اپوزیشن کی اے پی سی مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گی؟ - KHB Point

کے-ایچ-بی پوائنٹ (ملکی و غیر ملکی تمام خبریں فراہم کرنے والاایک مکمل نیوزپلیٹ فام نیٹ ورک)

تازہ ترین

اپوزیشن کی اے پی سی مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گی؟

 اسلام آباد:  آل پارٹیز کانفرنس میں ملک کی دونوں بڑی سیاسی اپوزیشن جماعتوں کے رہنماوںکی تقاریر سے لگتا ہے کہ انھوں نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھڑے ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف نے بھی طویل خاموشی توڑ کر پھر سے سیاسی سرگرمیاں شروع کر دی ہیں اور سیاسی میدان میں ان کی دبنگ انٹری نے حکومتی و مقتدر حلقوں میں ہلچل مچادی ہے۔ جس کا اندازہ حکومتی رہنماوں کے سامنے آنے والے ردعمل سے لگایا جا سکتا ہے۔

پوری حکومت اے پی سی اور نوازشریف کی تقریر پر ردعمل دیتے دکھائی دے رہی ہے اور وزیراعظم عمران خان نے تو منگل کو اس حوالے سے ہنگامی اجلاس کی صدارت کی ہے جس میں انکا کہنا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس میں حکومت اور اداروں کے خلاف بیان بازی بھارتی لابی کو خوش کرنے کی کوشش تھی۔

وزیراعظم کی صدارت میں پارٹی ترجمانوں کا اجلاس ہوا جس میں اپوزیشن کی اے پی سی کے حکومت مخالف فیصلوں اور ملک گیر تحریک پر مشاورت کی گئی اور وزیراعظم نے ترجمانوں اور وزراء کو پارٹی بیانیے کے بارے میں ہدایات دیں۔ وزیراعظم نے پارٹی ترجمانوں اور وزراء سے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اے پی سی کے فیصلے سے کسی کو پریشانی نہیں، اے پی سی میں بیٹھے چہروں اور ان کے ذاتی مقاصد سے قوم آگاہ ہے ملک کے تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کر رہے ہیں، اپوزیشن کی اداروں پر تنقید غیر منطقی اور اپنی کرپشن سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔

اجلاس میں حکومت نے اپوزیشن کی قرارداد پر بھرپور جواب دینے کا فیصلہ کیا ہے اور وزیراعظم نے وفاقی وزراء کو اس حوالے سے ٹاسک بھی سونپ دیا ہے جبکہ وفاقی وزراء شبلی فراز، اسد عمر اور فواد چوہدری آل پارٹیز کانفرنس کے بیانیے پر حکومتی نقطہ نظر پیش کریں گے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ حکومت اور مقتدر حلقوں میں خاصی پریشیانی دکھائی دے رہی ہے اور اے پی سی کی تپش شدت سے محسوس کی جا رہی ہے اور خاص کر میاں نوازشریف کی سیاسی سرگرمیوں نے حکومتی پریشانی مزید بڑھا دی ہے۔

وزیراعظم عمران خان سے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی اہم ملاقات ہوئی جس میں اہم امور زیر بحث آئے۔ اب سیاست کیا رخ اختیار کرے گی یہ تو جلد واضح ہوجائے گا مگر جو صورتحال بنتی دکھائی دے رہی ہے۔

اس میں میاں نوازشریف کے سیاسی طور پر متحرک ہونے سے سیاسی ٹکراو بڑھے گا کیونکہ اس سے قبل میاں نوازشریف کے لندن میں قیام اور نوازشریف و مریم نواز کی مسلسل خاموشی سے تاثر جنم لے رہا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ(ن)کی قیاد ت شا ئد اپنے بیانیہ سے پیچھے ہٹ گئی ہے اورقید و بند کی صعوبتوں سے ان کے اعصاب کمزور پڑ گئے ہیں اور تحریک انصاف کی جانب سے میاں نوازشریف اور ان کی جماعت کی سیاست ختم ہونے کے دعوے کئے جا رہے تھے لیکن بعض حلقوں کی جانب سے اس وقت بھی باور کروایا جاتا تھا کہ میاں نوازشریف کی خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ ہے اور جس دن میاں نوازشریف نے چپ کا روزہ توڑ دیا۔

اس دن سیاست کا رخ تبدیل ہوجائیگا اور کچھ ایسا ہی اب معلوم ہوتا دکھائی دے رہا ہے کہ اپوزیشن کی اے پی سی میں میاں نوازشریف کی تقریر سب سے نمایاں رہی اور آل پارٹیز کانفرنس سے زیادہ نوازشریف کی تقریر پاکستان تحریک انصاف کے رہنماوں اور مقتدر حلقوں کے اعصاب پر سوار دکھائی دے رہی ہے الیکٹرانک و پرنٹ اور سوشل میڈیا سمیت تمام حلقوں میں نوازشریف کی تقریر موضوع بحث بنی ہوئی ہے کیونکہ اس تقریر نے تمام حلقوں کی غلط فہمیاں دور کر دیں ہیں۔

