اسلام آباد: چین نے تو فوری سخت نوعیت کے ہنگامی اقدامات کر کے تین ماہ کے عرصے میں کورونا وائرس کے خلاف جنگ جیت لی ہے مگر چین سے شروع ہونیوالی یہ وباء بے قابو ہوکر دنیا بھر میں پھیل رہی ہے امریکہ جیسی سپر پاور سمیت دنیا کی تمام بڑی طاقتیں اس وباء سے پریشان ہیں اور اب تک دنیا بھر میں کورونا وائرس کے مصدقہ متاثرین کی تعداد ساڑھے سات لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ ہلاکتوں کی تعداد بھی36 ہزار سے زائد ہے۔
پاکستان میں بھی کورونا متاثرین اور اموات کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اب کورونا وائرس کے سب سے زیادہ متاثرین امریکہ میں ہیں جہاں یہ تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ ہوچکی ہے۔ آسٹریلیا نے اپنے اقدامات میں مزید سختی کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ برطانیہ کے چیف میڈیکل آفیسر نے کہا ہے کہ ملک کو دوبارہ اپنی اصل حالت میں آنے کے لیے چھ ماہ لگ سکتے ہیں۔اس وباء کے خلاف وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور ان کی حکومت کے اقدامات کو سراہا جا رہا ہے اور دیگر حکومتوں نے ان کی تقلید کی ہے۔
ہمارے ہاں سوشل سیکورٹی سسٹم نہ ہونے کے برابر ہے لیکن جس معیشت کو بچانے کا جواز پیش کیا جا رہا ہے وہ کوئی اتنا وزن نہیں رکھتا کیونکہ ہماری معیشت کا سائز ہے ہی کتنا ہے، لوگ ہونگے تو معیشت چلے گی۔ ہمارے ہاں وفاقی حکومت نے ابھی بھارت یا چین جیسے سخت اقدامات نہیں تو نہیں کئے مگر جزوی لاک ڈاون یہاں بھی ہے اور پیر کو بھی قوم سے خطاب میں وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھر ملک میں لاک ڈاؤن سے انکار کرتے ہوئے وزیراعظم کورونا ریلیف فنڈ قائم کرنے کا اعلان کردیا ہے اس فنڈ میں عطیات و رقوم جمع کروانے والوں سے کسی قسم کی کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوگی اور اس رقم کو ٹیکس چھوٹ لینے کیلئے ٹیکس گوشواروں میں بھی ظاہر کیا جاسکے گا۔
ساتھ ہی وزیراعظم نے جذبہ ایمانی کے ساتھ متحد ہوکر جنگ جیتنے کے عزم کا اظہار کیا ہے اور ملک کے نواجوانوں کو میدان میں اتارنے کا اعلان کیا ہے جس کیلئے نوجوانوں پر مشتمل کورونا ریلیف ٹائیگر فورس بنانے کا اعلان کیا ہے جو مکمل لاک ڈاون کی صورت میں لوگوں کو گھروں میں راشن پہنچائیں گے۔ اس پر بھی سوالات اٹھناشروع ہوگئے ہیں اور یہ بھی تنقید ہو رہی ہے اور اسے پارٹی ورکروں کو ساتھ جوڑے رکھنے کو ماضی کی حکومتوں کی طرح کا ایک سیاسی اقدام قرار دیا جارہا ہے۔ پھر جن نوجوانوں کو میدان میں اُتارنے کا اعلان کیا گیا ہے کیا وہ اس قدر تربیت یافتہ ہونگے کہ وہ معاون ثابت ہوں، کہیں ایسا نہ ہو کہ لینے کے دینے پڑ جائیں کیونکہ اس ماحول میں کام کرنے کیلئے خاص تربیت درکار ہے۔
وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ یہاں بھی چین والے حالات ہوتے تو میں تمام شہر بند کردیتا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہاں لوگ شدید غربت میں رہتے ہیں،اگر ہم لاک ڈاؤن کرتے اور ان غریبوں کا خیال نہ کرتے تو کوئی لاک ڈاؤن کامیاب نہیں ہوسکتا اور اگر کسی علاقے میں ایسا قدم اُٹھانا پڑا تو وہاں یہ نوجوان لوگوں کو انکی دہلیز پر اشیائے ضروریہ مہیا کریں گے۔ اپنے تیسرے خطاب میں اُن کا کہنا تھا کہ متحد ہوئے بنا موجودہ چیلنجز کا مقابلہ ممکن نہیں۔ مگر چند روز قبل پارلیمانی لیڈروں اجلاس میں بغیر کسی شریک رہنما سے سلام دعا کیے اپنی بات کہنے کے بعد دیگر شرکاء کی بات سُنے بغیر آف لائن ہو گئے اس تحقیر آمیز اور متکبرانہ انداز پر اپوزیشن کی دنوں بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماوں میاں شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری نے واک آؤٹ کیا۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے ایک اور کیس میں وارنٹ جاری ہوچکے ہیں جس کی انہوں نے چار ہفتے کے راہداری ضمانت حاصل کرلی ہے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ پہلے سے ضمانت پررہا اپوزیشن لیڈر میاں شہباز کو بھی دوبارہ نیب یاترا کیلئے طلبی کا پروانہ جاری کردیا گیا ہے۔ سیاسی حلقوں میں یہ باتیں بھی زیر گردش ہیں کہ کپتان پر اپنی ٹیم کے چار کھلاڑیوں کو ٹیم سے باہر کرنے کے حوالے سے بھی شدید دباوء ہے جس پر کپتان کے ڈٹ جانے کی خبریں بھی ہیں۔ جبکہ کورونا کے معاملہ پر اہم فیصلوں پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔
