لداخ میں چین بھارت ٹکراؤ پر روس غیر جانبدار نہیں رہ سکتا - KHB Point

کے-ایچ-بی پوائنٹ (ملکی و غیر ملکی تمام خبریں فراہم کرنے والاایک مکمل نیوزپلیٹ فام نیٹ ورک)

تازہ ترین

لداخ میں چین بھارت ٹکراؤ پر روس غیر جانبدار نہیں رہ سکتا

( قسط نمبر27)

1917  کے اشتراکی انقلاب میںروس کے ساتھ یو کرائن اور بیلاروس کا بھی بہت بنیاد ی کردار تھا۔ اس کی ایک بڑ ی وجہ یہ تھی کہ یہ دونوں ریاستیں سوویت یونین سے قبل زار شاہی سلطنت کی دیگر ریاستوں میں  زیادہ اہم یورپی ریاستیں تھیں یو کرائن کے عوام نے بھی ماضی قریب میں روس اور بیلا روس کی طرح سلطنت ِ زار روس کی کئی جنگوں کے علاوہ جنگ عظیم اوّل اور دوئم میں لاکھوں افراد کی قربانیاں دیں۔

1783 سے یوکرائن زار شاہی روس سلطنت کا حصہ بنا اور یہ طے پایا تھا کہ یو کرائن کو روس میں رہتے ہو ئے آزادی اور خود مختاری حاصل رہے گی مگر ایسا کبھی نہیں ہوا البتہ یہ ضرور ہے کہ اس دور میں یو کرائن اور کریمیا کے علاقوں میں خاصی تعمیر وترقی ہو ئی جس کے منہ بو لتے ثبوت آج بھی یہاں زار باشاہوں کے بلند و بلا اور عظیم محلات کی پُر شکوہ عمارتوں سے ہو تا ہے جنگ عظیم اوّل میں روس 1914 تا 1917 کے انقلا ب تک شامل رہا جس میں یو کرائن کے تقریباّ 35 لاکھ افراد ہلاک ہو ئے 1917 سے 1923 تک روس میں انقلا ب کے حامی اور مخالفین کے درمیان خانہ جنگی جاری رہی  محتاط اندازوں کے مطابق یو کرائن میں اس خانہ جنگی کے دوران15 لاکھ افراد ہلا ک ہو ئے۔

مغربی اتحاد نے 9 مئی کو جرمنی سمیت پوری دنیا میں فتح کا جشن منا یا یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ 1944 کے اختتام اور 1945 کے آغاز سے یہ واضح ہو گیا تھا کہ اب جرمنی شکست کھا چکا ہے اور صرف باقاعدہ ہتھیا ر ڈالنے شکست قبول کر نے کااعلان ہو نا ہے کیونکہ کچھ محاذوں پرجنگ جاری تھی ساتھ ہی مغربی اتحاد کی جانب سے خد شات کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ جرمنی ایٹمی ہتھیار وں کی تیاری کے مراحل تیزی سے طے کر رہا ہے اور اگر وہ مکمل شکست سے پہلے ایٹم بم بنا نے میں کامیاب ہو گیا تو پوری جنگ کا پانسہ پلٹ جائے گا یوں جنگ عظیم دوئم کے اختتام سے قبل اور جنگ کے فوراً بعد تین بڑوں کی تین اہم کانفرنسیں ہوئیں۔

پہلی کانفرنس تہران کانفرنس جس کا کوڈ نیم ،،Eureka ،،ایوریکا تھا 28 نومبر سے یکم دسمبر 1943 تہران میں سوویت یونین کے سفارت خانے میں ہو ئی تھی جس میں امریکی صدر فرینک ڈی روزولٹ ، برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل اور سویت یونین کے جوزف اسٹالن نے شرکت کی تھی اُس وقت سوویت یونین اور بر طانیہ دونو ں ہی ایران میں داخل ہوچکے تھے تو دوسری جانب جرمنی سوویت یونین پر حملہ آور ہوچکا تھا اس لیے دفاعی نکتہ نظرسے بھی اس کانفر نس کی اہمیت تھی اس کانفرنس ہی سے امریکہ کی اہمیت جنگ کے تناظر میں بہت بڑھ گئی تھی۔