میاں نوازشریف آج بھی اپنے بیانیہ پر اسی سختی سے کھڑے دکھائی دیئے جس طرح وہ تین سال قبل کھڑے تھے بلکہ انکے بیانئے اور لب و لہجہ میں مزید تلخی دکھائی دی ہے لیکن اب یہ وقت بتائے گا کہ اے پی سی کس حد تک کامیاب ہوگی اور کیا حکومت کو گھر بھجوا کر نئے انتخابات کروانے میں کامیاب ہو پائے گی یا پہلے کی طرح پھر سے اس نئے اتحاد کا شیرازہ بھی بکھر جائے گا کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے درمیان ماضی میں اعتماد کا فقدان رہا ہے اگرچہ اے پی سی کے اعلامیہ میں متفقہ نکات کسی بڑی سیاسی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں مگر جو لاٗئحہ عمل دیا گیا ہے۔

اس پر سیاسی حلقوں اور تجزیہ کاروں کی جانب سے ابھی سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، دوسری جانب اے پی سی کے فیصلوں پر پیشرفت کیلئے آج (بدھ) اپوزیشن جماعتوں کی رہبر کمیٹی کا اجلاس بھی طلب کر لیا گیا ہے، یہ وقت بتائے گا کہ یہ بیل منڈھے چڑھے گی یا نہیں مگر حکومت بھی اپنے پتے تیار کئے ہوئے ہے اور لگ یہی رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں سیاسی میدان سجے گا ۔

دوسری طرف اراکین پارلیمنٹ کی شائع ہونیوالی ٹیکس ڈائریکٹری بھی موضوع بحث بنی ہوئی ہے اور اس ڈائریکٹری میں سامنے آنے والی تفصیلات نے بھی پاکستان تحریک انصاف کی قیادت اور انکے رہنماوں پر سوالات اٹھائے ہیں۔

کپتان کی ٹیم کے اہم کھلاڑی سرے سے ٹیکس ہی ادا نہیں کر رہے جبکہ خود وزیراعظم نے دو لاکھ بیاسی ہزار روپے ٹیکس ادا کیا ہے اور کپتان کے وسیم اکرم پلس وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار نے ایک دھیلا ٹیکس نہیں دیا جس پر الیکٹرانک و پرنٹ اور سوشل میڈیا پر خوب لے دے ہو رہی ہے کہ جو لوگ بات بات پر مخالفین کو چور کہتے نہیں تھکتے ان کا اپنا یہ عالم ہے کہ پر تعیش زندگی گزار رہے ہیں اور دعوے ایمانداری کے کئے جا رہے ہیں لیکن ٹیکس ایک دھیلا نہیں دے رہے، اب یہ کپتان کیلئے بھی امتحان ہے کہ کیا وہ اپنے دائیں بائیں موجود ان لوگوں کو کے خلاف کاروائی کرکے کوئی مثال قائم کریں گے یا ماضی کی طرح زبانی جمع خرچ سے ہی عوام کو مطمئین کرنے کی کوشش کریں گے ۔

آل پارٹیز کانفرنس میں اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کے رہنماوں کے بیانیہ کی عوام میں پذیرائی کی وجہ یہی ہے کہ لوگوں کی حکومت سے بیزاری بڑھتی جا رہی ہے، اسی لئے بعض حلقے میاں نوازشریف کی سیاسی سرگرمیوں کو بروقت قرار دے رہے ہیں اور پھر اے پی سی میں شرکت سے ایک روز قبل میاں نواز شریف نے اتوار کی شام سماجی رابطوں کی ویب سائٹس ٹوئٹر، فیس بک اور یوٹیوب پر اپنے اکاؤنٹ بنائے ہیں جس کی اطلاع ان کی صاحبزادی مریم نواز شریف نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ سے دی۔

ٹویٹر پر میاں نواز شریف نے ایک سطر پر مشتمل ٹویٹ کی ہے جو دراصل ان کی جماعت کا نعرہ بھی ہے ’ووٹ کو عزت دو‘۔ فیس بک اور یوٹیوب چینل پر پوسٹ کی جانے والی تصویر میں بھی یہی لکھا ہے اور ان کا یہ ٹوئٹ سیاسی میدان میں سوسنار کی ایک لوہار کی ضرب المثل ثابت ہوا ہے کہ جو لوگ پچھلے دوسال سے نوازشریف کی سیاست ختم ہونے کی یقین دہانیاں کروا رہے تھے اور روز شام کو نوازشریف کی سیاست ختم کرکے سوتے تھے اس ایک ٹوئٹ نے چند منٹ میں ان کے دوسال کے دعوں کی قلعی کھول دی اور ایک دن میں فالورز کی ریکارڈ تعداد نوازشریف کی سیاسی مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

بعض حلقوں کا خیال ہے کہ میاں نوازشریف کی تقریر نے پاکستان مسلم لیگ(ن) اور اسکی قیادت کے بارے میں حکومت یا مقتدر حلقوں کے ساتھ کسی قسم کی ڈیل کی ماضی کی تمام باتوں کی بھی نفی کردی ہے اور کچھ لوگوں کا ابھی بھی خیال ہے کہ اس تقریر نے میاں شہباز کی مشکلات بڑھا دی ہیں ۔

تاہم اے پی سی میں سیاسی رہنماں کے بیانیہ سے معلوم ہو رہا تھا کہ سیاسی قیادت نے اب خوف کی زنجیریں توڑ نے کا عزم کر لیا ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیرمین سابق صدر آصف علی زرداری کا لب و لہجہ بھی سابق وزیراعظم میاں نواز شریف ایسا ہی تھا۔

The post اپوزیشن کی اے پی سی مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گی؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3kSKIv1