نیویارک: اب خون میں ہیموگلوبِن کی کمی کے لیے ٹیسٹ کی ضرورت نہیں رہے گی اور بہت جلد ایک ایپ کے ذریعے ہی اس کیفیت کو معلوم کیا جاسکے گا جسے عام طور پر خون کی کمی کہا جاتا ہے۔
طبی عملے کو صرف اتنا کرنا ہوگا کہ ایپ کو کھول کر اسمارٹ فون کے کیمرے کو آن کرنا ہوگا۔ اس کے بعد آنکھ کے نچلے پپوٹے کواس طرح موڑا جائے کہ اندرونی سطح نمایاں ہوجائے۔ اس کی تصویر لینے کے بعد یہ ایک بڑے ڈیٹا بیس میں چلی جاتی ہے جہاں الگورتھم مریض میں خون کی کمی کی شدت کا اندازہ لگاسکتی ہے۔
اگرچہ عین اسی عمل کو دیکھتے ہوئے ماہر ڈاکٹر بھی آنکھوں کی سرخی سے خون میں کمی کا اندازہ لگاسکتے ہیں لیکن کئی مرتبہ ڈاکٹروں سے بھی غلطی ہوجاتی ہے۔ یہاں یہ ایپ بہت مفید ثابت ہوسکتی ہے اور اس سے عام طبی عملہ بھی بہتر فیصلہ کرسکتا ہے۔
ہیموگلوبن نامی پروٹین کی کمی بیشی ہی خون کی کمی اور زیادتی کو ظاہر کرتی ہے اور اس ضمن میں سافٹ ویئر ڈاکٹروں کو اضافی مدد فراہم کرسکتا ہے۔ اب اسے ایک مختصر ایپ میں سموکر آزمائش کی جارہی ہے جس کے بعد ایپ کا حتمی ورژن پیش کیا جائے گا۔
اسے پوردوا یونیورسٹی کے پروفیسر ینگ کِم اور ان کی ٹیم نے بنایا ہے۔ لیکن ان کا اعتراف ہے کہ یہ روایتی ٹیسٹ کی جگہ نہیں لے سکتی۔ لیکن یہ کسی تکلیف کے بغیر فوری طور پر ہیموگلوبن کے شمار کو ظاہر ضرور کرسکتی ہے۔ اس سے پہلے ہی خون کی کمی کے شکار مریض کو بار بار خون دینے کی ضرورت بھی ختم یا کم ہوجائے گی۔
اس ٹیکنالوجی میں اسپیٹرواسکوپِک انداز میں آنکھ کا تجزیہ کیا جاتا ہے جس میں ہیموگلوبن کے اندر مرئی روشنی کے جذب ہونے کی شرح کی بنیاد پر تتیجہ نکالا جاتا ہے۔ اس کے بعد سافٹ ویئر اندازہ لگا کر بتاتا ہے کہ خون کی کمی اس وقت کس درجے پر ہے۔
اس کی پشت پر موجود دو الگورتھم ہیں ایک تو کیمرے کی تصویر کو بہت بلند معیار کی بنا کر اس کی تفصیلات واضح کرتا ہے اور دوسرا الگورتھم حساب کتاب لگا کر ہیموگلوبِن کا شمار ظاہر کرتا ہے۔
ایپ کو کینیا کے 153 مریضوں پر آزمایا گیا ہے۔ اس میں روایتی ٹیسٹ کے ساتھ ساتھ ایپ کو بھی استعمال کیا گیا تو بہت اچھے نتائج برآمد ہوئے۔ دوسری جانب اسی ایپ کو خون کے سرطان میں مبتلا افراد میں ہیموگلوبن شمار کرنے کے لیے بھی کامیابی سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اچھی بات یہ ہے اس کے لیے کسی اضافی آلے یا ہارڈویئر کی ضرورت نہیں رہتی۔
The post صرف آنکھ دیکھ کر خون کی کمی بتانے والی ایپ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو » سائنس/ٹیکنالوجی https://ift.tt/2M4oGpJ