اِن ہی تین بڑی قوتوں کی دوسری اہم کا نفرنس سابق سوویت یونین کی ریاست کریمیا کے مقام یالٹا میں 4 فروری سے11 فروری 1945 میں زار باشاہوں کے مختلف محلات میںمنعقد ہو ئی تھی اس کی میز بانی سوویت یونین نے کی تھی اس کانفرنس کا کوڈ نیم Argonaut آرگوناوٹ تھا اس میں بھی سویت یونین کے جوزف اسٹالن ، بر طانیہ کے ونسٹن چرچل اور امریکہ کے فرینک ڈی روز ولٹ نے شرکت کی تھی یہ کانفرنس جرمنی کے ہتھیارڈالنے سے تقریباً دو مہینے اٹھائیس دن قبل شروع ہو ئی تھی اور اس کا دورانیہ دس دن تھا جس کے دوران کئی سیشن ہو ئے یالٹا کانفرنس میں جنگ کے بعد جرمنی اور یورپ میں امن و امان اور یورپی ملکوں کی آزادی و خود مختاری پر بھی بات چیت ہو ئی تھی تین بڑوں کی تیسری اور آخری کانفرنس جاپان پر امریکہ کی جانب سے ایٹم بم گرائے جا نے اور دوسری جنگ ِعظیم کے خاتمے کے باقائدہ اعلان سے چند روز قبل جرمنی کے شہر Postadam پوسٹیڈم میں ہوئی تھی اور اسی لیے اس کانفرنس کو پوسٹیڈم کانفرنس کہا جا تا ہے جب کہ اس کا کوڈ نیم Terminal ٹرمینل تھا اس کانفرنس میں امریکی صدر ہنری ٹرومین ،بر طانیہ کے وزیراعظم چرچل اور کیلیمن ایٹلی اور سوویت یونین کے اسٹالن نے شر کت کی یہ کانفرنس 17 جو لائی 1945 سے2 اگست1945 تک جاری رہی۔

امر یکہ سرمایہ دارانہ معیشت کا عالمی سر براہ تھا اور سویت یونین پوری دنیا میں اشتراکی نظریات اور نظا م کا محافظ تھا دوسری جنگ عظیم کے دوران دنیا میں اِن تین متضاد زاویوں کی ایک مثلث بن رہی تھی جو جنگ عظیم میں ضرورت کے تحت تشکیل پائی تھی۔     امریکہ اور برطانیہ میں جنگ کے بعد سیاسی نو آبادیا تی نظام کے خلا کو پُر کر نے کے لیئے اقتصادی نو آبادیا تی نظام پہلے ہی سے تیار کر لیا گیا تھا اور سوویت یونین کا اشتراکی نظام اس کی ضد تھا اس لیے بر طانیہ اور امریکہ تو کزن کنٹری بن گئے اور اِن کے مقابل سوویت یونین سے مقابلہ براہ راست نہیں کیا گیا بلکہ سرد جنگ کی بنیاد سے ہمیشہ سے براہ راست ٹکراؤ سے گریز کیا گیا۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران 4 فروی تا11 فروری 1945 کی یا لٹا کانفرنس اور 17 جولائی سے2 اگست 1945 میں پوسٹیڈم کا نفرنس میں بھی اقوام متحدہ کی تشکیل کے امور بھی زیر بحث آئے اور 24 اکتوبر 1945 اقوام متحدہ کی تشکیل نے حتمی شکل اختیار کی تو سویت سوشلسٹ یونین کو تو اقوام متحدہ کی عام رکنیت یعنی جنرل اسمبلی کی رکنیت کے ساتھ ساتھ سیکو رٹی کو نسل میں مستقل رکنیت اور ویٹو پاور دیا گیا تو ساتھ ہی سوویت یونین نے اقوام متحدہ کے بانی 51 ملکوں میں بیلاروس اور یو کرائن سوشل ری پبلک کے ناموں سے اقوام متحدہ کی رکنیت دلوانے میں اہم کردار ادا کیا اُس وقت سوویت یونین نے اس عمل کو اپنے حق میں یوں بہتر جا نا کہ اس طرح سوویت یو نین کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مزید دو ووٹوں کی حمایت حاصل رہے گی اور ایسا 1990 تک ہو تا رہا۔