اپوزیشن کے سیاسی حلقوں کا تاثر ہے کہ کورونا کے معاملہ پر خود حکومت کو آگے بڑھ کر اپوزیشن کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ پنجاب میں تمام سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کرنے کیلئے متحرک ہیں۔ وفاق کی سطع پر بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ اس چیلنج سے نمٹنے کیلئے بڑے دل کے ساتھ بڑے فیصلے کرنا ہونگے اور اپنے اعصاب مضبوط رکھنا ہونگے۔ ابھی عالمی کساد بازاری اور معاشی بحران کے سائے اس قدر خوفناک ہوتے جا رہے ہیں کہ بڑی طاقت ور معیشت رکھنے والے ممالک کے رہنما شدید نفسیاتی دباوء کا شکار ہیں۔
حال ہی میںجرمنی میں ایک صوبے کے وزیر خزانہ کے کورونا وباء میں مبتلا عوام کی مالی امداد میں ناکامی پر خودکشی کا واقعہ سامنے آیا ہے۔ دنیا بھر میں قیامت برپا کرنے والے ’کورونا وائرس ‘ سے نمٹنے کے لیے عالمی برادری حرکت میں آگئی ہے۔ سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بن عبد العزیز نے کوروناکو عالمی انسانی بحران قرار دے کر اس سے نمٹنے کے لیے پوری دنیا کو متحد ہونے کی دعوت دی ہے جبکہ جی 20 کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ معیشت پر کورونا بحران کے نتائج کا سامنا کرنے کے لیے ممالک اور مرکزی بینکوں نے پانچ کھرب ڈالر سے زیادہ کی رقم مختص کرنے کا اعلان کیا۔
یہ رقم کورونا سے نمٹنے کے لیے ویکسین کی تیاری اور پسماندہ ممالک اور خطوں کے لوگوں کو اس وباء کے اثرات سے نکالنے پر صرف کی جائے گی۔ جبکہ اجلاس میں چینی صدر شی جن پنگ نے کسٹم ڈیوٹی میں کمی کا مطالبہ کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مشتعل کر دیا ہے اس معاملہ پر امریکہ اور چین کے درمیان جاری معاشی جنگ میں بھی مزید تیزی آگئی ہے۔ امریکی ریاستوں کے گورنروں کی جانب سے کورونا سے نمٹنے کے لئے دو ٹریلین ڈالر کے امدادی پیکج کی منظور ی کے لئے بلائے جانیوالے اجلاس میں وفاق کے خلاف جس قدر نفرت انگیز تقاریر سامنے آئی ہیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اگر امریکہ میں کورونا کا معاملہ مزید چند ماہ جاری رہتا ہے تو اس سے امریکہ کی مشکلات بہت زیادہ بڑھ جائیں گی۔
کہا جارہا ہے کہ چین نے کساد بازاری کے ان حالات میں تاریخ کی سب زیادہ سرمایہ کاری کی ہے سب سے زیادہ تیل چین نے خرید کر ذخیرہ کیا ہے اور عالمی سٹاک مارکیٹ میں مندی کے ان حالات میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری چائنیز کمپنیوں و سرمایہ کاروں نے کی ہے اب جب پوری دنیا کے ممالک اپنی معاشی سرگرمیاں بند کر رہے ہیں چین اپنی اقتصادی سرگرمیاں بحال کر رہا ہے اور تیزی کے ساتھ معمول پر آرہا ہے جو عالمی طاقتوں کیلئے بہت بڑا خطرہ ہے۔ پاکستان کیلئے اقتصادی طور پر ایشیائی ٹائیگر بننے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کا یہ ایک سنہری موقع بھی ہے۔
پاکستان ترقی کے اس سفر میں چین کا ہم سفر بن کربہت کچھ کرسکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ شرح سود کو مزید کم کرکے سنگل ڈیجٹ پر لایا جائے اس سے حکومتی قرضوں میں کمی کے ساتھ ساتھ ملک میں سرمایہ کاری اور مینوفیکچرنگ کو فروغ ملے گا۔
The post چین کے ساتھ مل کر اقتصادی اہداف حاصل کیے جاسکتے ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/2xIlgok