں تقریر کا معاملہ تھما نہیں تھا کہ گزشتہ روز وزیر داخلہ نے ننکانہ میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی قیادت پر ممکنہ دہشت گرد حملوں کا ذکر کر کے جلتی پر تیل کا کام کر ڈالا اور اس سے پہلے وفاقی وزیر شیخ رشید نے کوئٹہ اور پشاور میں دہشت گردی کے خدشات کے اظہار کیا تھا جو کہ درست ثابت ہوئے اور اپوزیشن کی جانب سے شیخ رشید پر دہشت گردوں کی سہولت کاری کا الزام عائد کرتے ہوئے گرفتار کرکے تفتیش کا مطالبہ کیا جا رہا تھا اور اب وزیر داخلہ کی دھمکی سامنے آگئی ہے جس سے  حکومت کے فاشسٹ ہونے سے متعلق اپوزیشن کے بیانیہ کو تقویت مل رہی ہے۔

اس سے پہلے لیاقت علی خان اور ذوالفقار علی بھٹو سے لے بے نظیر بھٹو تک کے واقعات میں بھی اسی قسم کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں اور بے نظیر کے معاملے میں تو قبل از وقت ذمہ داراں کی نامزدگی بھی کی جا چکی تھی اور اب ایک بار پھر ملکی سیاست میں تشدد کا عنصر غالب آتا جا رہا ہے۔

حکمران اور اپوزیشن جماعتیں اپنی اپنی فورسز بنا رہی ہیں۔ تحریک انصاف کی ٹائیگر فورس کے مقابلہ میں ن لیگ نے شیر جوان فورس میدان میں اتاردی ہے۔ اب خدانخواستہ اگر سیاسی جماعتوں کی نجی فورسز  ٹکراتی ہیں تو نتیجہ انارکی کے سواء کچھ نہیں ہوگا اور اگر اپوزیشن کی کسی بھی سیاسی قیادت یا رہنما کے ساتھ دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو اس صورت میں انگلیاں ریاست اور ریاست کے حکمرانوں کی جانب اٹھیں گی اور اعجاز شاہ اس حوالے سے پہلے ہی متنازعہ ہیں اور ان پر اس قسم کا الزام بے نظیر بھٹو کے حوالے سے انکی زندگی میں لگ چکا ہے، پھر بے نظیر بھٹو کے ساتھ سانحہ پیش آگیا۔

اب کیا ملکی  حالات کسی ایسے سانحہ کے متحمل ہو سکتے  ہیں جبکہ ملکی سرحدیں پہلے سے آگ کی لپیٹ میں ہیں اور ملکی سیاسی قیادت اپنے آپسی اختلافات میں اس قدر آگے نکل گئی ہے کہ ریاست  بہت پیچھے رہ گئی ہے۔

دوسری طرف وزیر اعظم عمران خان جن کا کام جلتی پر پانی ڈالنا ہے مگر بدقسمتی سے انکے کی شعلہ اگلتے بیانات بھی جلتی پرمزید تیل ثابت ہو رہے ہیں اور وہ مسلسل ایک ہی بیانیہ اپنائے ہوئے ہیں کہ میں ’چوروں کو نہیں چھوڑوں گا‘ کا نعرہ لگا رہے ہیں اور اب ان کی جانب سے یہ بیان سامنے آیاہے کہ وہ پہلے اپنی تمام تر توجہ معیشت پر توجہ مرکوز کئے ہوئے تھے لیکن اب وہ دوسرے معاملات اور اداروں پر بھی توجہ دیں گے جس پر اپوزیشن  سمیت مختلف حلقوں کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے اور تنقید کی جا رہی ہے کہ تین سال معیشت پر توجہ مرکوز کی تو معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی اب اداروں کی طرف توجہ کرنے جا رہے ہیں اللہ ہی خیر کرے،  کیونکہ اداروں کی حالت پہلے ہی بہت پتلی ہے اب اگر آٹے، چینی کے نوٹسز والی صورتحال ادھر بھی ہوئی تو پھر کیا بنے گا۔

یہی نہیں اپنے یوٹرن کے حوالے سے بھی کپتان مسلسل مخالفین کے ریڈار پر ہیں اور جب سے اقتدار میں آئے ہیں کپتان کی جانب سے ریاست مدینہ کے ماڈل کا بیانیہ دیا گیا لیکن دیگر معاملات کی طرح اس معاملے میں بھی کنفیوژن کا شکار دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ بیانیہ ریاست مدینہ کا دیا گیا ہے۔

درمیان میں ملائشیاء، ترکی اور ایران ماڈل بھی آتا رہا اور اب عمران خان کی جانب سے چائنیز ماڈل کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے۔ ایسا معلو م ہوتا ہے وہ خود بھی کلئیر نہیں ہیں کہ وہ  کونسا ماڈل اپنانا چاہتے ہیں کیونکہ ملائشیاء، ایران اور ترکی کے ماڈلز  میں تو کچھ نہ کچھ ریاست مدینہ والی بات ہو سکتی ہے مگر چائنیز ماڈل تو مکمل طور پر ریاست مدینہ کے ماڈل کے برعکس ہے، اب اس پر سیاسی مخالفین سمیت تمام حلقوں کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے اور اسے کپتان کے ایک او یوٹرن سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔

مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز نے پاکستانی سیاست کو ایک مشکل راستے پر لگا دیا ہے اب اس راستے پر چلنا ہر سیاست دان کے بس کی بات نہیں وہ ایک پہلے والی مسلم لیگ سے بالکل ہی مختلف نظریہ لے کر چل رہی ہیں۔ اس سے پہلے مسلم لیگ ن نے ہمیشہ ہی مفاہمت  اور کسی طاقتور سے نہ ٹکرا کر سیاست کی ہے لیکن کہا جاتا تھا اب کے جو پالیسی ہے یہ صرف مریم نواز کی ہے۔

اس سے یہی باتیں سننے کو ملی کہ پاکستان مسلم لیگ ن میں دو گروپ ہیں ش لیگ اور ن لیگ ۔لاہور میں مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز کو منی لانڈرنگ کیس میں احتساب عدالت میں پیش کیا گیا۔اس موقع پر مریم نواز اپنے چاچا اور کزن حمزہ شہباز سے اظہار یکجہتی کے لیے احتساب عدالت پہنچیں۔ مرم نواز نے عدالت میں پہنچنے کے بعد شہباز شریف اور حمزہ شہباز سے ملاقات کی اور اس موقع پر مختلف امور پر تبادلہ خیال بھی کیا۔

علاوہ ازیں صحافی کی جانب سے مریم نواز سے سوال کیا گیا کہ حکومت جمہوری قیادت کو بکتر بند گاڑیوں میں لائی ہے جس پر آپ کا کیا موقف ہے جس پر انہوں نے کہا کہ انہیں جمہوری قیادت سے جتنی دہشت ہے اتنی کسی سے نہیں۔ غیر رسمی گفتگو میں مریم نواز کا کہنا تھا کہ جو لوگ (ن)، (ش) اور (م) لیگ کی باتیں کرتے تھے ان کو پیغام مل گیا ہے کہ ہم اکٹھے ہیں۔ دوران گفتگو صحافی نے سوال کیا کہ کیا اگلا سال الیکشن کا ہے تو اس پر مریم نواز نے جواب دیا کہ انشا اللہ اگلا سال الیکشن کا سال ہے جبکہ گلگت بلتستان کے انتخاب میں ن لیگ ہی جیتے گی۔

اپوزیشن لیڈر ہوں یا حکومت کے نمائندے، بدنصیبی سے ان کے بیانات کو بھارت میں بہت دلچسپی اور غور سے سنا جاتا ہے۔ میڈیا کے علاوہ سیاست دان بھی ان کا مکمل فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حال ہی میں یہ معاملہ سابق اسپیکر قومی اسمبلی اور مسلم لیگ (ن) کے لیڈر ایاز صادق کے قومی اسمبلی میں ایک بیان سے شروع ہوا۔ چند روز پہلے ایک بیان میں انہوں نے فروری 2019 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان فضائی جھڑپ کے نتیجہ میں گرفتار ہونے والے پائیلٹ ابھی نندن کی رہائی کے معاملہ پر تبصرہ کیا تھا۔

اس بیان کا مقصد تحریک انصاف کی حکومت اور عمران خان پر بھارت کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرنے کا الزام لگا کر انہیں شرمندہ کرنا تھا ۔ ایاز صادق کا کہنا تھا کہ پارلیمانی لیڈروں کے ایک اجلاس میں وزیر اعظم تو شریک نہیں ہوئے لیکن وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید موجود تھے۔ اس موقع پر شاہ محمود قریشی کے پسینے چھوٹ رہے تھے اور انہوں نے اپوزیشن سے درخواست کی کہ وہ ابھی نندن کی رہائی کا فیصلہ کرنے سے اتفاق کر لیں ورنہ بھارت آج رات 9 بجے حملہ کردے گا۔

بھارتی میڈیا نے اس بیان کو نریندر مودی حکومت کی کامیابی کے طور پر پیش کرتے ہوئے یہ دعوے کرنا شروع کیے کہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کو دھمکی دے کر ابھی نندن کو رہا کروایا گیا تھا۔ پاکستانی حکومت حتیٰ کہ آئی ایس پی آر کے ترجمان نے اس بھارتی پروپیگنڈا کو وسیع تر تناظر میں دیکھنے اور اسے بھارتی میڈیا کی سنسنی خیزی تک محدود رکھنے کی کوشش نہیں کی۔ شبلی فراز کی سربراہی میں حکومتی ترجمانوں نے اس بیان کو ایاز صادق اور اپوزیشن جماعتوں کی ملک دشمنی سے محمول کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اپوزیشن دراصل فوج کو آپس میں لڑانا چاہتی ہے۔ اور ایسے جھوٹے بیان ملک سے غداری کے مترادف ہیں۔

The post سیاست میں تشدد کا بڑھتا ہوا عنصر جمہوری اقدار کیلئے مہلک appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3jVFddZ