یوکرائن  1991 میں خود مختار ملک کی حیثیت سے سوویت یونین کے بکھر نے کے بعد سامنے آیا تو اس کوسوویت یونین کی باقی بارہ ریاستوں کی طرح آزاد ہو نے پر اقوام متحدہ کی رکنیت کی ضرورت نہیں تھی۔ روس کو یورپ سے اپنے تجارتی اقتصادی اور دفاعی نوعیت کے رابطے مضبو ط رکھنے کے لیے پولینڈ اور یو کرائن جیسے ملکوں میں اپنی حمایت یا فتہ حکومتوں اور لیڈر شپ کی ضرورت تھی۔

آزادی کے بعد یوکرائن میں نے روس نے اپنے اثر و رسوخ کو روسی آبادی کے تناسب اور دوسوسالہ مشترکہ تاریخی ثقافتی، سماجی، سیاسی ، اقتصادی قربت کی بنیاد پر بڑھانے کی کوشش کی اور ابتدائی برسوں میں روس کو یہاں کامیابی بھی ہو ئی اور روس کے حمایتی صدارتی امیدوار کامیاب ہو ئے مگر یہاں جمہوری سیاسی پارٹیوں میں یہ خیالات اور تصورات پختہ ہو نے لگے کہ یو کرائن کو بھی روس  کے اثر سے مکمل طور پر نکل کر نیٹو اور یورپی یونین میں شامل ہو کر اپنی الگ حیثیت اور شناخت کے ساتھ دوسرے ملکوں سے تعلقات مضبو ط کر نے چاہیں۔

یو کرئن کی آزادی کے بعد دس سال تک روس اور یوکرائن کے تعلقات بہت دوستانہ رہے۔ 1991 کے بعدیوکرائن نے بلیک سی پر Sevastopol سیواسٹوپول کی پورٹ روس کو لیز پر دے دی اور دونوں کا قبضہ اس پر رہا البتہ 1993 میں روس اور یوکرائن میں روسی گیس کی سپلائی اور خریداری وغیر ہ پر اختلافات سامنے آنے لگے 2001 میں یو کرائن نے جارجیا آزربائجان مولڈاوا کے ساتھ مل کر آر گنائز یشن فارڈیموکریسی اینڈ اکنامک ڈیولپمنٹ تشکیل دی تو روس نے اسے کامن ویلتھ آف انڈیپنڈ نٹ کنٹریز کے خلاف تصور کیا

2004 میں  یو کرائن میں صدراتی انتخابات Viktor Yushchenko ویکٹریوشچنکو جیت گئے جب کہ پیوٹن Viktor Yanukovick ویکٹر یانوکوویچ کی حمایت کر رہے تھے اور انتخابات سے قبل دو مر تبہ اپنی سپورٹ کا برملا اظہار کر تے ہوئے یوکرائن بھی آئے تھے۔ اس کے بعد یو کرائن نیٹو سے کہیں زیادہ تعاون کر نے لگا اور 2004 میں یو کرائن نے عراق میں تیسری بڑی فوج کے طور پر اپنے دستے بھیجے۔ پھر ISAF جو نیٹو کی سرپرستی میں افغانستان کام کر رہی تھی اس کے تحت افغانستان اور کوسووو میں بھی اپنے فوجی دستے بھیجے۔ 2010 تک یوں لگا رہا تھا کہ یوکرائن نیٹو میں شامل ہو جائے گا لیکن 2010 کے صدارتی انتخابات میں روس کے حامیViktor Yanukoich ویکٹر یانوکوویچ صدر منتخب ہو گئے مگرحکومت میں شامل دیگر عہداروں میں سے کچھ روس کو بہت زیادہ مراعات دینے کے قائل نہیں تھے کیونکہ بلیک سی پر روسی نیول بیس سیوسٹوپول کی تجدید میں روسی خوا ہشات پر پوری طرح عملدر آمد نہیں کیاالبتہ روس مخالف اپوزیشن لیڈر یوشچنکو کو قید کردیااور نومبر2013 میں صدر ویکٹر یانوکو ویچ نے یورپی یونین کے ساتھ شمولیت کے معاہد ے پر دستخط کر نے سے انکار کردیا۔

