لاہور: ملکی معیشت پر موجود دباو اور مہنگائی کی غیر معمولی لہر نے دیگر شعبوں کی مانند زرعی شعبے کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔
زراعت گزشتہ کئی برسوں سے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کسانوں کیلئے منافع بخش کاروبار باقی نہیں رہا ہے، پیپلز پارٹی کے رہنماوں کی زیادہ اکثریت بڑے زمینداروں اور وڈیروں پر مشتمل ہے جبکہ اس کے کارکنوں میں بھی کسانوں کی اکثریت ہے لیکن پیپلز پارٹی نے بھی اپنے دور اقتدار میں کبھی کوئی ’’انقلابی‘‘ نوعیت کی زرعی پالیسیاں متعارف نہیں کروائیں، مختلف فصلوں کی امدادی قیمت خرید (سپورٹ پرائس) میں چند روپے بڑھا کر وہ خود کو دیگر زرعی ضروریات سے بری الذمہ تصور کر لیتی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کو ہمیشہ سے تاجروں کی جماعت کہا جاتا ہے جو کہ بہت حد تک درست بھی ہے کیونکہ مسلم لیگ(ن) کے ہر دور اقتدار میں تاجر ہی ان کی پہلی ترجیح رہے جبکہ کسان تیسرے یا چوتھے درجے پر رکھے گئے ہیں۔ن لیگ کے مرکزی رہنماوں میں شامل بڑے کسان بھی زراعت کیلئے اپنی قیادت کے سامنے علم حق نہیں لہرا سکے ہیں، کسانوں کی زبانی شکوے شکایات سنیں تو انہیں تمام حکومتوں سے شکایات رہی ہیں اور اب موجودہ حکومت کی پالیسیوں پر بھی وہ زیادہ مطمئن نہیں ہیں لیکن تحریک انصاف کی حکومت کے بارے میں وہ یہ ضرور تسلیم کرتے ہیں کہ ماضی کے برعکس موجودہ حکومت زراعت اور کسان کیلئے کچھ خاص کرنے کی نیت بھی رکھتی ہے اور کوشش بھی کر رہی ہے لیکن معاشی بحران اور انتظامی رکاوٹیں آڑے آجاتی ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان خود تو شاید زراعت کے بارے میں زیادہ معلومات اور تجربہ نہیں رکھتے لیکن ان کے پاس جہانگیر خان ترین جیسے نہایت بااعتماد اور قریبی ساتھی کی صورت میں پاکستان کا سب سے ترقی پسند کاشتکار بطور زرعی مشیر دستیاب ہے اور یہی وجہ ہے کہ حکومت بناتے ہی عمران خان نے زراعت، لائیوسٹاک، خوراک اور ماہی پروری کے شعبوں کی ترقی اور ان کے مسائل کے خاتمہ کیلئے جہانگیر ترین کو ’’بااختیار‘‘ بنا رکھا ہے اور گزشتہ 19 ماہ میں ان شعبوں میں قدرے بہتری آنا بھی شروع ہوئی ہے۔ پاکستانی زراعت کی بات کی جائے تو اس کا بنیادی محور پنجاب ہوتا ہے کیونکہ ملک کی مجموعی زرعی پیداوار کا 70 فیصد پنجاب ہی فراہم کرتا ہے۔
پنجاب میں زراعت محض ایک پیشہ یا شعبہ نہیں ہے بلکہ یہ سیاست میں فیصلہ کن حیثیت بھی رکھتا ہے کیونکہ پنجاب کی اکثریتی آبادی دیہی علاقوں سے تعلق رکھتی ہے اور ان کا زراعت سے براہ راست یا بالواسطہ تعلق ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کیلئے ایک بڑی پریشانی یہ ہے کہ وہ کسی شعبے میں انقلابی تبدیلی لانے کی خواہاں بھی ہو اور حتی المقدور کوشاں بھی ہو لیکن پاکستانی عوام اور میڈیا چونکہ ’’ہتھیلی پر سرسوں جمانا‘‘ طرز کا مزاج رکھتے ہیں لہذا معمولی یا سست رفتار تبدیلی کو وہ ’’خاطر‘‘ میں نہیں لاتے۔
تحریک انصاف نے اپنے 19 ماہ کے اقتدار میں ابھی تک زراعت کے حوالے سے حالیہ آٹا گندم بحران کا بڑا خوفناک جھٹکا برداشت کیا ہے جس کے آفٹر شاکس ابھی تک محسوس ہو رہے ہیں ۔ تمام سٹیک ہولڈر اس نتیجہ سے متفق ہیں کہ ملک میں گندم کی کوئی قلت نہیں تھی اور یہ تمام بحران ناقص منصوبہ بندی، فوری طلب فیصلوں میں تاخیرکی وجہ سے پیدا ہوا جس میں چاروں صوبے ذمہ دار تھے ۔
حالیہ بحران کے بعد حکومت گندم اور آٹے کے معاملے میں منصوبہ بندی اور فیصلہ سازی کے حوالے سے بہت زیادہ حساس ہو گئی ہے۔گندم کی نئی فصل چند ہفتوں میں تیار ہونے والی ہے اور 5 اپریل سے حکومت سرکاری گودام بھرنے کیلئے خریداری کا آغاز کر دے گی۔
پنجاب کے کسانوں کو ہر برس گندم کی فروخت کے حوالے سے بہت سی شکایات رہتی ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ برس اوپن مارکیٹ میں کسانوں کو گندم کی جو قیمت ملی وہ ملکی تاریخ میں ایک نیا ریکارڈ تھا لیکن اس کا خمیازہ بھی حکومت کو ریکارڈ انداز میں ہی بھگتنا پڑا ہے۔
حکومت کو گندم خریداری مہم کے آغاز سے قبل پاکستان فلورملز ایسوسی ایشن کے ساتھ بھی ایک بیٹھک کرنا چاہئے تا کہ خریداری مہم میں فلورملز کو گندم خریدنے میں بلا وجہ کی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔گندم حکومت خریدے یا ٹریڈر سب نے فلورملز کو ہی آٹا بنانے کیلئے فروخت کرنا ہوتی ہے۔ عمران خان کی حکومت کیلئے یہ گندم خریداری مہم سیاسی لحاظ سے بہت اہمیت کی حامل ہے اور اگر یہ کامیاب رہتی ہے تو حکومت کو دیہی علاقوں میں مزید پذیرائی ملے گی۔
The post گندم خریداری مہم کے نتائج، سیاست پر گہرے اثرات مرتب کریں گے appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/2x8qolD