یہ معاہد ہ برسوں کی متواتر کو ششوں سے تیار کیا گیا تھااور یورپی یونین سے قریبی تعلقات کی بجائے روس سے زیادہ قریبی تعلقات کو ترجیح دی اس پر اپوزیشن نے صدر یونوکوویچ کے خلاف شدید احتجاج کیا ویکٹر یانوکوویچ جو روس کے حامی ہیں اور یوکرائن کی سیاست میں مئی 1997 سے متحرک سیاسی لیڈر رہے ہیں 2014 کے انقلاب میں وہ یو کرائن کے صدر نہیں رہے اور پھر جلا وطن ہو کر روس آگئے اور اب یہاں جلا وطنی کی زندگی گذار رہے ہیں یوکرائن کے نقشے کو دیکھیں تو واضح ہو جاتاہے کہ یہاں کریمیا کا ساحلی علاقہ اور پورٹ بلیک سی اورسی آف ایزوا روس کے لیے اسٹر ٹیجک بنیاد پر دفاع اوربیرونی تجارت کے اعتبار سے بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ اب روس کے لیے یوکرائن کے حوالے حتمی اقدمکا وقت آگیا تھا Sergey Yurivich Glazyev سرجی یورویچ گلازیوف جو عالمی شہرت کے روسی سیاستدان اور ماہر اقتصادیات ہیں یہ سوویت سربراہ پیوٹن کے مشیر ِ خصوصی ہیں اور روسی معاشی اقتصادی بنیادوں پر تشکیل دئیے کئی اداروں اور روسی تھنک ٹینک کا اہم حصہ ہیں۔

2010 سے پیوٹن کے یو کرائن سے متعلق فیصلوں میں اُن کی مشاورت بہت اہمیت کی حامل رہی ہے۔ 2013-14 میں یوکرائن کے علاقوں خصوصاً جزیرہ نما کریمیا اور اس سے ملحقہ علاقوں میں روسی باشندوں اور روس نواز افراد نے روس کے حق میں احتجاج اور جد وجہد شروع کی۔ 16 مارچ2014 کو  ریفرنڈم کے ذریعے کریمیا کی حیثیت تبدیل ہو گئی، یہاں کی قانون ساز اسمبلی اور Sevastopol سیوسٹوپول کریمیا کی لوکل گورنمنٹ نے ووٹ کی بنیاد پر رروس میں شمولیت کا فیصلہ کر لی۔

یہاں پر چونکہ روسی فوج بھی موجود تھی اور یہاں کے مقامی باشندوں کی ایک بڑی تعداد روس کی حامی تھی اس لیے ہنگاموں اور احتجاج کا سلسلہ 2013 سے زور پکڑ گیا تھا اور 20 فروری 2014 کو تو یو کرائن اور روس میں جنگ بھی شروع ہو چکی تھی اور یہ جنگ بلیک سی اور اور سی آف ازوف جزیرہ نما کریمیا کے علاقے میں ہو ئی۔ یوکرائن کی جنگ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اب تک جاری ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی اکثریت یوکرائن کے حق میں ہے۔ اس جنگ کی شدت 2014 میں رہی اوراُس وقت روسی فوجوں کی تعداد 25000 سے30000 کے درمیان رہی مگر اس کے ساتھ ہی مقامی سطح پر ایک بڑی اکثریت بھی روس نواز

عوام کی تھی۔ یو کرائن کی فو ج کی تعداد 232000 ہے۔ اب تک اس جنگ میں 4431 یو کرائنی اور 5600 روسی فوجی ہلا ک ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کی قرارداد 68/262 کے مطابق یوکرائن کی خود مختاری سے متعلق جنرل اسمبلی کے 68 ویں اجلاس میںووٹینگ ہو ئی 100 ملکوں نے یو کرائن کے حق میں ووٹ دیئے اور کہا گیا کہ یوکرائن کی عالمی سطح پر تسلیم شدہ سرحدوں کااحترام کیا جائے۔ 11 ووٹ اس قرارداد کی مخالفت میں گئے۔

58 ممالک کے نمانیدے غیر حاضر تھے اور 24 ممالک کے نمائندے اُس وقت ایوان سے باہر چلے گئے جب ووٹننگ شروع ہو ئی مگر چونکہ روس اقوام متحدہ کی سیکو رٹی کو نسل میں ویٹو پاور ہے اس لیے جنرل اسمبلی کی اکثریت بے معنی ہو جاتی ہے۔ کریمیا اور اس کے ملحقہ علاقوں کی روس میں شمولیت کو قبضہ قرار دیتے ہو ئے امریکہ اور یورپی یونین نے روس کے خلاف عالمی اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں جس کے جواب میں روس نے بھی اِن ملکوں کے خلاف پابندیاں عائد کردیں لیکن روس کو اِن عالمی پابندیوں کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔

نیٹو اور امریکہ کریمیا اور اس سے ملحقہ علاقوں پر روسی قبضے کی مذمت کرتے ہیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہاں سے روس کی واپسی اب ممکن نہیں اور یوکرائن کی بنیاد پر امریکہ نیٹو اور یورپی یونین نے جو مشکل صورت روس کے خلاف 2000 سے2013 تک پیدا کرد ی تھی اب 2014 کی یو کرائن روس جنگ کے بعد روس نے اسٹرٹیجک بنیادوں پر اس مسئلے پر کافی حد تک قابو پا لیا ہے۔ فروی 2014 سے روس کے حامی اور یو کرائن حکومت کے مخالف گرپوں نے یو کرائن کے مشرقی اور جنوبی شہروں میں احتجاجی مظاہرے شروع کئے۔ یو کرائن روس جنگ کی وجہ کریمیا اور Donbass کے علاقوں پر قبضہ ہوا۔ مارچ 2014 میں روسی فو جوں نے یوکرائن کے کریمیا پر بھی قبضہ کرلیااور جب یہاں کریمیا کے روس سے الحاق کے لیے ریفرنڈم ہوا تو ٹرن آوٹ 95.5% تھا اور 85% نے روس سے کریمیا کے الحاق کے حق میں ووٹ دئیے۔

یو کراین کے مطابق روسی فوجوں کے قبضے میں یو کرائن کے سابق کنڑول کے جزیرہ نما کریمیا کے کچھ حصوں Donetsk اورLluhansk ہیں جن کا رقبہ یو کرائن کے کل رقبے کا 7% ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ روس کو یوکرائن کی بنیاد پر امریکہ یورپی یونین ، نیٹو سے جو مسائل اور خدشات تھے اُن کا کافی حد تک حل روس نے 2014 سے نکال لیا ہے۔ اب صور ت یہ ہے کہ وہ دنیا جو 1990-91 سے پہلے دو طاقتی توازن کے ساتھ دوسری جنگ ِ عظیم کے بعد سے1990-91 تک چل رہی تھی اس کے بعد کے دس سال یعنی 2000 تک عدم توازن کا شکار ہو گئی تھی اور اس عرصے میں امریکہ ہی دنیا کی واحد سپر پاور تسلیم کی جا رہی تھی۔

نائن الیون کے واقعہ یا سائنحہ کے بعد امریکہ کو جو اختیارات اقوام متحد کی جانب سے بلکہ اس کی سیکورٹی کو نسل نے دیئے اس سے امریکہ کومتفقہ طور پوری دنیا میں  دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کا اجازت نامہ بلکہ ،کلنگ لائنسس مل گیا تھااور امریکہ اور نیٹو نے اس کا استعمال بھی بے تحاشہ انداز میں کیا۔

اس دوران روس نے خود کو سنبھالا اور2014 وہ موڑ ہے جہاں سے روس نے دوبارہ دنیا پر واضح کر دیا کہ وہ دنیا کی سپر پاور ہونے کا استحقاق رکھتا ہے۔ اسی دوران چین ایک تیسری قوت بن کر اُبھرا۔ دوسری جنگ ِ عظیم اور اقوام متحدہ کی تشکیل کے ساتھ ہی جہاں سیاسی نو آبادیا تی نظام کے خاتمے کے ساتھ ہی اِن قوتوں نے دنیا میں نیا اقتصادی نو آبادیا تی نظام متعارف کر وایا تھا چین نے اُس نظام کو آزاد معیشت اور مارکیٹ ہی کے معیار پر چیلنج کر دیا۔ یوں اب 2020 میں دنیا میں تین قوتیں ہیں جو فوجی اور اقتصادی اعتبار سے سر فہرست ہیں۔ امریکہ برطانیہ کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ عالمی قوت ہے دوسر ی دو قوتیں چین اور روس کی ہیں۔

اگر چہ روس میں نظام حکومت اب بھی کسی حد تک آمرانہ بھی ہے مگر معاشی اقتصادی اعتبار سے ذاتی ملکیت کی کو ئی حد نہیں جبکہ سرمایہ کار ی  اورسر مایہ داری پر کو ئی پا بندی نہیں۔ اب 2020 میں جب سے لداخ کے مسئلے پر بھارت چین آمنے سامنے ہیں اور چین کے جنوبی سمندر میں امریکہ، آسٹریلیا، کینیڈا، برطانیہ ، بھارت کے ساتھ بحر ہند تک اسٹرٹیجکل تعاون کر رہے ہیں تو ابھی تک روس کا جھکاؤ کسی ایک طرف واضح نہیں ہو رہا۔

غالباً روس بھی 1979 تا 2015 تک کی چین کے انداز کی خارجہ اور دفاعی پالیسی اختیار کر نے کی کو شش کر رہا ہے یہ وہ عرصہ ہے جب چین نے پہلے سرد جنگ اور بعد میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دنیا بھر میں رونما ہو نے والی بحرانی صورتحال سے فائدہ اٹھایااور یکسوئی سے تیز رفتار صنعتی، اقتصادی ترقی کی مگراب عالمی حالات اور صورتحال مختلف ہے اور بہت سے موقعوں پر اب بڑی قوتوں کے درمیان پھر وہی سرد جنگ کی صورت پیدا ہو گئی ہے۔ دوسری جانب چین جو اب تک جنگ سے بچنے کی کوششوں میں کامیاب رہا ہے،  1962 کے بعد ایکبار پھر بھارت کے ساتھ تصادم کی حالت میں ہے۔

بھارت اپنے آئین سے آرٹیکل370 کے خاتمے کے ذریعے یہاں جموں و کشمیر کی افغانستان کے ساتھ براہ راست قربت کا تاثر دے رہا ہے۔ اس صورتحال سے ہمالہ کے سلسلوں پر لداخ اور کشمیر محاذ بنتے دکھائی دے رہے ہیں تو اس کی وجہ سے ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے قراقرم ، ہندو کش اور پامیر واہ خان کاری ڈور کے ساتھ سنٹرل ایشیاء کی ریاستیں بھی آنے والے دنوں میں پراکسی وار یعنی نئی سرد جنگ کے مقامات بن سکتے ہیں۔ وسط ایشیائی ریاستوں میں سے بیشتر روس کے ساتھ آزاد ملکوں کی دولت ِ مشترکہ میں شامل ہیں اور یہاں روس کی گرفت مضبوط ہے مگر افغانستان اب تک پُرامن نہیں ہو سکا۔

2020 میں اب جو صورتحال چین کے خلا ف بھارت کے حوالے سے بن رہی ہے اس پر روس پوری طرح غیر جانبدار نہیں رہ سکتا۔ یوں اگر یہ تنازعا ت بڑھتے ہیں تو پھر جنگ یا پراکسی وار کا پھیلا ؤ افغانستان سے آگے سویت یونین کی ریاستوں اور روس کے حالیہ ہمسایہ ملکوں تک آجائے گا اس وقت تاجکستان چین کے لیے اہمیت رکھتا ہے یہ پامیر کے پہاڑی سلسلے مربوط ہے اطلاعات کے مطابق چین کی300 کمپنیاں یہاں کا م کر ہی ہیں۔

چین نے دنیا کے بیشتر ترقی پزیر ملکوں سے فوجی و عسکری تعلقات سے زیادہ اقتصای تعلقات استوار کئے ہیںاور قدیم چینی شاہراہ ریشم پر زمانے کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہو ئے ون بیلٹ ون روڈ کے وسیع منصوبے سے منسلک ہمارے گوادر کی ڈیپ سی پورٹ کی بنیاد پر چین پاکستان سرحد خنجراب سے گوادر مغربی اور مشرقی روٹس پر شاہراہوں اور ریلوے ٹریکس سے سی پیک منصوبے کوبڑی حد تک مکمل کر لیا ہے مغربی سی پیک روٹ پر ہمارے ہاں کو ئٹہ سے 32 کلومیٹر کے فاصلے مستونگ کے دوارہے سے ایران جاتے ہو ئے دالبندین کے قریب افغانستان سرحد پر 100 کلومیٹر افغانستان کے علاقے کے بعد ترکمنستان کی سرحد ملتی ہے جہاں سے اگر ہمارا سی پیک روٹ ون بلیٹ ون روڈ کی توسیع کے ساتھ روس کریمیا اور پولینڈ سے ہو تا مشرقی یورپ تک جا سکتا ہے اور اس آگے تفتان پر ایران سے ہوتا ہوا ترکی آسٹریا اور جرمنی ہوتا مغربی یورپ کو پہنچ سکتا ہے۔

اس پر مستقبل قریب میں روس اور چین کی اسٹرٹیجی کیا ہو گی ؟یہ روس ہی نے طے کر نا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ یو کرائن سے کریمیا حاصل کرنے کے بعد مشرقی یورپ پر روس مستحکم پوزیشن میں آگیا ہے اور یہاں افغانستان چین ایران اور ترکی کی سرحدوںکے ساتھ سابق سویت یونین کی اِن ریاستوں سے روس کے تعلقات مستحکم ہیں اور بظاہر یہی دکھائی دیتا ہے کہ یہاں روس کو فی الحال کو ئی خطرہ نہیں مگر چین کے اقتصادی نوعیت کے مفادات ہیں جو امریکہ ، بر طانیہ اور پرانے مغربی اتحاد کے لیے ایک چیلنچ ہیں اوروہ یہاں اس پورے خطے میں چوہدراہٹ بھارت  کے حوالے کر چکے ہیں جس کے اس وقت روس سے بھی تعلقا ت بہتر ہیں لیکن اگر بھارت ماضی کے پاکستان کی طرح امریکہ برطانیہ اور اِن کے اتحادی ملکوں کا ساتھ دیتا ہے تو روس کی پوزیشن اسٹرٹیجک حوالے سے بدل جائے گی۔

(جاری ہے)

The post لداخ میں چین بھارت ٹکراؤ پر روس غیر جانبدار نہیں رہ سکتا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » انٹر نیشنل https://ift.tt/3ar02ee